Home نقدوتبصرہ کوثرمظہری کی مرتب کردہ کتابوں کا تنقیدی مطالعہ-محمد اکرام

کوثرمظہری کی مرتب کردہ کتابوں کا تنقیدی مطالعہ-محمد اکرام

by قندیل

کوثر مظہری کی شناخت کے کئی حوالے ہیں۔ درس و تدریس کے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ وہ ادبی دنیا میں بھی فعال اور سرگرم ہیں۔ ادب میں ان کی شناخت ناقد، محقق، شاعر، ناول نگار اور مترجم کے طور پر ہے۔ مرتب کی حیثیت سے بھی کوثرمظہری کا نام نمایاں ہے۔ اس ضمن میں جواز و انتخاب ، انتخاب کلام جمیل مظہری، مظہرجمیل، ’نئی نظم نیا سفر (1960 کے بعد)‘ ’ بنواس‘ اور نئی نظم نیا سفر (1960کی بعد) قابل ذکر ہیں۔
پہلی کتاب ’جواز و انتخاب‘ (80 اور بعد کی غزلیں) ہے۔ اس کی اشاعت 2001میں ہوئی ہے۔ اس کتاب کی خاص بات کوثر مظہری کا طویل مقدمہ ہے۔ اسے انھوں نے دو چہروں میں منقسم کیا ہے۔ پہلا چہرہ: جدیدیت وجودیت کا چہرہ اور دوسرا : مابعد جدیدیت جھوٹا سچ ہے۔ دونوں چہروں کے حوالے سے بیباکانہ انداز میں مفصل اور مبسوط گفتگو کی گئی ہے۔ پہلے حصے میں انھوں نے جدیدیت، وجودیت کے معانی و مفاہیم پر بات کی ہے۔ جدیدیت کیا ہے اور جدیدیت کے وجود میں آنے کا پس منظر کیا ہے۔ اس بارے میں ہندوستانی اور مغربی مفکرین کی کیا سوچ ہے ان تمام پر اچھی گفتگو کی گئی ہے۔ انھوں نے مغرب اور مشرق کی بیداری اور بالیدہ سوچ کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے۔ نہ جانے کیوں ہم ہندوستانی ہر میدان میں مغرب سے بہت پیچھے رہتے ہیں۔ چاہے وہ سائنس وٹیکنالوجی اور جدیدترقیات کا معاملہ ہو یا پھر ادب کا ، ہم نصف صدی سے بھی پیچھے رہتے ہیں۔نظریہ جدیدیت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ مغرب میں اس نظریے کی شروعات 1890 میں ہی ہوگئی جب کہ ہمارے اس نظریے کے ختم ہونے کے کئی برسوں بعد میں شروعات ہوتی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ ہندوستان میں جدیدیت کی بنیاد 1960 کے آس پاس پڑی تھی۔ کوثر صاحب بعد میں وجودیت اور داخلیت پر بھی بحث کی ہے کہ وجودیت کب اپنے معانی و مفاہیم سے نکل کر داخلیت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس تعلق سے کوثر مظہری نے پروفیسر لطف الرحمن کا حوالہ دیا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’جدیدیت کی جمالیات‘ میں لکھتے ہیں:
’’ایک سائنس داں کے لیے ایک ڈوبتا ہوا بچہ محض ایک گوشت پوست اور خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہاں اس کے جذبات ساکت ہوتے ہیں، مگ رجونہیاسے معلوم ہوتا ہے کہ ڈوبنے والا بچہ اسی کا اپنا بیٹا ہے تو صورت حال یک لخت بدل جاتی ہے اور وہ فوراً بچے کی جان بچانا چاہتا ہے۔ یہی ہے داخلیت۔‘‘
(جواز وانتخاب، ص 14 بحوالہ جدیدیت کی جمالیات، ص 84)
دوسرا چہرہ ’مابعد جدیدیت: جھوٹا سچ‘ ہے۔ یہ نظریہ بھی کافی پیچیدہ ہے۔ مانا یہ جاتا ہے کہ ادب میں اس کی بنیاد جدیدیت کے رد عمل کے طور پر پڑی ہے۔ ادب میں جب بھی کسی نئے نظریے یا تحریک کا آغاز ہوتا ہے ، تو بہت بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب ایک انقلاب برپا ہوجائے گا۔ مگر جیسے جیسے اس نئے نظریے یا تحریک سے لوگ روشناس ہوتے جاتے ہیں، ویسے ویسے اس کی قلعی کھلتی جاتی ہے۔ تقریباً یہی حال مابعد جدیدیت کا بھی ہے۔ اس نظریے کے آغاز سے پہلے جدیدیت کی جس طرح سے چوطرفہ مذمت کی گئی، ایسی صورت حال کبھی نہیں دیکھی گئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ادب میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں، ہر عہد کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، انھیں ملحوظ خاطر رکھ کر ہی ادب لکھا جاتا ہے۔ بہرحال مابعد جدیدیت میں جتنے بھی دعوے کیے گئے وہ بعد میں کھوکھلے ثابت ہوئے۔
اگر جدیدیت نے ادب خاص طور پر شاعری کو نقصان پہنچایا ہے تو ’مابعد جدیدیت‘ بھی کچھ اس سے پیچھے نہیں ہے۔ مابعد جدیدیوں کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے پرانی تمام تعریفوں کو مسترد کردیا۔ جس کا اثر انسانی شناخت پر بھی پڑا۔ میری ناقص رائے میں مابعد جدیدیت نے ’آزادی‘ کے نام پر سب سے بڑا دھوکہ ادب کے ساتھ یہ کیا کہ ہر ایرے غیرے کو شاعر بنا دیا۔ شاعری کو قواعد کے تمام بندھنوں سے آزاد کردیا، بس یہ ضروری ہوگیا کہ بات سمجھ آجائے کہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے، ساتھ ہی انھوں نے شعری اصناف پر بھی بہت زور دیا۔ دوسری بڑی خرابی یہ کہ ان کا دعوا تھا کہ گھٹن بھرے ماحول سے نکال کر صاف اور شفاف فضا میسر آئے گی، یہ دعویٰ بھی جھوٹا ہی ثابت ہوا۔ میرے خیال میں آج ہمارے سماج میں پہلے سے کہیں زیادہ خوف و حراس اور ڈر کا ماحول ہے، پہلے سے زیادہ گھٹن بھری زندگی آج لوگ جی رہے ہیں۔ جب سماج کی یہ حالت ہے تو بھلا ادب اس سے کیسے بچ سکتا ہے۔ اس طرف کوثر مظہری نے اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’آج کا آدمی بھی تنہائی کا شکار ہے آج بھی خوف وہراس ہے ۔رشتوں کی شکست و ریخت جیسے موضوعات آج بھی ہیں۔ البتہ ہماری شاعری میں ،ہمارے ادب میں اہمال و ابہام کی پرتیں اتنی دبیز نہیں رہ گئی ہیں…‘‘(جواز و انتخاب، ص 35)
مابعد جدیدیوں نے اہمال و ابہام کو شاعری کے لیے سم قاتل سمجھا ہے۔ شاید اس میں مبالغہ آرائی ہے۔ شاعری میں ابہام کو بہت سے مفکرین نے ضروری امر قرار دیا ہے۔ ہاں اس کے کچھ حدود بھی متعین کیے گئے ہیں، مفکرین کا ماننا ہے کہ شاعری میں ابہام اس تک ضروری ہے کہ وہ علامت نہ بن جائے۔ میرا جی، ن م راشد، اختر الایمان، مجید امجد وغیرہ جیسے عظیم شاعروں کے یہاں ابہام کی کثرت ہے۔ اردو کے علاوہ انگریزی میں ایذرا پاؤنڈ اور ٹی ایس ایلیٹ کی شاعری میں بھی ابہام کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ابہام کے معتقدین کا ماننا ہے کہ اگر شاعر کو پڑھتے ہی اس کی تمام پرتیں آسانی سے کھل جائیں تو پھر وہ شاعری کہاں رہ گئی ہے۔ تھوڑا سسپنس تھوڑا ابہام بہت ضروری ہے۔
اگر کوئی نظریہ یا تحریک کسی نظریے کے رد کے طور پر وجود میں آتی ہے تو اس کا ایک واضح منشور بھی ہونا چاہیے۔ جیسے ’جدیدیت‘ کا کوئی واضح منشور نہیں تھا تقریباً یہی صورت حال ’مابعد جدیدیت‘ کے ساتھ بھی ہے۔ مغرب میں اس کی جو واضح اور جامع تعریف کی گئی ہے وہ ہے ’صورت حال‘۔ ’مابعد جدیدیت‘ کا اطلاق تہذیب و ثقافت یعنی کلچر سے ہوتا ہے۔ اگر مغرب تہذیب و ثقافت اور تمدن کے اعتبار سے اعلی و ارفع ہے تو یہ اس اصطلاح صرف وہیں تک محدود ہے۔ اس ضمن میں بعد جدیدیت کے حوالے سے لیوتار کی کتاب The Postmodern condition قابل ذکر ہے۔ کوثر صاحب مابعد جدیدیت کی تعریف لفظ ’صورت حال‘ پر مثالوں کے ذریعے مدلل روشنی ڈالی ہے۔ ’مابعد‘ کی اصطلاح کے مفہوم میں خود پروفیسر گوپی چند نارنگ بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مابعد جدیدیت کا تصور ابھی زیادہ واضح نہیں ہے اور اس میں اور پس ساختیات میں جو رشتہ ہے ، اس کے بارے میں بھی معلومات عام نہیں… لہٰذا پس ساختیات کا زیادہ تعلق تھیوری سے ہے اور مابعد جدیدیت کا معاشرے کے مزاج اور کلچر کی صورت حال سے ہے، تاہم ایسا نہیں ہے کہ مابعدجدیدیت کو تھیوری دینے یا نظریانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ ایسی کچھ کوششیں ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔‘‘
(ایضاً، ص 26 بحوالہ اردو مابعد جدید ایک مکالمہ، ص 19)
اس اقتباس سے یہ سوال ضرور قائم ہوتا ہے کہ جب نارنگ صاحب اس اصطلاح کے بارے میں خود ہی انتشار و تذبذب کے شکار تھے تو پھر ’جدیدیت‘ کے حشر کو دیکھتے ہوئے انھیں کیا پڑی تھی کہ ’مابعدجدیدیت‘ کی اصطلاح کو ادب میں مروج کیا جائے۔ مستقبل میں اردو ادب کو ’مابعد جدیدیت‘ سے فائدہ ہوگا یا نقصان، اس تعلق سے کوثر صاحب لکھتے ہیں:
’’…دیکھاجائے تو ’مابعدجدیدیت‘ اردو والوں میں آکر بری طرح پھنس گئی ہے۔ جدیدیت بھی پھنس گئی تھی مگر خیر، وہ بخیر و خوبی بیس پچیس برسوں میں واپس چلی گئی مگر اس ’بتِ ہزار شیوہ‘ (مابعد جدیدیت) کا کیا ہوگا؟ کیا اس کی عشوہ طرازیوں سے اردو کا کچھ بھلا ہوسکے گا؟ اردو شعر و ادب کے ماتھے کا ستارہ مزید درخشاں ہوسکے گا؟ جس طرح جدیدیت کے لیے وجودیت اساس بنی اسی طرح اس ’مابعد جدیدیت‘ کے لیے مکالمے یعنی Discourse کو بنیاد تصور کیا گیا ہے۔ یہ لفظ مکالمے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیا یہ مکالمہ وہی ہے جو Dialogue ہے، شاید نہیں…‘‘(ایضاً، ص 26)
’جواز و انتخاب‘ میں صاحب مرتب نے مقدمے کے علاوہ 39 غزل گو شعراکو اس کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ ان شعرا میں عبدالاحد ساز، سجاد سید، ابراہم اشک، شہباز ندیم ضیائی، فرحت احساس، شمیم طارق، اظفر جمیل، راشد جمال فاروقی، مہتاب حیدر نقوی، شہپر رسول، اسعد بدایونی، ارشد عبدالحمید، رئیس الدین رئیس، عقیل نعمانی، راشد طراز، خورشید اکبر، عالم خورشید، فاروق انجینئر، ملک زادہ جاوید، شکیل جمالی، شمس رمزی، عمران عظیم، جمال اویسی، سلیم انصاری، عطا عابدی، ریاض لطیف، نعمان شوق، احمد محفوظ، سراج اجملی، رسول ساقی، نوشاد احمد کریمی، مشتاق صدف، طارق متین، ظہیر رحمتی، خالد عبادی، شکیل اعظمی،راشد انور راشد، سرورالہدیٰ، عادل حیات شامل ہیں۔ واضح رہے کہ کتاب میں صرف مرد غزل گو شعرا شامل ہیں۔ ہر شاعر کی تاریخ پیدائش کے لحاظ سے فہرست سازی کی گئی ہے۔ تمام شعرا کے سوانحی کوائف کے ساتھ آٹھ آٹھ غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ ہر شاعر پر کسی نہ کسی کا مضمون بھی شامل ہے۔ ان مضامین میں شاعر کے غزلیہ پہلوکوہی گفتگو کا حصہ بنایا گیا ہے۔ 10 شعرا ایسے ہیں جن پر کوثر صاحب نے خود مضمون تحریر کیے ہیں۔ ’جواز و انتخاب‘ کی بھی ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی ہے۔
دوسری کتاب ’انتخاب کلام جمیل مظہری‘ ہے۔ اس کی اشاعت ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام2011 میں ہوئی ہے۔ یہ کتاب مجموعی طور پر 312 صفحا ت پر محیط ہے۔ کتاب کی شروعات کوثر صاحب کے مقدمے سے ہوتی ہے۔ اسے کتاب کا پہلا حصہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ 74 صفحات پر مشتمل اس مقدمے میں سب سے پہلے ’رنگ حیات‘ کے تحت جمیل مظہری کی پیدائش، بچپن، تعلیم و تربیت اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے بعد ان کی نظم نگاری، غزل گوئی، مرثیہ نگاری اور مثنوی نگاری کے حوالے سے بہت جامع اور مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرا حصہ شاعری کے انتخاب کا ہے جس میں جمیل مظہری کی مشہور نظمیں، غزلیں، مرثیے، قصیدہ، مثنوی، رباعیات شامل ہیں۔ اس انتخاب کے تعلق سے کوثر صاحب مقدمے کے آخر میں لکھتے ہیں:
’’جمیل مظہری کے تخلیقی وجدان اور فکری اجتہاد پر میں نے جو بھی روشنی ڈالی ہے وہ قارئین کی خدمت میں پُرخلوص جذبے کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔ اندازہ یہ ہوا کہ جمیل مظہری کا تخلیقی تناظر مزید مطالعے اور تجزیے کامتقاضی ہے۔‘‘ (انتخاب کلام جمیل مظہری، ص 72)
ایسا نہیں ہے کہ کوثر صاحب کے اس انتخاب کے بعد جمیل مظہری کے کلام پر مزید کسی انتخاب کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کوثر صاحب نے جن نظموں، غزلوں اور مرثیے کو اپنے انتخاب کا حصہ بنایا ہے، دوسرا مرتب بھی انہی کو اپنے انتخاب کا حصہ بنائے۔ اصل میں ترتیب کے بھی کئی طریقے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مرتبین کے انتخاب کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ جس کے کلام کا انتخاب تیار کیا جارہا ہے اس کے مشہور کلام اس کا حصہ بن جائیں۔ مگر بعض مرتبین کی سوچ اس سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ وہ اس شخص کے ان کلام پر بحث کو بامعنی بتاتے ہیں جن پر لوگوں نے کم لکھا ہے یا بیکار سمجھ کر اسے نظر انداز کردیا ہے یا ادب میں ایسے کلام پربحث کو تضیع اوقات میں شمار کرتے ہیں۔ بہرحال یہ بھی ایک موضوع ہے جس پر طویل بحث ہوسکتی ہے۔ جمیل مظہری کی ادبی خدمات کے وسیع دائرے کو دیکھتے ہوئے اس انتخاب کی اشد ضرورت تھی۔ اس لحاظ سے کوثر صاحب کی یہ کاوش لائق ستائش بھی ہے اور لائق تقلید بھی۔
تیسری کتاب ’مظہرجمیل‘ ہے۔ 504 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی اشاعت 2013میں ہوئی ہے۔اس کا بہت جلد دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا۔ 2014 میں عرشیہ پبلی کیشنز کے زیراہتمام اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن منظرعام پر آیا۔ اس میں مقدمے اور سمینار کی رپورٹ کے علاوہ کل 37مضامین شامل ہیں۔ ’ابتدائیہ‘ کے تحت 3 مضامین، ’نظم نگاری‘ 7، ’غزل گوئی‘ 4، ’مرثیہ نگاری‘ 3، ’مثنوی‘ 2، ’رباعی نگاری‘ 1، ’قصیدہ نگاری‘ 1، ’ظریفانہ شاعری‘ 1، ’فکشن نگاری‘ 2، ’فکاہات‘ 2، ’تنقید نگاری‘ 3، ’تجزیے‘ 4، ’دیگریات‘ 3، ’انٹرویو‘1، شامل کتاب ہیں۔ آخر میں ’سمینار کی رپورٹ‘ کے تحت ’علامہ جمیل مظہری دہلی‘ میں ابوظہیر ربانی نے اچھی رپورٹنگ کی ہے۔ جمیل مظہری کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اسے کسی ایک کتاب میں یا سمینار میں سمیٹنا بہت مشکل کام ہے۔ ایسی شخصیت پر گفتگو کا سلسلہ جتنا دراز ہوگا ، اتنی ہی پرتیںکھلتی جائیں گی۔ ان کے حوالے سے کوثر صاحب کے سمینار اور پھر کتاب کا مقصد شاید ان کی شخصیت اور خدمات کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرنا تھا۔ اس حوالے سے کوثر صاحب ’مظہرجمیل‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ جمیل مظہری کی ادبی حیثیت ایسی ہے کہ ان پر وقتاً فوقتاً گفتگو ہوتی رہنی چاہیے۔ ان کی ادبی نگارشات کی اتنی جہتیں ہیں کہ اگر ان کا احاطہ ایمانداری سے کیا جائے تو کم ازکم پچاس مقالے درکار ہوں گے اور میں یہ بات بلامبالغہ کہہ رہا ہوں اور ذمّہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔‘‘
(مظہرجمیل، ص 9)
جمیل مظہری کی شخصیت اور ادبی خدمات پر یہ بہت مفصل اور جامع کتاب ہے۔ کوثر صاحب کی برسوں سے یہ خواہش تھی کہ اس حوالے سے ایک ضخیم کتاب تیار کی جائے، سویہ خواہش پوری ہوگئی۔ اس کتاب کا خاکہ ان کے ذہن میں بہت پہلے سے موجود تھا جسے جلا بخشنے میں سمینار نے کلیدی رول ادا کیا۔ یہ دو روزہ سمینار27-28 اپریل 2012 کو منعقد کیا گیا تھا۔ سمینار میں پڑھے گئے مقالوں اور کچھ دیگر مضامین کو کتابی صورت میں ’مظہرِجمیل‘ کے نام سے شائع کرایا گیا۔ حسب عادت کوثر صاحب نے اس کتاب کے لیے بھی طویل مقدمہ تحریر کیا ہے۔ کتاب میں شامل سبھی مضامین کا کوثر صاحب نے بھرپور نچوڑ پیش کیا ہے۔ اگر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ پوری کتاب کا مطالعہ کرسکے، تو اسے اس مقدمے کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
چوتھی کتاب ’نیا ناول نیا تناظر‘ ہے۔مظہر فاؤنڈیشن انڈیا (رجسٹرڈ)، دہلی کے زیراہتمام یہ کتاب 2021 میں قومی اردو کونسل، نئی دہلی کے مالی تعاون سےمنظرعام پر آئی۔ 536 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت محض 308روپے ہے۔ کوثرمظہری کے علاوہ اس کتاب کے مرتبین میں امتیاز علیمی کا نام بھی درج ہے۔ ’اردو ناول اکیسویں صدی میں ( کوثر مظہری)، ’ناول اور ہم‘ (خالد جاوید)، ’اکیسویں صدی میں اردوناول ‘ (مولا بخش)، ’اکیسویں صدی میں ناول کی اہمیت، انکشافات اور امکانات‘ (ابوبکرعباد)، ’مکالمہ اکیسویں صدی کے ناولوں پر‘ (امتیاز احمد علیمی) کے علاوہ 35 ناولوں پر تجزیے شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں کئی چاند تھے سرآسماں:شمس الرحمن فاروقی (تجزیہ نگار: رشید اشرف)، بنارس والی گلی: فیاض رفعت(شہزاد انجم)، اگر تم لوٹ آتے: آچاریہ شوکت خلیل (واحد نظیر)، بُلّہا کیہ جاناں میں کون: ذکیہ مشہدی (شہناز رحمن)، چمرا سُر:شموئل احمد (ابوبکرعباد)، اماوس میں خواب: حسین الحق (شہاب ظفر اعظمی)، تِلک الایّام:نورالحسنین (خان حسنین عاقب)، خواب سراب: انیس اشفاق (سفینہ بیگم)، مرز بوم: صدیق عالم (عبدالسمیع)، اجالوں کی سیاہی:عبدالصمد (ناظمہ جبیں)، عزازیل: یعقوب یاور (خان محمد رضوان)، مانجھی:غضنفر(امیرحمزہ)، پلیتہ:پیغام آفاقی (حقانی القاسمی)، راجدیو کی امرائی: صادقہ نواب سحر (راحت افزا)، آخری سواریاں:سید محمد اشرف (نورین علی حق)، میرے ہونے میں کیا برائی ہے:رینو بہل (نوشاد منظر)، فائرنگ رینج کشمیر1990: شفق سوپوری (محمد غالب نشتر)، اندھیرا پگ: ثروت خان (محمد شاہ نواز قمر)، نعمت خانہ: خالد جاوید (معید الرحمن)، برف آشنا پرندے: ترنم ریاض(سلمان فیصل)، اللہ میاں کا کارخانہ:محسن خان (محمد حنیف خان)، مرگ انبوہ: مشرف عالم ذوقی (امتیاز احمد علیمی)، ہجور آما: شبیر احمد (مقصود دانش)، صدائے عندلیب بر شاخ شب:شائستہ فاخری (نورالحسنین)، آسماں سے آگے:احمد صغیر(ابوظہیر ربانی)، آنکھ جو سوچتی ہے:کوثر مظہری (خالد جاوید)، لیمی نیٹیڈ گرل: اختر آزاد (محمد کاظم)، زباں بریدہ: آصف زہری (تفسیر حسین)، تخم خوں: صغیر رحمانی (ہمایوں اشرف)، میرے نالوں کی گمشدہ آواز: محمد علیم (محمد ریحان)، روحزن: رحمن عباس (عادل حیات)، اوڑھنی:نصرت شمسی (اسلم جمشیدپوری)، تعاقب:ممتاز عالم رضوی (علی احمد فاطمی)، خلش: سفینہ بیگم (محمد فرقان عالم)، لفظوں کا لہو: سلمان عبدالصمد (شمیم قاسمی) قابل ذکر ہیں۔
کتاب میں شامل پینتیس(35)مضامین میں سے بیس مضامین ایسے ہیں جو28,29 فروری 2020کو ’اکیسویں صدی میں اردو ناول:بدلتا منظر نامہ‘ کے عنوان سے مظہر فائونڈیشن انڈیا کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ قومی سمینار میں پیش کیے گیے تھے۔جس کی صدارت صاحب اسلوب فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے کی اور کلیدی خطبہ پروفیسر مولا بخش (مرحوم) نے پیش کیا تھا۔فائونڈیشن کے صدر پروفیسر کوثر مظہری نے تعارفی کلمات اور استقبالیہ پیش کیا تھا۔ یہ کتاب اسی سمینار کی روداد ہے۔ کوثرمظہری ناول کی محبوبیت، ضرورت، افادیت اور مقصدیت پیش نظر لکھتے ہیں:
’’مجھے اردو فکشن میں ناول زیادہ پسند ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں سے جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند آتی ہے وہ ہے اس کے متنوع کردار اور متنوع اسالیب۔ ایک ایسی چلتی پھرتی زندگی اور اس زندگی کے متعلقات و مشتملات سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس میں شریک کرلیتے ہیں۔ کہیں کہیں خود اپنی ہی شبیہ نظر آتی ہے تو کہیں اپنے پڑوسی کی اور کہیں اپنے رشتہ دارو ںکی۔ انسانی معاشرے کی نیکیاں اور بدقماشیاں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔ شعورِ ذات اور شعور فن کی ہم آہنگی سے زندگی کے متفرقات میں یکجائی نظر آنے لگتی ہے۔ پرت در پرت انسانی سرشت کا انعکاس ہوتا نظر آتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نیکیوں میں شرابور و سرشار کردار سامنے آتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک لُچّے، لفنگے، حرامی اور کمینگیوں میں ڈوبے ہوئے افراد دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ وسعت افسانے میں نہیں، شاعری میں نہیں۔ آپ کہیں گے داستان میں ایسے کردار ہوتے ہیں، مثنویوں میں بھی یہ چہرے ہوتے ہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ناول جیسی پرتیں نہیں ہوتیں …ــ ‘‘ (نیا ناول نیا تناظر، ص 7)
مذکورہ وجوہات کی بنا پر ہی ناول آج سب سے زیادہ لکھے جارہے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ یہ دور فکشن کا ہے، واقعی اس میں سچائی ہے۔ ناول سماج اور زندگی کے حقائق کی ہو بہو تصویر ہے، ناول ہی ہے جس میں منفی اور مثبت دونوں کردار پیش کیے جاتے ہیں۔ واقعی ناول ’سچ‘ کا واضح چہرہ ہے۔ یہ اور بات کی سچ کی تفہیم ذرا مشکل ہوتی ہے۔ خالد جاوید’ناول اور ہم‘ میں اس تعلق سے لکھتے ہیں:
’’ناول ہی یہ بات واـضح طو رپر ہمیں بتاتا ہے کہ کوئی بھی ’سچ‘ مطلق نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ دنیا کو پورا پورا کبھی نہیں سمجھا جاسکتا۔ دنیا ایک مبہم شے ہے۔ لہٰذا ناول میں ہمیشہ ’سچ‘ کی تلاش اور تفتیش کا عمل جاری رہتا ہے۔ سچ کی تلاش اور تفتیش کا یہ عمل ہمیں پہلی بار سروینٹس کے ’ڈان کیہوتے‘ میں نظر آتا ہے اس لیے ڈان کیہوتے کو آج دنیا کا پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔
ناول کی روح میں کبھی سہل پسندی نہیں شامل ہوتی اور نہ ہی اس میں چیزیں اتنی سادہ ہوسکتی ہیں جن کی توقع اکثر ناول سے کی جاتی ہے…ــــ‘‘ (ایضاً، ص 17)
کتاب کے دوسرے مرتب ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی ہیں جنھوں نے ’مکالمہ اکیسویں صدی کے ناولوں پر‘ تحریرکیا ہے۔ انھوں نے ناول کے بدلتے ہیئت و موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ساتھ ہی کتاب میں شامل ناولوں پر مختصراً گفتگو بھی کی ہے۔ ناول کی خصوصیات اور اس کے افادی پہلو کے تعلق سے ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی لکھتے ہیں:
’’ناول اپنے اندر زندگی کے رزمیہ اور بزمیہ دونوں پہلو رکھتا ہے۔اس میں المیہ اور طربیہ دونوں نوع کے عناصر کی گنجائش ہوتی ہے۔ اب یہ ناول نگار کے عمیق مطالعے، مشاہدے، اور تجربے پر منحصر ہے کہ اس کی نوعیت کیسی ہے۔جیسا مشاہدہ اور تجربہ ہوگا اور جتنا زیادہ حقیقی زندگی سے قریب ہوگاوہ اتنا ہی زیادہ کامیاب ناول نگار ہوگا۔اگر ناول کی بنیا د صرف تخیلات، تصورات اور غیرحقیقی عوامل پر ہوگی تو وہ ناول زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔کیونکہ قاری بہت زیادہ دیر تک حقیقت سے کوسوں دور صرف تخیلاتی دنیا میںایک خاص لمحے تک تو پرواز کر سکتا ہے مگر وہ زیادہ دیر تک اس پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔جب پرواز میں کوتاہی ہوگی تو قاری کا رشتہ ناول اور ناول نگار دونوں سے ختم ہوجائے گا …ــــ‘‘ (ایضاً، ص 81)
اردو ناول بالخصوص اکیسویں صدی میں تحریر کیے گئے ناولو ںپر ’نیا ناول نیا تناظر‘ دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔ ناول پر کام کرنے والے خاص طور پر طلبا؍طالبات کے لیے یہ کتاب بہت معلوماتی اور کارآمد ہے۔
چوتھی کتاب ’شکیل اعظمی کا بنواس : معاصرین کی نظر میں‘ ہے۔ یہ کتاب عرشیہ پبلی کیشنز کے زیراہتمام 2024میں منظرعام پر آئی ہے۔ شکیل اعظمی ایک عمدہ شاعر اور فلمی دنیا میں اچھے نغمہ نگار کے اردو ادب میں بھی وہ معروف مشہور ہیں۔ ان کی کتاب ’بنواس‘ نے تو انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔
شکیل اعظمی کے ’بنواس‘ پر بھی گفتگو یوں بھی ضروری ہے کہ آخر انھوں نے اس کتاب کا نام بنواس کیوں رکھا ہے۔ ان کے لاچار و مجبور بچپن، ان کی شخصیت اور ان کی شاعری سے جو لوگ واقف ہیں، انھیں تو کوئی حیرانی نہیں ہے، لیکن ایسے لوگ ضرور حیران ہوں گے جنھیں صرف شکیل اعظمی کی شاعری سے تو انسیت ہے، مگر ان کے درکھ بھرے بچپن اور ان کی شخصیت میں آئے اتار چڑھاؤ کا ادراک نہیں۔ شکیل اعظمی نے جہاں اپنی شاعری میں بہت سارے موضوعات کو برتا ہے، وہیں اپنے لاچاراور مجبور بچپن کو بھی نہیں بھولے ہیں:
کبھی بچپن میں میرے ساتھ کنچے کھیلا کرتی تھی
میں اب تک ہوں وہی بچہ، سیانی ہوگئی دنیا
شکیل اعظمی ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ان کی ماں اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔ ایسے میں سوائے باپ کے کوئی دوسرا سہارا نہیں تھا مگر باپ نے بھی دوسری اور تیسری شادی کے بعد شکیل اعظمی کو بھلا دیا۔ شکیل اعظمی کا واحد سہارا ننیہال تھا جہاں ان کا معصوم بچپن گزرا۔ ایسے میں وہ اپنے دکھ بھرے بچپن کو رام جی کے بچپن کے مشابہ سمجھتے ہیں۔ اس بات کی تائید جمال اویسی کے مضمون ’زندگی کے بنواس کا شاعر: شکیل اعظمی‘ سے بھی ہوجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے کیوں ایسا احساس ہوتا ہے کہ ’بنواس‘ کے بیانیے کے ذریعہ خود شکیل اعظمی کی ذاتی زندگی کے ارتعاشات منعکس ہوگئے ہیں (اور یہ بات وہی قاری محسوس کرسکتا ہے جس نے شکیل اعظمی کی پوری زندگی ان کی نظموں اور غزلوں کی گاتھا کے ذریعہ سمجھی اور محسوس کی ہوگی)‘‘ (ایضاً، ص 59)
رام جی کا بچپن بھی آزمائشوں سے بھرپور تھا۔ شکیل اعظمی رام جی کے سنگھرش بھرے جیون اور تپسیا سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے رامائن کے کرداروں کو شاعری کے ذریعے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ شکیل اعظمی کی رامائن میں رامائن کے علاوہ جنگل بھی ہے، جہاں انھوں نے رامائن کے زیادہ تر کرداروں پر نظمیں لکھیں وہیں انھوں نے جنگل اور جنگل کی خوبیوں اور وہاں کے مختلف اقسام کے پیڑ پودوں پر نظمیں لکھیں۔
شکیل اعظمی کا مجموعہ ’بنواس‘ ادبی حلقوں میں اس لیے بھی بہت مقبول ہوا کہ انھوں نے اردو میں پہلی بار ہندو دیومالائی قصے کو شعری پیکر میں ڈھالا۔ ان کی اس شعری کاوش کا اعتراف ادیبوں اور شاعروں نے اپنے طریقے سے کیا ہے۔ بعض لوگوں نے مضمون کے ذریعے تو بعض نے اپنے قیمتی آرا کے ذریعے۔ ’بنواس‘ پر اب تک جن ادیبوں نے مضامین تحریر کیے تھے، ان تمام مضامین کو اکٹھا کرکے کوثرمظہری نے ’ شکیل اعظمی کا بنواس: معاصرین کی نظر میں‘ کے نام سے یہ کتاب مرتب کی ہے۔ شکیل اعظمی کی ادبی خدمات کے حوالے سے کوثر مظہری لکھتے ہیں:
’’اردو کے منظرنامے پر شکیل اعظمی کا نام اب دور سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی تخلیقی اپج کے کئی حوالے ہیں، بالخصوص غزلوں اور نظموں میں تقریباً برابر ہی دسترس رکھتے ہیں۔پھر یہ کہ فلمی نغمہ نگاری بھی ہے، جو ان کے لیے ذریعہ معاش ہے، لیکن ان کی تخلیقی جودت اور جدت دونوں اوصاف ہمیںاس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ انھیں فلمی نغمہ نگاری سے ذرا الگ رکھ کر بھی دیکھا جائے۔ دھوپ دریا سے لے کر، ایش ٹرے، خزاں کا موسم رکا ہوا ہے، مٹی میں آسمان، راستہ بلاتا ہے، پوکھر میں سنگھاڑے اور ’بنواس‘ تک ایک تخلیقی آنچ ہے ،تخلیقی وفور ہے، تخلیقی صلابت ہے۔ آپ ان کی تخلیقی جہتوں کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ان مذکورہ مجموعوں سے گزرنا پڑے گا تاکہ ان کے شعری و فکری آفاق کو دیکھ سکیں اور ان میں جو اسرارِ حیات ہیںان تک رسائی حاصل کرسکیں۔‘‘ (ایضاً، ص 9)
مضامین کے اس مجموعے کو ترتیب دے کر کوثر صاحب نے نہ صرف شکیل اعظمی کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا بلکہ سچی دوستی کا بھی حق ادا کیا ہے۔ اس کتاب نے شکیل اعظمی کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے میں کافی آسانیاں فراہم کردی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی شکیل اعظمی کی ادبی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف کیا جائے گا۔
’نئی نظم (1960 کے بعد)‘ یہ کوثرمظہری کی بہت اہم کتاب ہے۔ 712 صفحات پر مشتمل یہ کتاب عرشیہ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔ اس انتخاب میں 155 شعرا کی 1182 نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں کے انتخاب میں کوثر صاحب کی کئی برسوں کی محنت، مشقت اور ریاضت تو شامل ہے ہی۔ اس کے لیے انھیں کئی شہروں کی مشہور لائبریریوں کی خاک بھی چھاننی پڑی ہے۔ کئی ویب سائٹس اور ٹیکنالوجیزکا سہارا بھی لینا پڑا ہے۔ کئی ادیبوں اور شاعروں سے اس سلسلے میں صلاح و مشورے بھی کیے گئے، ضرورت پڑنے پر ان سے رجوع بھی کیا گیا ہے۔ کوثر صاحب کے کچھ شاگرد بھی ہیں جنھوں نے نظموں کی تلاش اور سوانحی کوائف کے سلسلے میں سرگرداں نظر آئے۔ کوثر صاحب کے لیے سب سے مشکل اور پریشان کن شعرا کے کوائف کی حصولیابی کا تھا جسے انھوں نے بہ آسانی سر کرلیا۔ عہد حاضر کے مشہور ناقد، محقق، شاعر پروفیسر عتیق اللہ، کوثر مظہری کی اس کاوش کی ستائش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’’نئی نظم نیا سفر‘ ایک ایسے تنقید نگار کا کارنامہ ہے جس نے ان نظموں کے انتخاب میں کئی برسوں کا ذہنی سفر طے کیا ہے۔ کوثرمظہری شعرا کے تعارف کے لیے اگر مواد کی فراہمی کی مشقت سے بچنا چاہتے تو محض ہر شاعر کی نظموں کے محض انتخاب پر اکتفا کرسکتے تھے۔ ابھی تک ہند و پاک میں جتنے بھی انتخابات شائع ہوئے ہیں کسی نے اتنی زحمت نہیں اٹھائی کہ شاعر کے بارے میں بھی کچھ بنیادی معلومات مہیا کرسکیں۔ کوثرمظہری نے مختصر تعارف کا جو خاکہ بنایا تھا، اس کے مطابق انھوں نے یکسانیت کا بڑی یکسوئی سے خیال رکھا ہے۔ ‘‘
(نئی نظم: 1960کے بعد، بیک ٹائٹل)
اس انتخاب میں پاکستان اور ہندوستان کے شعرا کی تعداد کے حساب سے نمائندگی اور ان کے مرتبے کے حساب سے صفحات متعین کیے گئے ہیں۔ مقدمے میں کوثر صاحب نے جہاں دیگر انتخاب اور ان کے مرتبین کی خوبیوں اور خامیوں کا ذکر کیا ہے، وہیں انھوں نے اپنے انتخاب کی کچھ کمیوں تو بہت ساری خوبیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس مقدمے سے کچھ سطریں، جو مختلف جگہوں سے لی گئی ہیں، یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ کوثر صاحب کے منہج کا قارئین کو اندازہ ہوسکے:
’’میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ کسی بھی انتخاب پر خط تنسیخ نہیں کھینچا جاسکتا کہ ہر ایک کا اپنا زاویۂ انتخاب بھی ہوتا ہے اور اس انتخاب کا جواز بھی۔ کبھی تو جواز کھلے طور پر یا اعلانیہ سامنے آتا ہے اور کبھی بہ صورتِ خفا۔ چاہے جیسے بھی ہو اور جیسا بھی ہو، جواز سے کوئی بھی انتخاب خالی نہیں ہوتا۔‘‘
…’’’یہ انتخاب، معلوم نہیں کون سی کمی پوری کرے گا، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ 1960 کے بعد کی نظموں کے جتنے انتخاب شائع ہوئے ہیں، ان میں در آئی کمیوں اور خامیوں کی کچھ حد تک اس سے تلافی ہوسکے گی۔ ‘‘(ص 12)
’’جو نظمیہ متون اس انتخاب میں شامل کیے گئے ہیں ان سے ہر ایک شخص (شاعر، نقاد) مطمئن ہوگا، مشکل ہے۔ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ ناتکمیلیت سے ہی آگے کا سفر جاری رہتا ہے۔ منزل آگئی تو گویا سفر تمام ہوا اور ہم جانتے ہیں کہ ادب میں کسی کام کے حوالے سے ’مکمل‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا۔‘‘(ایضاً، ص 20)
کوثر صاحب کے لفظ’ مکمل‘ پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی میدان خاص کر ادب میں بارہا یہ باتیں لکھی اور سنی جاتی ہیں کہ اب اس صنف یا اس موضوع پر مزید کسی کام کی گنجائش نہیں ہے، فلاں کے ریسرچ، فلاں کے لیکچر، فلاں کی کتاب نے مستقبل میں آنے والی تمام گنجائشوں کے باب مسدود کردیے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے، یوں بھی کہ ہر زمانے اور ہر عہد کے اپنے الگ تقاضے ہوتے ہیں، ادب بھی ان سے عاری نہیں ہے۔ رد و قبول اور افہام و تفہیم کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
پروفیسر کوثر مظہری کا ادبی سفر ابھی جاری ہے۔کئی پروجیکٹ ان کے ذہن میں ہیں، جنھیں ابھی پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ کچھ پر کام عنقریب پورا ہونے کو ہے، کچھ پروجیکٹ نصف مراحل میں ہیں، تو کچھ پروجیکٹ کا صرف خاکہ ہی ابھی ذہن میں ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں کوثر صاحب کی ادبی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگا۔

You may also like