Home تجزیہ کرناٹک میں بی جے پی کا غلیظ انتخابی کھیل : ٹیپو سلطان بمقابلہ ساورکر- شکیل رشید

کرناٹک میں بی جے پی کا غلیظ انتخابی کھیل : ٹیپو سلطان بمقابلہ ساورکر- شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
کرناٹک میں ٹیپو سلطان بمقابلہ ساورکر کی تیاری ہے ۔
کیوں نہ ہو ریاست کرناٹک کو ’ہندوتو ‘ کی نئی لیبارٹری جو کہا جاتا ہے ۔ اس دعویٰ کی بنیاد ، روزانہ کے اشتعال انگیز بیانات ، اور وہ سرگرمیاں ہیں ، جن میں ’ ہندوتوادی ‘ عناصر ، چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری ، ملوث ہیں ۔ مثال کے طور پر ، کرناٹک بی جے پی کے صدر نلن کمار کٹیل کے تازہ ترین بیان کو لے لیں ، جس میں انہوں نے شیرِ میسور ٹیپو سلطان کا ذکر کیا ہے ۔ بدھ ۱۵ ، فروری کو بنگلورو میں ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ٹیپو سلطان کے حامیوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے ، ٹیپو سلطان کی اولادوں کو جنگلوں میں بھیج دیا جائے ۔‘‘ کوئی اگر یہ سوال کرے کہ ابھی تو ٹیپو سلطان کی یاد میں کوئی پروگرام یا تقریب تک نہیں منائی جا رہی ہے ، نہ ہی ٹیپو سلطان کی برسی یا جینتی ہے ، پھر بھلا نلن کمار کٹیل کو ٹیپو سلطان کی یاد کیسے آ گئی ، تو اس کا ایک ہی جواب ہے ، فرقہ پرستوں کو منافرت پھیلانے کے لیے کسی مقررہ وقت کی کیا ضرورت ، جب جی چاہے وہ ہذیان بکنے لگتے ہیں ۔ یہ نفرت کے سوداگر ہیں ، اور چونکہ کرناٹک کے اسمبلی الیکشن اپریل میں ہونا ہیں ، لہٰذا یہ فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے ۔ نلن کمار کٹیل اسی لیے رام ، ہنومان اور ٹیپو سلطان کا بار بار ذکر کر رہے اور کہہ رہے ہیں کہ کرناٹک کا آنے والا اسمبلی الیکشن اس بار ’ ٹیپو بمقابلہ ساورکر ‘ لڑا جائے گا ۔ یعنی بی جے پی کی پوری تیاری ہے کہ ٹیپو سلطان کے نام پر ووٹروں میں اس قدر پھوٹ ڈال دی جائے کہ اُسے اقتدار کی کرسی حاصل کرنے میں کوئی دقت نہ ہو ۔ سچ کہیں تو ’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘ کا جو الزام انگریزوں پر لگایا جاتا ہے ، وہ بھاجپائیوں پر پوری طرح سے صادق آتا ہے ۔ بی جے پی کا مقصد ہر صورت میں ، ڈرا کر ، دھمکا کر اور برباد کر کے ، حکومت ہتھیانا اور عوام کو بے وقوف بنانا رہا ہے ۔ کرناٹک کو ’ ہندوتو ‘ کی نئی لیبارٹری کہا جا رہا ہو لیکن لوگ خوب جانتے ہیں کہ بی جے پی کو وہاں حکومت حاصل کرنے کے لیے پھوٹ ڈالنے کی پالیسی پر عمل کرنا پڑا ہے ، اور خزانے کا منھ کھولنا پڑا ہے ۔ الیکشن میں عوام نے اسے ٹھکرا دیا تھا ، لیکن گورنر نے کم سیٹیں ہونے کے باوجود بی جے پی کو حکومت سازی کی دعوت دی ، یدی یورپا نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا ، لیکن سپریم کورٹ نے انہیں اکثریت ثابت کرنے کے لیے صرف دو دن کا ہی وقت دیا ، اس لیے انہوں نے دو روز بعد ہی استعفیٰ دے دیا اور کانگریس و جنتا دل ( سیکولر ) ، جو پہلے ہی اکثریت میں تھے ، نے حکومت بنا لی ۔ عوام کی پہلی پسند یہی دونوں پارٹیاں تھیں ۔ لیکن پھر بی جے پی نے ’ آپریشن لوٹس ‘ شروع کیا ، توڑ پھوڑ کی سیاست کھیل گئی اور کانگریس میں سیندھ لگ گئی ، نتیجتاً بی جے پی پھر اقتدار میں آ گئی ۔ مطلب یہ کہ یہ جو بسوا راج بومئی کی حکومت ہے وہ چھل کپٹ کی بنیاد پر کھڑی ہے ، اور یہ بڑی کمزور بنیاد ہے ۔ بی جے پی کو لگ رہا ہے کہ اس بار اس کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں ، اسی لیے اس نے جم کر فرقہ پرستی پھیلانے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ بومئی کی یہ حکومت ہندو – مسلمان کرانے میں خوب ماہر ہے ۔ لوگ جانتے ہیں کہ ’ حجاب کا مسٔلہ ‘ اسی حکومت میں اٹھا ہے ۔ آج کرناٹک کے تعلیمی اداروں کے دروازے باحجاب مسلم بچیوں پر بند ہیں ۔ تقریباً ایک لاکھ مسلم بچیوں نے تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیا ہے ۔ حجاب پر پابندی تو ایک وجہ ہے ہی تعلیمی سلسلہ بند کرنے کی ، لیکن ایک وجہ بچیوں کوستانا اور پریشان کیا جانا بھی ہے ۔ صرف یہی ایک ’ مسلم مخالف پالیسی ‘ نہیں ہے جس نے کرناٹک حکومت کی فرقہ پرستی کو جگ ظاہر کیا ہے ، اذان کو بھی ایک بڑا مسٔلہ بنایا گیا ہے ۔ کرناٹک میں ہندو تہواروں اور ہندو میلوں ٹھیلوں کے مواقع پر مسلم تاجروں پر پابندی بھی لگی ہے ، مسلمان تاجروں کا بائیکاٹ بھی سامنے آیا ہے اور حلال غذا کے خلاف یرقانیوں کی مہم بھی زوروں پر چلی ہے ۔ گویا یہ کہ تعلیم سے لے کر معاشی اور سماجی و مذہبی ، ہر سطح پر مسلمانوں کے لیے زندگی تنگ کرنے کی کوششیں بومئی راج میں کی گئیں یا کی جا رہی ہیں ۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک دن اسمبلی پر ’ بھگوا دھوج ‘ لہرائے گا ، گَرو کے ساتھ اسپیکر آر ایس ایس سے اپنی قربت یا چاہت کا اظہار کرتے ہیں ، وہ بھی ایوان میں ! لیکن ، جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے ، کرناٹک کے عوام کی پہلی پسند جنتا دل ( سیکولر ) اور کانگریس ہیں ، بی جے پی نہیں ۔
کچھ پہلےحیدرآباد کی ایک آزاد ایجنسی ایس اے ایس گروپ نے کرناٹک کی آئی پی پی ایس کی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک سروے کیا تھا ، سروے کے اعداد و شمار سے بلاشبہ بی جے پی کی نیند اڑ گئی ہو گی ۔ سروے کے مطابق اسمبلی الیکشن میں اس بار کانگریس کو 108 سے 114 سیٹوں پر جیت حاصل ہو سکتی ہے ، اور جنتا دل سیکولر کو 24 سے 34 سیٹوں پر ۔ سروے کے مطابق بی جے پی کے کھاتے میں 65 سے 75 سیٹیں جا سکتی ہیں ۔ حالانکہ خود بی جے پی کے خیمہ سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں ان کے مطابق بی جے پی کو 224 میں سے صرف 30 سیٹوں پر کامیابی کا یقین ہے ۔ سروے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کانگریس کو پچھٹرے طبقات ، ایس سی / ایس ٹی اور اقلیتوں کے ووٹ حاصل ہوں گے ۔ سروے کے مطابق اگر مجلس اتحاد المسلمین بھی الیکشن میں اترے ، تب بھی بمشکل ست یا آٹھ سیٹیں ہی متاثر ہوں گی ۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی کیوں ووٹروں کا بھروسہ نہیں جیت سکی ہے ؟ ایک وجہ بی جے پی کی اندرونی رسہ کشی ہے ۔ یدی یورپا کو نظرانداز کیا جانا بی جے پی کےلیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ کرپشن کے الزامات سے پارٹی جوجھ رہی ہے ، انتظامی معاملات کو لے کر عوام میں ناراضگی ہے ۔ ترقی کے کئی وعدے لٹکے پڑے ہیں ۔ چار سال کی بدانتظامی سامنے آ کھڑی ہوئی ہے ۔ سارا دارومدار وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ پر ہے ، لیکن اڈانی معاملہ سے مودی کی ساکھ خود متاثر ہوئی ہے ۔ اور رہے امیت شاہ ، تو ان کا ہندی زبان تھوپنے کا اعلان ، کرناٹک کے لوگوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا ہے ۔ دوسری جانب کانگریس مضبوط ہوتی جا رہی ہے ، اور جنتا دل ( سیکولر ) سے اس کا گٹھ جوڑ الیکشن میں عوام کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چار سال سے یہ دونوں ہی پارٹیاں حکومت سے دور رہی ہیں اور ان کی ساری توجہ زمینی سطح پر خود کو لوگوں سے جوڑنے اور کیڈر مضبوط کرنے پر مرکوز رہی ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے ، بی جے پی ہندو – مسلمان کی سیاست کو مزید تیز کر رہی ہے ، اور اسی سبب اس بار کے اسمبلی الیکشن کو ’ ٹیپو سلطان بمقابلہ ساورکر ‘ بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔ یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ ٹیپو سلطان کو چاہنے والے نہیں ، رام اور ہنومان کو چاہنے والوں کی ضرورت ہے ۔
ابھی حال ہی میں ، کرناٹک کے ایک دانشور دیون وُرا مہادیوا کے لکھے ایک 68 صفحات کے کتابچے کا انگریزی ترجمہ ’ RSS The Long And The Short Of It‘ پڑھ کر ختم کیا ہے ۔ مہادیوا کچھ عرصہ آر ایس ایس سے وابستہ تھے ، لیکن اُس کا مکروہ چہرہ دیکھ کر اسے چھوڑ دیا ہے ۔ مہادیوا کی کتاب کا بنیادی موضوع آر ایس ایس کے نظریات ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم اس ملک میں آئین کو ختم کر کے ’ منو سمرتی ‘ کو نافذ کرنا چاہتی ہے ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے راج میں ’ ورن ویوستھا ‘ پر عمل کیا جائے گا ، یعنی ذات پات کا نظام ، اس نظام میں چند فیصد برہمنوں کا راج ہوگا اور باقی سب اس کے اشارے پر عمل کریں گے اور اس نظام میں دلت سب سے نچلے درجہ پر ہوں گے ۔ مہادیوا نے سنگھی چہرہ کو اجاگر کر کے لوگوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ونگ بی جے پی کو اب باہر کا راستہ دکھا دیں ۔ یہ کتابچہ شائع ہوتے ہی ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں بِک گیا تھا ، اس کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ مہادیوا نے اپنی کتاب میں ٹیپو سلطان کا بھی مختصراً ذکر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں ِ ’’ ٹیپو سلطان کو بدنام کرنے کی مہم ، ایک اچھی مثال ہے کہ ، کیسے آر ایس ایس اور اس کی اولادیں جھوٹ گڑھتی ہیں ۔ ٹیپو نے ریاست میسور پر 1782 اور 1799 کے درمیان حکومت کی ۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ، کوڈاگو میں انہوں نے ( ٹیپو سلطان نے) 69 ہزار ہندوؤں کو اسلام مذہب قبول کرایا ۔ اگر آپ گزٹ میں آبادی کے اعداد وشمار دیکھیں ، اور چاہے آپ کیسا ہی حساب کتاب کریں ، پائیں گے کہ اُس وقت کوڈاگو کے صوبہ میں آبادی 69 ہزار سے کم تھی ۔ اگر آر ایس ایس کا دعویٰ درست ہوتا ، تو کیا آج کوڈاگو میں صرف مسلمانوں کی ہی اکثریت نہ ہوتی ؟ جبکہ کوڈاگو میں مسلمانوں کی
آبادی محض 15 فی صد ہے ۔ ہندوؤں سے ٹیپو کی نفرت کی کہانی پھیلایا گیا جھوٹ ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ یہ تنکا سا جھوٹ پھل پھول رہا ہے ، اور آر ایس ایس اور اس کے سنگھی اس کی فصل کاٹ رہے ہیں ۔ جب آپ اس پر غور کرتے ہیں ، تو صاف ہوجاتا ہے کہ ان کے بھیتر کوئی بھگوان نہیں ہے ، جھوٹ ان کی گھریلو دیوی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اِن جھوٹ گڑھنے والوں نے اپنے ضمیر کو ٹانگ دیا ہے ۔‘‘
مہادیوا نے ایک جگہ اور ٹیپو سلطان کا ذکر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ درسی کتابوں میں جھوٹ بھرا جارہا ہے ، ’’ اور درجہ چھ کی سوشل اسٹڈیز کی درسی کتاب میں ٹیپو سلطان کا ایک مجاہد آزادی کے طور پر جو ذکر ہے ، اسے یہ ہٹا رہے ہیں ، اسی طرح انہوں نے ٹیپو کے ، پیلہ پروری کے لیے ، ٹکسال کے قیام ، زمین کے تعلق سے اصلاحات اور کسانوں کو آسان قرضہ جات دینے وغیرہ کے اقدامات کو ہٹا دیا ہے ۔‘‘ اگر کرناٹک پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ ، وہاں ٹیپو سلطان کے نام پر فرقہ پرست ، مطلب سنگھی ٹولہ ، عرصہ سے سرگرم ہے ۔ میسور میں آج بھی ٹیپو سلطان کو ایک ایسے حکمراں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ، جس نے بہادری کے ساتھ انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا ۔ جنوبی کرناٹک میں آج بھی ہر گھر میں چھوٹے بچوں کو ٹیپو سلطان کہہ کر پکارا جاتا ہے ، کوڈاگو صوبہ میں ٹیپو سلطان کے تعلق سے کچھ غلط فہمیاں ہیں ، لیکن ٹیپو سلطان کے خلاف وہاں سڑکوں پر مظاہرے نہیں ہوئے ۔ کانگریس جب کرناٹک میں حکومت کر رہی تھی اور سدا رمیّا وزیراعلیٰ تھے ، تب انہوں نے ٹیپو سلطان کی جینتی منانے کا فیصلہ کیا ، بی جے پی اس فیصلہ کے خلاف متحد ہو کر سامنے آئی تھی ، تب سے ہی ٹیپو سلطان کے نام پر نفرت کا بازار گرم کیا جا رہا ہے ، اور جھوٹ پھیلایا جا رہا پے ۔ اس بار اسمبلی الیکشن میں ٹیپو سلطان کے نام پر ووٹوں کو تقسیم کرانے کی کوشش کی جائے گی ۔ ظاہر ہے کہ کشیدگی پھیلے گی ، لیکن مسلم اقلیت کو چاہیے کہ وہ نہ مشتعل ہو اور نہ بی جے پی کے دَام میں آئے ۔ کرناٹک میں بی جے پی کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں ، صبر کا مظاہرہ کرے اور اُسے اپنا ووٹ دے جو کرناٹک میں ان کے حقوق کی حفاظت کر سکے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment