میں کچھ دیر پہلے کشمیر فائلز دیکھ کر واپس آیا ہوں۔ یقین کیجیے کہ میں نے اس فلم کے بارے میں اتنا پڑھا تھا کہ اسے دیکھنے کا ارادہ نہیں تھا؛ لیکن 16 مارچ کی شام ہوتے ہوتے میں نے یہ فلم دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ سیدھے الفاظ میں کہوں تو کشمیر فائلز نہایت ہی گندے مقصد سے بنائی گئی ایک کچرا فلم ہے ۔ اس فلم کو وہی لوگ پسند کر سکتے ہیں، جو اپنے بھگوان مودی کو آگے اور ملک کو پیچھے رکھتے ہیں۔
یہ فلم متعفن مزاج سماج کے جذبات کو کیش کرنے اور انتخابات میں اس کی دوسرے درجے کی توانائی کو استعمال کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے، جو جے شری رام کو جنگی نعرے کے طور پر اپنا کراپنی روزی روٹی کماتا ہے ۔ کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا،وہ پوری طرح شرمناک ہے۔ اس پر کوئی چوں کہ،چنانچہ نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن فلم کا داخلی و ظاہری تاثر یہی ہے کہ تمام مسلمان قاتل ہیں اور ہر مسلمان غدار ہوتا ہے۔
فلم کے آغاز میں جب فلم کو پروجیکٹ کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات چھپتے ہیں، تو چھوٹے چھوٹے حروف میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ یہ فلم پوری دنیا کے مظلوم طبقے کے لیے وقف ہے؛ لیکن فلم کو دیکھ کر کہیں سے ایسا نہیں لگتا کہ یہ فلم مظلوم انسانیت کی بات کر رہی ہے،البتہ یہ صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں اور آزادی کے گیت گانے والے نوجوانوں کے خلاف نفرت کو کیسے زندہ رکھنا ہے؟ فلم یہ بیانیہ گڑھتی ہے کہ ملک میں سیاسی طور پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ ٹھیک ہے اور ہندوؤں کو تب تک تحفظ حاصل ہے، جب تک مرکز میں موجودہ مودی حکومت ہے۔ اگر مسلمانوں کو ٹھیک کرنا ہے، تو ہندوؤں کو متحد ہونا ہوگا۔ یہ فلم کشمیر کی عظمت درشانے اور ملک کو وشو گرو بنانے کے نام پر رشی منی اور باباؤں کی صحبت میں غاروں اور گپھاؤں کی پناہ لے کر اپنے آپ کو مفتخر بنانے کی پرزور وکالت کرتی ہے۔ پوری فلم میں جسے دیکھو، وہی لیکچرجھاڑتانظر آتا ہے۔
آئی ٹی سیل کے لیے علانیہ و غیرعلانیہ طورپر کام کرنے والے بدبودار سماج نے اس فلم کو چلا چلا کر ہٹ بنادیا ہے۔ یقین کیجیے کہ یہ فلم ابھی اور کمائے گی اور فلم فیئر ایوارڈ اور نیشنل ایوارڈ بھی جیتے گی۔ جس فلم کی تشہیر خود وزیر اعظم نے کی ہے (حالانکہ اگر وہ سب کے وزیر اعظم ہوتے تو شاید ایسا نہ کرتے) آسکر کے لیے بھی بھیجی جا سکتی ہے۔ ابھی کل ہی کشمیر فائلز بنانے والے قوم پرستوں کی فوج نے ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ سے بھی رہنمائی حاصل کی ہے۔ ٹیم کے ارکان نے اچھے فوٹو شوٹو لے کر انھیں فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع پر چسپاں کیا ہے۔ وویک اگنی ہوتری کی دھواں دھار پینترے بازی کو دیکھ کر تو یہ بھی لگتا ہے کہ جلد ہی بندے کو پدم شری اور پدم بھوشن سے بھی سرفراز کیا جائے گا۔
اب آنے والے دنوں میں کچھ بھی ہو؛ لیکن میری نظر میں یہ فلم دوکوڑی سے زیادہ کی نہیں ہے۔ ایک اچھی اور سنگ میل ثابت ہونے والی فلم اگر واقعات کو جوں کا توں بھی پیش کرتی ہے، تو ساتھ ہی ایک قدم آگے بڑھ کر مسئلے کے حل کی راہ دکھاتی ہے۔ اچھی فلم ہمارے اندر نفرت کا پہاڑ نہیں کھڑا کرتی، وہ انسان کو مزید حساس بناتی ہے۔ کشمیر فائلز میں ایسا کچھ نہیں ،جسے دیکھ کر کچھ بہتر کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ فلم کی بمپر کمائی کے باوجود اندھ بھکت مرکز کی مودی حکومت سے یہ سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے باوجود کشمیری پنڈتوں کی باز آباد کاری اور بہتری کے لیے کیا کوششیں کی جا رہی ہیں؟ یہ تب ہوتا جب یہ فلم سنگھیوں کا سیاسی حربہ ہونے کے بجائے ایک خالص تخلیق ہوتی ؟ سبھی جانتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا، اس وقت مرکز میں وی پی سنگھ کی حکومت کو بی جے پی کی حمایت حاصل تھی، تب بھی بی جے پی حکومت نے کشمیری پنڈتوں کے لیے کچھ نہیں کیا، اب جبکہ مودی سرکار ہے،تب بھی پنڈتوں کی باز آبادکاری کے لیے کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
فلم کا ایک کردار (متھن چکرورتی) جو کہ جموں و کشمیر میں تعینات ایک افسر ہے، کہتا رہتا ہے کہ کشمیری پنڈت مر رہے ہیں، کیمپوں میں رہنے پر مجبورہیں ، کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں، مگر حکومت کچھ نہیں کر رہی، آخر یہ کونسی حکومت ہے؟ حکومت کشمیری پنڈتوں کی حفاظت کیوں نہیں کر پا رہی ہے؟ حکومت کیوں ناکام ہوئی؟ یہ تمام سوالات فلم سے غائب ہیں۔ فلم کا کردار بس حکومت کو کوستا رہتا ہے۔ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ اس وقت مرکزی حکومت بی جے پی کی حمایت سے چل رہی تھی۔ اگر یہ حقیقت فلم میں نمایاں طور پر سامنے آتی، تو ان سیاست دانوں کا پردہ فاش ہو جاتا، جو قصوروار ہیں۔
متھن چکرورتی فلم میں تین چار قسم کی فائلیں رکھتا ہے۔ تمام فائلوں میں اخبار کی کٹنگ چسپاں ہوتی ہے۔ فلم کا یہ کردار اخباری تراشوں پرایمان رکھتا ہے،جبکہ ایک دوسرا کردار میڈیا کو رکھیل قرار دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ کوئی بھی میڈیا کشمیر کا سچ نہیں بتا رہا ہے؟ فلم ساز کے لاکھ دفاع کے باوجود پرت در پرت پول کھلتی جاتی ہے۔ فلم میں تشدد کے اتنے ہول ناک مناظر ہیں کہ سنسر بورڈ کی بھی پول کھل جاتی ہے۔ سینما ہال میں بیٹھے ناظرین اپنے آپ سے پوچھنے لگتے ہیں کہ یار فلم کے اتنے سفاک مناظر پر قینچی کیوں نہیں چلائی گئی ؟ سنسر بورڈ کس کے دباؤ میں تھا؟ دیکھنے والے کو اپنے اندر سے یہ جواب بھی مل جاتا ہے کہ جب انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ، سی بی آئی اور الیکشن کمیشن سمیت ملک کے کئی آئینی اداروں کی حیثیت دو کوڑی کی کر دی گئی ہے، تو سنسر بورڈ کی کیا اوقات ہے؟
فلم میں آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا ذکر کرتے ہوئے فلم ساز یہ بھی بتادیتا ہے کہ وہ کس خیمے سے تعلق رکھتا ہے ؟ اور اس کی نیت کیا ہے؟ وہ کیا چاہتا ہے؟ ویسے بھی برہمنوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ کرنے والے وویک اگنی ہوتری کا دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ایک بوڑھے انسان پر گولی چلانے والے گوڈسے اور معافی مانگنے والے ویر ساورکر خیمے کا کوئی رکن جب بھی فلم بنائے گا ،تو کیا وہ فلم کے ساتھ انصاف کرے گا؟ یہ فلم ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک حصے میں نفرت کرنے والوں کا گروہ ہے ،تو دوسرے حصے میں بھائی چارے اور محبت پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ اس فلم کو دیکھنے والے اونچی برادری کے لوگوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ فلم بنانے والے نے انھیں ہم دردی کا حق دار بنا کر ملک کی دیگر برادریوں کے درمیان انھیں نفرت کا مستحق تو نہیں بنادیا ہے؟ فلم میں یہ تاثر چھپا ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ آواز بھی اٹھ رہی ہے کہ کیا ملک میں صرف پنڈت ہی رہتے ہیں؟ کیا ملک میں مظلوم دلتوں اور آدیواسیوں کا کوئی وجود نہیں ہے؟
اس فلم کا ایجنڈا ذہین اور سمجھ دار ناظرین کو واضح طور پر سمجھ میں آرہا ہے۔ ملک کے دانش وروں، سماجی کارکنوں اور عوامی سروکار سے وابستہ ثقافتی کارندوں کو اس فلم اور اس کے فلم ساز کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے ابھی اختلاف درج نہیں کروایا، تو ابھی ایک فائل بنی ہے، آیندہ اس طرح کی اور بھی بہت سی سنگھی فائلیں سامنے آئیں گی، ہر فائل سے نفرت باہر نکلے گی، نفرت اور صرف نفرت! یہ ملک ویسے بھی اندھ بھکتی اور اندھ بھکتوں سے پریشان ہے۔ کشمیر فائلز اندھ بھکتوں کی نئی کھیپ تیار کرنے والی فیکٹری کے طور پر خود کو سٹیبلش کرنے کی مکروہ کوشش کررہی ہے۔
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ فلم کی کہانی کیا ہے؟ فلم میں کس کی پرفارمنس اچھی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ فلم کی کوئی کہانی نہیں ہے۔ فلم میں صرف گھٹیا اور خطرناک عزائم ہیں۔ فلم میں کسی بھی اداکار کا کردار جان دار نہیں ہے۔ فلم میں بٹا کراٹے (ولن) کا کردار ادا کرنے والے مراٹھی اداکار چنمے دیپک منڈیلکر کی آنکھوں کا سرما،اس کا پلک جھپکانا اور مکالمے کا انداز ایک خاص قوم کے ہر چہرے پر چسپاں ہو جاتا ہے اور یہی بدقسمتی کی بات ہے۔
(ترجمہ:نایاب حسن)