Home نقدوتبصرہ کہکشانِ غم : معاشرتی وقوعات کا بیانیہ-حقانی القاسمی

کہکشانِ غم : معاشرتی وقوعات کا بیانیہ-حقانی القاسمی

by قندیل
سیدہ تبسم ناڈکر نے اپنے محسوسات اور مشاہدات کو اظہاری شکل دینے کے لیے کئی راہیں تلاش کر لی ہیں۔ شاعری، مضمون اور افسانہ—— یہ تینوں ایک ہی منزل پر پہنچتی ہیں اور وہ ہے مثبت ،صالح اور صحت مند افکار و اقدار کی ترسیل۔ ان کا تخلیقی عمل مکمل طور پر مقصدیت سے جڑا ہوا ہے۔ تینوں باب میں وہ مقصدی موضوعات سے منحرف نہیں ہوتیں، یہ ان کا انفراد و اختصاص ہے۔ کہانی سے ان کی ذہنی اور جبلی مناسبت ہے اس لیے کہانیوں میں ان کے داخلی جوہر زیادہ کھل کر سامنے آتے ہیں اور یوں بھی  expressive space  کے لیے کہانی زیادہ موزوں ہے۔ من میں ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو کہانی میں سمونا آسان ہوتا ہے۔ کہانی بھی کوزہ گری جیسا عمل ہے، اسے سلیقہ سے تراشا جائے تو کہانی میں تاثیر اور تسخیر کی قوت پیدا ہو جاتی ہے، پھر یہ افسانے روح میں اترنے لگتے ہیں اور قاری کو افسانے میں اپنی ذات اور زندگی کا عکس نظر آنے لگتا ہے اور حیات و کائنات کے اسرار منکشف ہونے لگتے ہیں۔
سیدہ تبسم ناڈکر نے معاشرتی وقوعات اور وارداتوں سے کہانیاں ترتیب دی ہیں۔ ان کی کہانیوں کا تشکیلی مرکز و محور، سماجی رجحانات، رویے، تضادات اور تغیرات ہیں۔ مادیت اور صارفیت کے زیر اثر بدلتی ترجیحات بھی۔ سیدہ تبسم ناڈکر نے وہی کچھ لکھا جو اپنے عہد میں دیکھا اور معاشرے میں محسوس کیا۔ ان کی بیشتر کہانیوں میں عصری معاشرت کے ہی رنگ و روپ ہیں۔ معاشرتی اور خانگی زندگی کی حکایتیں، شکایتیں، قرابتیں، رقابتیں، محبتیں، عداوتیں، مرد عورت کی ذہنی اور جذباتی کشمکش، دونوں کی خارجی اور داخلی زندگی، مرد عورت کے صنفی کردار۔ یہ تمام چیزیں معاشرت سے جڑی ہوئی ہیں۔ کہیں ذہنی آسودگی ہے تو کہیں جذباتی تشنگی ، کہیں خواب ہے تو کہیں عذاب، کہیں فریب تمنا ہے تو کہیں شکست آرزو، کہیں ایثار و وفا ہے تو کہیں جبر و جفا۔ زندگی جن جن شکلوں سے گزرتی ہے، وہ افسانوں کی صورت اختیار کرتی جاتی ہے۔
یہ کہانیاں انسانی سماج کا آئینہ ہیں۔ ایک نگار خانہ جس میں ہم اپنے عہد اور سماج کے سارے رنگ متحرک اور رقصاں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ کو ایسی ہی کہانیوں کی ضرورت ہے کہ ان میں فرد اور معاشرہ کی کردار سازی کا عنصر ہے۔ ان میں میاں بیوی، ماں بیٹا، ساس اور بہو کے رشتوں پر بنی ہوئی وہ کہانیاں ہیں جو ہمیں زندگی کے آداب اور اسالیب سکھاتی ہیں اور خاندانی نظام کے روایتی تصور سے روشناس بھی کراتی ہیں۔
تبسم نے مرد عورت کے جو کردار خلق کیے ہیں، وہ متعینہ صنفی کردار سے ذرا الگ ہیں۔ مرد عورت سے جو کرداری اوصاف مشخص کیے جاتے رہے ہیں، تبسم کی کہانیوں میں ان کرداروں کی تقلیب ہوتی نظر آتی ہے۔ مردوں کے بارے میں عمومی تصور یہ ہے کہ مرد جنسی عیاش، لذت پسند، عیار مکار اور فریبی ہوتا ہے۔ مگر تبسم نے اپنی کہانیوں میں دکھایا ہے کہ مرد بھی وفا اور ایثار کا پیکر اور خلوص و محبت کا استعارہ ہوتا ہے۔ ’’زخم تمنا‘‘ کا ایان ایسا ہی ایک کردار ہے جو شمع سے بے پناہ پیار کرتا ہے۔ شمع اس کی زندگی ہے۔ اس کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے۔مگر اس زندگی میں اس وقت طوفان آجاتا ہے، جب شمع کی شادی اس کی مرضی کے خلاف اس سے دس سال بڑے آدمی سے کر دی جاتی ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک حادثے میں اس کے شوہر اور شمع دونوں کوما میں چلے جاتے ہیں۔ شوہر کا انتقال ہو جاتا ہے اور شمع مہینوں بے ہوش ہی رہتی ہے۔ جب اسے ہوش آتا ہے تو شمع ایان کے بارے میں پوچھتی ہے تو اس کی سہیلی بتاتی ہے کہ ایان سخت بیمار تھے اور بستر پر پڑے رہتے تھے اور ایک ہی بات کہتے رہتے تھے کہ ’’میری شمع کہاں ہے مجھے میری شمع کے پاس جانا ہے۔‘‘ ایان نہ کھاتے تھے نہ پیتے تھے۔ انہیں نیند کے انجکشن لگتے تھے اور اسی انجکشن کی وجہ سے ایان کی جان چلی گئی۔ اس کہانی میں شمع بھی ایک وفادار کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔اس میں قصور شمع کا نہیں بلکہ گھر والوں کا ہے کہ شمع کی محبت کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
’’کچے دھاگے‘‘ کا ’صفوان‘ بھی ایسا ہی ایک کردار ہے جو اپنی بیوی زرینہ کو ٹوٹ کر پیار کرتا ہے۔ اس کے سارے ناز نخرے برداشت کرتا ہے۔ وہ اچھی ازدواجی زندگی گزارنا چاہتا ہے مگر اس کی ضدی نک چڑھی بیوی کو اس کا گھر قید خانہ لگنے لگتا ہے۔ وہ اپنے مائیکے چلی جاتی ہے، لاکھ منانے اور منتیں کرنے کے باوجود وہ واپس نہیں لوٹتی۔ بالاخر گھر والے صفوان کی دوسری شادی کرا دیتے ہیں۔ زرینہ اپنے دوستوں اور آوارگیوں میں مست رہتی ہے تبھی ایسا ہوتا ہے کہ والدین فوت کر جاتے ہیں۔ بھائی زرینہ کو گھر سے نکال دیتے ہیں۔ دوست بھی فون نہیں اٹھاتے اور پھر ایک دن یوں ہوتا ہے کہ زرینہ ایک ہوٹل میں تنہا بیٹھی ہوتی ہے کہ اس کے کانوں میں یہ آواز گونجتی ہے کہ ’’جب آپ اپنی پہلی بیوی کو بھول نہیں سکتے تو مجھ سے کیوں شادی کی۔‘‘ یہ آواز صفوان کی دوسری بیوی کی تھی۔ صفوان کہتا ہے کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ میں مرتے دم تک اسے نہیں بھول سکتا، وہ ایک سنگ دل ماں کی بے حس بیٹی تھی۔‘‘ ترک تعلق کے بعد بھی صفوان کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ تھا مگر زرینہ کی ضد اور انا کی آگ میں ایک پاکیزہ محبت جل کر راکھ ہوگئی۔
’’ادھوری خواہش‘‘ کا مرد کردار ’فرید‘ بھی محبت اور ایثار کی ایک علامت کے طور پر سامنے آتا ہے جو اپنی بانجھ بیوی کا الزام اپنے سر لے لیتا ہے مگر بیوی یہاں منفیت کی علامت ہے کہ وہ اسے اپنے قریب تک نہیں آنے دیتی اور طنزیہ لہجہ میں کہتی ہے کہ ’’اب تم کسی قابل تو ہو نہیں، اب تم کھوکھلے ہو چکے ہو، تم نام کے مرد ہو۔‘‘
سوتیلی ماں کے بارے میں ایک منفی دقیانوسی تصور عام ہے۔ اسے ایک شیطانی کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس کی شبیہ اس قدر منفی بنادی گئی ہے کہ اس کے بارے میں کسی مثبت تصور کا امکان ہی نہیں مگر تبسم نے اس منفی کردار کو ایک مثبت رخ دیا ہے اور ’’چبھن‘‘ نامی کہانی میں اس منفی تصور کی نفی کرتے ہوئے سوتیلی ماں کو ایثار وفا خلوص اور قربانی کا پیکر بتایا ہے۔ اس کہانی کا کردار نزہت ہے جو ہر بار ریجکٹ کی جاتی ہے۔ اس لیے گھریلو مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے وہ ایک شادی شدہ مرد سے رشتۂ ازدواج کے لیے تیار ہو جاتی ہے، اس مرد کی ایک بیٹی بھی ہے۔ نزہت جب دلہن بن کر ہاشم کے گھر جاتی ہے تو زیبا کو پیار کرنا چاہتی ہے مگر زیبا کہتی ہے’’ مجھے ہاتھ مت لگانا، تم میری سوتیلی ماں ہو تم مجھے مارتی رہوگی۔‘‘ تب نزہت بہت پیار سے کہتی ہے’’ میں سوتیلی ضرور ہوں لیکن تمہاری ماں ہوں، صرف ماں تم کو بہت پیار کروں گی۔‘‘ اور واقعی وہ زیبا پر اپنی جان نچھاور کر دیتی ہے۔ سگی ماں سے بھی زیادہ پیار دیتی ہے۔ ایک مثالی ماں کا کردار ادا کرتی ہے۔ زیبا کے ذہن میں سوتیلی ماں کا جو منفی تصور تھا وہ مثبت تصور میں بدل جاتا ہے اور زیبا اپنی سوتیلی ماں کی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ وہ یہ تک کہتی ہے کہ ’’میری اس سوتیلی ماں نے مجھے جو پیار دیا وہ شاید میری سگی ماں ہوتی تو وہ بھی نہ کرتی۔‘‘
ساس کے بارے میں بھی ایک عمومی منفی تصور یہ ہے کہ وہ عفریت ہوتی ہے۔ جو بہو کی آزادی اور اختیارات پر قدغن لگاتی رہتی ہے۔ اسی طرح بہو کے تعلق سے یہ سوچ عام ہے کہ وہ چڑیل ہوتی ہے جو ماں سے اس کے بیٹے کو چھین لیتی ہے۔مگر تبسم نے ’’پشیمانی‘‘ میں ان رائج تصورات کی نفی کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ساس اور بہو میں صرف معاندانہ یا حریفانہ رشتہ نہیں ہوتا بلکہ ماں بیٹی جیسا پر خلوص محبت بھرا رشتہ بھی ہوتا ہے۔ اس کہانی میں نگار بیگم ساس اور صفا بہو ہیں۔ صفا سلیقہ شعار لڑکی ہے۔ شروع شروع میں وہ ساس کی خدمت جی جان سے کرتی ہے مگر بعد میں مصروفیات کی وجہ سے اسے الجھن سی ہونے لگتی ہے اور یہ سوچنے لگتی ہے کہ اس مصیبت سے جلدی چھٹکارا ملے مگر اچانک ایک ایسا منظر سامنے آتا ہے کہ اسے اپنی منفی سوچ پر ندامت ہونے لگتی ہے۔ ہوا یوں کہ صفا اپنی امی کے گھر پہنچتی ہے تو اسے بند کمرے میں بھابھی کی اس طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
’’یار تم لوگ دعا کرو کہ میرا ساس سے جلدی پیچھا چھوٹے، مجھ سے نہیں ہوتیں یہ پابندیاں، یہ کام یہ خدمتیں۔تنگ آگئی ہوں نجات چاہتی ہوں۔‘‘
یہ جملے اسے ڈنک مارتے ہیں۔ وہ یہ سوچتی ہے کہ اسے بھی تو ساس بوجھ لگتی ہے وہ بھی اس سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔تب اسے اپنی ماں کے یہ جملے یاد آتے ہیں کہ’’ اپنی ساس کے لیے دل میں نفرت اور کڑواہٹ رکھوگی تو تمہاری ماں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا۔‘‘
تبسم کی زیادہ تر کہانیاں رشتوں کی ڈور سے بندھی ہوئی ہیں۔چاہے وہ ماں بیٹا بیٹی کا رشتہ ہو یا عشق و محبت کا۔ ان جذباتی رشتوں کی کہانیاں پڑھتے ہوئے آنکھوں میں نمی سی اتر آتی ہے۔ ’’آوارہ بادل‘‘ اور ’’اپنا‘‘ رشتوں پر مبنی کہانیاں ہیں۔ آوارہ بادل کی صبا حارث کے بیٹے شعیب کی سوتیلی ماں ہے۔ مگر وہ سگی ماں کی طرح شعیب کی پرورش کرتی ہے۔ حارث کے انتقال کے بعد تو کچھ زیادہ ہی خیال رکھتی ہے لیکن شعیب خود سر ہے اسے ماں کی روک ٹوک قطعی پسند نہیں۔ اسے ماں کی کھانسی سے بھی وحشت ہوتی ہے۔ غصہ میں وہ ماں کو اول فول بھی بکتا رہتا ہے۔ شعیب کے کئی دن غائب رہنے کی وجہ سے ماں فکر مند ہو جاتی ہے مگر شعیب کو ذرا بھی پرواہ نہیں۔ پھر اچانک یوں ہوتا ہے کہ وہ جب گھر واپس آتا ہے تو اس سے ماں ملنے یا ڈانٹنے نہیں آتی۔ اسے حیرت ہوتی ہے، وہ ماں کو تلاش کرنے لگتا ہے تب یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کی ماں تو مرچکی ہے۔ شعیب کنگال ہوجاتا ہے۔ سارے دوست بھی اس سے دور ہو جاتے ہیں۔ اب شعیب تنہا ہے۔ کوئی خبر خیریت لینے والانہیں، وہ ایک کمرے میں بند ہو جاتا ہے اور پھر کچھ دنوں کے بعد گھر کے اندر اس کی بدبو دار لاش ملتی ہے۔ کہانی میں یہ سبق ہے کہ محبت کی قدر نہ کی جائے تو محبت روٹھ جاتی ہے۔
’’اپنا‘‘ بھی ماں بیٹے کے جذباتی رشتے پر مبنی کہانی ہے۔ اس میں گلنار ماں کا کردار ہے۔ اس کا بیٹا آرش ہے۔ اس کی شادی زیبا سے ہوتی ہے۔ دوچار ماہ تک زیبا ساس سسر کا خیال رکھتی ہے بعد میں زیبا کا رویہ بدل جاتا ہے۔ وہ گلنار پر ظلم و زیادتی کرنے لگتی ہے، آرش کا رویہ بھی بدلنے لگتا ہے۔ ایک دن ماں جب پنشن کے لے بینک جاتی ہے تو آفس میں دیری کا بہانہ بناکرکے آرش ماں کے ہاتھ میں پانچ سو کا نوٹ تھما دیتا ہے جس سے پیار کرنے والی ماں کے جذبات کوبہت ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ یہ سوچنے لگتی ہے کہ ماں باپ کو پیسے نہیں پیار چاہیے۔ ماں اپنا سارا پیار نچھاور کر کے اپنے بچہ کے مستقبل کو سنوارتی ہے۔ مگر بچے ماں کے مستقبل کو اندھیرے میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ ماں کو اپنی تنہائی، بے بسی، بے چارگی کا احساس ہوتا ہے تبھی وہ فکس ڈپازٹ اکاؤنٹ کھلواتی ہے اور اپنے بیٹے کے نام ایک جذباتی خط لکھ کر منیجر کو تھما دیتی ہے۔ جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’میں یہ تمام پیسہ تمہیں دے رہی ہوں کیونکہ تم کبھی کبھی خرچ کرتے آئے ہو۔ ‘‘ یہ ماں بیٹے کے مابین منہدم ہوتے رشتوں کا ایک پر اثر بیانیہ ہے۔
’’درد دریا‘‘سچی اور پاکیزہ محبت کی کہانی ہے۔ زویا اور ایان محبت کے دو کردار ہیں۔ ایک دوسرے سے ٹوٹ کر پیار کرنے والے مگر شاید سچی محبتوں کو منزل نہیں ملتی ، یہ شکست خواب اور ماتم آرزو کا فسانہ ہے۔
تبسم نے معاشرتی اور کرداری تضادات، سماج کا دوغلا پن اور دوہرے رویے کو بھی اپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے۔ ’حق مہر‘ ’پھانس‘ ’سسکتی آہیں‘ ’بے بسی‘ معاشرہ کے اقداری بحران اور اخلاقی زوال کی کہانیاں ہیں۔ ’حق مہر‘ کہانی کی صورت میں جہیز جیسی لعنت پر ایک تازیانہ ہے۔ ’پھانس‘ ماں جیسے مقدس رشتے کے تضادی کردار کو بیان کرتا ہے کہ ممتا اور ایثار کی مورت کہی جانے والی ماں اپنی انا کی تسکین کے لیے انتقام کی آگ میں اندھی ہوکر اپنی ہی بیٹی کو بد کردار تک ثابت کر دیتی ہے۔ ’سسکتی آہیں‘ معاشرتی تضاد کی تصویر پیش کرتی ہے کہ جس عورت کو دیوی کہاجاتاہے اسے حسن کے بازار میں بیچا اور خریدا جاتا ہے۔’بے بسی‘ ایک مجبور اور بے بس لڑکی کے استحصال پر مبنی کہانی ہے۔ ’خوابوں کی صبح‘بھی اسی طرح کی ایک کہانی ہے۔
تبسم کی یہ تمام کہانیاں معاشرتی اور عائلی نوعیت کی ہیں۔ یہ کسی نظریہ، منشور، آئیڈیالوجی کے تحت تحریر کردہ کہانیاں نہیں ہیں۔ اس میں پوری سماجی حقیقت نگاری ہے۔ یہ کہانیاں خاتون کی لکھی ہوئی ہیں۔ مگر اس میں نہ ریڈیکل تانیثیت ہے اور نہ ہی پدر سری نظام کے خلاف کوئی احتجاج اور بغاوت۔ اس میں معاشرتی زندگی کے احوال و کوائف، نشیب و فراز اور مدو جزر ہیں۔
تبسم کی ان کہانیوں میں کہیں کہیں خوبصورت منظر نگاری اور عمدہ پیکر تراشی بھی ملتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے کچھ کہانیاں سرمئی بھیگی بھیگی شام اور کچھ رات کے پچھلے پہر میں لکھی گئی ہیں۔
خوبصورت منظر نگاری کا ایک نمونہ دیکھیے:
’’اس نے روشن دان سے باہر جھانکا۔ آسمان پر کالے بادل چھا رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی بارش ہوگی۔ چند لمحوں میں ہی برکھا رانی کی رم جھم شروع ہوگئی۔ اس نے بارش کی بوندوں کو اپنے رخساروں پر محسوس کیا تو تڑپ کر رہ گئی۔‘‘ (کچے دھاگے)
اور یہ خوبصورت پیکر تراشی بھی:
’’زرینہ اکلوتی لڑکی تھی۔ سانولی سلونی، تیکھے نقوش کی مالک۔ جب ہنستی تو سفید دانت موتیوں کی لڑی کی طرح نظر آتے۔ باتیں کرتی تو خوشیاں اور خواب اس کی آنکھوں میں روشن ستاروں کی طرح ٹمٹماتے۔ اس کی کالی لمبی گھنی زلفیں دن میں سرمئی شام کا عکس دکھائی دیتیں۔‘‘ (کچے دھاگے)
تبسم ناڈکر کا یہ افسانوی مجموعہ ان کی تخلیقی ریاضت کو ایک خوبصورت منزل تک پہنچانے میں یقینا کامیاب ہوگا۔

You may also like