بھلے ہی گیا وقت پھر لوٹ کر نہ آئے لیکن اپنے آپ کو دہراتا ضرور ہے، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ پوتے پوتیوں کی جسمانی ساخت میں کہیں دادا جان جھلکتے ہیں، کہیں دادی جان چمکتی ہیں ، کہیں کوئی اور خاندانی بزرگ نظر آتا ہے، کسی کی عادتیں ملتی ہیں، کسی کے خیالات ملتے ہیں، کہیں واقعات میں یکسانیت ہوتی ہے تو کہیں باتوں میں مماثلت نظر آتی ہے، کہیں چال ڈھال کو دیکھ کر بڑے بزرگ یاد آجاتے ہیں۔
آپ نے یقیناً کتابوں کی ورق گردانی کی ہوگی، اپنے گرد و پیش سے باخبر بھی رہتے ہوں گے، آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ہزاروں سال قدیم کسی سے منسوب کوئی خاص واقعہ اپنے دَور اور اپنے عہد میں کسی کے ساتھ بھی وقوع پذیر ہوجاتا ہے ۔
قرآن کریم ام الکتاب ہے ، یہ وہ کلام الہٰی ہے جس نے سابقہ تمام کلاموں کو منسوخ کردیا، یہ وہ نوشتۂ خداوندی ہے جس نے تمام نوشتوں کو پیچھے چھوڑدیا، یہ وہ ناسخ کلام ہے جس کی تعلیم اور جس کا اثر تا قیام قیامت دوامی ٹھہرا، کتاب آخری، شریعت آخری،نبی آخری، امت بھی آخری اور مہر بھی ہمیشہ آخر میں ہی لگتی ہے ، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے کسی کو بھی مہر نبوت سے نہیں نوازا گیا کیونکہ وہ آخری نبی تھے ہی نہیں یہ خصوصیت ہمارے نبی کے ساتھ ہوئی کیونکہ آپ کے بعد باب نبوت بند ہو گیا۔
قرآن کا سہل ہونا پڑھنے میں بھی ہے ، لکھنے میں بھی ،یا د کرنے میں بھی ہے اور دوسروں کو سمجھانے میں بھی، دنیا بھر میں ہزاروں بولیاں بولی جاتی ہیں لیکن کلام اللہ شریف عربی میں ہے اور پوری دنیا عربی میں ہی پڑھتی ہے ، عربی میں ہی اس کو لذت ملتی ہے ،عربی میں ہی طلبہ یاد کر پاتے ہیں، پوری دنیا میں قرآن کریم کی کسی ترجمہ اور تشریح کا کوئی حافظ نہیں ملے گا لیکن دنیا بھر میں کروڑوں حفاظ کرام فرفر پڑھتے مل جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور کتاب کے سہل ہونے کا ذکر ہی نہیں فرمایا ہے۔
بہت حضرات نے بہت ہی کم عمری میں قرآن کریم یاد کرلیا تو بہت سے بزرگوں نے کم مدت میں حفظ کرلیا،کچھ بزرگوں کو ہزار کوشش کے باوجود قرآن کریم تو یاد نہیں ہوا لیکن احادیث اتنی یاد ہوگئیں کہ حافظ حدیث کہلائے۔ یہ دولت جس کو مل جائے خوش نصیب ہے ،اس کے والدین کے سروں پر اس دن تاج رکھا جائے گاجس دن کتنے ہی تاج والے بے تاج نظر آئیں گے،کتنے ہی دنیوی کرو فر والے راہ فرار کی تلاش و جستجو میں خوار ہو رہے ہوں گے، امام العصر حضرت مولانا علامہ محد انور شاہ کشمیریؒ ہزاروں ہزار احادیث کے حافظ، کتب خانوں کے کتب خانے پئے ہوئے لیکن اللہ تعالی کی مرضی کہ حافظ قرآن نہیں تھے۔آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ حضرت مولانا شیخ محمد یونس جون پوریؒ بھی حافظ قرآن نہیں تھے حالانکہ صرف بخاری ومسلم ہی نہیں صحاح ستہ ہی نہیں نہ جانے کتنی احادیث کے حافظ تھے ،یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ بھی حافظ قرآن نہیں ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ سے قرآن کریم کی خدمت کس طرح اور کس قدرلی ہے کہ شمارمشکل ہوجائے گا۔علوم القرآن لکھی ،قرآن کریم کاترجمہ لکھا،اپنے والدماجدحضرت مولانا مفتی محمدشفیع عثمانی کی معرکۃ الاآرائ کتاب ’’معارف القرآن‘‘ پرکام کیا، بے شمار آیات اور قرآنی موضوعات پر تحقیقی کام کئے ۔
خیر یہ باتیں تو ضمنا گوشۂ دماغ میں آکرنوک قلم سے قرطاس ابیض پرپھسل گئیں ۔آمدم برسرمطلب:
اگر آپ تاریخ کے اوراق کھنگالیں گے تو ایسے کئی واقعات مل جائیں گے جہاں کوئی ایک ہفتہ میں قرآن کریم حفظ کرلیتا ہے تو کوئی ایک ماہ میں۔
چنانچہ حضرت امام ابوحنفیہؒ نے اپنے تلمیذ رشید حضرت امام محمدؒ کو مشورہ دیا کہ قرآن کریم حفظ کرلو،یہ حکم ملنا تھا کہ حضرت امام محمدؒ ایک ہفتہ کے لئے غائب ہوگئے،ایک ہفتہ بعدجب واپس آئے تو حافظ قرآن تھے۔
حضرت شیخ عزالدین ابن جماعہؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ محض ایک مہینہ میں قرآن کریم حفظ کرلیا تھا۔
حضرت ہشام کلبیؒ فرماتے ہیں کہ میرے چچا جان قرآن یاد نہ کرنے پر مجھ کو وقتا فوقتا ملامت کرتے رہتے تھے، مجھے بڑی غیرت آئی، میں نے قسم کھائی کہ جب تک حفظ نہیں کرلوں گا گھر سے باہر قدم نہ نکالوں گا؛ چنانچہ محض تین دن میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔
قاضی ابوعبداللہ ؒنے پانچ سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھااورحضرت ابن شہاب زہری ؒنے سات سال کی عمر میں محض سات دنوں میں کلام اللہ شریف حفظ کرلیا تھا ۔
حضرت امام شافعیؒ نے بھی سات سال کی عمرمیں قرآن کریم حفظ کرلیا تھا۔حضرت علامہ جلال الدین سیوطی ؒکی عمر آٹھ سال تھی جب ان کے حفظ کی تکمیل ہوئی۔
حضرت روح اللہ لاہوریؒ نے مکہ معظمہ میں ماہ رمضان مبارک کے اندر بیس دنوں میں اور امام المعقولات حضرت مولانا فضل حق خیرآبادیؒ نے چار ماہ میں قرآن حفظ کرلیا تھا۔
حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ جب حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو دوران سفر سمندر میں ہی جہاز پر رمضان شریف کا چاند نظر آگیا، رفقاء کی خواہش ہوئی کہ تراویح پڑھی جائے، مگر کوئی حافظ نہیں تھا، لوگوں کے اصرار پر ایک پارہ روزانہ دن میں حفظ کرتے اور رات کو تراویح میں سنادیا کرتے، اس طرح رمضان کے ساتھ ہی قرآن لریم بھی مکمل ہوگیا۔
حضرت مولانا احمد رضا خان بریلویؒ بھلے ہی ہمارے طائفہ اور جماعت کے نہیں ہیں بلکہ ہماری مخالفت میں سب سے آگے ہیں لیکن ان کی زندگی کا یہ سچ بہت سے لوگوں کو چونکادے گا کہ آپ نے بھی محض ایک ماہ میں قرآن کریم حفظ کرلیا تھا۔
خیر اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو متعلقہ کتابوں ، اخباروں ،رسالوں اور لوگوں کی زبانوں پر موجود ہیں۔
یہ سطور لکھنے پر مجبور کیا ہے جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے اُس ہونہار طالب علم نے جس نے محض سو دن میں یعنی تین ماہ دس دن میں مکمل قرآن کریم حفظ کر لیا، سودن میں حفظ کر لینے کا یہ واقعہ نادر تو نہیں ہے لیکن اس کے استاذ نے شاگرد کی جو بات بتائی وہ نہایت ہی قابل رشک ہے ، استاذ کا کہنا ہے کہ میں اس کو جو بسکٹ دیتا تھا وہ اگلے دن بھی اس کی جیب میں ملتے تھے ،میں نے پوچھا کہ بسکٹ کھائے کیوں نہیں تو معصومیت کے ساتھ جواب دیا کہ کھانے کا وقت نہیں ملا۔اللہ تعالی اس بچے کو،اس کے اساتذہ اور اس کے مادرعلمی کو بیش از بیش ترقیات سے ہم کنار فرمائے۔