Home مقبول ترین کتّے کی دُم اور کیرالہ اسٹوری- شکیل رشید

کتّے کی دُم اور کیرالہ اسٹوری- شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز) 

کہاوت ہے کہ کتّے کی دُم کبھی سیدھی نہیں ہوتی ! ’ہیٹ اسپیچ ‘ ایک ایسا مرض ہے کہ اس میں مبتلا افراد ’ کتّے کی دُم ‘ بن کر رہ جاتے ہیں ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے جہاں ’ ہیٹ اسپیچ ‘ کے خلاف کڑا رویہ اپنایا ہے ، اور ملک کی تمام ریاستوں کی پولیس کو یہ ہدایت دی ہے، کہ کسی کی جانب سے شکایت درج کرائے جانے کا انتظار کیے بغیر ، جب بھی ہیٹ اسپیچ کا کوئی معاملہ سامنے آئے ،ایف آئی آر فوراً درج کی جائے ، ایسا نہ کرنے والی ریاست کو توہین عدالت کا قصوروار مانا جائے گا ، وہیں وہ عناصر ، جو’ ہیٹ اسپیچ‘ کے مرض میں مبتلا ہیں ،یعنی ’ کتّے کی دُم ‘ بن گیے ہیں ، نفرت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں ، وہ کوئی نہ کوئی ایسا طریقہ ، ذریعہ یا میڈیم تلاش کر ہی لیتے ہیں ، جو نفرت پھیلانے کی ، ان کی ’ مہم ‘ کو آسان بنا دے ۔ مثال فلم ’ دی کیرالہ اسٹوری ‘ کی لے لیں ، جس کے ذریعے ’ جہاد ‘ کے موضوع کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے ،کہ سارے ملک میں ، مسلمانوں کی ایک منفی اور نفرت انگیز یا گھناؤنی تصویر بنسکتی ہے ۔ اس ملک میں ۲۰۱۴ء کے بعد سے ، نفرت کے ایک خطرناک بیانیے کی شروعات ہوئی ہے ۔ خطرناک اس معنیٰ میں کہ اب جھوٹ کی بنیاد پر نفرت کا کاروبار کیا جا رہا ہے ، اور اس کاروبارسے پھیلنے والی نفرت کی جو سونامی ہے ، اس میں کیا میڈیا ، کیا سوشل میڈیا ، کیا عوام اور کیا خواص سب ہی زہریلے ہوتے جا رہے ہیں ۔ خطرناک اس لیے کہ اس کی جڑ میں ’ تشدد ‘ کا کردار اہمیت اختیار کر گیا ہے ، اسی لیے جب یہ شور اٹھتا ہے کہ ’ اخلاق ‘ اپنے گھر میں گائے کا گوشت رکھے ہوئے ہے ، تو لوگ اس بات کی تصدیق کیے بغیر ، کہ واقعی اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت ہے بھی یا نہیں ، اخلاق پر پِل پڑتے ہیں ۔ یہ بیانیہ اس لیے بھی خطرناک ہے ، کہ اسے مسند نشینوں کی سرپسرستی حاصل ہے ، اور اس لیے بھی یہ خطرناک ہے کہ ، ہر الزام کو بغیر وکیل اور عدالت کے جرم مان لیا جاتا ہے ، اور فوراً ہی ’ سزا ‘ دے دی جاتی ہے ، جو عموماً سخت مار پیٹ یا سیدھے ماب لنچنگ ہوتی ہے ۔ اور اس لیے بھی خطرناک ہے ، کہ پولیس انہیں ، جو واقعی مجرم ہیں ’ ہیرو ‘ مان کر ان کے خلاف کارروائی سے منھ موڑ لیتی ہے ۔ فلم ’ دی کیرالہ اسٹوری ‘ بھی اسی خطرناک بیانیے کا حصہ ہے اور اس کا سارا ڈھانچہ جھوٹ کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ہے ۔ اس فلم کے ذریعے ، اس ملک کی جنتا کو ، یہ جَتانے کی یا بتانے کی کوشش کی گئی ہے ، کہ اس ملک کے مسلمان ہندو لڑکیوں کا دھرم پریورتن کر رہے ہیں ، اور دھرم پریورتن کے بعد لڑکیوں کی برین واشنگ کرکے ، ذہن سازی کر کے ، ان کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اس فلم میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کیرالہ میں ۳۲ ہزار ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنایا گیا اور انہیں ’ داعش ‘ میں بھرتی کرا کر ان سے دہشت گردی کرائی گئی ۔ کیرالہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں ’ہندتو‘ پر عمل کرنے والوں کی دال گل نہیں رہی ہے ، اسی لیے وہاں رہ رہ کر فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کیرالہ میں آر ایس ایس کافی سرگرم ہے ، اور بی جے پی پورا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح سے بھی کیرالہ میں گھس پیٹھ کی جائے ۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ مغربی بنگال میں گھس پیٹھ کے لیے تشدد کا بازار گرم کیا جا رہا ہے ۔ یہ پروپیگنڈا کہ کیرالہ میں ۳۲ ہزار ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنایا گیا ، شرانگیز بھی ہے اور زہریلا بھی ، اس کے ذریعے جہاں ایک جانب کیرالہ کی سیکولر ساکھ پر بٹّہ لگانے کی ناقابلِ معافی حرکت کی جا رہی ہے ، وہیں دوسری جانب اس پروپیگنڈے کے ذریعے شرپسندوں کو ’ جہاد ‘ ، ’ لوجہاد ‘ اور ’ تبدیلیٔ مذہب ‘ کے بہانے مسلمانوں کے خلاف تشدد پھیلانے اور انھیں ’ دہشت گردی ‘ کا حامی ثابت کرنے کی انتہائی مذموم کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ پروپیگنڈا یوں تو کسی رُخ سے کسی کے لیے بھی قبول کرنے جیسا نہیں ہو سکتا کہ کیرلہ میں ۳۲ ہزار ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنایا گیا ، لیکن جب نفرت کا بازار گرم ہوتا ہے تو ساری منطقیں اور دلیلیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ، اور لوگ جذبات میں بہہ کر ’ جھوٹ ‘ کو ’ سچ ‘ ماننے لگتے ہیں ، لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ جب صرف ایک چھوٹی سی ریاست کیرالہ میں اتنی بڑی تعداد میں ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنایا گیا تو سارے ملک میں یہ تعداد کتنی بڑی ہوگی ! اس لیے فلم ’ دی کیرالہ اسٹوری ‘ کی نمائش پر پابندی لگنا ضروری ہے ۔ جس طرح ’ دی کشمیر فائلس ‘ نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف ایک جھوٹا بیانیہ مرتب کیا تھا ، اور اس کی بنیاد پر کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا تھا ، اسی طرح یہ فلم اس ملک کے سارے ہی مسلمانوں کے خلاف انتہائی زہریلا ماحول بنا سکتی ہے ۔ اور وہ لوگ جو ’ کتّے کی دُم ‘ بن گیے ہیں یہی چاہتے ہیں ، اسی پر ان کی سیاست چلتی ہے ، اور سیاست چمکانے کے لیے ، چند دنوں میں جو کرناٹک اسمبلی کے الیکشن ہونے والے ہیں ، اس میں اس فلم کو پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ سوائے بی جے پی کے ، کہ وہ تو چاہتی ہی ہے کہ ایسی فلمیں بنیں اور اس کی سیاست چلے ، اکثر بڑی سیاسی پارٹیوں نے اس فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے ، کیرالہ کے وزیراعلیٰ پنا رائی وجین نے بھی اس فلم پر سخت اعتراض جتایا ہے ، لہذا اس پر فوری پابندی ضروری ہے ۔ سپریم کورٹ کو بھی چاہیے کہ وہ اس فلم پر سوموٹو کارروائی کرے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment