Home اسلامیات جمعہ کی ادائیگی کو آسان بنائیں!-ڈاکٹر محمد واسع ظفر

جمعہ کی ادائیگی کو آسان بنائیں!-ڈاکٹر محمد واسع ظفر

by قندیل

استاذ و سابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ

دعوت و تبلیغ اور فقہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ دین کے اندر تنگی پیدا نہ کی جائے بلکہ آسانیاں پیدا کی جائیں نیز لو گوں کو بشارتیں سنائی جائیں، نفرت نہ دلائی جائے۔ اس بات کا حکم نبی کریم ﷺ نے ابوموسیٰ اشعریؓ اور معاذ بن جبلؓ کو اس وقت دیا تھا جب آپؐ انہیں دین کی تعلیم و تبلیغ کے لیے یمن روانہ کر رہے تھے۔ آپؐ کے الفاظ یہ تھے : ’’ یَسِّرَا وَ لَا تُعَسِّرَا، وَ بَشِّرَا وَ لَا تُنَفِّرَا، وَ تَطَاوَعَا‘‘ یعنی آسانی پیدا کرنا اور تنگی نہ کرنا اور خوشخبری دینا اور نفرت نہ دلانا اور آپس میں اتفاق رکھنا۔ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۷۱۷۲) ۔

اس حکم کا اطلاق دین کے جملہ امور بالخصوص اجتماعی عبادات پر بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے امام کو فرض نمازیں ہلکی پڑھانے کا حکم ہے تاکہ مقتدیوں میں موجود ضعیفوں، بیماروں، کمزوروں اور حاجت مندوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ حضرت عثمان بن ابوالعاص ثقفیؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی قوم کی امامت کرنے کا حکم دیا تو یہ ارشاد فرمایا: ’’أُمَّ قَوْمَکَ، فَمَنْ أَمَّ قَوْمًا فَلْیُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِیْھِمُ الْکَبِیرَ، وَ إِنَّ فِیْھِمُ الْمَرِیْضَ، وَ إِنَّ فِیْھِمُ الضَّعِیْفَ، وَ إِنَّ فِیْھِمْ ذَا الْحَاجَۃِ، وَ إِذَا صلّٰی أَحَدُکُمْ وَحْدَہُ، فَلْیُصَلِّ کَیْفَ شَائَ‘‘ یعنی تم اپنی قوم کی امامت کرو اور جو شخص لوگوں کا امام بنے، وہ (نماز میں) تخفیف کرے کیوں کہ ان میں بوڑھے ہوتے ہیں، ان میں بیمار ہوتے ہیں ، ان میں کمزور ہوتے ہیں اور ان میں ضرورت مند ہوتے ہیں ، اور جب تم میں سے کوئی اکیلا نماز ادا کرے تو جیسے چاہے ادا کرے۔ (صحیح مسلمؒؒ، رقم الحدیث ۱۰۵۰)۔

اسی وجہ سے جب ایک صحابیؓ نے حضرت معاذؓ کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے شکایت کی کہ وہ قرأت میں سورۃ البقرۃ اور سورۃ النساء جیسی سورتیں اختیار کر کے عشاء کی نماز کو بہت طول دے دیتے ہیں جب کہ میں دن بھر اونٹ چَرانے کی وجہ سے رات میں تھک کر چکنا چور ہوجاتا ہوں اور طویل قرأت سننے کی طاقت نہیں رکھتاتو رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ سے فرمایا: اے معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ آپؐ نے أَفَتَّانٌ یا أَفَاتِنٌ لفظ تین مرتبہ فرمایا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ تم نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی، وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا، وَالَّیْلِ إِذَا یَغْشٰی (جیسی سورتوں) کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھائی جب کہ تمہارے پیچھے عمر رسیدہ، کمزور اور حاجت مند لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث۷۰۵) ۔

اسی طرح ایک اور صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے شکایتاً عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں فجر کی نماز میں تاخیر کرکے اس لیے شریک ہوتا ہوں کہ فلاں صاحب فجر کی نماز بہت طویل کر دیتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر آپؐ اس قدر غصہ ہوئے کہ میں نے نصیحت کرتے وقت اس دن سے زیادہ غضبناک آپؐ کو کبھی نہیں دیکھا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’یَا أَیُّھَاالنَّاسُ! إِنَّ مِنْکُمْ مُنَفِّرِیْنَ، فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْیَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ خَلْفَہُ الضَّعِیْفَ وَ الْکَبِیرَ وَ ذَا الْحَاجَۃِ، ‘‘ یعنی اے لوگو! تم میں سے بعض لوگ (نماز سے لوگوں کو)نفرت دلانے کا باعث بنتے ہیں۔ پس جو شخص لوگوں کی امامت کرے اسے اختصار سے کام لینا چاہیے کیوں کہ اس کے پیچھے کمزور ، بوڑھے اور ضرورت مند سب ہی ہوتے ہیں ۔ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۷۰۴) ۔

ان احادیث کا حاصل یہ ہے کہ علماء، فقہاء، داعیان دین اور اولوالامر حضرات دینی امور میں حتی الامکان کوئی ایسی صورتحال پیدا نہ کریں جس کی وجہ سے عام مسلمان پریشانیوں میں مبتلا ہوں اور ان کے اندر اسلام یا اسلامی احکام کے تئیں نفرت و بیزاری پیدا ہو لیکن بدقسمتی سے مشاہدے میں یہ بات دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ معاملہ اکثر اس کے برعکس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جمعہ کی نماز کو ہی لیجئے جو کہ اس مضمون کا کلیدی موضوع ہے۔ بچپن سے دیکھتا آیا تھا کہ جمعہ کی اذان اور خطبے کے دوران آدھ گھنٹے کا وقفہ رہتا تھا، اسی آدھ گھنٹے میںسے مقررین آخر کے پندرہ بیس منٹ مقامی زبان میں پند و نصائح اور تقاریر کے لیے نکال لیتے تھے لیکن اب شہر کی اکثر مساجد میں یہ وقفہ پون گھنٹہ ہوچکا ہے مثلاً اذان کا وقت اگر ۳۰:۱۲ ہے تو خطبے کا وقت ۱۵: ۱ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ وقفہ صرف اس لیے بڑھایا گیا ہے تاکہ امام و خطیب صاحب اپنے فن خطابت کا بھرپور اظہار کر سکیں۔ یہ بات اس لیے لکھنا پڑ رہی ہے کہ ۱۵ سے ۲۰ منٹ گفتگو بھی کافی ہے اگر باتوں کو منظم اور منضبط طریقے سے پیش کیا جائے لیکن اکثر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ گفتگو کو لچھے دار بنانے کے چکر میں الفاظ اور جملے بدل بدل کر باتوں کا اعادہ کیا جاتا ہے جس میں وقت کا ضیاع لازمی ہے اور پوری تقریر کا اگر آپ خلاصہ نکالیں تو مشکل سے چند جملوں میں نکلے گا۔ اس پر بھی بعض خطیب اپنے جوش خطابت میں وقت کی پابندی کا لحاظ نہیں رکھتے، ۵ سے ۱۰ منٹوں کا اضافہ تو معمول میں شامل ہوتا ہے۔ ایک مسجد جس میں اذان کا وقت ۳۰:۱۲ بجے اور خطبے کا ۱۵:۱ بجے ہے ، خطبہ ہمیشہ ۲۵:۱ یا ۳۰:۱ بجے ہی شروع ہو پاتا ہے جس کی وجہ سے نماز عموماً ۳۵:۱ میں شروع اور لگ بھگ ۴۵:۱ میں ختم ہوپاتی ہے۔ پھر اس کے بعدلمبی چوڑی دعائیں ہیں۔ اس طرح اذان سے خطبے میں ایک گھنٹہ اور نماز میں سوا گھنٹے کا وقفہ ہوجاتا ہے۔ پھر اگر آپ سنن راتبہ و نوافل ادا کرناچاہیں تو مزید وقت درکار ہے۔

ا ب آپ غور کیجیے کہ اتنی دیر تک مسجد میں بیٹھنا اور وضو کو باقی رکھنا کتنا مشکل کام ہے۔ ادھیڑ عمر کے اکثر افراد آج کل یا تو پروسٹیٹ(Prostate) یا معدے سے متعلق (Gastric) مسائل یا گھٹنوں کے درد کا شکار ہوتے ہیں۔ پروسٹیٹ کے مریضوں کو بار بار پیشا ب آنے کی شکایت رہتی ہے جسے وہ زیادہ دیر تک روک بھی نہیں سکتے اور سردی کے موسم میں یہ پریشانی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ گیسٹرک کے مریضوں کو ریح روکنا مشکل ہوتا ہے اور گھٹنوں کی تکلیف والے زیادہ دیر تک دو زانو یا چہار زانو بیٹھ نہیں سکتے لیکن ان سب کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی معذوری کی وجہ سے اگر دیر سے جمعہ میں شریک ہوں تو دوسرا مسئلہ نیچے کی منزل میں جگہ نہ ملنے کا سامنے آتا ہے اور ضعیف لوگ بالائی منزلوں کی سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ سکتے۔

ان کے علاوہ بہت سے لوگ سرکاری یا غیر سرکاری ملازم ہوتے ہیں جنہیں مختصر وقفے کی مہلت جو عموماً نصف سے ایک گھنٹہ کے درمیان ہوتی ہے، جمعہ کی ادائیگی کے نام پر ملتی ہے جس میں ان کے آنے جانے کا وقفہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جو لوگ ملازمت پیشہ نہیں ہیں انہیں بھی دوسرے تقاضے ہو سکتے ہیں۔ کچھ لوگ مسافرت میں ہوسکتے ہیں اور کچھ کا سفر کا ارادہ بھی ہوسکتا ہے جن کے لیے بس، ٹرین یا ہوائی جہاز کے اوقات کا لحاظ رکھنا لازم ہوتا ہے۔ قرب و جوار کے دیہاتوں سے بہت سے لوگ جمعہ کے دن شہر اس ارادے سے آتے ہیں تاکہ وہاں جمعہ بھی ادا کرلیں اور اپنے ذاتی تقاضوں کوبھی جو شہر سے وابستہ ہیں پورا کرلیں۔ جمعہ کی ادائیگی میں بہت زیادہ وقت صرف ہوجانے کی وجہ سے ان سب کو کس قسم کی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے اس کی کوئی فکر نہ امام و خطیب صاحب کو ہوتی ہے نہ مسجد کمیٹی کے ذمے داران کو۔ تو پھر رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر کہاں عمل ہوا کہ بوڑھوں، کمزوروں، مریضوں اور حاجت مندوں کا خیال رکھو؟ کیا ایسے تمام لوگوں کےلیے جمعہ کی ادائی کو مشکل نہیں بنایا جارہا ہے؟ جمعہ کے خطبے کے سلسلے میں تو رسول اللہ ﷺ کی واضح ہدایت موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اِنَّ طُوْلَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ، وَ قِصَرَ خُطْبَتِہِ، مَئِنَّۃٌ مِنْ فِقْھِہِ، فَأَطِیْلُوا الصَّلَاۃَ وَاقْصُرُوا الْخُطْبَۃَ‘‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کی نماز کا طویل ہونا اور خطبے کا مختصر ہونا اس کے دین کی سمجھداری کی علامت ہے لہٰذا تم نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر دو۔ (صحیح مسلمؒ، رقم الحدیث ۲۰۰۹، بروایت جابرؓ ) ۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ یہاں جس خطبے کو نماز کے مقابلہ میں مختصر کرنے کی بات کہی گئی ہے وہ نماز جمعہ کا حصہ ہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک واجب ہے، تو جو تقریر اس خطبے پربھی اضافہ ہو اس کا بہت طویل ہونا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ ویسے بھی بادلیل و مختصر کلام ہی عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔ عریض کلام جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں مگر معنی کم ہوں پسند نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس کے لیے قبل از تقریر مطالعہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جو شاید کیا بھی نہیں جاتا الا ماشاء اللہ۔ موضوعات بھی گھسے پٹے اور روایتی ہوتے ہیں جن کا لوگوں کے عمل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دین کی بنیادی باتوں کو ان تقاریر کا موضوع بنایا جانا چاہیے کیوں کہ مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ مسلمان کیوں کہے جاتے ہیں اور بحیثیت مسلمان ان کی کیا ذمے داریاںہیں نیز ان کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟ احقر نے جمعہ کی تقریر کے موضوعات اور طریقہ کار پر الگ سے ایک مضمون بہت قبل لکھا تھا جو ملک کے کئی اخبارات میں شائع بھی ہوا تھا اور انٹرنیٹ پر آج بھی موجود ہے جس کا عنوان تھا ’’علماء اپنی تقاریر کا انداز بدلیں‘‘۔ اس مضمون سے مزید استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

ایک اور بات یہ کہ جمعہ میں تقدیم و تعجیل مستحب ہے یعنی بعد از زوال وقت جمعہ شروع ہوتے ہی نماز جلدی ادا کرلینا بہتر ہے۔ نبی کریم ﷺ کا یہی معمول تھا۔ سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے: ’’کُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ الْجُمُعَۃَ فَنَرْجِعُ، وَ مَا نَجِدُ لِلْحِیْطَانِ فَیْئاً نَسْتَظِلُّ بِہِ‘‘ یعنی ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جمعہ ادا کرتے پھر لوٹتے تو ہمیں دیواروں کا اتنا بھی سایہ نہ ملتا تھا کہ ہم (سورج سے ) اس کی اوٹ لے سکیں۔ (صحیح مسلمؒ، رقم ۱۹۹۳)۔ یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کی نماز اول وقت پرہی ادا کیا کرتے تھے۔ ا ب اس مسجد کا حال دیکھیے جس کی احقر نے اوپر مثال دی ہے کہ وہاں ظہر تو ہمیشہ اول وقت میں(ایک بجے) ادا کی جاتی ہے لیکن جمعہ تاخیر سے یعنی ۳۰:۱ سے ۴۵:۱ کے دوران۔ اب اس کے پیچھے کیا حکمت ہے، یہ احقر کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

آخر میں ائمہ، خطبا اور مسجد کمیٹیوں کے ذمے داران سے ایک اپیل ہے کہ للہ مذکورہ بالا باتوں پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں اور جمعہ کی ادائی کو سب کے لیے آسان بنائیں۔ جمعہ کی اذان سے خطبے کے وقفے کو کم کریں۔ یہ آدھ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور تقریر کے لیے آخر کے ۱۵ سے ۲۰ منٹ کافی ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ جمعہ مہینے میں ایک دن نہیں بلکہ چار سے پانچ مرتبہ آتا ہے۔ خطیب وقت کی پابندی کا پورا خیال رکھیں تاکہ کسی حاجت مند کو کوئی پریشانی لاحق نہ ہو۔ وما علینا الا البلاغ!

You may also like