Home قندیل کیرالا کی دو ’کتابی عمارتیں‘

کیرالا کی دو ’کتابی عمارتیں‘

by قندیل

نایاب حسن
ایک مشہور کہاوت ہے کہ کسی کتاب کے اچھی یا بری ہونے کا فیصلہ اس کے ٹائٹل کی خوب صورتی یا بد صورتی سے نہیں کرنا چاہیے۔یعنی یہ ممکن ہے کہ کسی کتاب کا ٹائٹل بہت خوب صورت ہو،مگر اس میں چھپا ہوا مواد آپ کے ذہن و فکر و ذوق کی پراگندگی کا باعث بن جائے،جبکہ اسی وقت یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کتاب کا کور بہت خوب صورت اور جاذبِ نظر نہ ہو،مگر اس کے مشمولات آپ کے ذہن کو نور اور قلب کو سرور بخشنے والے ہوں۔ عربی کے مشہور شاعر نزار قبانی کہتے ہیں کہ’’بہت سے لوگ ایسی کتابوں کے مانند ہوتے ہیں،جن کا ٹائٹل تو بھڑک دار ہوتا ہے،مگر اندر کوڑا کباڑا بھرا ہوتا ہے‘‘۔ یعنی وہ بھی یہی پیغام دے رہے ہیں کہ کسی چیز یا شخص کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے باطن پر حکم نہیں لگانا چاہیے۔
لیکن معاملہ اُس وقت کتنا دلچسپ ہوجاتا ہے، جب کوئی عمارت ہی کتابوں کی شکل پر ڈزائن کی جائے!میرے خیال میں تب ہم اس کے ظاہر کی خوب صورتی،دلکشی،جاذبیت اور جمال انگیزی کو دیکھ کر اس کے باطن کے بارے میں اچھی رائے ہی قائم کریں گے اور اس میں ہم یقیناً حق بجانب ہوں گے۔عمارت کی بات آئی تو ماجراپرور سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل(جس سے ہم ہندوستانی بھی بخوبی واقف ہیں) کی ایک تاریخی بات یاد آگئی۔ جب جنگ عظیم دوم میں برطانوی ہاؤس آف کامنز کے درودیوار مخدوش ہوئے تو اس کی مرمت کی ضرورت واہمیت بیان کرتے ہوئے اس نے کہا تھا’’بہت سی عمارتیں ایسی ہوتی ہیں،جن کا نقشہ تو ہم بناتے ہیں،مگر بعد میں وہی عمارتیں لوگوں کے ذہنوں میں ہماری تصویر بنادیتی ہیں ،ہمارا شناخت نامہ بن جاتی ہیں‘‘۔
کچھ یہی معاملہ بھارتی ریاست کیرالا کی دو عمارتوں کا ہے۔کیرالا ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی مختلف تہذیبی و ثقافتی ،سماجی و سیاسی خصوصیات سے حیرت زدہ کرتا رہتا ہے ،مگر اس کا اصل نشانِ امتیاز اس کی سو فیصد شرحِ خواندگی والی علمی شناخت ہے اور ان دونوں عمارتوں کا تعلق بھی اس کی اسی امتیازی خصوصیت سے ہے۔ بظاہر تو ان کی پہچان یہ ہے کہ ان میں سے ایک پبلک لائبریری ہے اور دوسری کتابوں کی دکان،مگر جو چیز ان عمارتوں میں انفرادیت پیدا کرتی ہے،وہ ہے ان کا طرزِ تعمیر اور اس کے پس پردہ کارفرما بہترین تخلیقی اذہان،وہ بہت اچھے،بہت پیارے لوگ،جنھیں کتابوں سے بے پناہ عشق ہے اور اس کا اظہار انھوں نے کمال فن کاری کے ساتھ کیا ہے۔
ایک عمارت کیرالہ کے ضلع کنور کے کرایل (Karayil) میں واقع ہے۔اس کی بنیاد جنوبی ہند کے مجاہد آزادی کے کیلپن( K Kelappan)نے1967میں رکھی تھی۔اس کانام لال بہادرلائبریری اوردارالمطالعہ یا لال بہادر ویانسالا و گرنتھالیم ہے۔اس لائبریری کی گولڈن جبلی کی مناسبت سے لائبریری انتظامیہ اور اس سے وابستہ افراد نے اس کو ایک نئی عمارت میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اوراس کی ایک نہایت پرکشش عمارت بنائی،جس کی درودیوار کتابوں کی شکل میں ڈزائن کی گئی ہے،اس کی تصویر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ پوری عمارت کتابوں سے تعمیر کی گئی ہے۔کیا ہی خوشنما منظر ہے!اس کا خاکہ جنوب کے نابغہ مجسمہ سازکے کے آر وینگارا(KKR Vengara)نے بنایا اور مقامی آرٹسٹ سی وی سری دھرن نے ان کے خاکے کو محسوس پیکر عطا کرنے میں ان کا تعاون کیاہے۔اس لائبریری میں ملیالم زبان کی کلاسکس موجود ہیں،کتابوں کی مجموعی تعداد پانچ ہزار سے کچھ اوپر ہے،باہر دروازے کے سامنے ہندوستانی وزراے اعظم جواہر لال نہرو اور لال بہادر شاستری کے مجسمے بھی رکھے ہوئے ہیں۔لال بہادر ہی کے نام پر اسے موسوم کیا گیا ہے۔لائبریری کی اس نئی عمارت کا افتتاح پچھلےسال یعنی 2019کی 3؍فروری کو ملیالم زبان کے مشہور افسانہ نگار،ناول نویس،کالم نگار اور شاعر این پربھاکرن(N. Prabhakaran)نے کیا تھا۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس عمارت کی افتتاحی تقریب میں لوگوں کو بلانےکے لیے باقاعدہ ڈھول نگاڑوں کے ساتھ جلوس نکالا گیا اورتقریب میں بچوں اور بڑوں،مردو خواتین نے رنگا رنگ ثقافتی پروگرام پیش کیے۔
اسی علم پرور ریاست کے ایک دوسرے شہر کوچی کی ’الوا‘(Aluva)نامی میونسپلٹی میں تین ہزار اسکوائر فٹ میں پھیلی ہوئی Once Upon A Time نامی ایک دو منزلہ بک شاپ ہے،جس کی اوپری منزل ایسے بنائی گئی ہے کہ لگتا ہے چھت پر چار کتابیں بالتریب کھڑی کرکے رکھی ہوئی ہیں۔ان میں سے ایک جے کے راؤلنگ کی Harry Potter’ ‘، دوسری ہرمن میلول کی‘Moby Dick’،تیسری بنیامین کی ‘Aadujeevitham’ اور چوتھا معروف برازیلین ناولسٹ پاؤلو کوئلہو کا دنیا کی اسی سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا جانے والا شہرۂ آفاق ناول ‘The Alchemist’ہے۔ جون کے پہلے ہفتے میں میں اس وقت اس عمارت کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جب خود پاؤلو کوئلہو نے اپنے آفشیل ٹوئٹر اور انسٹاگرام اکاؤنٹ پراسے شیئر کیا اور چند گھنٹوں میں ہی اس منفرد تعمیری شاہکار کو لاکھوں لوگوں نے پسند اور شیئر کیا۔اس بک شاپ کی تعمیر میں دو کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔
ذرا اس بک شاپ کے مالکوں کے بارے میں بھی جانتے ہیں۔ یہ بک شاپ ایک مرد اور ایک خاتون کے خواب کی تعبیر ہے۔یہ دونوں میاں بیوی ہیں، شوہر کانام اجی کمار(Aji Kumar) ہے اور بیوی کا نام وی ایم منجو(V M Manju)ہے۔ دونوں پندرہ سالوں سے میاں بیوی ہیں۔ شوہر الیکٹرک انجینئر ہیں اور الیکٹرسٹی بورڈ میں ملازم تھے ،بیوی سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز میں جاب کرچکی ہیں۔ دونوں نے تیرہ سال قبل ہی ملازمت سے علیحدگی اختیار کرلی اور انجینئرنگ کے طلبہ کے لیے کوچنگ سینٹر چلا رہے تھے۔ منجو کا کہناہے کہ’’میں اور میرے شوہر دونوں کتابوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اسی کے زیر اثر ہماری دیرینہ خواہش تھی کہ ایک منفرد قسم کی بک شاپ کھولیں،جہاں ہر قسم کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہو،جس سے کتاب دوست طبقے کی ضروریات پوری ہوسکے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے الوا میں لب روڈ واقع اپنے ایک قطعۂ اراضی میں کتابوں کی اس انوکھی دکان کی تعمیر کروائی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ عمارت کے اوپری حصے میں جن چار کتابوں کی امیجز آپ نے دی ہے،کیا ان کا انتخاب جان بوجھ کر کیاہے؟تو انھوں نے کہاکہ ہم نے تو دس کتابوں کا انتخاب کیا تھا،مگر آرکیٹکٹ اور بلڈنگ کے معماروں نے رنگوں کے امتزاج اور سائز وغیرہ کے پیش نظر انہی چاروں کا انتخاب کیا۔ اس بلڈنگ کی ڈزائننگ اور تعمیر رائے تھوماس اور کے کے ونود نامی دو مقامی فنکاروں کے زرخیز ذہنوں کا نتیجہ ہے۔
پاؤلو کوئلہو کے پاس اس عمارت کی تصویر کیسے پہنچی؟اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ فی الحقیقت ہمیں بھی نہیں معلوم کہ انھیں اس کی تصویر کیسے اور کہاں سے ملی۔ چوں کہ عمارت لبِ روڈ واقع ہے اور اس کا طرز تعمیر ایسا دلچسپ ہے کہ پہلی بار جوبھی دیکھے گا،اپنے پاس اس کی تصویر محفوظ کرنے کی سوچے گا اور آجکل سوشل میڈیا کا استعمال عام ہے،تو عین ممکن ہے کہ کسی نے اس کی تصویر لے کر سوشل میڈیا پر ڈالی ہو اوراس پر پاؤلو کوئلہوکی نظر پڑی ہو اور چوں کہ چار کتابوں میں سے ایک خود ان کی کتاب بھی ہے،تو فطری طورپر انھیں یہ تصویر اور بھی بھائی ہوگی ؛چنانچہ انھوں نے اسے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کیا۔
اس کتب خانے کا آغاز اسی ماہ جولائی کے آغاز میں ہوا ہے۔ اس میں فی الحال انگریزی،ملیالم اور ہندی کی کتابیں جمع کی گئی ہیں۔ اجی کمار اور منجو دنیا بھر کے پبلشرز کی عمدہ کتابیں اپنے یہاں اکٹھاکرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ اس بک شاپ سے کتابیں خریدنے کے علاوہ وہاں بیٹھ کر پڑھی بھی جاسکتی ہیں،مگر بیٹھ کر پڑھنے کا انتظام کورونا ختم ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ بچوں کی کتابوں کے لیے ایک مستقل گوشہ مختص کیاگیا ہے،جہاں سے بچوں پر لکھی ہوئی کتابیں حاصل بھی کی جاسکتی ہیں اور بچے اگر چاہیں تو وہاں بیٹھ کر پڑھ بھی سکتے ہیں۔ اندر کا منظر عام کتابوں کی دکانوں سے بالکل مختلف اور نہایت خوب صورت ہے،کتابوں کو ترتیب وار رکھنے کے لیے بک شیلف اعلیٰ درجے کا بنواگیاہے،لائٹنگ بھی خوب ہے اور بلب کے اوپر کی چھتری بھی کتابوں کی شیپ میں بنائی گئی ہے۔ الغرض کتابوں کی یہ دکان فی نفسہ فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے اور کتابوں سے بدکنے والا انسان بھی اگر وہاں پہنچ جائے،تو اس کے اندر کتاب دوستی کا ذوق پیدا ہوسکتا ہے۔ میں نے آج تک کیرالا کا سفر نہیں کیا، مگر اب ضرور کرنا ہے اور انہی دونوں مقامات کی’زیارت‘کے لیے کرنا ہے۔ان شاء اللہ

You may also like

Leave a Comment