Home سفرنامہ کچھ دیر ایک ’’ گنجِ شہیداں ‘‘میں (کلیم عاجز کے وطن تیلہاڑہ کے سفر کی روداد ) ۔ مولاناضیاء الحق خیرآبادی

کچھ دیر ایک ’’ گنجِ شہیداں ‘‘میں (کلیم عاجز کے وطن تیلہاڑہ کے سفر کی روداد ) ۔ مولاناضیاء الحق خیرآبادی

by قندیل
تمہید:
 ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب اور ان کی کتابوں سے آشنائی ابتداے عمر میں ہی ہوگئی تھی، انھوں نے اپنی کتابوں میں اپنی جائے پیدا ئش ’’ تیلہاڑہ ‘‘ کا ذکر جس کثرت اور والہانہ انداز میں کیا ہے ، اس کی وجہ سے اسی وقت سے اس کی آرزو تھی کہ جو بستی ہمارے محبوب شاعر کے دل کی دھڑکن اور ان کے جسم میں لہو بن کر دوڑ رہی ہے ضرور اس کی زیارت کرنی چاہئے ۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کو اس کثرت سے پڑھا کہ تیلہاڑہ کی سنگی مسجد ، اس کے سامنے پیر یوسف ابدال کا قبہ ، ان کے گھر کے سامنے عیدگاہ ،اور اس پر سایہ کئے ہوئے پانکڑ کا گھنا درخت ، برگد کی چھاؤں ، سنگرہار کے پھول اور گاؤں کے کنارے ندی پر مغلیہ دور کا بنا ہوا قدیم پل ہمہ وقت نگاہوں کے سامنے رہنے لگے ۔
تیلہاڑہ اور کلیم عاجز:
 یہ بستی پٹنہ کے نواح میں قدیم شرفا کی ایک اہم اور ممتاز بستی تھی ، کلیم صاحب نے اپنی نثری تحریروں اور شاعری کے ذریعہ اسے زندۂ جاوید بنادیا ،اور ایسے والہانہ انداز میں اس قدر ٹوٹ کر اس بستی اور یہاں کے رہنے والوں کا تذکرہ کیا کہ یہ بستی اور یہاںکے مکین ہزاروں دلوں کی دھڑکن بن گئے ۔ کلیم صاحب دس سال کی عمرمیں تیلہاڑہ سے کلکتہ پھروہاں سے پٹنہ آگئے، ان کا جسم تو تیلہاڑہ سے باہر رہتا لیکن وہ اپنی سوچ ، فکر اور آرزو وتمنا ہر اعتبار سے یہیں رہتے ،یہ ان کے خوابوں کی سرزمین تھی ،وہ جب کلکتہ یا پٹنہ سے تیلہاڑہ کے لئے روانہ ہوتے تو ان کی یہ کیفیت ہوتی:
 ’’جب میں اسکول سے چھٹیوں میں گھر آتا تو فتوحہ اسٹیشن جہاں سے میرے گھر کے اسٹیشن کو جانے والی مارٹن کمپنی کی چھوٹی لائن شروع ہوتی اپنی جنت ارضی کا درواز ہ سمجھتا تھا۔ یہیں سے نئی کیفیات نئی امنگوں اور نئی خوشیوں کی آہٹیں دل میں گونجنی شروع ہو جاتیں ۔ فتوحہ اسٹیشن پرموسٰی میاں کی چھوٹی سی چائے کی دکان میں چھوٹے سے ٹیبل کے گرد چند چھوٹی چھوٹی کرسیاں لگی رہتیں ۔ ہم لوگ چھوٹی لائن کا سفر شروع کرنے سے پہلے موسیٰ میاں کے یہاں دو ایک خستہ قلچے اور چائے پی کر اس لذتِ زندگی کا آغاز کرتے جو اس جنت ارضی میں ڈھیر کے ڈھیر پڑی تھی اور جو ہمیں سیروں بلکہ منوں تل کر ملنے والی ہوتی۔۔۔۔۔۔
 جب اپنے گاؤں کے اسٹیشن سے کھٹولی پر گھر کی طرف روانہ ہوتا تو ہر قدم پر دل میں نئی امنگوں کی چاپ محسوس ہوتی ، کان ہواؤں میں نئے گیتوں کے زیر و بم سنتے اور آنکھیں تاڑ ، برگد ،پیپل کھجور ، آم اور مہوؤں کے گزرتے ہوئے سایوں میں نئی راحتوں کے خواب دیکھتیں ۔ دروازے پر میری ماں اور چھوٹی بہنیں کھڑی رہتیں ۔ ماں بلائیں لیتی اور چھوٹی بہنیں ننھے ننھے آنچلوں میں اپنے ننھے ننھے ہاتھ چھپا کر مسکراتی ہوئی جھک جھک کر سلام کرتیں اور میں سب سے لپٹ جا تا اور ایسا معلوم ہوتا کہ یہی تو جنت ہے ۔(کلیات کلیم عاجز،ص:۱۰۵)۔‘‘
 اس جنت ارضی کی داستانیں کلیم صاحب کی نظم ونثر میں بکھری پڑی ہیں ۔ آزادی سے پہلے بہار میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد میں یہ بستی مسلمانوں سے بالکل خالی ہوگئی ۔ ۵؍ نومبر ۱۹۴۶ مطابق ۱۰؍ ذی الحجہ ۱۳۶۵ھ یعنی بقرعید کے دن دس ہزار انسان نما درندے بلوائیوں نے اس بستی کو مکمل طور سے برباد کردیا اور یہاں کے مکین ان کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئےدرجۂ شہادت پر فائز ہوکر اپنے رب کے حضور سرخ رو حاضر ہوگئے ۔ اس میں کلیم صاحب کے والدہ اور بہن کے ساتھ گھر بائیس افراد تھے۔
اک سویرا ایسا آیا اپنے ہوئے پرائے اس سے آگے کیا پوچھو ہو آگے کہا نہ جائے
درد کا اک سنسار پکارے کھینچے اور بلائے لوگ کہیں ہیں ٹھہرو ٹھہرو ،ٹھہرا کیسے جائے
 اس حادثہ کے دوسرے تیسرے روز جب وہ گاؤں پہنچے اور ان کی نگاہوںنے جو منظر دیکھا اسے اپنے پہلے مجموعۂ کلام’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا ‘‘ کے مقدمہ میں انھوں نے ’’سنگی مسجد‘‘ کی زبانی بیان کیا ہے، جو کئی صفحات پر مشتمل ہے، اسے پڑھ کر مضبوط سے مضبوط دلوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ خونِ دل سے لکھی گئی یہ تحریر آج بھی پڑھتا ہوں تو بے اختیار آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ اسی سانحہ نے ان سے اس طرح کے اشعار کہلوائے:
یہ پکار سارے چمن میں تھی وہ سحر ہوئی و ہ سحر ہوئی
مرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اس کی خبر ہوئی
غبارِ کارواں سے کارواں کو ہم نے پہچانا جہاں تھی شمعِ روشن اڑرہی ہے خاکِ پروانہ
لپٹ لپٹ کر گلے مل رہے تھے خنجر سے بڑے غضب کا کلیجہ تھا مرنے والوں کا
دردمندِ عشق ہیں غم سے نہ گھبرائیں گے ہم
شاعری کرتے رہیں گے اور مرجائیں گے ہم
 اب کے پھر برسات میں گنجِ شہیداں پر چلیں
آسماں روئے گا اور اپنی غزل گائیں گے ہم
 اس حادثہ کے بعد ان کی وہ کیفیت ہوئی کہ گیارہ سال تک وہ ہمت نہ جٹا سکے کہ اپنی اس جنت ارضی کا رخ کریں ، پھر وہ ۱۹۵۷ء میں یہاں پہنچے، اس کی داستان سنئے :
 ’’میری جنت بر باد ہوگئی تھی مگر وہ بر بادشدہ جنت میرے تصور میں اپنے پورے شباب اور بھر پورحسن کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ اس شیریں جنت کے تصور نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کو فراموش کر دیا تھا۔ میری جنت مجھ سے تیس میل دور ویرانے میں لہلہارہی ہے۔ میں جب بھی میل یا ایکسپریس ٹرین سے کلکتہ یا اور کسی مقام کو جاتے ہوئے اپنے اس اسٹیشن سے گزرنے والا ہوتا جہاں سے میرے گاؤں کو مارٹن کمپنی کی چھوٹی لائن اب بھی جاتی ہے، تو کچھ دور ہی سے میں سر آ نکھوں پرکپڑ الپیٹ کر اپنی سیٹ پر پڑ جاتا اور زور سے برتھ کی لکڑی کو تھام لیتا۔ مجھے ڈر ہوتا کہ اگر چلتی ہوئی ٹرین کی کھڑکی سے فتوحہ چھوٹی لائن کے اسٹیشن کو اور ٹرین کو دیکھ لوں گا تو ٹرین سے کود جاؤں گا۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۷ء تک میں نے سفر کرتے ہوئے بھی اس طرف رُخ بھی نہیں کیا۔ مجھے ڈر تھا کہ اس ویرانے پر جواب تک میرے تصور میں لہلہاتا ہوا گلزار ہے، میری نظر نہ پڑ جائے اور میرے خوابوں کامحل مسمار نہ ہو جائے۔ لیکن ۱۹۵۷ء میں گیارہ سال بعد ایک دن آ یا اور میں ارادہ کیا کہ:
اب کے پھر برسات میں گنجِ شہیداں پر چلیں
آسماں روئے گا اور اپنی غزل گائیں گے ہم
 اور ایک دن میں فقیروں کی سی ایک جھولی گلے میں ڈالے اس بستی میں پھر پہنچ گیا:
دور تک جس میں کہیں سایۂ دیوار نہیں
   پھر آگے کیا ہوا ؟ لکھتے ہیں :
 ’’جب میں اپنے گھر کے قریب پہنچا جس کا کچھ حصہ خاکستر ہونے سے بچ گیا تھا اور جس میں اسی وقت سے پولیس چوکی قائم ہوگئی ہے، تو ایسا معلوم ہوا جیسے برسوں سے جس زخم پر انگارا رکھا ہوا تھا، اس پر کسی نے مرہم رکھ دیا۔ میں بے اختیار صحن کی گھاس پر پڑ گیا اور اپنی چھاتی زمین سے لگادی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے ساری کائنات کا سکون ،ٹھنڈک اور خوشبو میرے سینے میں داخل ہوکر دل سے ہم آغوش ہورہی ہے۔ میری آنکھیں بند ہوئیں۔ ایسا معلوم ہوا جیسے میری ماں نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ہو۔ برسوں کی تشنگی ، برسوں کی تڑپ، برسوں کی جلن، یک بیک سیرابی ، آسودگی اور سکون میں تبدیل ہوگئی ۔کرا یہ دار پولیس چوکی کے کانسٹبل ، حولدار اور تھانے دار میرے قریب جمع ہو گئے اور میری حالت سے متحیر کھڑے ہو گئے ۔ میں نے جب گھاس سے اٹھ کر یہ بتایا کہ میرا ہی نام کلیم ہے اور وہ میرے ہی کرایہ دار ہیں ، پھر دس گیارہ سال پہلے کی کہانی انھیں معلوم ہوگئی ۔ تھانے کا پورا اسٹاف بڑی محبت اور عقیدت سے پیش آیا اور آنا فانا پوری بستی میں بجلی کی طرح بات دوڑ گئی کہ گیارہ سال بعد اس گاؤں میں ایک مسلمان آیا ہے اور اسی گاؤں کا ہے اور کوئی دوسرانہیں کلیم آیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے میرے نزدیک بوڑھوں ، جوانوں ،عورتوں اور بچوں بچیوں کا ہجوم ہو گیا۔‘‘
  پھر وہ ہرسال اپنے گاؤں جاتے رہے ، اور سنگی مسجد کو صاف کرکے اس میں نماز پڑھتے ، اپنے گھر جاتے ، کچھ دیر وہاں رہ کر پٹنہ واپس آجاتے ۔ ۱۹۹۰ء تک اس گاؤں میں کوئی بھی مسلمان نہ تھا ،۱۹۹۳ء میں جب وہ گئے تو قریبی گاؤں قادر پور سے ایک مسلمان یہاں آیا اور سنگی مسجد کے احاطہ میں بودوباش اختیار کی ۔
   میں لکھ چکا ہوں کہ مجھے اس گاؤں کے دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا ، ڈاکٹر صاحب سے متعدد بار اس کا اظہار کیا، ان کی حیات میں کئی بار پلان بنا ، لیکن ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ سامنے آگئی ، یہاں تک کہ ڈاکٹر صاحب اپنی حیات مستعار کے دن پورا کرکے اپنے خالق ومالک کے حضور پہنچ گئے ۔ اس کے بعدجب رابطہ کی اصل کڑی ہی نہ رہی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب یہ آرزو شاید ہی پوری ہوسکے ۔لیکن خدا کے یہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے ، جب اس کا وقت آجاتا ہے تو اسباب خود بخود بنتے چلے جاتے ہیں ۔
  ابھی دوماہ پہلے میرے عزیز شاگرد مولانا محمد طیب قاسمی ( نوادہ، بہار) اپنے ایک علم دوست رفیق محمد کاشف ملک کے ساتھ مجھ سے ملنے خیرآباد آئے، اور مجھے دعوت دی کہ میں ششماہی امتحان کے موقع سے جب اسباق بند ہوں تو میں ان کے یہاں آؤں ۔درمیان میں یہ لوگ مجھے مسلسل یاددہانی بھی کراتے رہے ،میں نے کہا کہ پٹنہ سے نوادہ جانے کا کوئی ایسا نظام بناؤ کہ میں تیلہاڑہ کو بھی دیکھ لوں، چنانچہ ان لوگوں نے اسی اعتبار سے پروگرام بنالیا۔ میں ۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۲ء کواپنے دوست مولانا عبدالباسط معروفی کی معیت میںٹرین سے حاجی پور پہنچا، وہاں سے میرے ایک ہم نام شاگرد مولانا ضیاء الحق بھاگلپوری اپنے ایک دوست کی گاڑی سے لے کر پٹنہ پہنچے۔ پورے سفر کی تفصیلی روداد ان شاء اللہ میں لکھوں گا ، سردست تو مجھے تیلہاڑہ کے بارے میں کچھ لکھنا ہے۔مولانا طیب قاسمی نے اپنے دوست کاشف ملک کو ۱۳؍ ستمبر کی شام کو پٹنہ بھیج دیا ، انھوں نے پٹنہ سے نوادہ کے لئے ایک آرام دہ گاڑی کانظم کیا ۔۱۴؍ ستمبر بدھ کوہم پٹنہ سے روانہ ہوئے ۔ میرے رفیق سفر مولانا عبدالباسط معروفی کے علاوہ، میرے دو شاگرد مولانا افتخار احمد قاسمی (پٹنہ) ، مولانا ریاض احمد مدھوبنی (مقیم پٹنہ) اور میرے ایک ذی علم وصاحب قلم دوست مولانا طلحہ نعمت استھانوی اور میزبان ورہبر کاشف ملک ،کل چھ افراد تھے۔
 تیلہاڑہ پٹنہ سے تقریباً ۶۰؍ کلومیٹر دور بہار شریف سے پہلے یکنگرسرائے سے چار کلومیٹر کے فاصلہ پر پچھم کی طرف ہے ۔ پہلے یہ کچا راستہ تھا ،اب گاؤں تک پختہ سڑک بن گئی ہے۔ ہم لوگ ایک بجے تیلہاڑہ سے متصل ایک بازار میں پہنچے ، ہمارے رفقاء سفر میں مولانا طلحہ نعمت ندوی اگرچہ یہاں سے قریب استھانواں کے رہنے والے ہیں لیکن وہ بھی کبھی یہاں نہیں آئے تھے ، اس لئے راستہ کا علم کسی کو نہیں تھا ۔ کئی جگہ پوچھتے پاچھتے ہم لوگ گاؤں میں اس کے مشرقی حصہ سے داخل ہوئے ، یہ ایک پتلی سی پختہ سڑک ہے جس پر ایک پٹرول پمپ ہے ، ہمیں بطور علامت یہی پٹرول پمپ بتایا گیا تھا ، یہاں ایک ندی ملی جس میں پانی نہ ہونے کے برابر تھا ، شاید یہ وہی ندی ہے جس کا ذکر کلیم صاحب نے کیا ہے کہ اس پر مغلیہ دور کا ایک شکستہ پل تھا ۔
تیلہاڑہ کی موجودہ صورتحال :
 جہاں سے گاؤں کی آبادی شروع ہوتی ہے وہاں چند لڑکے کھڑے تھے ، اور ہمارے دائیں طرف اتر جانب ایک احاطہ تھا جس پر لوہے کا ایک چھوٹا سا جالی نماگیٹ تھا ، وہاں چند جانور بندھے ہوئے تھے ، ہمیں یہ معلوم تھا کہ یہاں کوئی مسلمان آباد نہیں ہے ، ہم نے ان لڑکوں سے پوچھا کہ یہاں مسجد اور قبرستان کہاں ہے تو انھوں نے کہا کہ آگے جاکر معلوم کرلیں ، آگے ایک معمر شخص سے پوچھا تو اس نے کہا کہ پیچھے جدھر سے آپ آئے ہیں جہاں سے آبادی شروع ہوتی ہے وہیں مسجد اور کچھ قبریں ہیں ، ہم لوگ احاطہ کی طرف آئے اور ذرا غور سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ ان درختوں کے پیچھے کوئی شکستہ عمارت ہے،جانوروں کی گندگی سے کسی بچ کر گیٹ سے احاطہ میں داخل ہوئے ، وہاں ایک بڑی سی سفید قبہ نما قبر تھی ، اس کے آس پاس ایک دو چھوٹی پختہ قبریں تھیں ، یہی پیر یوسف ابدال کا قبہ تھا ، میں نے کہا کہ یہیں کہیں سنگی مسجد بھی ہونی چاہئے ، پون صدی میں نقشہ بالکل بدل چکا تھا ، سامنے بلندی پرلمبی لمبی گھانس اور درختوں میں چھپی ہوئی ایک ہلکے سبز رنگ کی عمارت نظر آئی ، لیکن وہاں تک جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا ۔ ابھی ہم لوگ آپس میں بات ہی کررہے تھے کہ ایک نوجوان آیا اور ہمیں سلام کیا ، یہ دیکھ کر ہمیں بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہاں مسلمان بھی آباد ہیں ۔ اس نے بتایا کہ میرا نام فیروز ہے اور ہمارے والد تیس چالیس سال پہلے قریبی گاؤں قادر پور سے یہاں آکر آباد ہوگئے تھے ، ہم لوگ چار بھائی ہیں اور اسی احاطہ میں رہتے ہیں ، آپ لوگ چلیں مسجد تک جانے کا راستہ باہر سے ہے ۔
  باہر آکران لوگوں کے گھروں کے درمیان پتلے سے راستہ سے ہوکر مسجد میں داخل ہوئے، مسجد کے درودیوار سے شکستگی وکہنگی ٹپک رہی تھی ، پوری مسجد پتھروں سے تعمیر کی گئی ہے ، لیکن حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ پانی ٹپک رہا تھا ، ظہر کا وقت تھا ، میں نے کہا کہ یہیں اذان دے کر ہم نماز پڑھیں گے ، مسجد میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف ایک کنواں تھا جو اب پٹ گیا ہے، وہیں ایک نل لگادیا گیا ہے، فیروز کے ساتھ ایک دو افراد مزید آگئے ، یہ لوگ نل چلاتے رہے اور سب لوگوں نے وضو کیا ، اذان دی گئی اور میں نے ظہر کی نماز پڑھائی ، نماز کے بعد جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تو مجھے آج سے پون صدی قبل کے وہ مکین اور ان کی مظلومانہ شہادت یاد آئی ،اس مسجد کی ویرانی کو دیکھ کر دل پہلے ہی شکستہ وافسردہ تھا ، آنکھیں برستی رہیں اور زبان سے الفاظ نکلتے رہے کہ رب کریم ان مظلوموں کی شہادت کو قبول فرمااور ان کے درجات کو بلند کر، بارِ الٰہا! آپ کی قدرت بہت بڑی ہے، اس جگہ کو آپ پھر سے آباد وشاداب کردیجئے ۔ سارے ہی رفقاء آبدیدہ تھے ، آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرکے یہاں سے اٹھے ، تو فیروز نے بتایا کہ یہاں صرف ہمیں لوگ ہیں اور دن میں کام پر چلے جاتے ہیں اس لئے اس میں باقاعدہ نماز نہیں ہوتی ، البتہ جمعہ ہوتا ہے ، آس پاس کے کام کرنے والوں بیس پچیس مسلمان جمع ہوجاتے ہیں ۔
 ہم نے فیروز سے کہا کہ تم کلیم عاجز صاحب کو جانتے ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں وہ ہر سال آیا کرتے تھے ، میں نے کہا کہ ہم ان کا گھر اور گھر کے سامنے عیدگاہ کو دیکھنا چاہتے ہیں، اس نے کہا کہ ان کا گھر مین مارکیٹ میں ہے، میں ساتھ چلتا ہوں ، چنانچہ اس کو گاڑی میں بیٹھالیااور بازار سے گزرتے ہوئے اس نے ایک جگہ گاڑی روکنے کو کہا، روڈ سے بالکل متصل دائیں طرف ایک دس بارہ فٹ چوڑا راستہ تھا ،اس کے پورب طرف کلیم عاجز صاحب کا مکان تھا جس کے سامنے عیدگاہ ہے۔ کلیم عاجز صاحب کی بڑی آرزو تھی کہ مکان کا جو حصہ بچ گیا ہے وہ میری زندگی تک اسی طرح باقی رہے ، انھوں نے حکومتی سطح پر اس کے لئے بہت کوشش کی لیکن کوئی کامیابی نہ ملی، بڑے بڑے وزراء سے لے کر وزیر اعلیٰ تک صرف تسلیاں ہی دیتے رہے، اس میں ۱۹۵۷ء سے پہلے پولیس چوکی قائم ہوگئی تھی ۔ پھر گاؤں کے ایک ہندو نے ساڑھے بتیس ہزار میں اس شرط پر یہ مکان خرید لیا کہ جب تک کلیم صاحب زندہ رہیں گے مکان اسی حال میں باقی رہے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، یہ جگہ کئی بیگھے پر مشتمل ہے ۔ اس وقت کچھ حصہ پر پختہ مکان بنا ہوا ہے اور کچھ حصہ خالی ہے۔
 ہم لوگوں کے پہنچنے کے بعد بہت سارے ہندو جمع ہوگئے ان میں سے جو بوڑھے تھے انھوں نے کچھ تفصیل بتائی جو میں پہلے سے ہی جانتا تھا ۔ سامنے عیدگاہ تھی ، اس کا حال دیکھ کر دل پر جو گزری بیان نہیں کیا جاسکتا ، اگر لوگ نہ بتاتے کہ یہی عیدگاہ ہے تو کبھی یقین نہ آتا، ڈاکٹر وسیم صاحب نے بتایا تھا کہ اس میں ایک دو قبریں بھی ہیں لیکن کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اس وقت یہ عیدگاہ مکمل ’’گھورے ‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے ، کچھ لوگ اس میں اپنے جانور باندھتے ہیں اور کوڑا کرکٹ اس میں ڈالتے ہیں ، اس کی چہار دیواری موجود ہے جو کہیں کہیں سے گرچکی ہے، لوہے کی جالی والا گیٹ یہاں بھی موجود ہے، ہم لوگوں نے اندر جانا چاہا ، لیکن کئی کئی فٹ گوبر اور گندگی کے ڈھیر کی وجہ سے داخل ہونا ممکن نہ تھا، بارش کی وجہ سے اور بھی صورتحال خراب تھی، اندازہ ہوا کہ گزشتہ آٹھ دس سال سے کوئی یہاں آیا نہیں ہے۔فیروز نے بتایا کہ کلیم صاحب کے مرنےکے بعد یہ صورتحال ہوئی ہے ، ورنہ پہلے یہ جگہ بالکل صاف ستھری رہتی تھی اور ہم لوگ وہاں جاکر بیٹھتے تھے ۔عیدگاہ کو دیکھ کر طبیعت حد درجہ ملول وافسردہ ہوئی۔واپسی کے وقت ایک دکاندار نے ہم لوگوں کو بلایا اور کہا کہ آپ لوگوں نے عیدگاہ کو دیکھ لیا، یہ چند لوگوں کی شرارت اور بدمعاشی کا نتیجہ ہے ، چونکہ ان کو کوئی بولنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے ،اس لئے یہ صورتحال ہے ۔ اس کے جو اصل مالک ہیں وہ اب آتے نہیں ہیں ، اس لئے آپ لوگ واپس جاکر ان سے یہ صورتحال بتائیے اور کہئے کہ وہ اس پر ایکشن لیں اور متعلقہ دفاتر میں درخواست دے کر اس کو پہلی والی حالت پر کراوئیں، اس میں درخت وغیرہ لگوادیں تاکہ یہ محفوظ ہوجائے ۔ اسی وقت درجنوں دوسرے ہندو بھی آگئے سب نے یہی بات کہی ،اور کہا کہ اگر وہ لوگ حرکت میں آئیں تو ہم لوگوں کا پورا سپورٹ رہے گا۔
 میں بطور خاص ڈاکٹر کلیم عاجز کے صاحبزادگان خصوصاً ڈاکٹر وسیم صاحب اور ان کے بھتیجے اور’’ قومی تنظیم‘‘ کے نیو زایڈیٹر احمد راشد صاحب سے اور عموماً تمام محبان کلیم عاجز سے درخواست کروں گا کہ وہ اس پر توجہ دیں ، اگرچہ آج وہاں مسلمان نہیں ہیں لیکن اس کا سابقہ تقدس تو اسے حاصل ہوجائے اور ہم جیسا کوئی شخص وہاں پہنچے تو اسے محسوس ہوکہ یہ کبھی عیدگاہ اورہزاروں افراد کی سجدہ گاہ تھی ۔ اس لئے جس سے جوممکن ہوسکے ضرور اس سلسلہ میں دلچسپی لے اور کوشش کرے۔
  یہیں پر فیروز کے بڑے بھائی سلامت سے ملاقات ہوئی ، فیروز تو بسلسلۂ ملازمت دہلی میں رہتے ہیں ، یہ یہیں رہتے ہیں اور سنگی مسجد کی دیکھ بھال انہی کے ذمہ ہے ۔ عیدگاہ کو دیکھ کر ہم لوگ گاؤں کی مغربی سے سمت سے باہر نکلے جبکہ مشرقی سمت سے داخل ہوئے تھے ، مقصد یہ تھا کہ گاؤں کا یہ حصہ بھی دیکھ لیں ۔ یہاں سے مین روڈ پر آکر یکنگرسرائے پہنچ کر پٹنہ بہار شریف ہائی وے پر آگئے۔ اس وقت تیلہاڑہ کی آبادی پچیس تیس ہزار کے قریب ہوگی جیسا کہ فیروز نے بتایا ، ماضی کے اس مسلم اکثریتی قصبے میں اس وقت فیروز کے گھرانے کے علاوہ کوئی مسلمان آباد نہیں ہے، اس لئے سنگی مسجد کے علاوہ کوئی مسجد بھی نہیں ہے۔خدا کرے آئندہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ یہ قصبہ ماضی کی طرح پھر اذان اور نغمۂ توحید سے آباد ہو، نماز جمعہ وغیرہ تو شروع ہوچکی ہے۔دل سے دعا ہے کہ :
یہ چمن معمور ہو پھر نغمۂ توحید سے

You may also like

Leave a Comment