Home خاص کالم خدائی فوج دار-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

خدائی فوج دار-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

 

کل اودے پور (راجستھان) میں قتل کا جو واقعہ پیش آیا ہے اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے اور اسلام کی بھی بہت غلط ترجمانی کی ہے _ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمان کوئی کام اللہ کے رسولﷺ کی محبت کے دعوے کے ساتھ انجام دے اور وہ کام ایسا ہو جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ناراض کرنے والا اور ان کے غضب کو بھڑکانے والا ہو۔

 

اللہ کے رسولﷺ کی پاکیزہ سیرت پر حملے وقتاً فوقتاً عالمی سطح پر کیے جاتے رہے ہیں اور اپنے ملک میں بھی ایسی وارداتیں انجام دی جاتی رہی ہیں ۔ ایک ماہ قبل ایک بدبخت نے ذاتِ نبوی کے بارے میں بدگوئی کی _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس کے خلاف سخت کارروائی کرتی اور اسے سزا دیتی _ یہ تو نہ ہوا ، البتہ جس صحافی نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس معاملہ کو اٹھایا تھا اسے گرفتار کرلیا گیا ، جن مسلمانوں نے اس پر احتجاجی مظاہرے کیے ان پر پولیس نے گولیاں چلائیں ، جس سے بہت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ، بہت سوں پر جھوٹے الزامات لگاکر داخلِ زنداں کردیا ، متعدد افراد کے گھر مسمار کردیے گئے _ دوسرے الفاظ میں ذاتِ رسالت پر بد زبانی کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دی گئی اور آپ سے محبت کا اظہار اور بدزبانی پر احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو مجرم قرار دیا گیا۔

 

لیکن اگر حکومتِ وقت اہانتِ رسول کے مرتکب کو قرارِ واقعی سزا نہ دے رہی ہو تو کیا مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ اپنے طور پر اس کے لیے کوئی سزا تجویز کر دیں؟ اور کوئی مسلمان حق رکھتا ہے کہ آگے بڑھ کر اسے قتل کردے؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں :

 

(1) کسی بھی مذہب کی محترم شخصیات کی اہانت کرنا درست رویّہ نہیں ہے _ اسلام کا نقطۂ نظر اس سلسلے میں بالکل واضح اور دوٹوک ہے _ قرآن مجید میں ہے :”اور(اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو(الانعام : 108) حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تمام مذاہب اور ان کی مقدّس شخصیات کا احترام کرنے کی تلقین کرے اور کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اسے سخت سزا دے۔

 

(2) اسلامی ریاست میں کسی شخص کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی اہانت کرے ، خواہ وہ مسلمان ہو ، یا وہاں رہنے والا کوئی غیر مسلم (ذمّی) _قرآن مجید میں ہے : ” اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیّت پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے ۔“(التوبۃ :61) اہانتِ رسول کی سزا قتل ہے ، اس پر تمام مفسّرین ، محدّثین ، فقہاء اور علماء کا اتفاق ہے _ جو شخص بھی جان بوجھ کر اللہ کے رسولﷺ کی اہانت کرے گا اور اس پر اصرار کرے گا اسے گرفتار کیا جائے گا ، عدالت میں پیش کیا جائے گا ، اس کے معاملے کی تحقیق کی جائے گی اور جرم ثابت ہونے پر اسے قتل کردیا جائے گا _ اسلامی ریاست اس معاملے میں پابند ہوگی کہ وہ قانون کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد سزا نافذ کرے۔

 

(3) کسی مسلمان کو کسی بھی صورت میں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر کسی شخص کو اہانتِ رسول کا مجرم قرار دے اور پھر اس کی گردن اڑا دے۔ یہ حق اسے اسلامی ریاست کی حدود میں بھی نہیں دیا گیا ہے اور کسی غیر اسلامی ، سیکولر یا جمہوری ملک میں بھی اسے یہ حق حاصل نہیں ہے _ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ اگر اس کی نظر میں کوئی شخص اہانتِ رسول کا ارتکاب کررہا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اس کی شکایت کرے ، عدلیہ میں اس کا کیس لے جائے ، حکومت کو اس جانب متوجہ کرے اور ایسے شخص کو قرارِ واقعی سزا دلوانے کے لیے تمام ذرائع ، طریقے اور تدابیر اختیار کرے ۔ لیکن اسے اس کا حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ خود ہی جج بن جائے اور خود ہی جلّاد بھی۔

مسلمانوں کو اللہ کے رسول ﷺ سے جذباتی تعلق ہے ۔ آپ پر ایمان کا تقاضا ہے کہ آپ سے اپنے ماں باپ ، اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبت کی جائے۔ کسی ناعاقبت اندیش اور بد بخت کے ذریعے آپ کی اہانت مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی ہے ، لیکن اس کے ردِّ عمل میں کوئی مسلمان کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے جس کی اس کے دین میں اجازت نہیں دی گئی ہو تو یہ اللہ کے رسول ﷺ سے سچّی محبّت نہیں ہے۔ یہ جھوٹی محبّت ہے ، جس سے ہر مسلمان کو لازماً اجتناب کرنا چاہیے۔

You may also like

Leave a Comment