Home تجزیہ کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں-احمد نہال عابدی

کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں-احمد نہال عابدی

by قندیل

2011 میں ہوئے مردم شماری کے مُطابق مسلمانوں کی آبادی 17.22 کروڑ تھی ۔ آئندہ سال ہونے والی مردم شُماری کے دوران مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔ مذہب کی بنیاد پر پیش کی جانے والی سابقہ سنسیز رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی آبادی کا تناسب پچھلے 10 سالوں میں 0.8 فیصد اضافے کے طور پر درج کیا گیا ہے ۔ جہاں تک ہندوستان میں اقلیتوں کا سوال ہے ان میں مسلمانوں کی مذکورہ آبادی دوسری تمام اقلیت مثلاَ بودھ ، جین ، عیسائی ، پارسی ،سکھ سے کہیں زیادہ ہے ،مگر یہ زیادتی کسی کام کی نہیں ہے ۔ مردم شُماری کے مطابق ہندوستان کی مجموعی شرح خواندگی 65 فیصد ہے۔جسمیں مسلمانوں کی شرح خواندگی 59% ، ہندو کی 65% ،عیسائی 80%، سکھ 59% ، بودھ 72%، جبکہ جین سب پر بازی مارتے ہوئے 94% فیصد کے ساتھ سرِ فہرست ہیں۔رپورٹ کے مطابق مسلم مرد حضرات کی شرح خواندگی 68% اور مسلم خواتین کی 50% ہے جو دیگر اقلیتوں کے مردو زن کی تعلیمی شرح سے بہت کم ہے۔ افسوس کا مقام ہے کے محسنِ انسانیت حضورِ اکرمﷺ کی تعلیم کے معاملے میں واضح ہدایت و نصیحت کے باوجود مسلمانوں کی شرح خواندگی شرم ناک حد تک کم ہے ۔مجموعی طور پر پوری دنیا میں مسلمانوں کی پستی و بدحالی کی وجہ صرف اور صرف جہالت ہے ۔ ہمارے نبی کی تعلیم کے سلسلے میں نصیحت آموز تاکید سے رو گردانی کا یہ نتیجہ ہے کے مسلمان پوری دنیا میں مغلوبیت اور پستی کے شکار ہیں ۔فرمان نبی ہے کہ "علم حاصل کرو خواہ چین ہی کیوں نہ جانا پڑے "۔ بعض علماء کے نزدیک مذکورہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود علم کی فضیلت سے انکار کفر ہے کیونکہ قرآن میں بھی علم حاصل کرنے کی بابت احکامات صادر ہوئے ہیں حدیث کا مفہوم اور اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ خواہ کسی بھی پریشانی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے تعلیم حاصل کرنا فرض اوّلین ہے ۔ حضور کی جانب سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت پراتنی واضح ہدایت کے باوجود ہم مسلمان ابھی تک خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور خود ساختہ پستی و بدحالی کا رونا روتے ہوئے اسکا الزام یا تو حکومت پر یا اپنی تقدیر کے سر تھوپ کر مطمئن ہیں ۔ حالاں کہ جب آغاز اسلام کے وقت تعلیم کی اتنی اہمیت تھی تو آج اس کی اہمییت و ضرورت کتنی زیادہ ہوگی اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ آج کی ترقی یافتہ قومیں علم و ہنر کے سہارے کہاں سے کہاں پہنچ گئیں ۔ لوگ چاند پر سے بھی ہو آئے لیکن ہماری قوم اب تک آنکھیں مل رہی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ چودہ سو سال کے بعد بھی ہماری قوم کو نبی کی ہدایت یاد نہیں۔قانون فطرت اور قانون شریعت دو قوانین ایسے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ہر انسان اپنی دنیا اور آخرت سنوارسکتا ہے۔ ہم مسلمانوں میں اور غیروں میں تو بس یہی فرق ہے کہ وہ صرف دنیا کے طالب ہوتے ہیں اور ہم ایمان والوں کو دونوں ہی مطلوب ہیں کیونکہ آخرت پر یقین کے بعد ہی ہمارا ایمان مکمل ہوتا ہے ۔ فطرت یا دنیاوی قانون کا معاملہ قانون شریعت سے کچھ الگ ہے قانون شریعت کی خلاف ورزی کا معاملہ مالک حقیقی سے وابستہ ہے جو اپنے بندوں کی کوتاہیوں اور گناہوں کو معاف کرنے یا سزا دینے کے معاملے میں با اختیار ہوتا ہے۔ خواہ وہ معاف کردے یا اس کی سزا دے مگر قانون فطرت کا معاملہ سخت اصولوں پر قائم ہوتا ہے ۔ فطرت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے دنیا میں سزا پا کر رہتے ہیں ۔فطرت کا قانون بہت سخت اور بے رحم ہوتا ہے ۔ یہاں غلطی پر معافی نہیں ملتی بلکہ سزا دی جاتی ہے ۔ اس قانون کا نفاذ تمام انسانوں پر یکساں ہوتا ہے۔ اصول فطرت کے قانون کو جس کسی نے بھی اپنایا اور اس کا پابند رہا اس کے مطابق زندگی گزاری تو دنیا اس کے عوض انعام و اکرام سے نہ صرف نوازتی ہے بلکہ تمام خوشیاں دست بستہ صاحب عمل کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر یہود و نصرانی اور برہمن اور دوسری تمام تعلیم یافتہ قوموں کو پیش کیا جا سکتا ہے جو قانون فطرت کے اصولوں پر چلتے ہوئے تعلیم کے بل بوتے پر آج پوری دنیا پر نہ صرف قابض ہیں بلکہ معیشت و دولت کے خزانوں کی تمام چابیاں انھیں کے پاس ہیں۔ ہاں البتہ قانون شریعت کے مطابق آخرت میں ویسے لوگ تہی دست ہونگے ۔ دنیاوی قانون کے اصولوں پر چل کر مذکورہ قومیں بغیر جنگ و جدال کے دنیا پر حکومت کر رہی ہیں ، اور تعلیمی جہد مسلسل اور محنت و مشقت کی وجہ سے انہیں دنیا پر با لا دستی حاصل ہے۔ قانون فطرت کی خلاف ورزی اور اس سے پہلو تہی کرنے والی مسلم قوم کو فطرت کے قانون نے ایسی سزائیں دی ہیں کہ وہ دنیا میں فی الوقت پسماندہ ،لاچار ،محکوم قوم کی حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ مسلم قوم بھی اگر قانون فطرت پر کار بند ہوتی تو یہ ترقی اس کے حصے میں بھی آ سکتی تھی لیکن بغیر محنت و کاوش کے یہاں کیا ملتا ہے؟
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت میں پانچ فیصد آبادی والے برہمن صرف تعلیم کی بنیاد پر ہی بھارت پر حکومت کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عالمی پیمانے پر یہودیوں کی کل آبادی ایک کروڑ 65 لاکھ ہے جو سب سے زیادہ سو فیصد پڑھی لکھی قوم ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ سب سے کم پڑھی لکھی قوم کے طور پر مسلمان جانے اور پہچانے جاتے ہیں جن کی تعلیمی شرح 57 فیصد تک ہی محدود ہے۔ جس طرح یہودی اپنی حکمتِ تعلیم کی وجہ سے آج پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب و کامران ہیں، ٹھیک اسی طرح بھارت میں برہمنوں کا معاملہ ہے جو یہودیوں کے نقش قدم پر چل کر تعلیمی ہتھیار کے سہارے باقی 95% فیصد آبادی والے ہندوستان پر قابض ہیں ۔ ہندوستان میں برہمنوں کی آبادی دال میں نمک کے برابر ہے باوجود اس کے وہ بھارت پر اپنا تسلط قائم کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں ۔ فی الوقت ہندوستان پر برہمنوں کا راج ہے جسے حاصل کرنے کی کوششیں انہوں نےہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی شروع کر دی تھیں ۔ واضح ہوکہ فی الوقت ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بیس کروڑ سے زائد ہونے کے باوجود مسلمان لکیر کے فقیر ہیں۔ جو قوم راتوں کو جاگتی اور دن میں سوتی ہو پھر بھی اللہ کے فیوض و برکات کی متمنی ہو تعجب ہے ۔ مسلمانوں کی ہندوستان میں بڑھتی ہوئی تعداد انتخابات کے وقت رائے دہندگان کی حیثیت سے بی جے پی خیمے میں کھلبلی کا باعث تھی اس پر قابو پانے کی ان کی حکمت عملی کامیاب ہوگئی ۔20 کروڑ کی آبادی والے بھارتی مسلمانوں کی طاقت کو ریزرو سیٹ کے فارمولے کے ذریعہ حلقہ انتخاب کو بڑی چالاکی سے اس طرح بانٹ دیا گیا کہ مسلم رائے دہندگان الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہہی نہ ہو سکے۔ دوسری طرف یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے میں ایک بی جے پی امیدوار کے خلاف متعدد مسلمانوں کو کھڑا کر کے بی جے پی کی جیت کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ ان تمام تر سچائیوں کے بعد یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بھارت میں خواہ مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد تک کیوں نہ پہنچ جائے بغیر تعلیم کے ترقی ممکن نہیں غرض تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس کی بدولت بغیر جنگ و جدال کے دنیا پر بالادستی حاصل کی جا سکتی ہے ۔
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

1 comment

MD ANEES FAISAL 10 جولائی, 2020 - 05:36

Nice??????

Leave a Comment