Home نقدوتبصرہ دبستانِ شعر و سخن میں ’’جنوں آشنا‘‘ کی آمد- منصور قاسمی

دبستانِ شعر و سخن میں ’’جنوں آشنا‘‘ کی آمد- منصور قاسمی

by قندیل

انسان جب اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتا ہے، آفاقی سچائوں کا گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے ،حالات کے ریگزاروں پر لشتم پشتم چلتا ہے ، نرم و گرم ہواؤں کا سامنا کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں جو جذبات منظم ہو کر اور فی البدیہہ برزبان آتے ہیں اسی کو شاعری کہتے ہیں؛ اگر اس میں خیال کی پختگی ، افکار کی بلندی ، نزاکت اور الفاظ کا عمدہ چناؤ شامل ہو جائے تو شعر کا حسن دو بالا ہوجاتا ہے اور شاعری اپنے معراج کو پہنچ جاتی ہے ۔ ہر شاعر کے یہاں ایک فکری جہان آباد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض شعراء ہزاروں کی بھیڑ میں اپنے تیور اور لہجے سے پہچانے جاتے ہیں ، جن میں میر، غالب، اقبال، موجودہ دور میں کلیم عاجز ، بشیر بدر اور راحت اندوری کے اسماء گرامی نمایاں طور پر لیے جا سکتے ہیں ۔
دبستان شعر و سخن میںبھی ایک ایسے ہی ’’جنوں آشنا،، کی آمد ہوئی ہے جس کے متعلق میں دعویٰ تو نہیں کر سکتا کہ ان کی زبان منفرد ہے یا ان کا کلام ہزاروں میں پہچانا جا سکتا ہے؛ تاہم یہ دعویٰ ضرور کر سکتا ہوں کہ اس میں زبان و بیان ستھرا اور نکھرا ہوا ہے ، خیالات جدید و قدیم کا حسین سنگم ہیں ، ان کے یہاں جدت طرازی کے نام پر لایعنی اشعار نظر نہیں آتے ہیں؛چونکہ جنوں آشنا کے شاعر خود ایک باصلاحیت عالم دین ہیں ، ابتدء سے ہی دینی ماحول میں پرورش و پرداخت ہوئی ہے سو افکار و خیالات بھی پاکیزہ ہیں ، جنوں آشنا کے شاعر حسن امام قاسمی خود لکھتے ہیں’’ جس ماحول میں میری تعلیم و تربیت ہوئی ہے ، اس کے اثرات میری فکر پر بہت حد تک مرتسم ہوئے ہیں اور میں اس فکری سرمایہ کو ہی سرمایہء حیات سمجھتا ہوں ،،۔ (جنوں آشنا :ص۳۷) جنوں آشنا کی ترتیب بھی اسی کی غماز ہے ، سب سے پہلے ایک حمد ہے جس میں شاعر موصوف نے اپنی عاجزی ، بے کسی اور درماندگی کا اعتراف کیاہے ۔کہتے ہیں :
خلاق دو عالم ، رب جہاں ! ہم عبد ہیں تیرے تو معبود
تو ذہن رسا کی حد سے ورا ، انفاس میں انساں کی موجود
بعد ازاں عقیدت و محبت میں ڈوب کر لکھی گئی د و نعتیں ہیں جن میں شاعر امام حسن قاسمی کی محمد ﷺ سے سچی محبت و عقیدت روز روشن کی طرح عیاں ہیں ، وہ کہتے ہیں :
در نبی کا جو ادنی غلام ہو جائے
نظر میں سب کی وہ عالی مقام ہو جائے
توصیف مصطفی کروں میری بساط کیا
قرآں بھرا ہوا ہے اٹھا کر تو دیکھئے
اس کے بعد غز لو ں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، حسن امام قاسمی کی غزلوں کے متعلق ڈاکٹر نسیم احمد نسیم رقمطراز ہیں: ’’شاعر نے ان اشعار کی تخلیق کرتے وقت خالص اپنے مشاہدات و محسوسات کو اپنا راہ نما بنایا ہے ۔ یہاں تصنع ، ملمع اور کاریگری نہیں ۔ تشبیہات وعلائم کی دھندلی فضا بھی نہیں ہے اور نہ ہی اغلاق و ابہام اور رمز و کنایہ کی دبیز دھند ہے ۔ اکثر و بیشتر مقامات پر انداز بالکل براہ راست ہے ، سلیس اور صاف ستھرے انداز و آہنگ میں اپنے موقف کی ترسیل ہی مقصود ہے ۔ان اشعار میں جہاں ایک طرف زمانے کی بے رخی اور بے حسی کا شکوہ ہے تو وہیں امید و بیم کی کرنیں ٹمٹماتی ہوئی موجود ہیں ‘‘۔ (جنوں آشناص:۲۵)
ملک کے ممتاز عالم دین اور نائب ناظم امارت شرعیہ مفتی ثناء الہدی قاسمی تحریر فرماتے ہیں: ’’حسن اما م قاسمی کی شاعری زمانہ کی آواز ہے ، ان کے خیالات فلسفیانہ نہیں ہیں؛بلکہ عام دلوں کی آوازہیں ،خیالات کو شعر میں ڈھالنے کے لئے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ انتہائی سادہ اور آسان ہیں ،قاری شعر و ادب کے جس دبستان سے تعلق رکھتا ہو اس کو اپنے مطلب کے اشعار اس مجموعہ میںمل جائیں گے‘‘۔ (جنوں آشناص: ۲۰) ایک جگہ اور لکھتے ہیں :’’ان غزلوں میں حسن نے جس تخیل کا استعمال کیا ہے وہ سماج اور فرد کے عمومی مسائل ہیں ، شاعر نے اسے آب بیتی کے لب و لہجے میں بیان کیا ہے ، لیکن وہ اصلا جگ بیتی ہے‘‘۔(ایضا:۱۳)
جنوں آشنا کی قرأت کے بعد محسوس ہوا کہ حسن امام قاسمی نے سماج کے دکھ کو نہ صرف قریب سے دیکھااور محسوس کیا ؛بلکہ شعری زبان میںاس کا برملا اظہار بھی کیا ہے:
لہلہاتی کھیتیاں بے فیض ہو کر رہ گئیں
جب کساں کی گردنوں میں موت کا پھندا ہوا
عدل کی امید کوئی کس طرح رکھے بھلا
مسند انصاف پر قاتل ہو جب بیٹھا ہے ہوا
موجودہ دور میں میڈیا بکا ہوا ہے ، قیادت بکی ہوئی ہے ، کورٹ بکا ہوا ہے کچھ شعراو قلمکار بھی بکے ہوئے ہیں ؛مگر جنوں سے آشنا سودائی امیر شہر کے ہاتھوں اپنے ضمیر بیچنے کو تیار نہیں اور نہ مصلحت پسندی کے نام پر قیادت کی نظر میںمعتبر ہونا چاہتے ہیں اور یہی ایک غیرت مند اور باشعور شاعر کی پہچان ہے ۔وہ کہتے ہیں :
امیر شہر کو تم بھی عزیز ہوتے حسن
ضمیر بیچ کے اپنا جو ہاں میں ہاں کرتے
جو ہم بھی خود پہ چڑھا لیتے مصلحت کے رنگ
نگاہ اہل قیادت میں معتبر ہوتے
حسن قاسمی کبھی پھول بن جاتے ہیں تو کبھی تلوار ، ان کا انقلابی اور باغیانہ تیور بھی شاندار ہے ۔ دیکھیں!
مری فطرت میں شامل امن کا پرچار کرنا ہے
اگر یہ جرم ہے تو پھر اسے سو بار کرنا ہے
یوں سر بکف رکھوں گا چراغ وفا کو میں
پانی پلا کے چھوڑوں گا سرکش ہوا کو میں
حسن اما م نے اپنی غزلوں میں قدوم میمنت ، جبیں سحر ، زرد کاری ، پروانہء شب ، چراغ بکف ، عازم مقتل ،، محفل عیش و طرب ، رزم گاہ زیست ، حجرہء شب ، نوید سحر ، قریہ ء جاں ، ظلمت شباب،شکوہ سنج جیسے خوبصورت الفا ط کو بڑے سلیقے سے برتا ہے ۔ کچھ ہندی کے الفاظ بھی غزلوں میں شامل ہیں ۔ حسن امام کی شاعری میں مثبت و تعمیری سوچ کا گہرا امتزاج بھی ملے گا اور زبان و بیان و فنی قدروں کا حسین التزام بھی ، انا کے خول سے باہر نکلنے کو کہنا ، فرقوں میں بکھری قوم کو یکجا ہونے کا مشورہ دینا ، لعل و گوہر کی خواہش نہ رکھنا ، گدا کو ایک لقمہ ملنے پر دعا کا پھول رکھ جانا ، نئی تہذیب کی فیشن پرستی پر افسوس جتانا ، اپنی آنکھوں سے برائی دیکھ کر اس برائی کو نہ روکنا ،قدم ساتھ ملا کر بڑھنا ، مسندوں کا خواب نہ دیکھنا ، اندھیری رات کو مسخر کرنا یہ وہ باتیں ہیں جنہیں ہم صحیح اور تعمیری سوچ کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔یہی ایک اچھی شاعری اور بڑی شاعری کی پہچان ہے۔غزلوں کے علاوہ حسن امام قاسمی نے تہنیت نامہ ، سہرے ، ترانے ،نظمیں اور قطعات بھی کہے ہیں جو جنوں آشنا میں شامل ہیں، اہل ذوق اس کا مطالعہ ضرور کریں تاکہ شاعر موصوف کی شاعری کو سمجھ سکیں !
جنوں آشنا کا پیش لفظ صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ ملک کے نامور قلمکار اور درجنوں کتابوں کے مصنف مفتی ثناء الہدی قاسمی نے لکھا ہے ۔ انہوں نے جنوں آشنا میں شامل کلام کے حوالے سے مفصل گفتگو کی ہے ۔ حسن اما م کے شاعرانہ اختصاص اور انفرادیت پر ڈاکٹر نسیم احمد نسیم کی شاندار تحریر ہے ۔ پروفیسر شکیل قادری نے ’’ جنوں آشنا کے شاعر حسن امام قاسمی ‘‘کو حق آشنا شاعر قراردیا ہے ۔ برادر مکرم پروفیسر کامران غنی صبا پروفیسر نتیشور کالج مظفر پور نے ’’ ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے ‘‘ کے عنوان سے حسن امام کی شخصیت اور ان کے فن پر اچھی اور سچی گفتگو کی ہے ۔ کتا ب کی پشت پر مشہور و معتبر ناقد حقانی القاسمی لکھتے ہیں ’’مثبت اور تعمیری فکر سے تشکیل دی گئی ( حسن امام قاسمی کی) شاعری میں سادگی ہے ،صداقت ہے ، تحرک ہے ،تلاطم ہے اور تغزل ہے ۔حسن اما م نے روایت سے بغاوت نہیں کی ہے بلکہ رہنمائی اور روشنی حاصل کی ہے ۔ ان کی جدید شعری فکر میں بھی کلاسیکیت کی خوبصورت آمیزش ہے ‘‘۔ ناصر ناکا گاوا چیف ایڈیٹر ، اردو نیٹ جاپان کہتے ہیں ’’حسن امام کی شاعری میں توازن اور میانہ روی ہے ۔ نہ عوامی جذبۂ اظہار ان کے فن پر حاوی ہوتا ہے اور نہ جدت و جدیدیت کے چکر میں پڑ کر وہ اپنی شاعری کو چیستاں بناتے ہیں ،،۔ معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی لکھتے ہیں ’’حسن امام قاسمی کی شاعری پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا کہ نئی نسل کے شعراء کا ادبی شعور کتنا پختہ اور گہرا ہے ‘‘۔ہم بجا تو پر کہہ سکتے ہیں کہ ان تمام عبقری و علمی شخصیات کی تحریریں اور آراء حسن امام قاسمی کی شاعری کے لئے سند ہیں ۔
’’میں اور میری شاعری ‘‘ کی سرخی سے حسن امام قاسمی نے رب کا شکر بجا لانے کے بعد شعر و ادب پر احادیث رسول ﷺ کے حوالے سے مدلل بحث کی ہے پھر اپنا شعری سفر بیان کیا ہے ، بعد ازاں اپنے محبین ، مخلصین اور معاونین کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ مجھے بھی اس بات کا فخر ہے کہ میرے حلقہ ٔ احباب میں حسن امام قاسمی جیسے مخلص ،نیک طینت اور خوش گو شاعر اور شخصیت ہیں ۔ دعا ہے کہ حسن امام کا شعری سفر یوں ہی رواں دواں رہے ، ادبی دنیا میں عزت و وقار سے ان کا نام لیا جائے اور’’ جنوں آشنا‘‘ کو مولا شرف قبولیت سے نوازے ۔

You may also like

Leave a Comment