Home تجزیہ 88 سالہ خادمِ اردو مودود صدیقی کی کہانی-سہیل انجم

88 سالہ خادمِ اردو مودود صدیقی کی کہانی-سہیل انجم

by قندیل

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اردو کا وہ کون سا ایسا خادم ہے جو بے لوث ہے، بے غرض ہے، بے ریا ہے، جس نے اپنی زندگی کی سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ اردو کو دے دیا اور اسے اس کے عوض کچھ نہیں ملا تو میں بغیر سوچے سمجھے، بلا جھجک اور بلا تردد ایک ہی نام لوں گا اور وہ نام ہے مودود صدیقی۔ طفلی اور جوانی کی درمیانی ساعتوں میں اترپردیش کے مردم خیز شہر امروہہ سے دہلی آنے والا ایک نوجوان رفتہ رفتہ دہلی کے اہل اردو پر چھا گیا۔ وہ دہلی کی اردو صحافت کا ایک جزو لاینفک بن گیا۔ وہی نوجوان آج مودود صدیقی کے نام سے نہ صرف دہلی اور ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور و معروف ہے۔ 29 مئی 2024 کو مودود صدیقی 88 سال کے ہو گئے۔ وہ اب اپنی عمر کے 89 ویں سال میں داخل ہو گئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وہ صحت و عافیت کے ساتھ اپنی زندگی کے 100 سال پورے کریں اور سینچری بنا کر ہی دنیا سے رخصت ہوں۔ ان کی زندگی کے متعدد ریکارڈز ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ریکارڈ بھی وہ اپنے نام کر جائیں۔
مودود صدیقی ملک کے سرکردہ صحافی ہیں۔ انھیں تحریر کی صلاحیت تو ملی ہوئی ہی ہے، وہ قدرت کی طرف سے مینجمنٹ کی صلاحیت سے بھی نوازے گئے ہیں۔ نہ صرف دہلی بلکہ ملک کے طول و عرض میں جب بھی کوئی شخص اردو کا کوئی اخبار یار سالہ شروع کرنے کا منصوبہ بناتا ہے تو وہ مودود صدیقی صاحب سے صلاح و مشورہ ضرور کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ آنجناب اس کے اخبار کو اپنی خدمات سے نوازیں۔ فل ٹائم نہیں تو پارٹ ٹائم ہی سہی اور پارٹ ٹائم نہیں تو وقتاً فوقتاً ہی سہی۔ انھوں نے بے شمار اخبارات کو اپنی خدمات فراہم کی ہیں اور بیشتر کو للہ فی اللہ خدمات دی ہیں۔ وہ اردو کی خدمت کے نام پر مالی و مادی فوائد حاصل کرنے کو غلط سمجھتے ہیں۔ اسی لیے اگر کسی کے ساتھ کوئی تعاون کرتے ہیں تو اس کی قیمت وصول نہیں کرتے۔ البتہ ان کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ یہ اعتراف عزت و احترام کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے اور اخبار یا رسالے میں ان کے نام کی اشاعت کی شکل میں بھی۔
مودود صدیقی کی صحافتی زندگی کے چار اہم پڑاؤ ہیں۔ یعنی عالمی شہرت یافتہ ادبی ماہنامہ ”بیسویں صدی“، منفرد ادبی جریدہ ”سو برس“، روزنامہ ”عوام“ اور ہفت روزہ ”اخبار نو“۔ ان چاروں اداروں میں ان کی جو خدمات ہیں وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ”بیسویں صدی“ سے وہ آج بھی وابستہ ہیں۔ اس کی مدیر ڈاکٹر شمع افروز زیدی ہیں۔ اس رسالے میں مودود صاحب کا نام مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے جاتا ہے۔ جریدہ ”سو برس“ انھوں نے ملک کے سرکردہ ادیب نشتر خانقاہی کے اشتراک میں 70 کی دہائی میں شروع کیا تھا۔ نشتر خانقاہی اس کے ایڈیٹر اور مودود صدیقی مینیجنگ ایڈیٹر تھے۔ وہ انور دہلوی کے اخبار ”عوام“ سے بھی ایک عرصے تک وابستہ رہے۔
وہ سابق رکن پارلیمنٹ و سابق سفیر ہند جناب م افضل کے اخبار ہفت روزہ ”اخبار نو“ سے 1989 میں وابستہ ہوئے۔ پہلے پارٹ ٹائمر کی حیثیت سے لیکن پھر فل ٹائمر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔ جب جناب م افضل کو راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا تو ان کے اوپر دو ذمہ داریاں آگئیں۔ ایک اخبار کی مینیجنگ ایڈیٹر شپ کی اور دوسری افضل صاحب کے سکریٹری کی۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ان دونوں ذمہ داریوں کو بیک وقت اور بڑی خوبی سے نبھایا۔ جب افضل صاحب سفیر بناکر انگولہ بھیج دیے گئے تو اس وقت ان کی ذمہ داریاں اور بڑھ گئیں۔ اب وہ دور دراز سے ہی سہی ایک سفیر کے سکریٹری کا فریضہ بھی انجام دینے لگے۔ جبکہ اخبار نو کے منیجر کی ذمہ داری اب بھی ان کے دوش پر رہی۔ افضل صاحب کے سفیر کی مدت ختم کرکے ہندوستان واپس آنے کے بعد بھی ان سے ان کی وابستگی رہی جو آج تک قائم ہے۔ نہ تو افضل صاحب نے انھیں خود سے جدا کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی مودود صدیقی صاحب نے ان سے الگ ہونے کا کوئی خیال کبھی اپنے دل میں پنپنے دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعلق کو جس عزت و احترام سے نبھایا اور اب بھی نبھا رہے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔
میں نے اس سے قبل ان پر دو مضامین تحریر کیے تھے۔ زیر تحریر مضمون کوئی باضابطہ مضمون نہیں بس زندگی کے 88 سال مکمل کرنے پر ان کو ایک ہدیہئ تہنیت ہے۔ میں نے اپنے پہلے مضمون میں جو کہ خاکوں کے میرے مجموعے ”نقش بر سنگ“ میں شامل ہے لکھا کہ مودود صدیقی صاحب سے میری پہلی ملاقات 1989میں دہلی کے ترکمان گیٹ پر واقع ہفت روزہ ”اخبار نو“ کے دفتر میں ہوئی تھی۔ اس وقت میں اخبار نو کے شعبہئ ادارت میں کام کر رہا تھا۔ سرکولیشن منیجر شمیم اختر تھے اور عبد السبحان ان کے معاون تھے۔ مدیر اعلیٰ جناب م۔ افضل نے اخبار کی سرکولیشن کا مزید کام دیکھنے کے لیے مودود صدیقی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس وقت ان سے سرسری ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پھر میں اخبار نو سے کہیں اور چلا گیا۔ لیکن ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر یہ ملاقاتیں تعلق میں بدل گئیں۔ تعلق کے ابتدائی ادوار کی بنیاد پر مودود صدیقی کی تہ دار شخصیت کو سمجھ پانا کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔ کیونکہ لوگ ظاہری شکل وصورت اور قد کاٹھی سے ہی کسی بھی شخص کی صلاحیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ظاہری شخصیت ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ ظاہری جسامت سے الگ ایک باطنی جسامت بھی ہوتی ہے اور حقیقتاً وہی اصل شخصیت ہوتی ہے۔ ظاہری جسامت محض ایک خول یا موجودہ تجارتی زبان میں کہیں تو پیکنگ کا کام کرتی ہے۔ جبکہ باطنی شخصیت پیکنگ کے اندر کا مال ہوتا ہے۔ باطنی شخصیت کی تشکیل شخص کے ذاتی کردار سے ہوتی ہے جس میں اس کی اپنی سوچ، لوگوں سے تعلقات نبھانے کے ہنر اور معاملات کو برتنے کی ذاتی صلاحیت کے ساتھ ساتھ خاندانی پس منظر بھی کام کرتا ہے۔ لہٰذا مودود صدیقی صاحب کو سمجھنے میں مجھے ایک عرصہ لگا۔
وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کو پہچاننے کے لیے چند ملاقاتیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ ان کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے ان کی شخصیت کی گہرائی میں اسی طرح اترنا پڑتا ہے جس طرح سمندر کی گہرائی ناپنے کے لیے موجوں سے نبردآزما ہوتے اور تھپیڑوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بہت دور تک جانا پڑتا اور جان کو جوکھم میں ڈالنا پڑتا ہے۔ لیکن جس طرح سمندر کو پایاب نہیں کہا جا سکتا اور اس کی گہرائی کو ظاہری آلات سے نہیں ناپا جا سکتا اسی طرح مودود صدیقی کی شخصیت کے بارے میں بھی کوئی ایک رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ ان کے بارے میں کوئی بھی رائے شاید ایسی نہیں ہو سکتی جو ان کی پہلودار شخصیت کا مکمل طور پر احاطہ کر سکے۔ اس لیے ان کے بارے میں لوگوں کی ان آراء کو کہ وہ ایک مجاہد اردو ہیں، وہ ایک زبردست صحافی ہیں، وہ ایک قابل اور باصلاحیت منیجر ہیں، وہ ایک ہمدرد اور مخلص انسان ہیں یا وہ دوسروں کے کام آنے والے ایسے مسیحا ہیں جو صلہ وستائش کی تمنا کے بغیر اپنے مشن میں مصروف رہتے ہیں، قطع نظر کرتے ہوئے بس یہ کہنا چاہوں گا کہ مودود صدیقی جس شخص کا نام ہے وہ اپنی خوبیوں کے اعتبار سے واحد ہے، اکیلا ہے، بے مثال ہے،انوکھا ہے اور لاجواب ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ان کی زندگی میں کئی ریکارڈز ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں سب سے بڑا ریکارڈ یا سب سے بڑا کارنامہ اردو اخبارات و رسائل کی ڈائرکٹری مرتب کرنا ہے۔ آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے زیر اہتمام 1998 میں انگریزی زبان میں شائع ہونے والی یہ ڈائرکٹری اپنی نوعیت کی پہلی ڈائرکٹری ہے۔ 434 صفحات پر مشتمل اس ڈائرکٹری کو اس وقت کے صدر جمہوریہ کے آر نارائنن کے نام معنون کیا گیا ہے۔ اس کی قیمت تین سو روپے ہے۔ اس کا اجرا 1998 میں پارلیمنٹ کے انیکسی ہال میں سابق رکن پارلیمنٹ جناب م۔ افضل کی چیئرمین شپ میں منعقدہ ”آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس“ میں کے۔ آر۔ نارائنن نے کیا تھا۔ اس میں حروف تہجی کے اعتبار سے اردو کے روزنامہ،سہ روزہ، ہفت روزہ، پندرہ روزہ اور ماہنامہ اخبارات و رسائل کی فہرست دی گئی ہے۔ اس میں اخبار کا نام، تاریخ اجرا، اخبار کے مالک، ایڈیٹر، پرنٹر، پبلشر، منیجر اور اشتہارات منیجر کے نام، اشتہارات کے ریٹ، میکینکل تفصیلات اور سرکولیشن کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ اس میں 260 اخبارات و رسائل کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے سیکڑوں اخبارات و رسائل کے نام دیے گئے ہیں جنھوں نے بارہا گزارش کے باوجود اپنی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یہ فہرست بھی حروف تہجی کے اعتبار سے ہے۔
آر این آئی میں رجسٹرڈ اخباروں کی ریاست وار تعداد کا ایک الگ گوشہ ہے۔ اردو اخباروں کی سرکولیشن کے رجحانات، اخبارات کے بارے میں آر این آئی کی رپورٹوں کے نمونے، اردو کے وہ اخبار جو اے بی سی کے ممبر ہیں، اہم اداروں اور اردو کی نیوز فیچر ایجنسیوں کے پتے، پریس تنظیموں کی فہرست، پی آئی بی سے رجسٹرڈ اردو اخبارات کی فہرست، انڈین نیوز پیپر سوسائٹی کے ممبر اردو اخبارات اور حکومت کے انفارمیشن دفاتر کے پتے بھی دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اخبارات کے اجرا کے طریقہئ کار، نیوز پرنٹ کی ملوں اور نیوز پرنٹ کے ایجنٹوں کی فہرست، سرکاری اشتہارات کی پالیسی، پریس کونسل آف انڈیا، صحافت کے کورس کرانے والی یونیورسٹیوں کی فہرست اور اشتہارات کی ایجنسیوں کی فہرست بھی پیش کی گئی ہیں۔ آخر میں مختلف اخبارات و رسائل کے اشتہارات دیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ ایک انتہائی جامع اور مفصل ڈائرکٹری ہے۔ ہر سال اس انتہائی اہم ڈائرکٹری کا نیا اور اضافہ شدہ ایڈیشن آنا چاہیے تھا۔ لیکن وائے افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ بس وہ پہلی اور اب تک کی آخری کوشش ہے۔ مودود صدیقی اب اپنی عمر کی اس منزل میں ہیں جہاں اس قسم کا محنت طلب کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بھی افسوسناک بات ہے کہ اس انتہائی وقیع کام کی جو پذیرائی صحافتی برادری کی جانب سے ہونی چاہیے تھی وہ اب تک نہیں ہو سکی۔ شاید اس اہم کام کی پذیرائی نہ ہونے کے سبب انھوں نے اس پر نظر ثانی نہیں کی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کوئی دوسرا شخص ڈائرکٹری کے اس کام کا بیڑہ اٹھاتا اور اسے آگے بڑھاتا۔
دہلی اردو اکادمی نے انھیں سال 2012 میں صحافت کا باوقار ایوارڈ تفویض کیا تھا۔ اس وقت میں نے ان پر ایک تفصیلی مضمون قلمبند کیا تھا جو متعدد اخباروں میں شائع ہوا تھا۔ جبکہ میں نے وائس آف امریکہ کے لیے ایک رپورٹ بھی مرتب کی تھی جو ایوارڈ لیتے ہوئے تصویر کے ساتھ اس کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی۔ لیکن یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ دہلی اردو اکادمی کے بعد کسی ادارے نے ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے جیسے اہل اردو نے اس محسن اردو کو فراموش کر دیا ہے۔ وہ اخبار والے بھی ان کو یاد نہیں کرتے جن کو انھوں نے اپنی خدمات فراہم کیں۔ کیا یہ اہل اردو کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اس حال میں جبکہ مودود صدیقی اپنی عمر کی بالکل آخری منزل میں ہیں، کسی تقریب کا اہتمام کریں اور ان کی خدمات کا اعتراف کریں۔ میں ذاتی طور پر اپنی جانب سے آگے قدم بڑھا رہا ہوں۔ جس کو ساتھ آنا ہو وہ آجائے۔

You may also like