ادائے حسن نہیں سادگی کی بات کرو
جو بھا رہا ہے مجھے بس اسی کی بات کرو
پڑا ہے جسم مرا سلوٹوں کے دامن میں
ہوس کا راگ سنو راگنی کی بات کرو
وصالِ یار کی خوشبو ہمیں ستاتی ہے
سکھی کرو تو ہمارے ہی پی کی بات کرو
یہ خواہشوں کا سمندر ہمیں ڈبو دے گا
ہر اک امید پہ آتی نمی کی بات کرو
یہ چاہتا ہے چمکتا ہوا ترا چہرا
نئے زمانے میں بھی آرسی کی بات کرو
سخن سرائے میں امکان ڈھونڈنا ہے ہمیں
ہے تنگ قافیہ حرفِ روی کی بات کرو
جو کامیاب ہے سب اس کو پوجتے ہیں عبیر
کبھی تو ہارے ہوئے آدمی کی بات کرو