کیا آپ نے کبھی نظمیں پڑھتے ہوئے ، کسی نظم کو صفحۂ قرطاس سے باہر ، اپنی آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے ، یا تصویری شکل میں ڈولتے دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا ہے ، تو آپ ایک فراموش نہ کیے جانے والے تجربے سے محروم رہ گیے ہیں ۔ اور اگر دیکھا ہے ، تو اس تجربے کو آپ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے ۔ ویسے یہ تجربہ ، بس کسی کسی نظم گو کو پڑھتے ہوئے ہی محسوس کیا جا سکتا ہے ، نہ ہر شاعر کی نظم صفحۂ قرطاس سے اوپر اٹھ کر خود کو مجسم شکل میں محسوس کرانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ ہر شاعر کو یہ صلاحیت ودیعت ہوتی ہے کہ وہ اپنی نظموں کو ’ مابعد الطبیعاتی ‘ بنا سکے ۔ جن شعراء کی نظموں کو میں نے مجسم ہوتے محسوس کیا ہے ، ان میں سے ایک نام پروفیسر حمید سہروردی کا ہے ۔ حمید سہروردی کبھی اپنے افسانوں کے لیے جانے جاتے تھے ، لیکن اب افسانوں کے ساتھ شاعری بھی ان کی شناخت کا ایک لازمی جزو بن گئی ہے ۔ چند مہینے گزرے ہوں گے جب مجھے سہروردی صاحب کی نظموں کی کلیات ’ خواب سے آگے کچھ بھی نہیں ‘ موصول ہوئی تھی ، لیکن اس کے مطالعے کا موقع اب آیا ، اور مطالعے کے ساتھ اُس کیفیت کا تجربہ ہوا ، جِس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔ یہ کلیات شاعر کے پہلے مجموعے ’ شش جہت آگ ‘ سمیت اُن نظموں پر مشتمل ہے جو مختلف جرائد و رسائل میں بکھری پڑی تھیں اور کچھ ایسی نظمیں جو غیر مطبوعہ تھیں ، کتابی شکل میں شائع نہیں ہو سکی تھیں ، حالانکہ سہروردی صاحب کے صاحب زادے ڈاکٹر محمد غضنفر اقبال نے ’ شش جہت آگ ‘ کے بعد نظموں کا ایک مجموعہ ’ دھند چاروں طرف ‘ کے نام سے مرتب کر لیا تھا ۔ اس کلیات کے مرتب ڈاکٹر اقبال خسرو قادری ’ عرضِ مرتب ‘ کے عنوان سے ، اپنی تعارفی تحریر میں لکھتے ہیں : ’’ غالباً چار پانچ برس پہلے غضنفر اقبال نے حمید صاحب کی نظموں کا مجموعہ ’ دھند چاروں طرف ‘ کے نام سے ترتیب تو دیا تھا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اس کی اشاعت مؤخر ہوتی رہی ۔‘‘ ایک دلچسپ سوال یہ ہو سکتا ہے کہ ’ شش جہت آگ ‘ کے بعد سہروردی صاحب کے کسی اور مجموعہ کی اشاعت کیوں مؤخر ہوتی رہی ؟ یہ سوال دلچسپ اس معنیٰ میں ہے کہ پہلے مجموعے ’ شش جہت آگ ‘ کی ادبی دنیا میں جو پذیرائی ہوئی تھی ، اور چوٹی کے ادیبوں ، شاعروں اور نقادوں نے اس کی جو تعریف و تحسین کی تھی ، اس کے بعد یہ لازمی تھا کہ شاعر ’ پھول کر کپّا ہوجاتا ‘ اور اپنا دوسرا اور تیسرا مجموعہ شائع کرواتا – کم از کم کوئی اور شاعر ہوتا تو یہی کرتا – لیکن سہروردی صاحب نے ایسا نہیں کیا ! کیوں ؟ شاید اس لیے کہ وہ جلد بازی میں خام یا کچا مال پروسنے پر یقین نہیں رکھتے ، اور اُس شاعری سے دامن بچا رہے تھے ، جو اوسط درجہ کی شاعری کہلاتی ہے ۔ اُن دنوں ’ شش جہت آگ ‘ پر جو تبصرے آئے تھے ، یا ادیبوں نے سہروردی صاحب کو چٹھیاں لکھ کر ، اس مجموعے پر جو داد دی تھی ، انہیں پڑھ کر ان کی نظموں کی شعریات اور جمالیات کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے ۔ اب یہی دیکھیے کہ یہ پہلا مجموعہ کلام تھا ، اور اس کے شائع ہونے سے قبل وہ ایک افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے تھے ، اور بہت کم لوگوں کو یہ گمان تھا کہ وہ ایک شاعر بھی ہیں ، لیکن اس کے باوجود شمس الرحمٰن فاروقی جیسے بڑے نقاد نے ؔ’ شش جہت آگ ‘ کی نظموں کو ’’ بہت اچھی نظمیں ہیں ‘‘ کہا تھا ، اور اُن نظموں کا تو بطور خاص ذکر کیا تھا جو ان کی نظر میں ’ تصویری نظمیں ‘ تھیں ، اور لکھا تھا ’’ تمہاری وہ نظمیں جو تصویری نظمیں کہی جائیں تو غلط نہ ہوگا ، مجھے بہت اچھی لگیں ۔ ان کے علاوہ بھی کئی نظمیں مجھے بہت پسند آئیں ۔‘‘ ممبئی کے معروف شاعر مرحوم عبدالاحد سازؔ نے ان نظموں کی ہئیت کو ’ صوری ‘ کہا ہے ۔ معروف شاعر قاضی سلیم نے حمید سہروردی کی شاعری میں الفاظ کی ترتیب اور لکھاؤٹ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ دو باتیں نظم کے الفاظ کی ترتیب اور ان کی لکھاؤٹ کے بارے میں ضرور کہوں گا جسے دیکھ کر اس مجموعے کے پڑھنے والے ضرور چونکیں گے ۔ حمید سہروردی کی بعض نظمیں پورے صفحے پر تجریدی مصوری کا روپ دھارتی نظر آئیں گی ۔ یہ شاعری پر پینٹنگ کا اثر ہے … سماعت کے ساتھ بصارت کی حِس کو بیدار کرنے کی کوشش حمید سہروردی نے کامیابی سے انجام دی ہے ۔‘‘ جِن تصویری اور صوری نظموں کی بات فاروقی صاحب اور سازؔ صاحب نے کی ہے ، اور جن پر قاضی سلیم صاحب نے پینٹنگ کے اثر کی بات کی ہے ، وہ تعداد میں بس تین ہیں ، اور پہلے مجموعہ ہی میں شامل ہیں ، لیکن کلیات کی دیگر نظموں پر بھی ان کا پرتو واضح نظر آتا ہے ۔
ایک نظم کا عنوان ہے ’ ١٩٧٤ کی آخری دم توڑتی ہوئی رات کی تخلیق ‘۔ اس نظم کو صوری ، ہئیتی ، تصویری کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے ، اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پر پینٹنگ کا اثر ہے ۔ اس نظم کا پہلا مصرعہ ہے ’’ ہوائیں یوں بدلتی ہیں ‘‘ ۔ اس مصرعے کو پانچ انداز سے لکھا گیا ہے ، دائیں اور بائیں طرف اوپر سے نیچے کی جانب نصف قوس کی شکل میں ، درمیان میں اوپر سے نیچے کی جانب سیدھے خط میں ، اور اس کے نیچے دائیں سے بائیں دوبار ایک کے اوپر ایک جملے کی شکل میں ۔ اس کے نیچے دائرے کی شکل میں مصرعہ ہے ’’ سب کچھ سمجھ کا پھیر ہے ‘‘ ، اس کے بعد یہ نظم مختصر مصرعوں اور واحد لفظوں کی صورت میں چلتی ہوئی اپنے انجام کو پہنچتی ہے ۔ ترسیل اور تفہیم کے لحاظ سے نظم سہل نہیں ہے ، لیکن دو تین قراتوں کے بعد نظم واضح ہوتی چلی جاتی ہے ، مگر اس سے پہلے ہی پڑھنے والے کو ، مختلف سمتوں میں ہوائیں چلتی محسوس ہو سکتی ہیں اور نظم صفحۂ قرطاس سے اوپر اٹھ کر سامنے آ سکتی ہے ۔ دو نظمیں مزید ہیں ’ ایک بے کیف لمحے کی خالص نظم ‘ اور ’ صفر ‘ کے عناوین سے ۔ پہلی نظم میں ریاضی کی علامتوں کے استعمال کے ساتھ کئی مصرعوں میں لفظوں اور حروفوں کی ترتیب اور لکھاؤٹ تجریدی مصوری کی مانند ہے ۔ اس نظم میں شاعر اپنے خدا کی تلاش میں ہے ، وہ نظم کا اختتام تین مصرعوں پر کرتا ہے : ’’ کاش ! / اب تو ملے / مجھ کو میرا خدا……! ۔‘‘ یہ نظم بھی آسمان ، چاند ، سورج ، ستارے اور صحرا وغیرہ کو مجسم طور پر آنکھوں کے سامنے لا دیتی ہے ۔ نظم ’ صفر ‘ اس دنیا کے ہجوم اور بیکراں کائنات میں انسان کے نقطہ یا دائرہ بننے یا موہوم ہونے کی ایک علامت ہے ۔ یہ نظم بھی پہلے کی دو نظموں ہی کی طرح ایک ہیولہ بناتی ہوئی پڑھنے والے کے تصور کو مہمیز کرتی ہے ، اور وہ بہت کچھ دیکھ لیتا ہے ۔
کلیات میں ان نظموں کو ، جو مختلف رسائل میں شائع ہوئیں اور وہ نظمیں جو کہیں شائع نہیں ہوئیں ، ’ دھند چاروں طرف ‘ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے ۔ مختصر نظموں کو ’ جلتے بجھتے لمحے ‘ اور شخصی نظموں کو ’ روح کے آس پاس ‘ کے عناوین سے شامل کیا گیا ہے ۔ یہ نظمیں نہ صوری ہیں اور نہ ہی تصویری ، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے ، کلیات کی ان نظموں پر بھی تصویری نظموں کا پرتو واضح نظر آتا ہے ۔ مختصر نظموں کو پڑھنے والے انہیں ایک پینٹنگ کی طرح دیکھ سکتے ہیں ؛ ایک مثال لے لیں : ’’ وہ جو کھڑکی ہے ، / بہت معصوم ہے / مَن کی باتیں / اپنے اندر ہی اندر چھپائے رکھتی ہے / اس کی آنکھوں میں / کربلا نظر آتا ہے ۔‘‘ یہ تمام نظمیں داخلی اور خارجی ، دونوں ہی سطحوں پر ، پڑھنے والے کو کچھ نہ کچھ دے جاتی ہیں ۔ یہ نظمیں اپنی ہئیت میں تجریدی ، استعاراتی ، علامتی ہوتے ہوئے بھی اپنے پڑھنے والوں کو مایوس نہیں کرتیں ، سارے ابہام کے باوجود یہ معنی کے در وا کر دیتی ہیں ۔ ہاں ! بس ایک ذرا توجہ سے انہیں پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اقبال خسرو قادری نے بہت محنت سے یہ کلیات مرتب کی ہے ، اور اس محنت کے لیے شاعر نے انہیں پوری آزادی دی تھی ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ مشمولات کے انتخاب ، ترتیب و تہذیب میں شاعر کی جانب سے عطا کردہ آزادی کا بھرپور اور بے تکلف استعمال کیا گیا ہے ۔ مرتب کے اختیاراتِ تمیزی سے استفادہ کرتے ہوئے ، چند نظموں سے صرف نظر بھی کیا گیا ہے جو شاعر کی مجموعی فکری اور فنی روش سے میل نہیں کھاتی تھیں ۔‘‘
اس خوبصورت کلیات کے لیے حمید سہروردی صاحب ، مرتب اقبال خسرو قادری اور ڈاکٹر محمد غضنفر اقبال کو بہت بہت مبارک باد ۔ یہ کلیات بیٹے غضنفر اقبال کی طرف سے اپنے والد گرامی حمید سہروردی کی نذر ہے ۔ کتاب کے ناشر ’ کاغذ دکن بیورو ، گلبرگہ ‘ ہیں ، یہ ’ اپلائیڈ بکس ، نئی دہلی ‘ کے زیرِ اہتمام شائع کی گئی ہے ۔ ۲۸۸ صفحات کی اس کلیات کی قیمت پانچ سو روپے ہے ۔ حاصل کرنے کے لیے 9449638983 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔