مصنف : محمد انس فلاحی
صفحات : ١٧٦
قیمت : ۱۸۰؍روپے
ناشر : ادارۂ تحقیق و تصنیفِ اسلامی، علی گڑھ
‘‘کسبِ معاش کا اسلامی تصوّر’’ ایک ایسی کتاب ہے، جو اسلام کے صحیح اور معتدل نقطۂ نظر کو پیش کرتی ہے، ہمارے معاشرہ میں مال و دولت اور معاش کے متعلق رائج غلط نظریات، غلط معیارات اور افراط و تفریط کو دلائل سے غلط ثابت کرتی ہے، رزقِ حلال، کسبِ معاش، دنیا کی ضرورت، زہد و توکل اور قناعت و افراط کے متعلق مدلل گفتگو کرتی ہے اور صحیح اسلامی فکر کی ترجمانی کرتی ہے، اس کے مصنف جواں سال ہیں؛ لیکن نو وارد نہیں، علم و تحقیق سے ان کا رشتہ استوار رہا ہے، علمی جرائد سے وابستہ لوگ ان کے نام سے واقف ہیں، وہ لائق مبارک باد ہیں کہ انھوں نے ایک وسیع اور متنوع موضوع سے عام انسان کے لیے ضروری مباحث کو اس کتاب میں جمع کر دیا اور متعدد غلط تصورات کے ازالے کا سامان فراہم کر نے کی نہایت عمدہ کوشش کی۔
ہم نے کتاب کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ مصنف نے نصوص کا انبار لگا دیا ہے، دلائل سے بات کی ہے اور قابلِ مبارک باد ہیں کہ نصوص سے استدلال و استنباط میں کہیں تفرد اختیار نہیں کیا ہے۔ محسوس ہوا کہ کسی ایک آیت و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ان کی نظر اس موضوع سے متعلق دیگر نصوص پر بھی رہی ہے، ورنہ نئے زمانے کی ایک نئی روشنی یہ بھی ہے کہ لوگ مزاجِ شریعت اور مجموعۂ نصوص سے آنکھیں بند کر کے بس کسی ایک ٹکڑے کو لے کر اپنی خواہش کے مطابق عمارت کھڑی کر دیتے ہیں۔ مصنف نے اس اندازِ تحقیق و استدلال سے کیپٹلزم اور فقر کے سلسلے میں افراط و تفریط کے درمیان منشائے شریعت کو پیش کرنے کی خوب صورت سعی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
‘‘ اسلام مومن کو معاش کے لیے محنت اور زندگی کے لیے عزت و وقار کی تعلیم دیتا ہے۔ مومن کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہ کرے، وہ دینے والا بنے، لینے والا نہ بنے۔ کسبِ معاش کے سلسلہ میں اسلام کا نقطۂ نظر نہایت واضح ہے۔ وہ مومن کو معاشی آسودگی کے لیے جد و جہد پر ابھارتا ہے، آمدنی کے حلال اور حرام ذرائع کی تفصیلات سے آگاہ کرتا ہے اور تجارت کے اسلامی اصولوں کی پاس داری اور ان پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے’’۔ (ص: ۱۱)
اس سے قبل انھوں نے یہ بھی بجا لکھا ہے کہ:
‘‘معاش کے حوالے سے مسلمانوں میں دو انتہائیں پائی جاتی ہیں: ایک طبقہ وہ ہے جو دنیا کی زندگی میں ہر کام یابی کو سر کر لینا چاہتا ہے، اس کا مقصود دنیوی زندگی کو ہی کام یاب بنانا رہ گیا ہے۔ اسے کچھ غرض نہیں کہ آمدنی حلال ہیں یا حرام۔ دوسرا وہ طبقہ بھی ہے جو مذہبی تعلیمات کے باوجود دین و دنیا کے صحیح تصور سے آشنا نہیں ہے۔ اس کے رزقِ حلال کے لیے زیادہ بھاگ دوڑ مستحسن اور پسندیدہ عمل نہیں ہے’’۔ (ص: ۱۰-۱۱)
یہ دونوں انتہائیں ہر دور میں پائی گئی ہیں، آج بھی پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف مال و دولت، فاخرانہ لباس، عمدہ سواری، اعلیٰ مکانات ہی معیارِ زندگی Life Style/Life Status قرار پاتے ہیں، اس کی بنیاد پر حیثیت عرفی طے کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کی ہوڑ ہی مقصدِ زندگی قرار پاتی ہے، اس ہوڑ میں پڑ کر انسان خدا فراموشی میں مبتلا ہوتا ہے اور خدا فراموشی اس کو خود فراموشی میں مبتلا کر دیتی ہے، ایسے لوگوں میں حلال حرام کی تمیز کا نہ ہونا قابلِ تعجب نہیں۔ ہاں اگر وہ چوری، غصب، ذخیرہ اندوزی اور بخل و حرص سے بچ جائیں تو تعجب ضرور ہوگا۔ اس کے بالمقابل ہمارے یہاں دوسری انتہا غلط تعبیر و تشریح کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے، زہد و توکل کا غلط مفہوم بیان کیا گیا، کسبِ معاش کے موضوع سے غفلت برتی گئی، مصنف کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ ہمارے یہاں مال خرچ کرنے پر بڑی گفتگو ہوئی ہے؛ لیکن مال کمانے کے موضوع پر کم لکھا گیا ہے۔ دنیاپر نظر ڈالیے بالخصوص برصغیر کی مسلم آبادی کو دیکھیے تو آپ سراپا سوال ہوں گے کہ جس دین میں رزقِ حلال کے حصول کے فضائل بیان کیے گئے ہوں، کسبِ معاش کے طریقے بتائے گئے ہوں، دست سوال دراز کرنے کو معیوب سمجھا گیا ہو، تجارت کے اصول متعین کیے گئے ہوں، جس کی مقدس ترین شخصیات میں ایک تعداد ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کی رہی ہو، جس دین میں نظام زکوٰۃ برپا ہی اس لیے کیا گیا ہو کہ فقرا و مساکین کو دست سوال دراز کرنے سے بچایا جائے اور فقر و غربت کا خاتمہ کیا جائے، جس دین کی بنیادی کتاب میں مال کو ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کا بنیادی ذریعہ بتایا گیا ہو وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا۔ (النساء: ۵) اس دین کے نام لیوا بلکہ معزز اور مثقف لوگ بھی آخر کس طرح تفریط میں مبتلا ہوئے اور کیسے اس دین سے وابستہ لوگ فقر و فاقہ میں پڑ گئے، غربت و افلاس میں سب سے آگے ہو گئے، کیسے ان کی معیشت کا مذاق بنایا جانے لگا، یہ ایک سنجیدہ سوال ہے، اس سنجیدہ سوال کے جواب میں یہ عرض کرنے کا دل چاہتا ہے کہ ہمارے یہاں مال سے نفرت اور زہد و قناعت اور دین داری کی غلط تشریحات کی گئیں اور وہ تمام تصورات رواج پا گئے جو زمانہ جاہلیت کی نفسیات سمجھے جاتے تھے، ذرا قرآن مجید پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ آج بھی اسی قسم کی نفسیات ہمارے اندر پائی جاتی ہیں جو کبھی مشرکین میں پائی جاتی تھیں۔
ایک طرف کفار و مشرکین مال و دولت کو حیثیت عرفی کے لیے معیار سمجھتے تھے تو یہی ذہنیت ہمارے معاشرے کا حصّہ ہے، دوسری طرف رسولﷺ کی رسالت پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ تو ہماری طرح ضروریات پوری کرتے ہیں، یعنی ان کے نزدیک رسول کو فرشتہ ہونا چاہیے تھا، آج بھی ہمارے یہاں دنیا کمانے اور اپنی ضروریات پوری کرنے والے کو بڑی حیرت سے دیکھا جاتا ہے، کوئی تسلیم شدہ بزرگ بازار یا معمولی سواری پر نظر آ جائے تو اس کی سادگی پر رشک کیا جاتا ہے؛ کیوں کہ ذہنیت وہی بنی ہوئی ہے کہ دین دار وہی ہے جو بازار نہ جائے، خرید و فروخت سے واقف نہ ہو، اپنے سیف زون میں رہتا ہو، خاص سواری ہو، خاص مجلس ہو، خاص مقام و مکان ہو اور طُرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ جو لوگ دنیا کی شناعت اور مال کی کثرت پر لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں وہ دنیا کی تقریباً تمام ہی آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، انھیں ساری لگژیرز حاصل ہوتی ہیں؛ لیکن ذرائع معاش کے طریقے بیشتر ثانوی اور دوسروں پر ہی منحصر ہوتے ہیں۔
دنیا و متاعِ دنیا کو حاصل کرنے، برتنے اور صرف کرنے کے متعلق اس حد تک پھیلے ہوئے غلط تصوّرات، افراط و تفریط کے دوران نوجوان صاحب قلم کی زیرِ نظر کتاب لائقِ تحسین کاوش ہے، جو بے شمار غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے، اسلامی تعلیمات کی صحیح ترجمانی کرتی ہے، زندگی کی ضرورت کو بیان کرتی ہے، آمد و صرف کے اصول بیان کرتی ہے، دین و دنیا کو برتنے کے نبوی طریقے سے واقف کراتی ہے، حسنِ دنیا اور حسنِ آخرت کی خوب صورت، بامعنیٰ اور مدلل تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب علما اور دین دار حلقوں کے لیے بھی اتنی ہی مفید ہے جتنی دیگر لوگوں کے لیے، نوجوانوں اور طلبۂ مدارس کو تو ضرور ایسی کتابوں کا مطالعہ کرانا چاہیے جو یہ سمجھائیں کہ زہد کا صحیح مفہوم کیا ہے: کھانا میسر ہی نہ ہو اور آپ دعویٰ کریں کہ میں زاہد ہوں، کھانے کی رغبت ہی نہیں، تو اسے کیسے کیا جائے گا؟ جو سمجھائیں کہ رسول اللہﷺ کا زہد و فقر اختیاری ہوتا تھا، آپ نے اپنے لیے زاہدانہ زندگی کو پسند فرمایا تھا، احادیث میں آپﷺ نے اس کی صراحت فرمائی ہے کہ اگر آپ پسند کرتے تو پہاڑ آپ کے لیے سونا بنا دیے جاتے؛ لیکن آپ نے یہ پسند کیا کہ ایک دن کھائیں اور ایک دن بھوکے رہیں، آں حضرتﷺ کے زہد و فقر کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ مجبور تھے یا آپ کو کچھ میسر نہ تھا، ہاں یہ صحیح ہے کہ مال و دولت سے آپ کو محبت نہ تھی، آپ نے اسی کی تعلیم و تلقین بھی فرمائی، آپ کے اصحابِ ثروت اور بڑے بڑے تاجر صحابہ کا یہی حال تھا کہ مال کی فراوانی کے باوجود زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے، حضرت زینبؓ کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تو سب مساکین میں تقسیم کر دیتیں، حتی کہ آپ کا لقب ہی امّ المساکین پڑ گیا۔ مولانا انس فلاحی کی یہ کتاب اسی معتدل و متوازن تصوّر کو دلائل کے ساتھ عصری اسلوب میں پیش کرتی ہے۔
یہ کتاب ۶؍ابواب اور ہرباب مختلف فصلوں پر مشتمل ہے۔ باب اوّل میں مصنف نے دنیا کی زندگی سے متعلق صحیح قرآنی و نبوی تصوّر پیش کیا ہے، زہد کا حقیقی مفہوم واضح کیا ہے، انسانی زندگی کے لیے عقیدہ آخرت کی اہمیت اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے، اسلام کے تصوّرِ عبادت پر نہایت وقیع اور عالمانہ گفتگو کی ہے، کتاب کی اسلامیت اور فکرِ سلیم پر اس کی بنیاد کا اندازہ لگایئے کہ ‘‘اسلام میں کسبِ معاش’’ کی اساس انھوں نے عقیدۂ آخرت کی معنویت پر رکھی ہے۔ بابِ اوّل کے یہ مباحث اسلامی زندگی کی اساس اور خلاصہ ہیں۔ دوسرے باب میں مصنف نے اصل موضوع پر روشنی ڈالی ہے، قرآن میں جد و جہد کی ہدایات تلاش کی ہیں، احادیث سے کسبِ معاش کے فضائل بیان کیے ہیں، مسلم مفکرین کی آرا، نظامِ زکوٰۃ کی معنویت و منطقیت کو پیش کیا ہے، معاملات سے متعلق فقہی مباحث کو بھی اسلام میں کسبِ معاش کا صحیح تصوّر پیش کرنے کے لیے دلیل بنایا ہے۔ باب سوم میں کسبِ معاش کے اصول وذرائع سے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ چوتھے باب میں معاشِ نبوی کا عالمانہ اور محققانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ بابِ پنجم میں مال خرچ کرنے کے طریقوں اور مصارف پر روشنی ڈالی گئی ہے، آخری باب میں مال کمانے اور خرچ کرنے کے متعلق اسلامی و غیر اسلامی تصوّرات کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے اور نتائج و اثرات پر گفتگو کی گئی ہے، اسلامی تصوّرِ معاش کے فیوض و برکات کو واضح کیا گیا ہے، مصنف نے بجا نتائج اخذ کیے ہیں اور انھوں نے درست لکھا ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے مال اللہ کا عطیہ اور معاش وسائل زندگی ہے؛ جب کہ غیر اسلامی معاشی نقطہائے نظر میں انسان معاشی حیوان ہے اور مادّی وسائل پر قبضہ ہی مقصدِ حیات ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ۱۷۶؍ صفحات کی یہ کتاب صحیح دینی تصوّر کی ترجمان ہے، عالمانہ شان، تحقیقی اسلوب اور معتدل نقطۂ نظر کی آئنہ دار ہے، اہلِ علم کو اسے ہاتھوں ہاتھ لینا چاہیے اور اپنے مطالعہ کا حصّہ بنانا چاہیے، تاکہ معاشرہ میں معاش، مال و دولت اور آمد و صرف کے متعلق درست رویّے کو رواج دیا جا سکے، زہد و توکل اور کسبِ معاش کے سلسلے میں پھیلی غلط فہمیوں کے اثرات سے ایک بڑے طبقے کو بچایا جا سکے۔ مصنف اس موضوع پر ایسی عمدہ کاوش کے لیے صد ہزار مبارک باد کے مستحق ہیں۔