Home اسلامیات کربلا، شیعان علی اور مشاجرات صحابہ -محمد ہاشم خان

کربلا، شیعان علی اور مشاجرات صحابہ -محمد ہاشم خان

by قندیل

آج دل بڑا مغموم تھا۔ طبعی کیفیت نا قابل تشریح تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کوئی ایسا معمولی واقعہ تو ہے نہیں کہ دل اداس ہوئے بغیر رہ جائے، یا دن ملول کئے بغیر گذر جائے، دماغ میں کوئی خلجان نہ ہو، رگ و ریشے میں کوئی ہیجان نہ ہو اور جوں جوں ان کی شہادت کا دن قریب آتا ہے ماتم و محزونی کی مجموعی صورت حال مزید احساس بے بسی اور فسردگی میں مبتلا کردیتی ہے؛ حزن و ملال، رنج و غم اور خلش و ہزار حیف سے ماورا ایک عجیب سی کیفیت۔
حضرت حسینؓ کی شہادت کا غم ہمیں بھی ہے لیکن اس کا اظہار ہم شیعوں کی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعن طعن بھیج کر نہیں کر سکتے۔ یہ نہ تو ہمارے عقیدے کا حصہ ہے اور نہ ہی اللہ رب العزت کو یہ پسند ہے کہ اس کے انتخاب پر کوئی سوال قائم کرے۔ یہ مومنین کی جماعت تھی جسے اللہ رب العزت نے اپنے نبیؐ کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ سو اللہ واحد کے انتخاب کو دائرہ تنقید میں لانا کارِ شیطانی تو ہو سکتا ہے شانِ ایمانی نہیں۔ محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتے ہی صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد کے کردار کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسلام کو نہ ماننے والا اچھا خاصا روشن خیال شیعہ بھی مسلمان نظر آنے لگتا ہے۔اگر کسی کو تکلیف ہے تو وہ بلاشبہ مجھے انفرینڈ کرکے جاسکتا ہے۔ میں آل رسولؐ کی عظمت و توقیر کا قائل ضرور ہوں لیکن ان کے نام پر نسل پرستی کو فروغ دینے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا۔ بصد معذرت کہ فی زمانہ آل رسولؐ کا ٹیگ نسل پرستی کی تمام حدود کو پار کرچکا ہے۔ فی زمانہ یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ آپ آل رسولؐ ہیں سو آپ عام انسان نہیں ہیں اور یہ اسلام کے بنیادی اصول "ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم” کی نفی ہے۔ یعنی اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ مکرم وہ شخص ہے جو زیادہ متقی ہے اور متقی ہونا عمل و عبادت سے مشروط ہے، خاندانی وراثت سے نہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ اسلام آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل ہوچکا تھا، یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خواہ کوئی کتنا ہی قیامت خیز سانحہ کیوں نہ رونما ہو جائے وہ ہمارے بنیادی عقیدے کا حصہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس بنیاد پر کوئی اسلامی حکم نافذ کیا جا سکتا ہے۔ کربلا کا سانحہ فاجعہ یقیناً ایک بہت ہی دل فگار و جگر خراش سانحہ ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے لیکن اس کا ہمارے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ ہمارا عقیدہ (اسلام) اس قیامت خیز سانحے کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے مکمل ہوچکا تھا جب اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی تھی "الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔۔”۔ لہٰذا اب کوئی اضافی چیز شامل کی جائے گی تو وہ بدعت کے زمرے میں جائے گی۔
کربلا کا واقعہ ہمارے عقیدے نہیں عمل سے متعلق ہے، اُس وقت دنیا نے دیکھا کہ ‘حواریانِ حسین’ سے بڑا روباہ، عیار، منافق اور بزدل کوئی نہیں تھا اور آج بھی دنیا دیکھ رہی ہے کہ اِن سے بڑا منافق کوئی نہیں ہے۔ یہ حسینؓ کا غم تو مناتے ہیں لیکن ‘حسنؓ’ کا نہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے قتل (شہادت) کو جائز نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کی حفاظت کے لیے انہوں نے اپنے صاحبزادوں کو صدر دروازے پر مامور کر دیا تھا، لیکن یہ لوگ جائز سمجھتے ہیں۔ اور پھر یہ حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان، حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہم اجمعین کو شہید کرنے والے کون لوگ تھے؟ کیا یہ صحابہ تھے (نعوذ باللہ من ذالک)؟ کیا یہ سبائی فتنے کے بنیاد گزار نہیں تھے؟ جی ہاں عبداللہ ابن سبا کا پیدا کردہ ‘نسلی مفاخرت’کا وہی فتنہ جس پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خموشی عجیب قسم کی بے چینی پیدا کرتی ہے۔ جنگ نہاوند میں مجوسیوں کی شکست فاش کے بعد آتشکدہ ایران ہمیشہ کے لیے سرد ہو گیا اور سارے مجوسی شیعہ ہوگئے۔ حیرت ہے کہ تاریخ کے اس اہم ترین پہلو پر مودودی مرحوم کا قلم زندگی بھر خاموش رہا۔
لہٰذا کربلا کا غم تو ہے لیکن یہ حق و باطل کا غم نہیں، منافقت اور بزدلی کا غم ہے۔اس معاملے میں یزید کے افعال کی بدترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، یزید سے میرا کوئی سروکار نہیں کہ وہ بہرحال صحابی رسول نہیں تھا اور بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ وہ بھی دوسرے بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ تھا، لیکن اس کے لئے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کو جائز قرار نہیں دے سکتا(نعوذباللہ)۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ناشائستہ الفاظ استعمال کرنے والے تاریخ کے اس روشن پہلو کے بارے میں کیا کہیں گے جب حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے صلح کی تھی؟ کیا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلط کیا تھا؟ سانحہ کربلا سے بہت پہلے ایک کربلا کو ٹالنے کے لئے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر معاویہؓ سے صلح کی تھی ۔یہ صلح درست نہیں تھی؟ اگر تاریخ کا یہ روشن پہلو جھوٹ ہے تو پھر آپ کی تاریخ درست کیوں ہے؟
جیسے ہی محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا ہے ایک جماعت سامنے آتی ہے اور کربلا کو حق و باطل کی جنگ قرار دیتے ہوئے خود کو جماعتِ حق و برحق ثابت کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتی ہے۔ ایک روشن خیال شیعی گروہ سامنے آتا ہے اور کربلا کا غم مناتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بالخصوص امہات المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خلاف سب و شتم کی بوچھار شروع کردیتا ہے۔کچھ واضح لفظوں میں تو کچھ ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنی ‘عقیدت’ کا اظہار کرتے ہیں۔کچھ لوگ سید زادہ ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت اور دیگر بیانات کو نقل کرنے لگتے ہیں اور یوں مغلظات سے بھرپور پوسٹوں کا اذیت ناک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بزعم خود ادیب ہوتے ہیں اور محرم کے دس دنوں میں’یا حسین‘ کا نعرہ لگا کر سال بھر کے لیے اپنے ایمان کی تجدید کرلیتے ہیں۔ آپ کربلا کا غم ضرور منائیں، مجھے کوئی تکلیف نہیں، (در اصل یہ غم میں خود بھی مناتا ہوں) لیکن جب آپ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایمانی فراست پر سوال اٹھائیں گے تو تکلیف ہوگی۔ میں اس کائنات میں انبیاء و رسل کے علاوہ کسی بھی شخص کو صحابہ کرام پر مقدم نہیں کر سکتا۔ میں انہیں انسان مانتا ہوں اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہوں کہ ان سے متقضائے بشریت غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن میں ان غلطیوں کو نیت کی نہیں اجتہادی غلطی سمجھتا ہوں۔ یہی علمائے اسلام کا موقف ہے۔ اگر آپ کا بھی یہی موقف ہے تو آپ خوش قسمت انسان ہیں کہ اللہ نے آپ کو گمراہ ہونے سے بچا لیا ہے۔
اب میں یہاں صرف ایک ہی بات پوچھنا چاہوں گا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے سامنے یہ سوال رکھا جائے کہ ایک طرف حضرت امیر معاویہؓ ہیں اور ایک طرف مودودی ہیں۔اسلامی نقطہ نظر سے دونوں میں کس کو افضلیت حاصل ہے۔مودودی کے مزخرفات کا سوال اسی جواب میں پوشیدہ ہے۔حضور دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔ کہاں نومولود پاکی مسلمانوں کا امیرالمومنین بننے کی مولانا مرحوم کی خواہش اور کہاں صحابہ کرام کی عظمت و تقدیس کا معیار کہ آقائے نامدارؐ نے فرمایا خبردار! میرے صحابہ کو برا بھلا مت کہو۔۔۔۔۔ (لا تسبُّوا أصحابي؛ فلو أن أحدَكم أنفقَ مثلَ أُحدٍ ذهبًا ما بلغَ مُدَّ أحدهم ولا نصيفَه (بخاری- 3673)۔یہ وہی حرص و ہوس سے پاک، بے غرض و بے لوث شیخ مودودی ہیں جو پاکستان کی تجویز کو دہری حماقت قرار دیتے ہیں لیکن جب پاکستان کا قیام ناگزیر ہوجاتا ہے تو مولانا محمد علی جناح کو کلمہ پڑھانے کے لیے سب کچھ ہندوستان چھوڑ فوراً پاکستان روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ تھی اغراض نفسانیہ کی پرستش کرنے والے عزت مآب سید زادے کی عزیمت اور بہتان تراش رہے ہیں امیر معاویہؓ، عمر و ابن عاص، مغیرہ بن شعبہ و دیگر کبار صحابہ پر جو بہر صورت ایک صحابی تھے۔ میں کسی بھی ایسے مسلمان کو اسپیس نہیں دے سکتا جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے یا ان کی صداقت و راست بازی پر کلام کرتا ہے۔ اگر یہ اسپیس دیا جانے لگا تو پھر یہ سوچ لیں کہ یہ قرآن ہم تک انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وجہ سے پہنچا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ قرآن کی کتابت اور تدوین صحابہ کرام نے کی ہے ۔آپؐ کے ذریعہ صحابہ تک اور صحابہ کے ذریعہ تابعین و تبع تابعین و قس علیٰ ہذا کے مصداق یہ قرآن ہم تک پہنچا ہے، یہ سارا اسلام ہم تک پہنچا ہے۔ مشاجرات صحابہ کا صاف مطلب یہی ہے کہ سبائی فتنہ صرف زندہ ہی نہیں ہے بلکہ اسے کئی ممالک کی مالی و اعتقادی حمایت بھی حاصل ہے۔
سبائی فتنے کی پہلی کوشش ‘نسلی مفاخرت’ کے نام پر آل بیت پر مبنی خاندانی موروثی نظام کی داغ بیل ڈالنا تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔جب شیعان علی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیگر صحابہ عظام کے مقابلے میں خلافت، امامت یا آپؐ کا جانشین ہونے کا زیادہ مستحق سمجھا تھا تو وہ آخر کس بنیاد پر تھا؟ یہی نا کہ آپ نبیؐ کے داماد ہیں؟ آپؐ کے خاندان سے ہیں؟ اس کے علاوہ اور کوئی بڑی وجہ تھی جس کی بنیاد پر حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ کی نفی کی جاتی۔ (نعوذ باللہ موازنہ مقصود نہیں ہے، بلکہ اس نقطے کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اسلام میں موروثیت کو لانے کی سب سے پہلی کوشش اہل تشیع نے کی تھی جو آج سب سے زیادہ چیخ چلا رہے ہیں)۔
میں بہت ہی گناہ گار آدمی ہوں لیکن اتنا روشن خیال نہیں ہوں کہ تاریخ کی مظلومیت کا بہانہ بناکر صحابہ کرام کو گالیاں دی جائیں اور میں خاموش رہوں۔1400 سال قبل کیا ہوا تھا میں اسے اللہ کے حوالے کرتا ہوں. 1400 سال بعد کیا ہورہا ہے اسے میں اللہ کے حوالے نہیں کرسکتا کہ اس پر مجھ سے باز پرس ہوگی. محمد ہاشم خان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں کون درست تھا لیکن یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تم زندہ تھے اور کچھ لوگ اسلام کے روشن ستاروں کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو اس وقت تم کیا کر رہے تھے۔ ارشاد باری ہے (تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿134-2﴾(یہ جماعت گزرچکی۔ ان کو اُن کے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمھارے اعمال (کا) اور جو عمل وہ کرتے تھے ان کی پرسش تم سے نہیں ہوگی)۔لہٰذا اس آیت کریمہ کی روشنی میں حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان معاملات کو اللہ کے حوالے کیجئے اور اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کو صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ آمین۔

You may also like