عبدالعزیز
جنوری 2018ء میں سپریم کورٹ کے چار سینئر جج صاحبان جسٹس چلمیشور، جسٹس کورین جوزف، جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس مدن لاکر نے ایک پریس کانفرنس کا خطاب کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ”جمہوریت خطرے میں ہے اور عدالتی نظام میں مداخلت ہورہی ہے“۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے بارے میں اشارتاً کہا گیا تھا کہ وہ ججوں کی بنچوں کی تشکیل میں مقدمہ کے پیش نظر ہیرا پھیری سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح حکومت کی مداخلت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اوریہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر وہ ملک کے عوام کو حالات سے باخبر نہیں کرتے تو ان کا ضمیر کبھی گوارا نہیں کرتا۔ ان چار ججوں میں سے جسٹس رنجن گگوئی بعد میں ’چیف جسٹس آف انڈیا‘ بنے۔ انھوں نے توقع کے مطابق حق و انصاف کے قیام کیلئے کام کرنا شروع کیا، لیکن کچھ دنوں کے بعد ایک جنسی معاملے میں ان کو اس طرح پھنسا دیا گیا کہ وہ بڑی مشکل سے اس معاملے سے بری ہوئے۔ اس کے بعد ہی سے ان کا انداز بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ 2014ء میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ہی نریندر مودی نے ججوں کی ایک کانکلیو میں کہا تھا کہ ”انتظامیہ اور عدالت میں تال میل ہونا چاہئے“۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ عدالت حکومت کا خیال رکھے اور حکومت عدالت کا خیال رکھے۔ کسی سربراہ سلطنت کا اس طرح کی بات کہنا جمہوریت میں کسی سانحہ سے کم نہیں ہے کیونکہ عدالت کے سامنے مرکز کی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں وہ فریق ہوا کرتی ہیں۔ عدالت کا یہ کام نہیں ہے کہ طاقتور فریق کا خیال رکھے اور کمزور فریق سے بے اعتنائی کا سلوک کرے۔ جب یہ چیز عدالتوں کی طرف سے ہوتی ہیں تو عدالتیں بے معنی ہوجاتی ہیں اور ان سے حق و انصاف کی توقع کسی کو بھی نہیں ہوتی۔
گزشتہ 22فروری کو سپریم کورٹ کے ایک جسٹس ارون مشرا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ”وزیر اعظم غیر معمولی جینئس ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر سوچتے ہیں اور مقامی سطح پر کام کرتے ہیں“۔ سپریم کورٹ کے کسی جسٹس کا انتظامیہ کے سربراہ کی تعریف کرنا نہ صرف عجیب و غریب ہے بلکہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ اس بیان کی سپریم کورٹ کے بار ایسوسی ایشن میں بھی مذمت کی گئی۔ چار ججوں کی کانفرنس میں جو کچھ کہا گیا تھایہ اس کی ایک علامت ہے۔
گزشتہ کل (26فروری) دہلی ہائی کورٹ کے دو ججوں پر مشتمل بنچ جسٹس مرلی دھر کی سربراہی میں حقوقِ انسانی کے کارکن مسٹر ہرش مندر کی ایک پٹیشن کو جو دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات کے متعلق تھی سماعت ہورہی تھی، جس میں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے بھڑکاؤ اور زہریلے بیانات پر عرضی گزار نے پولس کی غفلت اور لاپرواہی کا ذکر کیا تھا۔ جسٹس مرلی دھر نے مذکورہ تین لیڈروں کے اشتعال انگیز بیان کی کلپ کورٹ روم میں دکھاتے ہوئے مسٹر مہتا سے کہاکہ”آخر ان تینوں کے خلاف کارروائی سے کیوں گریز کیا؟“ سالیسٹر جنرل مسٹر تشار مہتا نے جب کہاکہ ”مناسب وقت میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کیا جائے گا“۔ اس پر جسٹس مرلی دھر نے کہاکہ ”وہ مناسب وقت کب آئے گا جب ساری دلی جل جائے گی؟“ انھوں نے یہ بھی کہاکہ ”وہ دہلی کو 1984ء کی دہلی بننے نہیں دیں گے“۔ اس طرح جسٹس مرلی دھر نے سالیسٹر جنرل مسٹر تشار مہتہ کو منہ توڑ جواب دیا۔ بالآخر ان کو خاموش ہونا پڑا۔ مرلی دھر نے پولس کی لاپرواہی پر زبردست ریمارک پاس کرتے ہوئے تینوں لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم صادر کیا۔ واضح رہے کہ ان تینوں کے بیانات پر ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں کافی چرچا رہا۔ انوراگ ٹھاکر وزیر اعظم کی کابینہ کے نائب وزیر خزانہ ہیں۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران ’غداروں کو گولی مارو‘ جیسی بات کہی تھی۔ اس نعرے کو بار بار دہرایا بھی تھا۔ پرویش ورما بی جے پی کے ایم پی ہیں انھوں نے دہلی اسمبلی انتخاب کی مہم کے دوران شاہین باغ کو ’منی پاکستان‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہاکہ اگر اروند کجریوال جیت گئے تو شاہین باغ والے ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری بہو بیٹیوں کی عصمت دری کریں گے، اس وقت نریندر مودی اور امیت شاہ آپ کا بچانے نہیں آئیں گے“۔
کپل مشرا پہلے ’عام آدمی پارٹی‘ میں تھے۔ کجریوال کی کابینہ کے وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ کجریوال سے اَن بن ہونے کے بعد بی جے پی میں شامل ہوئے۔ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران دہلی کے انتخاب کو ہندستان اور پاکستان کے مقابلے سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ”شاہین باغ سے دہلی میں پاکستان والے داخل ہورہے ہیں“۔ یہ نفرت انگیز اور زہر آلود بیانات کے خلاف کسی قسم کارروائی کرنے سے گریز کیا۔ کپل مشرا نے 23فروری کی شام کو اپنے ایک ہزار حامیوں کے ساتھ جعفر آباد کے میٹرو اسٹیشن کے پاس پہنچے جہاں خواتین اور مرد کالے قانون کے خلاف دھرنے پر بیٹھے تھے۔ پہلے دھرنے والوں سے نوک جھونک کرنے کی کوشش کی گئی پھر شمال مشرقی دہلی کے ڈی سی پی (کرائم) کو بلا کر کپل مشرا نے تین دنوں کا الٹی میٹم دیا کہ اگر تین دنوں میں یہ جگہ خالی نہیں کی گئی تو پولس سے کچھ نہیں کہیں خود خالی کرادیں گے۔ وہ محض ڈونالڈ ٹرمپ کے واپس جانے کا انتظا کر رہے ہیں۔ 23فروری کو یہ دھمکی آمیز بیان اور کالے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے تنازعے کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ فساد کا سبب بنا۔ پولس نے کپل مشرا کے الٹی میٹم کے خلاف کسی قسم کا نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی ایف آئی آر درج کیا۔ جسٹس مرلی دھر نے اس پر بھی اپنا اعتراض ظاہر کیا۔ دن میں سماعت ہوئی اور رات میں صدر جمہوریہ ہند نے چیف جسٹس آف انڈیا سے مشورے کے بعد جسٹس مرلی دھر کو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ ٹرانسفر کردیا۔ یہ عدالتی تاریخ میں ایک بڑا سانحہ شمار کیا جائے گا۔
اس ٹرانسفر کو کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ”حکومت کی اس کارکردگی سے پتہ چلتا ہے کہ جو انصاف کرے گا اس کو بخشا نہیں جائے گا“۔ انھوں نے اس ناانصافی (Injustice)کو "classic hit-and-run” سے تعبیر کیا ہے۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ ”جسٹس مرلی دھر کا ٹرانسفر افسوسناک ہی نہیں بلکہ غمناک ہے۔ آدھی رات کا یہ ٹرانسفر عدالتی نظام کی تاریخ میں ایک سانحہ کی طرح یاد کیا جائے گا“۔ راہل گاندھی نے اسے جسٹس لویا کے ٹرانسفر سے ملاتے ہوئے کہا ہے کہ جج لویا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس ٹرانسفر نے اس کی یاد تازہ کردی۔ پرینکا گاندھی نے کہا ہے کہ کروڑوں لوگ عدلیہ پر اعتبار کرتے ہیں جسے حکومت نے اپنی غفلت اور لاپرواہی کو چھپانے کیلئے عوام کے اس عتبار کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔
جسٹس مرلی دھر کے ٹرانسفر کے بارے میں دہلی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے وکلاء کی انجمنوں کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔ اگر وکلاء اس طرح کے ٹرانسفر پر خاموش رہتے ہیں تو پھر کسی بھی جج کو جرأت و ہمت نہیں ہوگی کہ مرکزی حکومت یا حکمراں جماعت کے لیڈروں کے خلاف حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر کرسکے۔ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے جو 2018ء کے شروع میں کہا تھا اس کا ظہور اب کھلم کھلا ہونا شروع ہوگیا۔ سول سوسائٹی اور عدالتوں کے وکلاء کو عدلیہ اور جمہوریت کو بچانے کیلئے خاموش نہیں رہنا چاہئے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
1 comment
دہلی بار اسوسییءشن اس سے قبل مرلیدھر کے تبادلے کے لئے احتجاج کر چکی ہے.اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ بار نے کوئ ردعمل نہیں دیا ہے.