سنہ ۱۹۸۲ میں اسرائیل کے جنوبی لبنان پر قبضے کی وجہ سے حزب اللہ اس کے خلاف اسی وقت سےبرسرپیکار ہے۔ ۲۰۰۶ میں حزب اللہ نے اسرائیل کو جنوبی لبنان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن چونکہ اس کے بعد بھی اسرائیل لبنان کے ایک چھوٹے سے علاقے (شبعا فارمز) پر قابض رہا، اس لئے حزب اللہ نے اس کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ اکتوبر۲۰۲۳ میں حماس اور الجہاد الاسلامی کے اسرائیل پرمزاحمتی حملے کے بعد سے حزب اللہ غزہ کے مزاحمت کاروں کے ساتھ کھڑاہے۔ پچھلے چند مہینوں میں حزب اللہ کے اسرائیل پر حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ اسی کے ساتھ اسرائیل نے بھی جنوبی لبنان اور حزب اللہ کے لیڈروں اور فوجی ٹھکانوں پر بےدریغ حملے کرنے شروع کر دئے ہیں ۔ اس دوران اسرائیل نے حزب اللہ کے بہت سے اونچے سیاسی اور عسکری لیڈروں کو قتل کیا ہے جس میں حزب اللہ کے لیڈر شیخ حسن نصراللہ شامل ہیں۔ اسرائیل نے بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقہ(ضاحیہ) کو بھی تہس نہس کر دیا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں حزب اللہ کا صدر مقام اور دفاتر قائم تھے۔
حزب اللہ کے نئے لیڈرشیخ نعیم قاسم
اسرائیل نے جنوبی لبنان اور بیروت وغیرہ پرہفتوں وحشیانہ فضائی حملے کرنے کے بعد ۲۳؍ستمبر سے جنوبی لبنان پربرّی فوج کشی شروع کی اور ۵بریگیڈ(۷۰ہزار فوجی) اتار دئے ۔ اسرائیل ۱؍نومبر ۲۰۲۴ تک لبنان میں ۲۸۶۵ لوگوں کو قتل ، ۱۳,۰۴۷کو زخمی اور ۱۴؍لاکھ لوگوں کو اپنے گھروں سے دوسرے علاقوں میں بھاگنے پر مجبور کر چکا ہے۔ اسی عرصے میں اسرائیل نے اب تک جنوبی لبنان میں اپنے ۹۵ فوجیوں کے مرنے اور ۹۰۰ کے زخمی ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ حزب اللہ نے کہا ہے کہ اس نے اب تک ۴۲ ؍اسرائیلی ٹینک تباہ کئے ہیں، دوسری قسم کی گاڑیاں اس کے علاوہ ہیں۔ اس عرصے میں حزب اللہ نے ۵؍اسرائیلی ڈرونز بھی گرائے ہیں۔ حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے اسرائیل کے اندر جو نقصانات ہوئے ہیں ان کی تفصیلات اسرائیل جاری نہیں کرتا ہے ۔ چند امریکی صحافیوں نے ایران اور حزب اللہ کے حملوں سے ہونے والے نقصانات کا پتہ لگانے کی کوشش کی تو ان کی پٹائی کی گئی اور ان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔
اسرائیلی فضائی حملوں کے بارے میں حزب اللہ بڑی حد تک بےبس تھا لیکن بری لڑائی کے دوران اس نے ہر علاقے میں اسرائیلی فوج کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ اپنے دفاع میں حزب اللہ نے روسی ساخت کے ’’کورنیٹ‘‘ راکٹس کا بکثرت استعمال کیا۔ یہ ہلکے راکٹ ٹینکوں کے خلاف بہترین ہتھیار ہیں جن کوایک فوجی بآسانی ڈھو سکتا ہے اور فائر سکتا ہے۔
حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف ’’نصر‘‘ اور ’’عزیز‘‘ نامی بریگیڈ اتارے جو متعین جگہوں پر رہ کر لڑائی کرتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ اس نے ’’رضوان‘‘ بریگیڈ اتارا جو متحرک ہے اور جہاں بھی ثابت فوج کو ضرورت ہوتی ہے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس دو بدو جنگ میں اسرائیل جنوبی لبنان کے کسی مقام پر ۴؍کیلومیٹر سے زیادہ اندر نہیں گھس پایا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حزب اللہ کی فوج ۵۰؍ہزار جانبازوں پر مشتمل ہے۔
اسرائیل حزب اللہ کے ڈرونز (بغیر پائلٹ کے چھوٹے ہوائی جہازوں)سے بہت پریشان ہے۔ ان میں سے اکثر اسرائیل میں کافی اندر جا کر اپنے ہدف پر حملہ کرتے ہیں۔ ایک ڈرون نے تو ۱۹ ؍اکتوبرکو اسرائیلی وزیراعظم نتنیاہو کے تل ابیب میں واقع گھر کے بیڈ روم پر حملہ کیا۔ نتنیاہو اس لئے بچ گیا کہ وہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھا لیکن ڈرونز سے وہ اتنا خوفزدہ ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کی شادی ملتوی کر دی ہے اور اب اسرائیلی کیبنٹ کے اجلاس تہ خانوں میں ہو رہے ہیں۔
حزب اللہ کے ڈرونز اسرائیل کے بہت سے فوجی اڈوں اور فوجی کارخانوں پر حملہ کر چکے ہیں۔ اپنے چھوٹے سائز کی وجہ سے یہ ڈرونز راڈار کی پکڑ میں نہیں آتے ہیں۔ ان کے اوپر ایک خاص پالش لگی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پکڑ میں نہیں آتے ہیں۔ مزید برآں وہ بہت کم اونچائی پر پرواز کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زمین کے قریب فضا میں موجود ریڈیو اور موبائل سگنلز میں گم ہو جاتے ہیں۔ ان کے انجن بھی بہت کم گرمی نکالتے ہیں جس کی وجہ سے بھی ان کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ ان ڈرونز کو ایک مجموعے کی صورت میں بھیجا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان میں سے کچھ نہ کچھ اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل کا فضائی دفاعی سسٹم (آئرن ڈوم) ڈرونز کے لئے نہیں بنایا گیا ہے۔
حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف نومبر ۲۰۰۴ سے ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ لبنان سے باقاعدہ جنگ سے پہلے حزب اللہ کے ”ہدہد“ اور ”مرصاد“ ڈرون اسرائیل کے اندر خفیہ اور فوجی مقامات کے ویڈیو بنا چکے ہیں اور اسرائیل ان کو روک نہیں پایا۔ ’’ہدہد‘‘ ایک خاموش ڈرون ہے جو ۳۰کیلومیٹر تک جا سکتا ہے اور ایک وقت میں ۶۰-۹۰ منٹ تک ایک گھنٹے میں ۶۰ کیلومیٹر کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔ حزب اللہ کے ڈرون ۴۰-۵۰ کلو دھماکہ خیز مادہ بھی لے جا سکتے ہیں۔ ڈرونز بہت سستا ہتھیار ہے جبکہ اسرائیل بہت مہنگے جنگی جہاز استعمال کرتا ہے۔ حزب اللہ کا ’’مرصاد‘‘ ڈرون ۲۰۰ کیلومیٹر تک جا سکتا ہے جبکہ ”ایوب“ نامی ایرانی ڈرون ۱۶۰۰ کیلومیٹر تک جا سکتا ہے۔ اسرائیل کے خیال میں حزب اللہ کے پاس دوہزار ڈرون ہیں۔ حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں سرنگوں کا جال بچھایا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزہ کی سرنگوں سے زیادہ بہتر ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حزب اللہ کے پاس ۵لاکھ مختلف قسم کے راکٹس ہیں۔
جنگ کے شروع میں اسرائیل نے بڑی کوشش کی کہ جنوبی لبنان میں ۲۰۰۶ سے متعین اقوام متحدہ کی فوج یونیفیل UNIFIL کو وہاں سے ہٹا دیا جائے تاکہ اسرائیل کو علاقے میں پوری من مانی کرنے کا موقعہ مل جائے اور اس کے جرائم کو کوئی ریکارڈ نہ کرسکے۔ لیکن دنیا بھر میں امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت کسی نے اس کی تایید نہیں کی۔ یونیفیل میں خود ہندوستان کے فوجی بھی شامل ہیں۔
جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجوں کی پسپائی کی وجہ سے اب اسرائیل اور امریکہ جنگ بندی کی بات کرنے لگے ہیں ۔ امریکہ نے صدارتی نمائندہ آموس ہوکشتائن کو اس مقصد کے لئے لبنان بھیجا ہے۔ وہ یہ پلان لے کر آیا ہے کہ پہلے ۶۰دن کی جنگ بندی ہو جائے جس کے دوران دوسرے مسائل طے کر لئے جائیں گے۔ اسرائیل کی شرط یہ ہے کہ حزب اللہ لیطانی دریا کے پیچھے چلا جائے یعنی تقریباً سرحد سے ۲۵؍کیلومیٹر کا علاقہ خالی کردے تاکہ وہ علاقہ اسرائیل کے لئے بفرزون بن جائے۔ اسرائیل یہ بھی مطالبہ کر رہا ہے کہ جنگ بندی کے بعد بھی اسے حزب اللہ پر حملے کی اجازت ہونی چاہئے۔
اسی درمیان یہ دعوی کیا گیا کہ امریکی صدارتی نمائندہ ہوکشتائن نے لبنانی وزیراعظم نجیب میقاتی سے مطالبہ کیا ہے کہ لبنان یک طرفہ طور سے جنگ بندی کر دے لیکن نجیب میقاتی نے اس کا انکار کیا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ کسی طرح حزب اللہ اور لبنانی فوج میں جنگ شروع ہو جائے لیکن لبنانی حکومت اور حزب اللہ نے حکمت سے اس کو ٹال دیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ اب تک لبنانی فوج نے حملہ آور اسرائیلی فوج پر ایک گولی نہیں چلائی ہے بلکہ سارا بوجھ حزب اللہ کے جانباز اٹھا رہےہیں ۔
اپنے سارے نقصانات اور لیڈروں کی شہادت کے باوجود حزب اللہ نے اتنا عمدہ مقابلہ کیا ہے کہ اب اسرائیل یہ کہنے پر مجبور ہو گیاہے کہ اس کی جنگ کے مقاصد پورے ہو گئے ہیں! اسرائیل کا شروع میں کہنا تھا جب تک شمالی اسرائیل سے بھاگے ہوئے اسرائیلی اپنے گھروں کو واپس نہیں جاتے ہیں جنگ بندی نہیں ہو گی۔ پھر یہی اسرائیل ’’نئے مشرق وسطی‘‘ بنانے کی بات کرنے لگا تھا جہاں اسرائیل اور امریکہ کی مکمل چودھراہٹ ہوتی۔ اب امریکہ اور اسرائیل دونوں کہہ رہے ہیں کہ جنگ بندی اس بنیاد پر ہوگی کہ اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کاؤنسل کی قرارداد نمبر۱۷۰۱(۲۰۰۶) کو دوبارہ نافذ کیا جائے۔
غزہ اور جنوبی لبنان میں حماس اور حزب اللہ کی شدید مزاحمت کی وجہ سے اسرائیلی فوج کے مشرق وسطی میں ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کے بے پناہ جنگی جرائم کی وجہ سے دنیا کی اکثریت آج اسرائیل کے خلاف ہوچکی ہے۔ اب نیا مشرق وسطی اکتوبر ۲۰۲۳ والے مشرق وسطی سے بہت مختلف ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)