Home نقدوتبصرہ کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید-محمد اکرام

کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید-محمد اکرام

by قندیل

معاصر تنقیدی منظر نامے پر کوثر مظہری کا نام دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر تنقید نگار کے کچھ اپنے اصول و ضوابط اور اختصاص و نظریات ہوتے ہیں ، جنھیں وہ تنقید میں برتنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔ کوثر مظہری کے بھی کچھ تنقیدی اصول و نظریات ہیں جنھیں وہ تنقید کے لیے ضروری اور کارآمد تسلیم کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ان کے چند اختصاص کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
تنقید کی دائروی وسعت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تنقید کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کی جانکاری ناگزیر ہے۔ اردو میں لفظ تنقید انگریزی لفظ Criticism کا ترجمہ ہے۔ انگریزی میں بھی کریٹی سزم یونانی لفظ Krinein سے نکلا ہے جس کے معنی نتیجہ اخذ کرنا یا فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ Separating out کے معنوں میں الگ الگ کرنا یا چھٹنی کرنا بھی ہے۔ لفظ تنقید کا مادہ ’نقد” ہے جس کے معنی کھرے کو کھوٹے سے الگ کرنے کے بھی ہیں۔ تنقید ایک ادبی عمل ہے جس میں باریک بینی، مطالعے اور انہماک کی سخت ضرورت ہے۔ کچھ لوگ اسے اپناتے ہیں تو کچھ اسے کار مشکل سمجھ کر اس سے گریز کرنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ تنقیدکے معانی و مفاہیم کے سلسلے میں مشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’تنقید کیا ہے؟ اس سوال کا جواب شاید بہت تشفی بخش نہ ہو، لیکن تنقید کیا نہیں ہے؟ کا جواب یقینا تشفی بخش اور بڑی حد تک قطعی ہوسکتا ہے۔ تنقید عمومی اور سرسری اظہار رائے نہیں ہے۔ غیرقطعی اور گول مول بات کہنا نقاد کے منصب کے منافی ہے۔ تنقید کا مقصد معلومات میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے۔‘‘(تنقیدی افکار: شمس الرحمن فاروقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، جنوری 2004، ص 1)
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں ہم بلا مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوثر صاحب کی تنقید ان اصولوں کے عین مطابق ہے۔ کوثر صاحب کی تنقید سے اگر حظ و اطمینان حاصل ہوتا ہے تو علم و آگہی میں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک ناقد کے طور پر کوثر صاحب باریک بیں ہیں اور وسیع المطالعہ بھی، ان کے اندر فہم اور بصیرت بھی ہے اور نئی نئی چیزوں کی دریافت و جستجو کا مادّہ بھی، وہ ذو لسان بھی ہیں اور منصف بھی۔ اچھی تنقید کے لیے یہ دونوں اصطلاحات بہت معنی خیز ہیں۔ ذو لسان ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اچھی تنقید کا انحصار دوسری زبانوں کے ادبیات کے مطالعے پر ہے۔ یہ کوثر صاحب کی خوش بختی ہے کہ وہ اردو کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ ہندی اور فارسی زبان کی بھی سمجھ ہے، ضرورت پڑنے پر تھوڑی بہت عربی بھی سمجھ لیتے ہیں۔ انگریزی ہی کی وجہ سے انھیں مغربی ادبیات کے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ ان کی تنقید میں مغربی ادبیات اور مفکرین کے حوالے جگہ جگہ مل جائیں گے۔ تنقید میں ’منصف‘ کا لفظ یوں بھی ضروری ہے کہ ایک اچھا ناقد کسی فن پارے کو انصاف کے ترازو پر تولتا ہے۔ اس کے برعکس بہت سے ناقد منصف کے بجائے وکیل کا کردار ادا کرنے لگ جاتے ہیں۔ بعض لوگ تنقید میں تذبذب اور گھما پھرا کر باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں تو کچھ لوگ سوالات کے اتنے بکھیڑے کھڑے کردیتے ہیں کہ ان کے اس عمل سے فن پارے کی خوبیوں کے تمام پہلو دب جاتے ہیں۔ یہ تنقید نہیں ہے، اگر کوئی ناقد ایسا کرتا ہے تو گویا وہ اپنی ذمے داریوں سے بھاگتا ہے۔شکر ہے کہ کوثر صاحب کی تنقید ان مذکورہ عیوب سے پاک ہے۔ ان کی ناقدانہ تحریریں پڑھ کرعلم و آگہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نہ وہ کسی شخصیت سے مرعوب ہوتے ہیں اور نہ وہ بے جا کسی فن پارے کی تعریف کرتے ہے۔ اس کے مکمل مطالعے کے بعد ہی وہ تحسین کے پہلوؤں اور عیوب یا نقائص کو اجاگر کرتے ہیں۔ کوثر صاحب کسی تحریک یا کسی ایک نظریے کے بھی قائل نہیں ہیں کہ ان نظریات کی بندشوں میں بندھ کر تنقید کے اصولوں سے انحراف کریں۔یہی وجہ ہے کہ کوثر صاحب اچھی تنقید کے لیے مثبت قرأت کو بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ کوثر صاحب اچھی تنقید کے لیے اخلاقی قدروں کے برتنے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ادب کے نام پر بداخلاقی، بے راہ روی اور جنسی چٹخارے کو وہ صحت مند ادب اور معاشرے کے لیے مہلک سمجھتے ہیں۔ جدیدیوں سے کوثر صاحب کے اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جدیدیوں نے سائنس کو بھی رد کیا اور مذہبی و اجتماعی تصورات کو بھی۔ اخلاقی قدروں کو اس لیے بالائے طاق رکھا کہ جنس زدہ ادب کھل کر پیش کیا جاسکے ۔ اس ترغیبِ جنسی کا اثر اب بھی نثر اور شعر میں کہیں کہیں دکھائی دیتا ہے۔ اور اسے اخلاقی جرأت تصور کیا جاتا ہے ، مخربِ اخلاق نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نہیں کہتا کہ شاعر یا ادیب کوئی مذہبی پیشوا یا اخلاق و مذہب کا پرچارک ہوتا ہے لیکن ہوتا تو ہے آدمی ہی ؟ پھر کیا اسے خیر و شر اور اخلاقیات و مذہبیات کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے ؟ بُرے اعمال وافعال کی تشہیر خودفریبی کے ساتھ ساتھ جمالیاتی فریب بھی ہے ۔ نئی نسل کو اس طرف سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ (جواز و انتخاب، 80 اور بعد کی غزلیں ، 2001، ص 15-16)
موجودہ تناظر میں کوثر مظہری تنقید میں ’اخلاقی تنقید‘ کو بہت ضروری گردانتے ہیں۔ موجودہ عہد میں سائنس کی نئی نئی ایجادات اور ان کے حیرت زا کارناموں سے آج کی نسل مرعوب تو نظر آتی ہے مگر اس سے وہ مثبت نتائج برآمد کرنے کے بجائے بے راہ روی کی شکار ہوتی جارہی ہے۔ ان ایجادات میں موبائل، ٹی وی اور انٹرنیٹ نے تو پورے معاشرے کو تباہ و برباد کردیاہے۔ سائنس دانوں نے شاید ہی اس کے مہلک نتائج کے بارے میں سوچا ہوگا۔ اس لیے موجودہ عہد میں کوثر صاحب کے اس نظریے کی حمایت بہت ضروری ہے۔ ناقدین کو اس جانب توجہ مبذول کرنے اور کرانے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اخلاقی تنقید کیا ہے اس کے بارے میں چند وضاحتیں ناگزیر ہیں۔ کسی بھی ادب میں فن پارہ ہیئت اور معنی سے عبارت ہوتا ہے۔ اخلاقی تنقید ہیئت سے زیادہ معنی سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی اخلاقی تنقید کا مسئلہ ’کیا کہا گیا‘ ہے نہ کہ ’کیسے کہا گیا‘ ہے۔ اخلاقی تنقید میں فن پارے کی ہیئت یا حسن سے زیادہ اس کی افادیت پر زور دیا جاتا ہے۔ ادب کے منفی یا مثبت اثرات چونکہ سماج پر ہوتے ہیں، اس لیے بعض ناقدین نے ’جمالیاتی تنقید‘ کے بجائے ’اخلاقی تنقید‘ کو سماج اور ادب دونوں کے لیے زیادہ مفید بتایا ہے۔ اخلاقی تنقید کے حامی اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ انسان میں اخلاقیات نہیں ہے تو اس میں اور جانور میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔
ادب میں اخلاقی تنقید کے پس منظر پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے آغاز کا سہرا افلاطون کے سر جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ سلسلہ بیسویں صدی تک تسلسل کے ساتھ ملتا ہے۔ نشأۃ ثانیہ کے زمانے میں فلپ سڈنی اسی رویے کا نمائندہ ہے۔ اٹھارہویں صدی میں ڈاکٹر جانسن، انیسویں صدی میں میتھیو آرنلڈ اور بیسویں صدی میں دوسری شخصیات کے علاوہ ٹی ایس ایلیٹ جیسی شخصیات بھی اس رویے کے نمائندے کہے جاسکتے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’’ادب کی عظمت ادبی معیاروں سے متعلق نہیں ہوسکتی گو ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی تحریر ادب ہے یا نہیں اس کا فیصلہ صرف ادبی معیاروں سے ہوسکتا ہے۔‘‘
ادب اور اخلاقیات کا رشتہ، اخلاقیات اور مذہب کے رشتے تک لے جاتا ہے۔ لیکن عہد حاضر کے بہت سے مفکرین اور ناقدین انسانی زندگی کے لیے اخلاقیات کی ضرورت پر اصرار کرنے کے باوجود کسی مذہب سے وابستہ ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر ہم یورپ کی مارکسی تنقید پر نظر ڈالیں تو بنیادی طور ان کے یہاں اخلاقی تنقید پر زور ہے مگر اس میں مذہب کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مشرق میں غیر مذہبی ہونے کا ایک مفہوم مارکسی ہونا بھی ہے۔ اب ہمارے یہاں مارکسی ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مارکسیوں پر نہ جانے کتنے لعن طعن کیے گئے اور یہ جاری و ساری ہے۔
اردو ادب میں تنقید کے آغاز کا سہرا ویسے تو حالی کے سر جاتا ہے، مگر سرسید کی مثبت سوچ کی وجہ سے شعر وادب میں اخلاقی رویے کا آغاز یہیںسے ہوگیا تھا، اور یہ معاشرے کے لیے بہت ضروری بھی تھا کیونکہ ادب معاشرتی اور قومی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن چکا تھا۔ سرسید کے ساتھیوں میں حالی، شبلی اور نذیر احمد سب سے نمایاں تھے۔ ادب کی طرف ان تینوں کا رویہ اپنے وسیع ترین معنوں میں اخلاقی تھا۔ حالی نے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ میں اخلاق اور شاعری کے تعلق پر زور دیا اور شعر و ادب کے متن پر معاشرتی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے غور کرنے کی ترغیب دی۔ مگر اس کے برعکس ’جدیدیت‘ کے پیروکاروں نے ادب کو سماج اور تہذیب سے علیحدہ رکھ کر قرأت پر زور دیا، جس کی پرزور مخالفت کی گئی۔
پروفیسر کوثر مظہری ادب میں اخلاقیات کو کیوں ضروری سمجھتے ہیں، اس اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
’’…ایک عورت جو اپنے دوست کے ساتھ سیر کو جاتی ہے وہ اس سے فلرٹ کرتا ہے۔ وہ عورت اس آدمی کی نیت کو اچھی طرح پہچانتی ہے لیکن وہ اپنے آپ کو تسلی دیتی ہے کہ اس مرد کا رویہ دوستانہ ہے اس کی نیت بری نہیں۔ اس درمیان مرد اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اس کے جسم کا طلب گار ہے لیکن عورت اب بھی اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دیتی ہے کہ یہ سب دوستی کے جذبے کے تحت کررہا ہے ورنہ اس کی نیت میں فتور نہیں۔ یہاں سارتر اس عورت کو ایک شے تصور کررہا ہے جیسے لکڑی، میز، لیمپ وغیرہ۔‘‘ (مقدمہ:جواز و انتخاب، ص 12)
’جدیدیت‘ کے ادب اور سماج پر نقصان کے حوالے سے یہ بات بھی جان لینا ضروری ہے کہ جس ’تجریدیت‘ اور ’وجودیت‘ کے خمیر سے ’جدیدیت‘ برآمد ہوئی ہے، اسی ’وجودیت‘ جب معانی و مفاہیم سے نکل کر داخلیت کی شکل اختیار کرلیتی ہے تو اس کے کیا نقصانات ہوتے ہیں۔ اس تعلق سے کوثر مظہری نے پروفیسر لطف الرحمن کا حوالہ دیا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’جدیدیت کی جمالیات‘ میں لکھتے ہیں:
’’ایک سائنس داں کے لیے ایک ڈوبتا ہوا بچہ محض ایک گوشت پوست اور خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہاں اس کے جذبات ساکت ہوتے ہیں، مگرجونہی اسے معلوم ہوتا ہے کہ ڈوبنے والا بچہ اسی کا اپنا بیٹا ہے تو صورت حال یک لخت بدل جاتی ہے اور وہ فوراً بچے کی جان بچانا چاہتا ہے۔ یہی ہے داخلیت۔‘‘ (بحوالہ جواز وانتخاب، ص 14)
——
’مثبت قرأت‘ یہ کوثرمظہری کا بہت سہل مگر معنی خیز وصف ہے، جسے وہ متن کی تفہیم کے لیے بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ عربی میں قرأت کا انحصارقرآن پڑھنے پر ہوتا تھا۔ اس کے لغوی معنی قَرأَ یَقرأُ سے مصدر سماعی ہے۔ ماہرین لغت کے نزدیک اس کامعنی جمع کرنا، منانا اور تلاوت کرناوغیرہ مقصود ہے۔ (لسان العرب، 1/129، المفردات فی غریب القرآن:ص 402)، اصطلاحی تعریف کی کئی قسمیں ہیں۔ الشیخ عبدالفتاح کے نزدیک ’’ علم قرأ ت ایسا علم ہے کہ جس میں قرآنی کلمات کوبولنے کی کیفیت اور انھیں اَدا کرنے کا مختلف فیہ اور متفقہ طریقہ ہر ناقل کی قرأت کی نسبت کے ساتھ معلوم ہوتاہے۔‘‘ (البدورالزاہرۃ، ص 7) حالیہ دنوں میں ’قرأت‘ کا دائرہ کافی وسیع ہوا ۔ انگریزی طریقہ نقد کے توسط سے اردو تنقید میں اس کا رواج عام ہوا۔ اب اردو تنقید میں متون کے پڑھنے یا مطالعہ کرنے کو ’قرأت‘ سے منسوب کیا جانے لگا ہے۔ قرأت کو کوثر صاحب نے کسی دائرے میں محصور نہیں رکھا ہے۔ سب سے پہلے تو قرأت کے بارے میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرأت کی دو قسمیں ہوتی ہیں: سری اور جہری۔ متن کی قرأت کے دوران کہاں سرّی اور کہاں جہری انداز کو برتنا ہے، اس کے بارے میں بھی کوثر صاحب نے وضاحت کی ہے:
’’قرأت سرّی اور جہری دونوں ہوسکتی ہے۔ یہ وقت، متن اور قاری کی ذہنی ساخت پر منحصر کرتا ہے۔ کبھی بغیر معنی خیزی کے لیے پڑھ کر متن سے محض لطف اندوز ہونا ہے تو جہری قرأت ہوسکتی ہے۔ کبھی کوئی متن ایک سے زیادہ مرتبہ قرأت کا متقاضی ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھی بغور اور سرّی قرأت سے معانی تک رسائی ہوپاتی ہے۔ زیادہ تر قرأت ایک خاموش اور یکسوئی کا عمل ہے۔ ‘‘ (قرأت اور مکالمہ، ص 8-9)
لفظ قرأت کو اگر مزید وسعت نظر سے دیکھیں تو یہ کہنے میں قطعاً گریزنہ ہونا چاہیے کہ اس کے بغیر قاری، ادب اور ادیب میں رشتہ استوار نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ قرأت کے ذریعے ہی متن کی تفہیم ممکن ہے۔ اگر قرأت کا وجود نہ ہوتا تو شاید متن کا بھی وجود نہ ہوتا۔ قرأت اور متن کے رشتے کو ہم جسم اور روح کے رشتے سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اگر جسم میں روح نہیں ہے تو پھر ہڈی اور گوشت کے ڈھانچے کا کیا وجود ہے۔ اس لیے ’قرأت‘ اور ’متن‘ لازم و ملزوم ہیں۔ غالباً قرأت کے معانی و مفاہیم کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’قرأت اور مکالمہ‘ رکھا ہوگا۔ وہ اس کتاب کی اشاعت کے جواز میں لکھتے ہیں:
’’ …میں نے شاعری (نظم اور غزل) کے حوالے سے جو مضامین ادھر چند برسوں میں تحریر کیے تھے، ان میں ’قرأت‘ سے کام لیا گیا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ متن سے میرا مکالمہ ہواہے۔ خصوصاً وہ مضامین جن میں تجزیاتی عمل کی کارفرمائی ہے، ان میں متن کی قرأت اور Close Reading کی صفات آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ میرے پہلے مجموعۂ مضامین ’جرأتِ افکار‘ میں مختلف نوعیت کے مضامین تھے، لیکن اس کتاب میں اس بات کا میں نے لحاظ رکھا ہے کہ مضامین، متن یا متن بنانے والے، وہ بھی شاعر یا شاعری کے حوالے سے ہوں۔ اس لحاظ سے ان مضامین کے منظرعام پر لائے جانے کا ایک جواز بھی پیدا ہوجاتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 7)
’قرأت اور مکالمہ‘ کے نام سے اس کتاب میں ایک مضمون بھی شامل ہے۔ قرأت اور متن کے باہمی رشتے پر کوثر مظہری نے اس مضمون میں بہت مفید اور کارآمد باتیں بتائی ہیں۔ کوثر مظہری قرأت اور متن کے رشتے کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قرأت کی اہمیت متن کے حوالے سے یوں بڑھ جاتی ہے کہ بغیر اس کے Text ایک بے جان شے ہے، بلکہ جمادات کے زمرے میں ہے۔ جب ایک قاری اس کی قرأت کرتا ہے تو متن کھُلتا ہے اور اس کی گہرائی اور اس کا جمالیاتی پہلو سامنے آتا ہے۔ مصنف متن بنانے میں کتنا کامیاب ہوا اور اس میں پیش کردہ مضمون کی ترسیل کس خوبصورتی سے ہوپائی ہے، اس کا دار و مدار قرأت پر ہے۔ ‘‘ (ایضاً، ص 9)
قرأت کے انداز اور اس کے طریقہ کار پر بھی گفتگو ضروری ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ متن کی تفہیم بعض دفعہ آسان ہوتی ہے مگر بعض متن کی تفہیم میں بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس لیے کہ متن کی تفہیم کی کئی جہتیں ہوتی ہیں اور تمام جہتوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے متن کا مطالعہ سرسری کے بجائے گہرائی سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کوئی اخبار پڑھ رہے ہیں، تو اس کی اصل تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ سوجھ بوجھ اور گہرائی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، مگر جب قاری کے سامنے کوئی مشکل متن ہے تو اس کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے عمیق مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ متن اس قدر مشکل ہوتا ہے کہ بار بار مطالعے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مشہور ناقد اور محقق پروفیسر عتیق اللہ ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ کے متن کی تفہیم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
’کئی چاند تھے سر آسماں‘ کو میں نے قریب دو برس پہلے پڑھا تھا اور ایک بک لیٹ میں نوٹس لے لیے تھے۔ ناول میں بھی پینسل سے جگہ جگہ نشاندہی کی تھی اور تھوڑی بہت حاشیہ آرائی بھی۔ لیکن اب یہ تمام چیزیں کتابوں کے انبار میں اس طرح دبی ہوئی ہیں کہ تلاش کرنے میں کافی وقت ضائع ہوگیا… اب مجھے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ پہلی قرأت کا تجربہ کیا تھا۔ بس اتنا یاد رہا کہ پڑھنے سے پہلے (کہ یہ فاروقی کا ناول ہے) پڑھنے کے دوران (کہ ناول مجھے چھوڑ نہیں رہا تھا) اورپڑھنے کے بعد میں گہرے استغراق میں چلا گیا تھا۔ پورے دس دنوں میں ناول پورا ہوا اور پورے دس دن اور اس کے بعد بھی میں انجانی اور انہونی کیفیتوں سے باہر نہیں نکل سکا… اب جبکہ دوسری بار اسے پڑھنے کی ضرورت پیش آئی تو چیزیں آہستہ آہستہ دوبارہ منکشف ہونے لگیں..‘‘(بیانیہ کا ایک سبق ، مرتب: محمد اسلم پرویز، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، 2024، ص 310-11)
اس اقتباس سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کئی متون ایسے ہوتے ہیں جن کے سمجھنے کے کئی زاویے ہوتے ہیں اور ان کی گتھیاں اتنی الجھی ہوتی ہیں کہ بار بار کے مطالعے کے بعد ہی پکڑ میں آتی ہیں۔ کوثرمظہری صاحب بھی اسی نکتے کی طرف اشارہ کررہے ہیں، کہ متن کے مطالعے کے وقت سارا زور صرف اور صرف متن پر ہی مرکوز رکھنا چاہیے، ورنہ اس کے صحیح معانی و مفاہیم تک رسائی بہت دشوار ہوجاتی ہے۔ متن کی انہی پیچیدگیوں کے مدنظر ہی کوثرمظہری متن کی اصل تک پہنچنے کے لیے قاری کو کچھ مشورے دیتے ہیں تو کچھ باتوں سے آگاہ بھی کرتے ہیں:
’’متن دور سے سلام کرنے والے قاری کو کبھی خاطر میں نہیں لاتا۔ ہاں، اگر اخبار کی قرأت کررہا ہو تو قاری اور متن میں Convergence کی بات نہیں کی جاتی۔ قاری متن سے دوستی کرکے جب اس سے ہم کلام ہوتا ہے تو اس کی حقیقت آشکار ہونے لگتی ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب موضوع اور معروض برابر ہوجاتے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً، ص 11)
متن کی تفہیم کے لیے کوئی بھی مصنف/مو لف/مرتب قاری کو کسی حد میں محصور نہیں رکھنا چاہتا۔ متن کی تفہیم اور اس تک رسائی کے لیے قاری کو آزادی حاصل ہے مگر اس کے بھی دائرے محدود ہیں۔ اگر کوئی قاری کسی متن کے مآخذ اور معنی تک پہنچنے کے لیے اس کے اصل مآخذ سے گریز کرتا ہے تو اس متن کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ متن کی تمام جہات تک رسائی کے لیے کوثر صاحب یک طرفہ قرأت کے بجائے متن سے مکالمہ کی تلقین کرتے ہیں۔ متن کی قرأت کے دوران مصنف، شاعر کے تہذیبی تناظر اور اس کے تحفظات و تعصبات کو پیش رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثلا کوئی مصنف کوئی بات لکھتا ہے تو اس کے سیاق و سباق اور اس کے پس منظر پر بھی نظر ضروری ہے۔ متن کی قرأت میں قاری کے لیے کتنی آزادیاں اور کتنے تحفظات کی ضرورت ہوتی ہے، اس بابت کوثر صاحب لکھتے ہیں:
’’بے شک قاری کو یہ آزادی ہے کہ وہ متن سے معنی اخذ کرے اور اپنی طرح کرے، لیکن وہ اس قدر بھی آزاد نہیں کہ اس متن کو اس کی اصل سے اتنی دور لے جائے کہ متن اور اس میں سانس لیتے ہوئے تہذیبی اور ثقافتی نشانات و علامات (Cultural Signs) کا دم پھولنے لگے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ متن کا ہر ایک لفظ ایک ثقافتی نشان (Cultural Code) ہوتا ہے، اس لیے آزادی کے ساتھ متن کے سیاق اور متن کار (مصنف، شاعر، فنکار) کے اپنے تہذیبی تناظر اور اس کے اپنے تحفظات و تعصبات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ کسی بھی ادبی متن کی قرأت میں اس جمالیاتی اور ثقافتی ہالے (Aura) کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً، ص 13)
قرأت اور متن کے رشتے، اس کے مقاصد، اقسام، اس کی جہتیں، اس کے طریقہ کار کو کوثرمظہری نے بہت مثبت اور واضح انداز میں قاری کے گوش گزار کیا ہے۔ قرأت کا دائرہ کتنا وسیع اور بامعنی ہے، اس مضمون کے مطالعے سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ قرأت، قاری اور متن کے باہمی رشتے کو سمجھانے کے لیے مغربی اور مشرقی مفکرین کی آراسے بھی گریز نہیں کیا گیا ہے۔ حتی الامکان ان رشتوں کی معنویت اور افادیت کے پیش نظر جو بھی طریقہ کوثر مظہری کو کارآمد لگا، اسے پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ مضمون کے آخر میں کوثر مظہری قاری کو مشورہ دیتے ہوئے اپنی ذاتی رائے پیش کرتے ہیں:
’’میرا ذاتی ادراک اور Peception تو یہ ہے کہ متن کی قرأت کے لیے کسی بھی ایزر، فِش، دریدا، بارتھ، لاکاں، فوکو کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہاں آپ کے اپنے شعور کی بالیدگی اور قدرے Episteme کی اہمیت ضرور ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 24)
کوثرمظہری کے طریقہ نقد کا انداز جداگانہ ہے۔ وہ اصل زندگی کے ساتھ تنقید میں بھی اصولوں سے انحراف کو قطعی برداشت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کوثر صاحب کی مثبت تنقید ان کے مثبت قرأت کی وجہ سے ہے۔ اگر کسی فن پارے کی مثبت قرأت کی جائے تو اس سے فن پارے کے تئیں مثبت رہنمائی ملتی ہے اور یہ عمل کسی بھی تخلیق کار یا فن کار کے لیے نیک شگون ثابت ہوتا ہے۔
——
کوثرمظہری کے تنقید کی ایک خصوصیت تہذیبی تناظر ہے۔ دراصل ادب کو سمجھنے کے لیے دنیا کے کسی بھی حصے میں جو ادب لکھا جارہا ہے، وہاں کی تہذیب و ثقافت کے پیش نظرادب کا سمجھنا زیادہ کارآمد ہوگا۔ کوثرمظہری صاحب کی ایک مشہور کتاب ’جدید نظم: حالی سے میراجی تک‘ (تہذیبی تناظر میں منتخب نظموں کا تجزیہ) ہے۔
کوثرمظہری نے کتاب کے نام میں نظم کے ساتھ تہذیبی تناظر کا ذکر کیا ہے۔ اصل میں ادب کا رشتہ انسان کی سماجی اور معاشرتی زندگی سے جڑا ہوتا ہے۔ کوئی بھی صنف اس رشتے سے عاری نہیں ہوتی۔ نظم کا رشتہ بھی انسانی تہذیب و معاشرت سے بہت قریب ہے۔ کسی ادیب کے شعری اثاثے کو اپنے مطالعے کا حصہ بنانے سے پہلے اس شاعر کے عہد کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔ بغیر اس کے ہم صحیح طریقے سے اس شاعر کی تخلیقات کو نہیں سمجھ سکتے۔ جس طرح سماج میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں اسی طرح ادب میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اورادب سماج کی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا ، ادب میں اتنی طاقت اور اثر ہے کہ سماج میں شعوری انقلاب برپا کر دے۔ بشرطے کہ اس سطح کا ادب تخلیق ہو رہا ہو اور پھر سماج اس سے اثر لینے کے لیے سنجیدہ ہو۔ادب، سماج کے پرکھنے کا ایک بہترین معیار اور پیمانہ ہے۔ کسی بھی سماج کی تہذیب و تمدن اور ان کی اعلیٰ قدروں کو معلوم کرنا مقصود ہو تو اس سماج کے ادب کا مطالعہ کریں، آپ کو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ یہ سماج کس قدر مہذب رہا ہے اور اس سماج کی اعلیٰ قدروں کے کیا پیمانے اور اصول رہے ہیں۔
انسانی سانسوں میں جس طرح یہاں کی مٹی کی سگندھ رچی بسی ہوتی ہے، اسی طرح اردو نظم میں انسانی تہذیب و معاشرت کی جھلکیاں موجود ہوتی ہیں۔ شاعرکی یہ اہم ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ سماج کے حقائق اور تہذیبی اقدار کی پاسداری کرے۔ادب اور سماج کے رشتے پر بہت کچھ لکھا بھی جاچکا ہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے تو ادب اور سماج کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم سمجھا۔ گویا پورا ادب انسانی تہذیب و معاشرت کے ارد گرد گھومتا ہے۔ کوثر صاحب نے تہذیب و ثقافت اور تہذیب وتمدن کی اصطلاحات کو اپنے مطالعے کا حصہ بنایا ہے ۔ کتاب کے پہلے مضمون’شعر و ادب اور تہذیبی تناظر‘ میں تہذیب و معاشرت اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ہندوستان کے کچھ قدیم شعر ا اور ان کی تصنیفات کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اس دور میں اپنی شاعری میں ان کا استعمال کس طرح کیا ہے۔ تصانیف میں ’کمار سمبھو‘ اور ’رگھوونش‘ کا اس حوالے سے انھوں نے بطور خاص ذکر کیا ہے۔ تہذیب و معاشرت یا ثقافت کے حوالے سے انھوں نے بعض انگریز اور یورپین مورخین کا بھی ذکر کیا ہے۔ میکائیور، شیکسپیئر، اسپنسر، ملٹن البرخت وغیرہ اس حوالے سے قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ان مضامین میں عہد بہ عہد نظم گو شعرا اور ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو بھی ملتی ہے۔ تہذیب و معاشرت کے ضمن میں ’شعر و ادب اور تہذیبی تناظر‘ میں کوثر صاحب لکھتے ہیں:
’’اردو شعر و ادب کی صحیح تفہیم اور سمت و رفتا رکو سمجھنے کے لیے تہذیبی و ثقافتی پس منظرکو سمجھنا ضروری ہے۔ دوسری طرف یہ بھی خیال رہے کہ ہر دورکا ادب اپنے دور کے تہذیبی و ثقافتی عناصر و عوامل سے معمور ہوتا ہے اس لیے شعر و ادب کے مطالعے سے اس عہد کے میلان فکر کو بھی بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ سماج، تہذیب و ثقافت، روایات و اقدار کا سب سے بڑا اور سچا مبصر و ناقد شاعر یا ادیب ہی ہوتا ہے۔‘‘ (نظم جدید: حالی سے میرا جی تک، ص 31)
’انیسویں صدی کی نظم: تہذیبی تناظر میں‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر عہد کی شاعری اپنا تاریخی اور زمانی پس منظر رکھتی ہے۔ مثلاً 1857 کی انگریزوں کے خلاف ناکام بغاوت کو ہی لے لیں۔ اس سانحے کے نتیجے میں ہندوستانیوں کی سوچ میں کافی تبدیلی آچکی تھی۔ ایسے میں ادب پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، انہیں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔اس مضمون میں ادب اور سماج کے رشتے کے علاوہ جدید نظم نگاری کی ابتدا اور اس کے وجود میں آنے کے پس منظرپر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کئی شعرا کی شاعری کے موضوعات اور خصوصیات پر بھی گفتگو ہے۔ ساتھ ہی کچھ شعرا کی نظموں کے نمونے بھی اس مضمون کا حصہ بنے ہیں۔ انگریزی سے استفادے کی صورت میں کئی نظموں کے اردو تراجم کا ذکر بھی اس مضمون میں موجود ہے۔ مضمون کے آخر میں ان مشاعروں کا اور ان میں کلام پیش کرنے والے شعرا کا بھی ذکر ہے جو ’انجمن پنجاب‘ کے قیام کے بعدعمل میں آئے۔ ان کے تحت کل دس مشاعرے ہوئے تھے۔ ان مشاعروں میں موضوعاتی نظمیں پیش کی جاتی تھیں۔ ان کا سہرا آزاد، سرسید،حالی وغیرہ کے سر جاتا ہے۔ جدید نظم نگاری کی تحریک کے تعلق سے آزاد اور حالی کی کاوشوں کی تعریف کرتے ہوئے کوثر صاحب لکھتے ہیں:
’’آزاد اور حالی نے چونکہ باضابطہ موضوعاتی نظموں کے دس مشاعرے تواتر کے ساتھ کرائے تھے اور ان کی تحریک تھی جس کا ایک خاص مقصد بھی تھا۔ اس تحریک کے محرکات کے ضمن میں تہذیبی، سماجی اور فکری انتشار کا خاص عمل دخل رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی تحریک کا چہرہ کئی ارتقائی مدارج طے کرنے کے بعد صاف ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ آزاد، سرسید اور حالی وغیرہ نے اگر یہ اجتہادی پیش رفت نہ کی ہوتی تو اردو نظم نگاری وقیع سرمایہ سے محروم ہوتی۔ اس کا روپ جو آج نکھرا ہوا نظر آرہا ہے اگر اس کا آغاز انیسویں صدی میں نہ ہوا ہوتا تو شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو شاعری آج بھی اسی پرانی فرسودہ ڈگر پر قائم ہوتی۔‘‘ (ایضاً، ص 59)
——
کوثر مظہری کے تنقیدی اختصاص میں لفظ’منصف‘ بھی ہے۔ وہ کسی بھی فن پارے کو پرکھتے وقت انصاف کا ترازو سامنے رکھتے ہیں۔ واقعی اچھے تنقید نگار کے لیے تعصب اور حسد سے پاک ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی اسے کسی شخصیت سے مرعوب ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس کے اندر تعصب ہے تو وہ اچھی تنقید نہیں لکھ سکتا اور اگر کسی فن کے تعلق سے اس کے اندر کجی ہے تو بھی وہ اس فن پارے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔ کسی شخصیت سے مرعوب نہ ہونے کا اندازہ ان کی کتاب ’جرأت افکار‘ (2002) میں شمس الرحمن کے مضمون ’مسئلہ نقاد پیدا کرنے کا‘ کے مطالعے سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے مشہور ناقد اور محقق شمس الرحمن فاروقی کے کچھ نظریات کو جس عمدہ طریقے سے رد کیا ہے، وہ لائق ستائش ہے۔ کوثر صاحب لکھتے ہیں:
’’جناب شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں کہ ہر نسل اپنا نقاد خودپیدا کرتی ہے۔ شعبۂ فکر سے ہی کسی ادبی نسل کا رجحان مترشح ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پر فاروقی صاحب کا مفروضہ بے معنی ہوجاتا ہے… قلی قطب شاہ کی نسل کا بڑا نقاد کون ہے… اور اگر اس نسل میں کوئی نقاد پیدا نہیں ہوا تو قلی قطب شاہ کو کیا ضروری تھا کہ پچاس ہزار اشعار کہہ ڈالے۔‘‘ (مسئلہ نقاد پیدا کرنے کا، ص 17)
کوثرمظہری شمس الرحمن فاروقی کی اس بات سے بالکل اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں محمد قلی قطب شاہ سے لے کر حالی تک کوئی تنقید نگار نہیں تھا، یا اس زمانے میں تنقید لکھی ہی نہیں گئی تو کیا اس زمانے کا جو بھی ادبی سرمایہ ہے چاہے وہ نثری ہو یا شعری، اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ یہ ایک طویل عرصہ ہے جس میں کوئی باقاعدہ نقاد نہیں پیدا ہوا۔ اب اگر کوئی شاعر یا تخلیق کار یہ سوچ لیتا کہ جب تک کوئی ہمارے فن پارے پر تنقید نہیں لکھتا، تو ہم کیسے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ آیا وہ فن پارہ لائق ستائش ہے یا نہیں۔ ایسے میں وہ تھک کر بیٹھ جاتا تو پھر وہیں سے اس کی تخلیقی صلاحیت ختم ہوجاتی۔ یہاں کو ثر صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شاعر اور تخلیق کار کے اندر تنقیدی صلاحیت بھی ہوتی ہے، وہ اپنی اس صلاحیت کا استعمال کرکے ہی شاعری یا تخلیق پیش کرتا ہے۔ اس لیے اگر ہم یہ مان لیں کہ تنقید کا آغاز باقاعدہ حالی سے ہوتا ہے، پھر تو اس کے پہلے کی ساری چیزیں رائیگاں ہو جاتی ہیں، یہ بے معنی اور فضول ہے۔ اپنی بات کی توثیق کے لیے کوثرمظہری نے قلی قطب شاہ کے عہد کے مشہور شاعر ملّا وجہی کے کچھ اشعار حوالے کے طور پر پیش کیے ہیں ؎
کتا ہوں تجھے پند کی ایک بات
کہ ہے فائدہ اس منے دھات دھات
جو بے ربط بولے تو بیتاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
سلاست نہیں جس کیرے بات میں
پڑیا جائے کیوں جز لے کر ہات میں
جسے بات کے ربط کا فام نئیں
اسے شعر کہنے سو کُچ کام نئیں
کوثر صاحب کچھ اور آگے کی مثالیں دیتے ہیں کہ سودا، ذوق، ناسخ اور غالب جیسے شاعر کے زمانے میں بھی کوئی باقاعدہ نقاد نہیں تھا، تو کیا ان کی شاعری بھی بے معنی ہے۔ کوثرمظہری صاحب فاروقی صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں کہ:
’’آج کے شاعروں اور ادیبوں سے اپنا نقاد پیدا کرنے کا تقاضا اگر مضحکہ خیز نہیں تو حیرت انگیز ضرور ہے۔ پہلے تو یہ ضروری ہے تخلیقات اور دوسرے ادب پارے سامنے آئیں۔ پھر ان کی تنقیدیں لکھی جائیں۔ بغیر تخلیق کے تنقید کا وجود تصور میں نہیںا ٓسکتا۔ اگر کسی کو ضد ہو کہ تنقید لکھی جائے پھر بعد میں تخلیق سامنے آئے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ سامنے نشانے پر کوئی شکار نہیں مگر ہم بندوق چلائیں گے۔ بار بار نقاد پیدا کرنے کا تقاضا ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ تنقید ساتھ ساتھ لکھی جائے یا بعدمیں، تخلیق کے وقار پر حرف نہیں آتا ۔‘‘ (ایضاً، ص 18)
کوثر صاحب کی باتوں سے مکمل طور پر نہ اتفاق کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اختلاف۔ انھوں نے جو دلائل دیے ہیں، اس سے ایک باہوش قاری اتنا تو ضرور سمجھتا ہے کہ ہر تخلیق کار کے اندر کچھ نہ کچھ تنقیدی صلاحیت ہوتی ہے، جس کی بدولت ہی تخلیق وجود پذیر ہوتی ہے۔ اس مضمون میں مذکورہ جن تخلیق کاروں کے حوالے کوثر صاحب نے دیے ہیں، واقعی اگر اس زمانے میں تنقید کا باضابطہ چلن ہوتا تو شاید ان تخلیق کاروں کو اپنی تخلیقات کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے میں آسانیاں ہوتیں، ممکن ہے اس کے ذریعے مزید اعلیٰ معیار کی تخلیقات وجود میں آتیں۔ تنقید کی ضرورت پر ڈاکٹر عبادت بریلوی کی رائے بھی جان لینا ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تنقید بڑی ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اسی کے بغیر ادب کے بہتے ہوئے چشمے میں روانی پیدا نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس کے خشک ہوجانے کے امکانات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کے ادب میں ہر دور اور ہر زمانے میںا س کا وجود ملتا ہے، چاہے اس کی صورت کچھ ہی رہی ہو۔‘‘ (اردو تنقید کا ارتقا: ڈاکٹر عبادت بریلوی، انجمن ترقی اردو، پاکستان، کراچی، 1979-80، ص 83)
کوثرمظہری کا یہ پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، انھوں نے اپنے کمال ہنر کا ثبوت دیتے ہوئے جگہ جگہ فاروقی صاحب کے افکارو نظریات سے اختلاف کیا ہے۔ یہ جرأت ہر تنقید نگار کے اندر ہونی چاہیے، چاہے وہ اپنے خیمے کا ہو یا دوسرے کا۔ یہ ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں۔ اب یہ تو روش عام ہے کہ من ترا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو۔
یہاں کوثر مظہری کے کچھ اصول و نظریات سے قارئین کو واقف کرانے کا مقصد تنقید میں اس کی ضرورت و اہمیت سے روشناس کرانا تھا۔ اگر تنقید نگار تنقید کے ضروری اصول و نظریات کو نہیں سمجھتا ہے یا اس کے تعلق سے مطالعہ ناقص ہے تو پھر فن پارے پر اچھی تنقید لکھنا بہت مشکل ہے۔ ممکن ہے کچھ حد تک ناقد کو کامیابی مل جائے مگر مکمل طور پر کامیابی بہت مشکل ہے۔ مشہور ناقد کلیم الدین احمد اس سلسلے میں ایک کسان کی مثال دیتے ہیں کہ کسان جب تک کھیتی کرنے کے ضروری امور سے واقف نہیں ہوگا تب تک وہ ا چھی فصل تیار نہیں کرسکتا ہے۔ اسی طرح اچھا ناقد جب تک تنقیدی اصولوں سے واقف نہیں ہوگا تب تک کسی بھی فن پارے پر اچھی تنقید نہیں لکھ سکتا ہے۔ کلیم الدین احمد اس بابت لکھتے ہیں کہ:
’’اصول تنقید سے عدم واقفیت میں فن پاروں کا تجزیہ کرنا، ان کی قدر و قیمت کاا ندازہ کرنا، ان کے حسن صورت کو سمجھنا، ان کو دوسرے فن پاروں سے ملانا آرٹسٹ کے دماغ میں سمانا ناممکن ہے۔ جو بات کہی جائے گی وہ تنقید نہ ہوگی، رائے زنی ہوگی۔ ممکن ہے کہ بعض رائے صحیح ہو لیکن یہ اتفاقی بات ہوگی۔ اگر آپ کاشت کاری کے اصول سے واقف نہیں تو آپ کسان نہیں بن سکتے۔ اسی طرح اگر آپ اصول تنقید سے واقف نہیں تو آپ نقاد نہیں بن سکتے۔ ‘‘(اردو تنقید پر ایک نظر: کلیم الدین احمد، بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ، 1983، ص 11)
پروفیسر کوثرمظہری کے جن نظریات اور خصوصیات کو میں نے اس مضمون میں پیش کیا ہے، اس پر بحث کی حتی الامکان گنجائش موجود ہے۔ ضروری نہیں کہ کوثر صاحب کے علاوہ دوسرے ناقدین نے ان نکات کو اپنی تنقید میں پیش نہ کیا ہو۔ سمجھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ ان نکات کی تنقید میں ضرورت ہے تو کس حد تک!

You may also like