معروف صحافی اور انٹرویو کے تعلق سے دنیا کے مشکل ترین صحافیوں میں سے ایک، کرن تھاپر کے ساتھ پرشانت کشور (پی کے) کے انٹرویو میں پی کے کا تیور بھاجپا کے ترجمان والا تھا۔ جب وہ شخص وزیر اعظم کی مسلم مخالف تقریروں کے دفاع میں سونیا گاندھی کے بیان (موت کا سوداگر) کا حوالہ دے کر کام چلانے کی مذموم کوشش کر رہا تھا، تب وہ اپنے بد ترین تعصب کا مظاہرہ کر رہا تھا اور شاید یہی ٹھوس سچائی ہے اس کی شخصیت اور اس کے نظریے کے حوالے سے۔
اچھا ہوا وہ مزید واضح طور پر بے نقاب ہو گیا۔ پچھلے دنوں بہار میں اس نے بس ایک کام پر خود کو لگا رکھا تھا، مسلمانوں کو راجد-کانگریس سے علیحدہ اور بیزار کرنا اور اس طرح بھاجپا کی جیت کو آسان بنانا۔ اس نے پوری مسلم آبادی کو معصوم یا احمق یا سامان خریدو فروخت سمجھ رکھا ہے۔
ہو سکتا ہے الیکشن کے نتیجے کے حوالے سے اس کی forecast یا prognosis صحیح ہو جائے۔ لیکن اسے یہ اعتراف کرنا چاہئے تھا کہ اس کی اٹکلیں ماضی میں کچھ ایک بار غلط بھی ثابت ہوئی ہیں۔ اپنے ہی ٹوئٹ سے انکار، ہٹ دھرمی اور بد تمیزی کر رہا تھا۔ حالاں کہ پیشہ ورانہ پیمانے پر رکھ کر دیکھا جائے تو کرن تھاپر بھی کسی کسی لمحے اپنا اعتدال کھو رہے تھے، لیکن انہوں نے خود کو سنبھالا۔
بہر کیف بے پناہ صارفیت اور ہوس کے اس عہد میں بدترین اور بے ایمان ترین طریقوں سے ہی سہی جس نے بھی دولت اور طاقت حاصل کر لی، اسے لوگ کامیاب سمجھنے لگتے ہیں اور اس جیسا بننے کے کیچڑ میں دھنسنے لگتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی پی کے کو (رول ماڈل) بنا رکھا ہے آج کے نوجوانوں کے ایک حصے نے۔
کرن تھاپر نے پی کے سے ایک اہم ترین سوال نہیں پوچھا کیوں کہ وہ سوال انٹرویو کے موضوع سے کسی قدر مختلف تھا۔ وہ یہ کہ حال ہی میں بہار میں جن سوراج یاترا کے دوران وہ زیادہ تر مسلم آبادی کے درمیان ہی کیوں جارہا تھا؟ اس کے ملازمین میں مسلم نوجوانوں کی ایک اچھی تعداد ہے۔ کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو حال تک تیجسوی کے معتقد تھے اور ایم ایل اے بننے کی جلدی میں ہیں خواہ وہ پی کے ہی کی معرفت کیوں نہ ہو ۔ ان میں کچھ ایسے مسلم نوجوان بھی ہیں جنہیں فیس بک پر کچھ لائکس مل جانے کی وجہ سے لگتا ہے کہ ان کے اندر ایم ایل اے اور ایم پی بن جانے کی تمام تر اہلیتیں ہیں۔ شہرت، طاقت، دولت پانے کی عجلت انگیز ہوس نے ان کے ہوش و حواس چھین رکھے ہیں۔ وہ باؤلے ہو چکے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں تامل ہے کہ بھارت بدل چکا ہے۔ اقتدار میں بی جے پی رہے یا نہ رہے، لیکن بھارت کی مسلم اقلیت کے تئیں پالیسی اور نظریے میں "انقلابی” تبدیلی آ چکی ہے۔ دیگر متعدد شعبوں میں مسلمانوں کا کریئر ہو گا، لیکن لیجسلیٹیو نمائندگی مزید کم ہوتی رہے گی۔ لہذا ترک و مغل کے گھوڑے سے اتر کر اس جانب دیکھئے جس جانب گھوڑے کے چلے جانے کے بعد کی جو گرد ہے وہ دکھائی نہ دے رہی ہو۔ قرةالعین حیدر کا ایک اردو افسانہ ہے بہ عنوان ‘دریں گرد سوارے باشد’ اس افسانے کے مکالمے کو غور سے پڑھئے، دیر تک سر دھنئے اور پھر بدلے زمانے میں تعلیم و تجارت پر توجہ مرکوز کیجئے، پاور تھیولوجی کے تحت ہمہ وقت ایم ایل اے اور ایم پی بننے کا روگ پالئے گا تو پچھتانے لائق بھی نہ رہیں گے۔
پی کے نے بہار کے مسلم نوجوانوں کو سیاسی طور پر گمراہ کر نے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ یہ مسلم نوجوانوں کو اقتدار دلوانے کی افیم پلا رہا تھا۔ دہائیوں سے یہی افیم ہمارے نوجوانوں کو پلایا جا رہا ہے، خود ہمارے اکابر کی معرفت۔ پی کے نے مبینہ طور پر آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم سے ڈگریاں لینے کے بعد اپنی دوکان چمکائی۔ تساہل اور عجلت کے شکار مسلم نوجوان بغیر اس پایہ کی تعلیم حاصل کئے ہی شہرت، طاقت اور دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تقریبا ربع صدی سے مسلم یونی ورسٹیوں میں درس و تدریس اور تحقیق و اشاعت سے راقم کا تعلق ہے۔ بہار اور اتر پردیش کے مسلم نوجوانوں سے ہی زیادہ تر سابقہ رہتا ہے۔ ان کی آرزوؤں، ان کی کمزوریوں اور ان کی خوبیوں و خامیوں سے کچھ واقفیت راقم کو ہے۔ ان کی ترجیحات سے بھی واقفیت ہے۔ ان کے اساتذہ کے اندر اندریش پرستانہ سیاست برائے حصول وائس چانسلری نے ان نوجوانوں کو بھی کمزور بنا ڈالا ہے۔ مسلمانوں کی یونی ورسٹیوں کے اندر بے صلاحیت اساتذہ ہی کو عہدوں سے نوازا جا رہا ہے۔ اور وہ ان عہدوں پر طویل مدتوں تک قابض رہتے ہیں۔ اساتذہ کے منتخب نمائندے بے ایمان خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، یا انہی غاصبوں سے سانٹھ گانٹھ کئے ہوئے ہیں۔ سیمیسٹر کے امتحانات اور مقابلہ جاتی ٹسٹ برائے داخلہ میں حد درجہ بدعنوانی اور لاپرواہی عیاں اور نمایاں ہے اور ان سب پر مجرمانہ خاموشی ہے!
لہذا ان یونی ورسٹیوں کے طلبا میں بھی علمی صلاحیت اور استطاعت کے اضافے کی تمنا معدوم پڑ جاتی ہے اور تگڑم بازی سے منصب حاصل کرنے کی چالیں سیکھنے پر توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔
کامیاب ترین صحافی، کرن تھاپر (ہندو) نے کامیاب ترین الیکشن مینیجر، پرشانت کشور (ہندو) کو ذہین ترین سوالات کی معرفت بے نقاب کر دیا۔ اس کی بھگوائیت کو طشت از بام کر دیا۔ اس کی تمام تر نظریاتی بے ایمانیوں کو دنیا کے سامنے لا کر رکھ دیا۔
ٹھیک اسی طرح کتنے مسلم صحافی ہیں جو موقع پرست، اندریش پرست، بھاگوت پرست، مودی پرست مسلمانوں اور مسلم فرقہ پرست مسلم نیتاؤں اور پروفیسروں کو بے نقاب کرنے کی نیت و جسارت رکھتے ہیں؟ ایک بار اس نہج پر بھی خود احتسابی کیجیے۔ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ کی انتظامیہ کے اندر داخلے اور تقرریوں کی سطح پر، اداروں کی زمینوں کو غصب کرنے کی سطح پر، قوم کو بیچ کر منصب حاصل کرنے کی سطح پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اسے بے نقاب کرنے کی جسارت مسلمانوں کے اندر کیوں نہیں ہے؟ مسلمانوں میں حد درجہ اخلاقی پستی کیوں ہے؟ اے ایم یو کے اندر اساتذہ کے نمائندے ان تمام بد عنوانیوں پر خاموش کیوں ہیں؟ ہم ہندوؤں سے چاہتے ہیں کہ وہ مودی کو کم از کم تیسری بار اقتدار نہ دیں، لیکن مسلم یونی ورسٹی کے اندر جو پروفیسر کسی عہدے پر دس برسوں سے قابض ہے، وہ اسی پر جما رہے۔
ہندوؤں کی خاطر خواہ تعداد ہندو فرقہ پرستوں سے آج بھی لڑ رہی ہے۔ مسلمانوں کی اخلاقی پستی کا ثبوت چاہئے تو دونوں مسلم یونی ورسٹیوں کے اندر کے عہدے داران اور منتخب نمائندوں کے کردار دیکھئے۔ کون مسلمان کس مسلمان کے یہاں ظہرانہ، عشائیہ، ہائی ٹی وغیرہ کی معرفت کس سیاسی پارٹی کے لئے ووٹ مانگتا پھر رہا ہے، ان تقریبات کے فوٹوگرافس اور ویڈیو کلپس دیکھئے، ان میں موجود مسلم پروفیسران کی بے حیائی دیکھئے۔ مسلم رجعت پسندی اور فرقہ پرستی پر مسلم دانشوروں کی خاموشی و حمایت دیکھئے اور ہندو دانشوروں کی ہندو فرقہ پرستوں کے خلاف مزاحمت دیکھئے۔ بھگوائیت کی حمایت کرنے والے مسلم پروفیسروں کو مسلم پروفیسروں سے ملنے والے ووٹوں کی تعداد دیکھئے، ان کا ایماندارانہ تجزیہ اور احتساب کیجئے۔
المختصر، یہ دیکھئے کہ ہندو معاشرے نے اگر پی کے جیسا شخص پیدا کیا ہے تو اسی معاشرے نے کرن تھاپر بھی تو پیدا کیا ہے۔ مسلم معاشرے میں کیا ہے، یہ دہلی اور علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹیوں میں دیکھئے۔ اگر آپ ایمان دار اور اہل نظر ہیں تو ایک مثبت نتیجہ حاصل کرنے والا تقابلی جائزہ کر پائیں گے، ورنہ ہماری قوم میں منافقوں، مکاروں، موقع پرستوں کا جو بول بالا ہے اسے نہ دیکھنے کا جھوٹ خود سے بولتے رہئے۔
خود احتساب کی بات کرنے سے قوم کو مرچی لگتی ہے، پھر بھی ایسی تحریر لکھ رہا ہوں۔ آگے آپ کی مرضی! اور آپ کے بے ایمان و مکار دانشوروں اور اکابرین کی مرضی!
کرن تھاپر – پرشانت کشور کے انٹرویو سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں ؟ – پروفیسر محمد سجاد
previous post