( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
اردو کی خواتین فکشن نگاروں کا ذکر ، ثروت خان کے نام کے بغیر ہمیشہ ادھورا رہے گا ۔ سچ کہیں تو یہ ادبی دنیا کا ایک معروف نام ہے ۔ ان کا تعلق راجستھان سے ہے ۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’ ذروں کی حرارت ‘ اور ناول ’ اندھیرا پگ ‘ شائع ہو کر قارئین سے داد پا چکے ہیں ۔ ثروت خان ایک اچھی مترجم بھی ہیں ، وہ وبھوتی نارائن رائے کے ناول ’ محبت کا طلسمی فسانہ ‘ کا اردو میں ترجمہ کر چکی ہیں ۔ ایک کتاب ’ میراؔ : شخصیت اور فن ‘ کے نام سے ترتیب دے چکی ہیں ۔ دو تنقیدی مجموعے بھی ’ شورشِ فکر ‘ اور ’ نقدِ ثروت ‘ کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ اعتراف کردوں کہ میں ان کی بس چند ہی تحریریں پڑھ سکا ہوں ، لیکن ان کے تازہ ترین ناول ’ کڑوے کریلے ‘ کے مطالعہ نے انہیں نہ پڑھ پانے کی تلافی کر دی ہے ۔ اردو زبان کا یہ المیہ ہے کہ اس میں افسانہ لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے ، لیکن ناول لکھنے والے کم بلکہ بہت کم ہیں – یہاں بات ادبی ناولوں کی ہو رہی ہے ، کمرشیل ناولوں کی نہیں – جبکہ ہندی زبان میں ، انہوں نے بھی ، جو افسانے لکھتے ہیں ، کئی نہ سہی ایک آدھ ناول تو لکھ ہی رکھا ہے ۔ اردو فکشن نگاروں میں ، ثروت خان نے ناول کی صنف کو نظرانداز نہیں کیا ہے ۔ اردو زبان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ، اگر ناول لکھے جاتے اور شائع ہوکر آتے بھی ہیں ، تو تشہیر نہ ہونے کے سبب ، اور اکثر پبلشر کی لاپروائی کی بنا پر ، قارئین کے ہاتھوں تک نہیں پہنچ پاتے ، نتیجتاً وہ ناول ، اگر اچھے بھی ہوتے ہیں ، تب بھی جو توجہ انہیں ملنا چاہیے تھی ، یا جو مقبولیت انہیں مل سکتی تھی ، اس سے وہ محروم رہ جاتے ہیں ۔ اور کئی ایسے ناول جن میں کوئی دَم نہیں ہوتا ، صرف تشہیر کے زور اور سوشل میڈیا پر کی جانے والی ’ جگلری ‘ کے سبب ’ کلاسک ‘ مان لیے جاتے ہیں ۔ ’ کڑوے کریلے ‘ کو وہ تشیر نہیں ملی ، جو ملنا چاہیے تھی ، اس لیے یہ سوشل میڈیا پر ’ کلاسک ‘ قرار نہیں پایا ۔ لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ ثروت خان کا یہ ناول اُن چند ناولوں کے مقابلے ، جنہیں خوب شہرت ملی ہے ، کہیں اچھا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ’ آج ‘ کا ناول ہے اور ’ آج ‘ کی بات کرتا ہے ۔
دیہی زندگی ، ہمارے یہاں افسانوں اور ناولوں کا ، ایک کامیاب موضوع رہاہے ، لیکن حال کے دنوں میں اردو افسانے اور ناول دیہی زندگی سے کچھ خالی نظر آنے لگے ہیں ۔ اور اگر دیہی زندگی کا ذکر کیا بھی جاتا ہے تو روایتی انداز میں ۔ ثروت خان نے اپنے اس ناول میں کوشش کی ہے کہ دیہی زندگی کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ روایت ’ آج ‘ یا ’ حال ‘ بن جائے ، اور تہذیب ، ثقافت و تمدن کا ذکر ’ آج کی بات ‘ میں ڈھل جائے ۔ ناول نگار نے اسی لیے اپنی کہانی کو کسانوں اور جاگیرداروں کی کہانی نہیں بننے دیا ہے ، انہوں نے اپنی کہانی کو کسانوں ، آدای واسیوں ، دلتوں اور کارپوریٹ و سیاست دانوں کی کہانی بنا دیا ہے ۔ یہ کہانی ذات پات کی بنیاد پر بھی گھومتی ہے اور ایک ایسی تہذیب یا ایک ایسی زندگی کی شکلیں بھی دکھاتی ہے ، جسے اجاڑا جا رہا ہے ۔ سوال ہے کہ ، کیوں اجاڑا جا رہا ہے ؟ جواب ہے کہ ، اس لیے کہ اجاڑے جانے میں بہت ساری ’ دولت ‘ دھنّا سیٹھوں کی تجوریوں میں محفوظ ہو جائے گی ، بھلے اس کے نتیجہ میں بےشمار لوگ غیر محفوظ ہوجائیں ، حیوان جنگلوں کو کھو دیں اور دنیا ایک بہت بڑے ماحولیاتی خطرے سے دوچار ہو جائے ۔ ثروت خان نے اپنی کہانی کا تانا بانا راجستھان کے اُن آدای واسیوں کی بستیوں اور کھیت و کھلیانوں اور جنگلوں کے اردگرد بُنا ہے ، جنہیں معدنیات ، بالخصوص کوئلہ کے حصول کی لالچ میں ، اور ترقی کے نام پر ، ٹاؤن ، مالس اور کالونیاں بنا کر دولت کمانے کی اندھادھند دوڑ میں اجاڑا اور بےگھر کیا جا رہا ہے ۔ یہ اونچی ذات کی سازشوں کی ، کسی بھی صورت میں ، کِسی کم ذات کو ، ترقی نہ کرنے دینے کی ، اور اگر وہ کسی آئینی عہدہ پر ہے ، تو اس کے پیر کھینچ لینے کے لیے زور لگانے کی کہانی ہے ۔ ناول کا بنیادی کردار مولیؔ دیوی مہاور ہے ، ایک آدای واسی سرپنچ ۔ اپنے گاؤں کے لیے ، اپنی زمین کے لیے ، اپنے گاؤں والوں کے لیے ، آدای واسیوں اور دلتوں کے لیے ، اپنے کھیتوں کے لیے اور اپنے جنگلوں کے لیے لڑنے اور آواز اٹھانے والی ایک عورت ۔ یہ ایک عزم اور حوصلے سے بھرا ہوا کردار ہے ، لیکن اس کردار کو ’ انسان ‘ ہی رکھا گیا ہے ۔ مصیبت میں یہ کردار روتا بھی ہے ، پھر حوصلے سے اٹھ کر کھڑا بھی ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک نئے ہندوستان کا ایک نیا کردار ہے ، اپنے حقوق سے واقف ، اپنی روایات کا پابند لیکن اپنے گاؤں کو نئی روشنی دینے کا خواہاں ۔ علم اور ترقی کی روشنی ، آدی واسیوں اور دلتوں کی زندگیوں سے توہم پرستی کو دور کرکے انہیں جہل سے نجات دلانے کی روشنی ۔ اور زمینوں کو سازشوں کے دَم پر اور سرکاری فیصلوں و قوانین کی آڑ لے کر ہڑپ کرنے کی چاہ رکھنے والوں کے خلاف آندولن کی روشنی ۔ لیکن آندولن آسان نہیں ہے ۔ ثروت خان نے ایک ایسی کہانی لکھی ہے ، جسے آج کا سچ کہا جا سکتا ہے ۔ وہ ایک جگہ لکھتی ہیں ، ’’ سرکار کے آگے ہاتھ بھی پھیلاؤ ، لاٹھی ، گولی بھانجے بھی کھاؤ – گھر بار بھی چھوڑو – جمین ہے کہاں میرے پاس – منّے کے بابو کا آدھ بیگھہ ٹکڑا ملا ہے ، وہ بھی چھن گئی تو ۔۔‘‘ یہ سوال آج انگنت کسانوں اور آدی واسیوں کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے ، کیونکہ ان کے لیے زمین ہی تو سب کچھ ہے ۔ ان کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ ’’ کھیت ، جنگل اور پانی بچا رہے ۔‘‘ وہ اپنے مقصد کے لیے ’ مہا پڑاؤ ‘ کرنا جانتے تو ہیں ، لیکن انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ انہیں بار بار ’ کھدیڑا ‘ گیا ہے ، اور بار بار انہیں ’ کھدیڑا ‘ جائے گا ۔ ناول جہاں کارپوریٹ اور سیاست دانوں اور اعلیٰ ذات والوں کی ملی بھگت کو اجاگر کرتا ہے ، وہیں ایسے کردار بھی سامنے لاتا ہے ، جو اعلیٰ ذات کے ہیں لیکن اپنے گاؤں ، کھیت اور جنگل سے پیار کرتے ہیں ، اس لیے آندولن میں شامل ہیں ، جیسے کہ وجئے ، جو ایک صحافی ہے ، اور گاؤں ہی کے ایک اونچی ذات کے چودھری رمیش دیو کا بیٹا ہے ۔ وہ کہتا ہے ، ’’ دوستو ! میں چلا گیا اپنے گاؤں سے دور – وہاں ، دیش کی راجدھانی میں – پر مجھے یاد آتی ہے اپنے مہوئے کے پیڑوں کی ، میرے کھیتوں کی ، ان کی میڑھوں کی ۔ ‘‘ ناول کا ایک کردار بھیلوؔ راجا ہے ، مولیؔ کا پتی ۔ دبنگ لیکن گاؤں ہی کے ایک سازشی نریندر شرما کی شاطرانہ چالوں سے شراب اور شباب میں پھنس کر خود کو روگ لگانے والا ، اور پھر اپنی اور اپنی پتنی مولیؔ کی حالت پر پچھتانے والا ۔ اس میں آدای واسیوں کی زندگی کے کئی رنگ دکھائے گیے ہیں ، ان کی تہذیب اورثقافت کو پیش کیا گیا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ’ چڑوترا ‘ جبراً معاوضہ وصولنے کا ایک اندھا طریقہ ہے اور ’ بھونپا ‘ ایک ایسا ’ دھرم گرو ، جو کسی کو بھی ڈائن قرار دے کر اس کی زندگی تباہ کر دیتا ہے ۔ مولیؔ بھی تو ڈائن قرار دے دی جاتی ہے ۔ آدای واسیوں اور دلتوں کی مولیؔ سے محبت پر اس کا ڈائن قرار دیا جانا غالب آجاتا ہے ، اور کیوں نہ غالب آئے کہ ننھے بچے ایک ایک کر کے مر رہے ہیں ۔ کسی کو ان اموات کا سبب جاننے سے مطلب نہیں ہے ، مولیؔ کا ڈائن قرار پانا ہی ان کے لیے بچوں کی موت کا سبب ہے ۔ اس ناول کا ایک دلچسپ حصہ ریاست کی وزیراعلیٰ کا ووٹوں کے لیے مولیؔ مہاور کے گھر آکر بھوجن کرنا ہے ۔ ثروت خان نے اس منظر کو متاثر کن انداز میں بیان کیا ہے ، اس قدر متاثر کن انداز میں کہ قارئین آسانی کے ساتھ وزیراعلیٰ کو شناخت کر لیتے ہیں ۔ کیسا کھیل ہے ! خود بھوجن بنوائیں گے ، اور نام دیں گے کہ دلت کا ، آدای واسی کا بھوجن کھا رہے ہیں !
ناول میں کئی اتار چڑھاؤ ہیں ، ڈرامائی عناصر ہیں ، ذات پات کی باتیں ہیں اور سیاسی فکر بھی شامل ہے ، لیکن ان سب کے باوجود ثروت خان نے ناول کو نہ سیاسی بننے دیا ہے اور نہ ہی اسے ذات پات کے نظام اور فرقہ پرستی کے خلاف پلیٹ فارم بنایا ہے ۔ ناول کا بنیادی تھیم ’ وجود ‘ ہے ، ان کا وجود جو اپنی زمین ، اپنے کھیت اور جنگل اور اپنے ’ کچے پکّے عقائد ‘ کو سنبھال کر ، سنجو کر رکھنے کے متمنی ہیں ۔ ثروت خان نے یہ باتیں ناول کے تعارف میں اپنی تحریر میں ، جو اس کتاب میں شامل ہے ، کہی ہیں ۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ ’’ فطرت کی آغوش میں پلنے اور بسنے والے یہ لوگ آج کی ترقی یافتہ نِت نئی ایجادات کی دنیا کے لیے مثلِ خیر ہیں ۔ ‘‘ ناول کے آخری باب میں ’ کڑوے کریلے ‘ کی اصطلاح اس وقت کھُلتی ہے جب اَن شَن پر بیٹھی مولیؔ اپنی وزیراعلیٰ سے کہتی ہے ، ’’ وکاس کریلے جتنا ہو تو ٹھیک ہے – میں تو اتنا ہی جانوں – اناج کی جگہ تو آپ کو چھوڑنی ہی ہو گی – جنگل سے تو دور رہنا ہی ہوگا – ورنہ آپ جانو جی – پراکَرتی چھوڑتی نہیں – کڑوے کریلے اتنے ہی اگاؤ جتنی ضرورت ہے – کڑوے کریلے کھیت میں – کڑوے کریلے دیس میں -‘‘
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ، ثروت خان کا یہ ناول یادگار ہے یا یہ خامیوں سے قطعی پاک ہے ، کیونکہ اس کے بیانیہ میں ایک طرح کا بوجھل پَن ہے ، علاقائی اصطلاحیں بعض لوگوں کے سر پر سے گزر سکتی ہیں اور بیانیہ کہیں کہیں لگتا ہے کہ دانستہ طویل کردیا گیا ہے ۔ مولیؔ کے جیل جانے کی داستان کچھ زیادہ طویل ہو گئی ہے ، یوں لگتا ہے جیسے کہ ناول نگار جیل کی دیواروں کی اندر جو کچھ ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے ، اسے بتانے کے لیے بے چین ہے ۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ناول پورے خلوص کے ساتھ ، ایک ایسے مسٗلے کو اجاگر کرنے کے لیے لکھا گیا ہے ، جس کی جانب سے سارا میڈیا اور ساری سرکاری مشنری لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے کوشاں ہے ، اس لیے یہ ناول اپنی خامیوں کے باوجود ، خوبیوں والا بن گیا ہے ، اسی لیے اس کا پڑھا جانا بھی ضروری ہے ۔ اس 355 صفحہ کے ناول کو 400 روپیہ میں موبائل نمبر 9610973739 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
