Home تجزیہ جسٹس کھانولکر کے متنازع فیصلے- سہیل انجم

جسٹس کھانولکر کے متنازع فیصلے- سہیل انجم

by قندیل

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اے ایم کھانولکر 29 جولائی کو اپنے منصب سے سبکدوش ہوتے ہی سرخیوں میں آگئے ہیں۔ ان کی شہرت کی وجہ ان کے کچھ فیصلے ہیں۔ آجکل عام طور پر یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا جھکاو حکومت کی جانب ہو گیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ چیف جسٹس این وی رمنا وقتاً فوقتاً اپنے بیانات سے عدلیہ کے تئیں عوام کا بھروسہ بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب بھی عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہونے لگتا ہے تو کوئی نہ کوئی اہم فیصلہ سامنے آجاتا ہے جس سے عوامی اعتماد پھر بحال ہو جاتا ہے۔ لیکن ان دنوں میڈیا میں جسٹس کھانولکر کے تعلق سے جو حقائق سامنے آرہے ہیں وہ عوام کو مایوس کرنے والے ہیں۔ بعض میڈیا اداروں نے ان کے فیصلوں کا تجزیہ کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ ان کے بیشتر فیصلے حکومت کی جانب جھکاو رکھتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انھوں نے عمداً ایسے فیصلے سنائے جن سے حکومت کی حمایت کا پہلو نکلتا ہو لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کے بیشتر فیصلوں نے سیکولر، جمہوری اور انصاف پسند عوام کو مایوس کیا ہے۔ آئیے ہم بھی ان کے کچھ حالیہ فیصلوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
انھوں نے اپنی سبکدوشی سے محض دو روز قبل انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کے تعلق سے ایک ایسا فیصلہ سنایا جس نے سیاسی حریفوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکومت کے ہاتھوں کو اور مضبوط کر دیا۔ اس فیصلے میں منی لانڈرنگ کے انسداد سے متعلق ان متنازع دفعات کو بحال رکھا گیا جو ای ڈی کو کسی بھی ملزم کی وسیع پیمانے پر جانچ کرنے اور اسے گرفتار کرنے کا آئینی اختیار دیتی ہیں۔ ان دفعات کو دو سو سے زائد عرضداشتوں میں چیلنج کیا گیا تھا۔ اب پی چدمبرم، شرد پوار اور دیگر بہت سے اپوزیشن رہنماوں کے خلاف جانچ او ران کی گرفتاری کا راستہ ایک بار پھر صاف ہو گیا ہے۔ اس فیصلے پر تنقید ہو رہی ہے۔ قارئین کو معلوم ہے کہ اس فیصلے کے چند روز کے اندر ہی شیو سینا کے سینئر رہنما سنجے راوت کو ای ڈی نے گرفتار کر لیا ہے۔ اس سے قبل اپریل 2019 میں ان کی سربراہی والی دو رکنی بینچ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے جانے والے ملزموں کی ضمانت بے حد مشکل ہو گئی۔ حکومت پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف اس قانون کا استعمال کر رہی ہے ۔ اس فیصلے کے بعد اگر کسی ملزم کے خلاف پیش کیے جانے والے ثبوت عدالت میں قابل قبول نہ بھی ہوں تب بھی عدالتی کارروائی چلنے تک اس شخص کو جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ کھانولکر کی بینچ نے 24 جون کو ذکیہ جعفری کی اس عذرداری کو سختی کے ساتھ خارج کر دیا جس میں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کو گجرات فساد معاملے میں کلین چٹ دینے والی ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بینچ نے عرضی گزاروں کے خلاف انتہائی سخت تبصرہ کیا اور ان کے خلاف کارروائی کی بات کی۔ نتیجتاً دو روز کے بعد ہی ایک عرضی گزار اور گجرات فسادات کے متاثرین کی قانونی و مالی اعانت کرنے والی انسانی حقوق کی سینئر کارکن تیستا سیتلواڈ اور سابق سینئر پولیس افسر آر بی سری کمار کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب گجرات کی ایک مقامی عدالت نے انھیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ 14 جون کو جسٹس کھانولکر اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بینچ نے اس عذرداری کو خارج کر دیا جس میں چھتیس گڑھ کے دنتے واڑہ میں سترہ آدی واسیوں کی ہلاکتوں کی جانچ کی اپیل کی گئی تھی۔ عرضی گزاروں کا دعویٰ تھا کہ ان ہلاکتوں میں سیکورٹی فورسز کا ہاتھ ہے۔ عدالت نے اس معاملے میں بھی بہت سخت رویہ اختیار کیا اور عرضی گزاروں پر پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ کر دیا اور جانچ ایجنسیوں سے کہا کہ وہ اس کی تحقیقات کریں کہ فرضی شواہد کی بنیاد پر کن لوگوں نے درخواست داخل کرنے کی سازش رچی تھی۔ کھانولکر کی بینچ نے ستمبر 2018 میں بھیما کورے گاوں معاملے میں گرفتار انسانی حقوق کے کارکنوں کے معاملے میں جانچ کرانے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ بینچ میں شامل جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے فیصلے سے عدم اتفاق کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس معاملے میں پونے پولیس کے رویے سے اس کی غیر جانبداری کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ جسٹس کھانولکر اس بینچ میں بھی شامل رہے ہیں جس نے سہراب الدین انکاونٹر معاملے کی سماعت کرنے والے جسٹس بی ایچ لویا کی موت کی جانچ کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ سہراب الدین انکاونٹر معاملے میں امت شاہ کلیدی ملزم تھے۔ جسٹس کھانولکر اس بینچ کے بھی سربراہ رہے ہیں جس نے اسی سال اپریل میں این جی اوز یعنی غیر سرکاری تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ پر روک لگانے کے لیے قانون میں کی گئی ترامیم کو بحال رکھا تھا۔ ادھر گزشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کی اجازت مانگنے پر عرضی گزاروں کو پھٹکار لگائی تھی اور کہا تھا کہ جب ان قوانین کو عدالت میں چیلنج کیاگیا ہے تو وہ احتجاج کیوں کریں گے۔ اس فیصلے پر زبردست نکتہ چینی ہوئی تھی اور کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ احتجاج کے جمہوری حق پر روک لگانے کی کوشش ہے۔ 2018 میں ان کی بینچ نے آدھار کے سلسلے میں ایسا فیصلہ سنایا جو حکومت کے حق میں تھا اور کہا تھا کہ آدھار سے پرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ اس بینچ میں جسٹس چندر چوڑ بھی شامل تھے۔ انھوں نے اپنی اختلافی رائے دی تھی۔ جسٹس کھانولکر نے جنوری 2021 میں سینٹرل وسٹا پروجکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضی خارج کر دی تھی۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ اس کے لیے ضروری عوامی مشورہ نہیں کیا گیا اور اس سے اراضی کے استعمال اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اس پروجکٹ کو عدالتی منظوری لینی ضروری ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ خیال ر ہے کہ سینٹرل وسٹا پروجکٹ کے تحت پارلیمنٹ کے قریب ایک نیا پارلیمنٹ ہاوس بن رہا ہے جس میں وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی ہے۔ اطراف میں دیگر دفاتر کے لیے متعدد عمارتیں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ یہ وزیر اعظم مودی کا ڈریم پروجکٹ ہے۔ اس کے ذریعے وہ نیا پارلیمنٹ ہاوس تعمیر کرکے تاریخ میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں۔ مختلف حلقوں سے اس پروجکٹ کی مخالفت کی گئی تھی۔ جسٹس کھانولکر اس بینچ میں بھی شامل رہے ہیں جس نے 2018 میں حائضہ خواتین کے سبری مالا مندر میں جانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن ایک سال بعد کھانولکر نے اپنی رائے بدلی اور کہا کہ سبری مالا مندر کے معاملے پر ایک بڑے اور آئینی بینچ کو سماعت کرنی چاہیے۔
جسٹس کھانولکر کے حالیہ فیصلوں کا یہ ایک رپورٹ کارڈ ہے۔ ان فیصلوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے تئیں نرم گوشہ یا جھکاو رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کی غیر جانبداری اور انصاف پسندی پر حرف آتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ مذکورہ فیصلوں سے بہت سے متنازع معاملوں میں حکومت کے اقدامات کو عدالتی تائید حاصل ہوئی ہے۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر فیصلوں پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا بلکہ کئی فیصلوں پر نکتہ چینی بھی کی گئی۔ جسٹس کھانولکر کے علاوہ بھی بعض دیگر جج حضرات کے فیصلے حکومت کی جانب ان کے جھکاو کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بھی خوب ہے کہ سبکدوشی سے عین قبل حکومت حامی فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ریٹائرمنٹ سے قبل ایودھیا معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لیے دے دی تھی۔ اسی طرح لکھنو کی سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے آڈوانی، جوشی اور اوما بھارتی سمیت بابری مسجد انہدام کے تمام ملزموں کو بری کر دیا تھا اور کہا تھاکہ بابری مسجد کے انہدام کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جس طرح رنجن گوگوئی کو رام مندر کے حق میں فیصلہ سنانے پر راجیہ سبھا کا رکن نامزد کر دیا گیا اسی طرح جسٹس یادو کو یوپی کا ڈپٹی لوک آیوکت بنا دیا گیا۔ کیا پتہ جسٹس کھانولکر کے لیے بھی حکومت نے کوئی عہدہ سوچ رکھا ہو۔

You may also like

Leave a Comment