Home تجزیہ کہ تم نے تو کبھی دہلیز بھی پھاندی نہیں گھر کی-شاہد لطیف

کہ تم نے تو کبھی دہلیز بھی پھاندی نہیں گھر کی-شاہد لطیف

by قندیل

(ایڈیٹرروزنامہ انقلاب)

شاعری اکثر لوگوں کو محبوب ہوتی ہے۔ کسی کسی کو نہیں بھی ہوتی۔ اس کے باوجود چاہتا ہوں کہ قارئین تک اپنی وہ نظم پہنچاؤں جو خاتون مظاہرین میں شامل طالبات کیلئے حال ہی میں لکھی گئی ہے۔ اس کا عنوان ہے مظاہرہ گاہ کی ایک طالبہ کے نام۔ ملاحظہ ہو:
تمہیں کالج بلاتا ہے/ کتابیں یاد کرتی ہیں/ قلم کاغذ سے تم نے یوں کبھی ناطہ نہیں توڑا/ تمہاری جانماز اب بھی اسی کمرے میں رکھی ہے/ جہاں کی ایک اک ٹرافی تمہاری راہ تکتی ہے/ اسی کمرے کے بام و در تمہیں آواز دیتے ہیں/ تخیل کو تمہارے جو نئی پرواز دیتے ہیں/ وہ روزن یاد کرتا ہے/ کہ جس سے جھانک کر اکثر/ سہیلی کو بلاتی ہو/ کسی گلشن کے سب سے/ خوبصورت پھول جیسا مسکراتی ہو/ تمہاری اک سہیلی اور….. جو امی تمہاری ہے/ وہ تم پر ناز کرتی آئی ہے لیکن کئی دن سے/ بہت شاداں و فرحاں ہے/ اُسے معلوم ہے تم نے/ کئی شاہین بہنوں کی رفاقت اور قیادت کا/ نیا منصب سنبھالا ہے/ تمہارے ہاتھ میں پرچم بڑا ہی شان والا ہے/ زمانہ محو حیرت ہے/ کہ تم نے تو کبھی دہلیز بھی پھاندی نہیں گھر کی/ تو پھر یہ جرأت و تیزی، یہ بے باکی/ کہاں سےآگئی تم میں/ کہ جب نعرہ لگاتی ہو/ خدا بن بیٹھنے والوں کی بے چینی بڑھاتی ہو/ انہیں للکارتی ہو/ ان کی بنیادیں ہلاتی ہو/ ڈراتی ہو کہ جو مسند پہ آتا ہے/ اگر خلق خدا کو تنگ کرتا ہے/ تو مسند ہی اُسے اونچا اٹھا کر پھینک دیتی ہے/ تمہاری یہ شجاعت/ یہ عزیمت اک اثاثہ ہے/ وہ دن آئیگا جب دُنیا تمہاری منتظر ہوگی/ یہ دُنیا منقلب ہوگی/ یہ دُنیا مختلف ہوگی/ تمہارے ساتھ جو شاہین بہنیں ہیں/ انہیں پیغام دے دینا/ وہ جیتیں گی، وہی جیتیں گی/ ان سب سے دُعا کہنا!
بظاہر ایک طالبہ سے یہ مکالمہ کسی ایک طالبہ تک محدود نہیں بلکہ روئے سخن ہر اُس طالبہ کی جانب ہے جو اپنی پڑھائی لکھائی اور گھریلو مصروفیات میں سے وقت نکال کر سی اے اے، این سی آر اور این آر پی کے خلاف برپا ہونے اور جاری رہنے والے مظاہروں میں شریک ہورہی ہیں۔ یہ شرکت والدین کی تاکید پر نہیں ہے۔ اسکول یا کالج کے ایماء پر نہیں ہے۔ اس لئے بھی نہیں ہے کہ ’’سہیلیاں جارہی تھیں اس لئے مَیں بھی چلی گئی۔‘‘
ان کی شرکت احساس ذمہ داری کا تقاضا اور ذاتی عزم و ارادہ کا نتیجہ ہے۔ فیصلہ مشکل ہے کہ یہ لڑکیاں زیادہ قابل مبارکباد ہیں یا اُن کی مائیں، خالائیں، چاچیاں، دادیاں، نانیاں اور دیگر، مگر جب آپ ان لڑکیوں کو دیکھتے ہیں کہ ٹی وی چینلوں پر انٹرویو دے رہی ہیں تو بے باکی سے زیادہ گفتگو کا مواد اور گفتگو کے مواد سے زیادہ ان کا عزم و ارادہ متاثر کرتا ہے۔
یہ وہ بچیاں (اور خواتین) ہیں جنہیں کل تک نام نہاد میڈیا بڑے منفی انداز میں پیش کیا کرتا تھا۔ ان کے بارے میں یہ رائے قائم کروانے کی کوشش کرتا تھا کہ یہ مظلوم ہیں۔ انہیں گھر کی چار دیواری میں قید رکھا جاتا ہے۔ انہیں ’’آزادی‘‘ نہیں دی جاتی۔ آگے آنے نہیں دیا جاتا۔ ان کی تو کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے۔ انہیں تو ان کا ’’بددماغ اور مشتعل مزاج شوہر‘‘ ایک نشست میں تین طلاق دے دیتا ہے۔ یہ تو فریاد بھی نہیں کرپاتیں۔ یہ تو گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی ہیں۔ ان میں جرأت نہیں ہوتی، اپنی بات مؤثر طور پر کہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی، وغیرہ۔ مگر، اب جو ان کی آواز سنائی دے رہی ہے بلکہ گونج رہی ہے تو اسی نام نہاد میڈیا پر اور اس کے آقاؤں پر چودہ طبق روشن ہورہے ہوں گے کہ یہ بچیاں یا تو تعلیم یافتہ ہیں یا اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ یہ تو بہت کچھ جانتی ہیں۔ یہ تو کسی تیاری کے بغیر ٹی وی چینلوں کو انٹرویو یا بیان دے سکتی ہیں۔ ان کی باتوں میں دم ہے۔ انہیں خبر ہے کہ سی اے اے کیا ہے۔ انہیں علم ہے کہ این سی آر اور این آر پی سے کن کن نقصانات کا اندیشہ ہے۔ ان بچیوں میں تفکر ہے تردد نہیں ہے۔ تعقل ہے تامل نہیں ہے۔ یہ تو اسکولوں اور کالجوں کا ’’پروڈکٹ‘‘ہیں جبکہ انہیں تو (گھر کی) چار دیواری کا ’’پروڈکٹ‘‘ سمجھا اور باور کرایا جاتا تھا!
ان حقائق کو محسوس نہ کیا جائے یہ ممکن نہیں ہے، یہ الگ بات کہ اس کا اعتراف نہ کیا جائے۔ اس کے باوجود نام نہاد میڈیا اور اس کے آقا، ان بچیوں کی فریاد سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی قربانیوں کو محسوس کرنے کی فراخدلی ان میں نہیں ہے۔ ان میں کتنی بچیاں ایسی ہیں کہ آج مظاہرہ گاہ میں ہیں جبکہ کل اُنہیں کسی امتحان میں شریک ہونا ہے۔ آج نعرہ لگا رہی ہیں جبکہ کل گھر میں مہمانوں کی آمد آمد ہے یا سفر پر روانہ ہونا ہے۔ اور ان کا عزم؟ یہ جملہ ملاحظہ فرمائیے: ’’اگر حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون واپس نہیں لیں گے تو ہم بھی اپنے قدم واپس نہیں لیں گے، دیکھیں جیت کس کی ہوتی ہے!‘‘
اس جملے کا آخری حصہ ’’دیکھیں جیت کس کی ہوتی ہے‘‘ میں ہزار چیلنجوں کا سامنا کرنے کی جرأت و شجاعت موجود ہے کیونکہ اس میں مدت کا تعین نہیں ہے۔ اگر ایک ماہ تک مظاہرہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو ایک ماہ تک اور اگر ایک سال تک اس کی ضرورت ہوتی ہے تو سال بھر مظاہرہ جاری رکھنے کا یہ عزم کوئی معمولی عزم نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم بچیوں کا ایک نیا روپ دُنیا کے سامنے آیا ہے۔ یہ روپ اپنی تہذیبی و معاشرتی شناخت کی حفاظت، حق مانگنے کی جرأت، وطن سے محبت، جمہوری قدروں سے اُنسیت، تعلیم سے شخصیت کے نکھرنے کی حقیقت اور خود اعتمادی کی دولت کا مجموعہ ہے۔ خدا رکھے ان بچیوں کے تیور کئی گھسی پٹی باتوں (اسٹیریو ٹائپس) کی نفی کرتے ہیں جو ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھانے اور قربانی دینے کے جذبے کی برکت ہے ورنہ ایسے کتنے ہی اسٹیریو ٹائپس ہیں جو وقت کے ساتھ تقویت پاتے چلے گئے مگر کوشش کے باوجود انہیں بے بنیاد ٹھہرایا جاسکا نہ ہی اُن کا اثر زائل کیا جاسکا۔
کون نہیں جانتا کہ خواتین کا مظاہرہ کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا ۔پھر ان مظاہروں کا جگہ جگہ رونما ہونا بھی بے ساختہ اور برجستہ عمل ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ اسے تائید غیبی حاصل ہے اور ہر وہ عمل جس میں تائید غیبی شامل ہوتی ہے، کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اسی لئے اس مضمون نگار نے اپنی نظم میں کہا: اُنہیں پیغام دے دینا، وہ جیتیں گی، وہی جیتیں گی!

(بشکریہ روزنامہ انقلاب)

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment