Home نقدوتبصرہ  کہ جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے (خاکے اور یادیں)-محمد اکرام

 کہ جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے (خاکے اور یادیں)-محمد اکرام

by قندیل

پروفیسر عتیق اللہ کا اصل میدان تحقیق و تنقید ہے مگر اس کے علاوہ اور بھی اصناف ہیں ،جن میں انھوں نے اپنے کمال ہنر کا ثبوت دیا ہے۔ ان میں شاعری، ڈراما نگاری، ترجمہ نگاری کے علاوہ خاکہ نگاری بھی ہے۔ اس مشہور صنف کو پروان چڑھانے والوں میں مرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، مولوی عبدالحق، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اسی سلسلے سے ایک اور نام عتیق اللہ جڑ گیا ہے کہ خاکوں پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے‘ اور ’کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے‘ حالیہ دنوں میں ہی منظر عام پر آئی ہیں۔ خاکوں کی ان دونوں کتابوں میں عتیق اللہ کی شخصیت ایک بہترین خاکہ نگار کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔
زیر نظر کتاب’کہ جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے‘ میں 25 خاکے شامل ہیں جن میں خواجہ احمد فاروقی، جوگندر پال، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، قمر رئیس، قاضی سلیم، شمیم حنفی، فضیل جعفری، کمال احمد صدیقی، ابوالکلام قاسمی، عابد سہیل، مجتبیٰ حسین، بلراج کومل، عصمت جاوید، بشر نواز، شمیم نکہت، خلیق انجم، ابن کنول، فضل تابش، اسلم پرویز، شاہد علی خاں، کنیز فاطمہ، علی جاوید، تلاوت علی، آمنہ بائی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں زیادہ تر عتیق اللہ کے معاصر بزرگ ہیں اور کچھ ایسی شخصیات بھی جن سے ان کا ذہنی اور قلبی رشتہ رہا ہے۔ ان میں ایک تو کنیز فاطمہ ہیں جو ان کی شاگردہ تھیں اور کم عمری میں وفات پاگئیں۔ دوسرا خاکہ آمنہ بائی المعروف اطہر دانی کا ہے جن کا ادب سے تو دور کا بھی رشتہ نہیں ہے، مگر عتیق اللہ کی ذات سے انھیں بہت انسیت تھی۔ دماغی طور پر ایک معذور خاتون جنھوں نے اجین کو اپنی قیام گاہ اور عتیق اللہ صاحب کے گھر کو ایک طرح سے پناہ گاہ بنا لیا تھا۔ یہ عتیق اللہ صاحب کی والدہ کی بہت چہیتی تھیں اس لیے اکثر ناشتے کے وقت ان کے گھر آجایا کرتی تھیں۔ عتیق اللہ صاحب نے اپنے اس خاکے میں رشید احمد صدیقی اور عبدالحق مرحوم کی یاد تازہ کردی کہ انھوں نے بھی کچھ ایسے لوگوں کے خاکے لکھے جو سماجی اعتبار سے معمولی حیثیت کے حامل تھے۔

خاکے کی اس کتاب میں کچھ کی نوعیت تعزیتی تحریر کی ہے۔ کچھ خاکے کورونا دور کی وحشت ناکیوں کی یاد بھی تازہ کراتے ہیں۔کورونا جیسی مہلک وبا کے دوران جن کی وفات ہوئی ہے انھیں اپنے خاکوں کے ذریعے عتیق اللہ صاحب نے نئی زندگی عطا کی ہے۔
عتیق اللہ نے خاکے کی پرانے روایت سے استفادہ ضرور کیا ہے مگر انھوں نے اپنے خاکوں میں اپنے انفرادی فکر و اسلوب کا جادو بھی جگایا ہے اور اپنے خاکوں کا رنگ بھی جداگانہ رکھا ہے۔ خاکے تعلق سے عتیق اللہ کا خیال یہ ہے کہ:
’’خاکہ نگاری کے لیے بھی تخلیقی شعور لازمی ہے۔ خاکہ محض خاکہ ہوتاہے، خواہ مزاحیہ ہو یا سنجیدہ۔ اپنی آسانی کے لیے ہم اس کی تعریف کا خاکہ بنانے کی کوششیں بھی کرتے ہیں، لیکن کسی بھی ادبی صنف کی تعریف کی طرح اس کی بھی کوئی حتمی تعریف ممکن نہیں۔ ‘‘ (کہ جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے، ص 12)
عتیق اللہ صاحب نے روایتی تکنیک سے گریز کرتے ہوئے سوانحی معلومات سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی ہے۔ اور زیادہ تر شخصیت کے ساتھ ادبی پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔ ان خاکوں میں شوخیاں بھی ہیں اور شاید کچھ شرارتیں بھی۔دوستوں سے چہل بازی بھی ہے، طنز و مزاح کی جھلکیاں بھی ہیں، صرف خوبیاں نہیں کچھ خامیاں بھی ہیں اور کچھ خاکے تو ایسے ہیں جن میں گھریلو الجھنوں کو بھی بہت ہی سلیقے سے بیان کیا ہے۔
اس کتاب کا پہلا خاکہ خواجہ احمد فاروقی پر ہے۔ ان کی ذات و صفات کو دیکھیے، انھوں نے کتنے خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے:
’’…کچھ دیر ہی میں ان نوجوانوں میں کھلبلی مچ گئی کہ خواجہ صاحب تشریف لارہے ہیں۔ سب تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ خواجہ صاحب پرنسپل صاحب کے ساتھ وارد ہوئے تھے اور دو قدم ان سے آگے چل رہے تھے۔ ان کی چال سے اردو استاد کے بجائے آئی اے ایس آفیسر کا تاثر ابھر رہا تھا۔ چہرے پر ایک خفیف سی طنز آمیز مسکراہٹ چسپاں تھی۔ سن زیادہ رہے تھے بولنے میں تامل برت رہے تھے۔ ان کی آنکھیں نسبتاً غزال نما تھیں اور ان میں ایک عجیب سی چمک محسوس کررہا تھا۔ خواجہ صاحب کی نظریں سامنے اپنی منزلِ مقصود پر تھیں۔ ‘‘(ایضاً، ص 14)
شمس الرحمن فاروقی مرحوم نے اردو ادب میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، ان کا اعتراف پوری اردو دنیا کو ہے۔ وہ اعلیٰ پایے کے ناقد اور محقق تو تھے ہی، ایک تخلیق کار کی حیثیت سے بھی انھوں نے اپنا لوہا منوایا۔ ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ جیسا مشہور ناول انہی کی تخلیق ہے۔ شاعر اور مترجم کی حیثیت سے بھی انھوں نے اپنی منفرد شناخت بنائی۔ ماہنامہ ’شب خون‘ کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ اس رسالے کے ذریعیشمس الرحمن فاروقی نے ’جدیدیت‘ کی بنیاد ڈالی۔ یہ رسالہ تواتر کے ساتھ 40برسوں تک شائع ہوتا رہا۔ فاروقی صاحب کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں پروفیسر عتیق اللہ نے انھیں ’استاد ہمہ وقت‘ جیسے لقب سے ملقب کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ ایک خودساختہ مشن کے تحت تنقید کے ذریعے ذہن سازی کو انھوں نے اپنا مقصود بنایا اور اردو ادب کے قاری کو ادب فہمی کے ہزار طریقے بتاتے رہے۔ انھوں نے ہر سطح پر ایک استاد کا کردار ادا کیا۔ جو تنبیہ کرتا ہے، ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور جابجا چمکارتا بھی ہے۔ فاروقی آخری لمحے تک اپنے مشن پر قائم رہے۔ ہمیشہ اوور لوڈیڈ رہے جب عارضہ قلب نے آدبوچا تو بھی اپنے مشن سے تساہل نہیںبرتا۔ ان کی زندگی میں ماندگی کا وقفہ کبھی نہیں آیا۔ انھوں نے درحقیقت اپنے سرتاپا وجود کو ادب کے لیے نہ صرف وقف کردیا تھا بلکہ یہ ثابت کردکھایا کہ ایک زندگی میںکئی زندگیوں کے برابر کتنا سیکھا اور سکھایا جاسکتا ہے۔ فاروقی کسی ایک دورکے معلم نہیں تھے بلکہ میں انھیں ’استاد ہمہ وقت‘ کہا کرتا تھا اور یہی لقب ان کے شایانِ شان بھی ہے۔ ‘‘(ایضاً، ص 31)

جوگندرپال ان کے ہمعصر بھی تھے اور ان سے دوستانہ مراسم بھی تھے۔ ان کے ساتھ جو محفلیں سجتی تھیں ان کا نقشہ انھوں نے بہت خوبصورت انداز میں کھینچا ہے:
’’پال اورنگ آباد کے ایک معروف مقامی کالج میں پرنسپل تھے۔ نیروبی (افریقہ) کی پینشن مٹھیاں بھر بھر کے مل رہی تھیں۔ پال کی تقدیر پر رشک آتا، مگر ان کی خالی جیب دیکھ کر بڑی کوفت بھی ہوتی۔ گاڑی گھنی ذمہ داریوں میں اٹا ہوا پال اکثر سرکس کے بوڑھے شیر کی طرح لنج پنج نظر آتا۔ پال کہتے’’اب جب کہ ہر طرح سے فارغ البال ہوں، حج کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر عتیق کیا تمہارے مسلمان اجازت دیں گے۔‘‘ پال کے اس سوال اور خیال پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ’’اجازت تو بعد کی بات ہے پال صاحب پہلے یہ دیکھیے آپ کی جیب بھی اجازت دینے کے لیے تیار ہے کہ نہیں۔ آجکل حج کے لیے لاکھوں سے کم صرفہ نہیں آتا۔‘‘
’’باسٹرڈ، تم مجھے جانے کیا سمجھتے ہو۔ارے بھائی خدا کی قسم میں قلندر طبیعت رکھتا ہوں۔میں نے جو کچھ کیا ہے انہی بال بچوں کے مستقبل کے لیے ورنہ آگے چل کر یہی بدمعاش مجھے گالیاں دیں گے …‘‘ (ایضاً، ص22-23)
قمر رئیس پر تو اتنے مزاحیہ انداز میں خاکہ لکھا ہے کہ رشید احمد صدیقی کے ایک جملے کی وجہ سے قمر رئیس صاحب کی شخصیت کا ایک بہت ہی خوبصورت پہلو سامنے آجاتا ہے۔ جب انھوں نے اپنی پی ایچ ڈی کا پہلا باب تیار کرکے رشید احمد صدیقی کوپیش کیا توعتیق اللہ صاحب نے اس کی بہت ہی خوبصورت منظر کشی کی ہے:
’’انھوں (قمر صاحب)نے بڑے اطمینان و اعتماد کے ساتھ وہ باب اپنے استاد کو پیش کیا اور داد طلب سماعت کھلی رکھی۔ انتظار کرتے رہے مگر استادِ محترم کی زبانِ خاموش جب کچھ دیر تک نہیں کھلی اور ان کی نگاہیں پہلے ہی صفحے پر جمی رہیں تو قمر صاحب کو کچھ شبہ ہوا اور انھوں نے بے چینی کے ساتھ پوچھا ڈاکٹر صاحب کیا بہت خامیاں ہیں؟‘‘ یہ تو بعد کا مرحلہ ہے۔ پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ پاؤں سے کیسے لکھ لیتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر قمر صاحب کو بھی ہنسی آگئی۔ رشید صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ کی خوشبو، دیکھ کر قمر صاحب بھی شرمندگی کے جھٹکے سے بال بال بچ گئے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت سے آج تک میں خوش خطی کی مشق کرتا رہتا ہوںلیکن پیروں سے لکھنے کی عادت ایک بیماری بن گئی ہے۔‘‘(ایضاً، ص 55)

شیخ عصمت جاوید بھی ان کے خاص دوستوں میں تھے۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں وہ جس درد و کرب سے گزرے اس درد کو عتیق اللہ صاحب نے جو زبان دی ہے اسے پڑھ کر سنگ دل لوگوں کی آنکھیں بھی نم ہوجائیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بڑی شفقت سے پوچھتے عتیق اللہ آپ کا کیا خیال ہے۔ صادق کیسے ہیں، آپ لوگ بہت یاد آتے رہتے ہیں۔ ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ دروازے کے باہر اوپر کی سیڑھیوں سے ان کا بیٹا فیصل اپنی گردن موڑے ہوئے تیزی کے ساتھ نکل گیا۔ بھابی نے کہا عتیق صاحب دیکھیں یہی وہ بچہ ہے نا جسے اپنا دودھ ہی نہیں خون پلا پلا کر بڑا کیا تھا۔ ان کے لیے ہم نے اپنی ہڈیوں کو سکھا دیا تھا، سارا عیش و آرام تگ دیا تھا، راتوں کو رات نہیں سمجھا اور دن کو دن نہیں۔ یہی بچہ بالغ ہوکر، تعلیم پاکر، معزز روزگار پاکر، شادی کے بعد اپنا رخ اتنا بدل لے گا یہ وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ شیخ صاحب نے پھر ایک فارسی کی رباعی سنائی کہ تمھارا صرف حال ہے نہ کوئی ماضی تھا اور نہ کوئی مستقبل‘‘۔ (ایضاً، ص 122)
درد و غم کی اسی کیفیت کا اظہار آمنہ بائی المعروف اطہر دانی کے خاکے میں ملتا ہے۔ انھوں نے اداسی کے اس رنگ کو دیکھیے کس حزنیہ آہنگ میں پیش کیا ہے:
’’آمنہ بائی کیا گئیں ایسا لگا گھر ہی کا کوئی فرد رخصت ہوگیا۔ ہماری اماں کی وہ بہت لاڈلی تھیں۔ آج بھی جب ان کا خیال آتا ہے تو اماں کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے رشتوں کی مہک دائمی ہوتی ہے۔ اس مہک میں اداسی کا بھی کچھ رنگ شامل ہوا کرتا ہے، اسے میں کبھی گنوانا نہیں چاہتا، یہ بڑا مقدس ہے۔‘‘(ایضاً، ص 198)
عتیق اللہ صاحب کے خاکے اسلوب اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی عمدہ ہیں۔ خاکوں میں اس قدر تسلسل اور روانی ہے کہ قاری کسی خاکہ کو شروع کرنے کے بعد ختم کرکے ہی دم لے گامیری ذاتی رائے ہے کہ عتیق اللہ صاحب کے یہ خاکے قارئین کو چونکانے کے ساتھ مہمیز بھی کریں گے۔

اس کتاب کے مرتب فاروق مضطر صاحب جو ایک بہترین شاعر اور ادیب ہیں ۔ ’دبستان ہمالہ‘ اور’آبشار‘ جیسے رسالے کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے ’عرض مرتب‘ کے تحت لکھا ہے کہ:
’’عتیق اللہ نے محض شخصیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ وہ شخصیت کے ظاہری پہلوؤں کے ساتھ باطنی پہلوؤں کو بھی کرید کرید کر سامنے لاتے ہیں۔ ان میں وہ احباب بھی ہیں جن کے ساتھ ان کا رویہ لبرل ہے، کہیں مزاح کی چٹکی بھی لی ہے اور کہیں ان کے ادبی کارناموں کا مختصر جائزہ بھی لیا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 6)
فاروق مضطر صاحب شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے عتیق اللہ صاحب کے ان خاکوں کو کتابی صورت میں شائع کرکے انھیں ضائع ہونے سے بچا لیا اور قارئین کو ایک قیمتی سرمایے سے روبرو کرایا۔
198صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔ سرورق نہایت دیدہ زیب ہے۔ دبستانِ ہمالہ، راجوری (جموں اینڈ کشمیر) کے زیراہتمام اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ خاکوں سے شغف رکھنے والے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں گے۔

You may also like