جمعہ کے خطبوں کی تلاش میں! ۔ مسعودجاوید

حالانکہ خاندانی اعتبار سے میں حنفی المسلک ہوں لیکن خلیج میں اقامت کے دوران بعض اچھی عادتوں سے اپنے آپ کو مزین کیا ان میں سے ایک ہے مسلکی مساجد کا مقید نہیں بنانا ۔ مسجد کا امام کسی بھی مسلک حنبلی، مالکی، حنفی ، شافعی یا اہل حدیث سلفی ہو اس کی اقتدا بشاشت کے ساتھ ہر مسلک والے کرتے ہیں سوائے چند ان کے جن کے دل و دماغ میں غیر بریلویوں کے خلاف عصبیت کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہو۔‌ ایسے اعلیٰ یافتہ پروفیشنل لوگ ہمارے ساتھ کبھی کبھی دسترخوان شیئر کر لیتے تھے لیکن مسجد نہیں۔ چنانچہ وہ باجماعت نماز اداکرنے کی بجائے اپنے فلیٹ میں نماز اداکرنے کو ترجیح دیتے تھے‌ ۔
عرب ممالک کی مساجد میں نماز با جماعت کے بعد مسجد کے ایک حصے میں دوسری جماعت پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا ہے، ہمارے یہاں کی طرح لوگوں کے چہرے پر خواہ مخواہ شکن نہیں آتا ہے۔ رفع یدین نہ کرنے والوں کے پیچھے بھی رفع یدین کرنے والوں کی نماز ہوجاتی ہے‌ اور اس کے برعکس بھی ۔ یعنی عبادت میں مسلک کبھی موضوع بحث نہیں ہوتا ہے اور نہ کوئی کسی کو سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہندوستان میں بھی میں اپنی اسی روش یعنی مسلکی قیدو بند سے آزاد کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرتا ہوں اور وجہ ترجیح امام صاحب کی قرأت قرآن صحیح مخارج ، تجوید ہوتی ہے ۔
اسی طرح جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کو ترجیح دیتا ہوں جہاں خطیب صاحب کا خطبہ دل پذیر ہو۔ میں جس (حنفی یا دیوبندی) جامع مسجد میں نماز ادا کرتا تھا وہاں عموماً جمعہ کے خطبہ میں خطیب صاحب کا بیان وہی زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر والا ہوتا تھا. دراصل وہ خطیب نہیں تھے۔ خطبہ کی ذمہ داری بھی متولی صاحب نے امام صاحب کو سونپ رکھی ہے حالانکہ وہ امام صاحب عالم دین ہیں اور نہ خطیب صرف حافظ ہیں۔
اس سے بہتر خطبہ کی تلاش میں میں( سلفی )مسجد میں ادا کرنے لگا ۔‌ جہاں دوسرے ایام میں بھی بالخصوص جہری نمازیں ادا کرتا ہوں ۔ لیکن خطبہ جمعہ ۔ اب وہاں بھی یہی روش عام ہے ۔ پچھلے جمعہ کو پچیس منٹ کے بیان میں مختلف انداز و اسلوب اور حکایات سے صرف یہ بتایا گیا کہ اپنی وضع قطع میں یہود و نصارٰی کی مخالفت کرو۔ اس سے قبل والے جمعہ کو نوافل کے فضائل پر بیان ہوا تھا ۔‌
کاش منبر و محراب کا صحیح استعمال ہوتا! اسلام کے سماجی پہلوؤں پر بیان ہوتا قرآن مجید میں اوامر و نواہی اور احادیث صحیحہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا جو نمونہ ہمارے لئے موجود ہے اس کی روشنی میں منبروں سے ہماری تربیت ہوتی۔
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی چوبیس گھنٹے کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کی تاکید کی جاتی، ترہیب و ترغیب دی جاتی۔
جمعہ کی نماز کے اہمیت
ہر جمعہ کو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد اپنے ہر کام کو چھوڑ کر اپنے اپنے علاقوں کی جامع مسجدوں میں حاضر ہوتے ہیں ۔ مسلمانوں کی شخصیت سازی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی کی طرف مائل کرنے کا یہ بہترین موقع ہوتا ہے۔
کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ جمعیت علماء کے صدر یا سکریٹری، جماعت اسلامی کے امیر، جمعیت اہل حدیث کے امیر وغیرہ جمعہ کے خطبوں کے ذریعے عوام کو ہر ہفتے اپنا پیغام دیں گے !
یہ جب ہی ممکن ہوگا جب ہم جمعہ کی نماز، اس کے خطبے اور جم غفیر کی اہمیت کا احساس کریں گے۔
واضح ہو کہ مساجد کے منبر سے خطبہ پڑھنے اور تقریر کرنے کے لئے عالم دین ہونا شرط نہیں ہے۔ اور نہ یہ لازمی ہے کہ خطیب ہی نماز ادا کرائے امام کا فریضہ ادا کرے۔
یہ شرائط امام کے لئے ہیں ۔ کیا ہی بہتر ہوتا ملی تنظیموں کے مرکزی اور مقامی ذمہ داران عوام کو غیر سیاسی تقریروں کے ذریعے حالات سے روشناس کراتے۔

غیر مسلموں کے یہاں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ یہودی تمنا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کاش ایسا کوئی نظام ان کی قوم کے پاس ہوتا تو وہ پوری دنیا میں انقلاب پیدا کر دیتے۔۔
جمعہ کی نماز سے پہلے خطبہ کی بہت اہمیت ہوتی ہے اس لئے کہ ذرائع ابلاغ کی ایجاد سے قبل حاکم وقت کا پیغام عوام تک پہنچانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہوتا تھا۔ لیکن افسوس خیرالقرون کا دور گزرنے کے بعد سے لے کر اب تک بیشتر مقامات پر اس دور کا خطبہ ہی پڑھا جاتا ہے‌ ۔ اور ابھی بھی ظل الہی والسلطان ظل الله في الأرض اور اموی اور عباسی خلفا کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عموماً یہ ائمہ بیچارے عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔ خطبے کی کتاب خرید کر لے آتے ہیں اور ہر ہفتے اسی کو پڑھتے ہیں نہ پڑھنے والے کی سمجھ میں کچھ آیا اور نہ سننے والے کی ۔بس ایک روٹین کی ادائیگی ہوتی ہے۔

تاہم پچھلے چند سالوں میں اس میں اصلاح ہوئی ہے اب بعض مساجد میں باضابطہ مقرر ہوئے خطیب خطبہ پڑھتے ہیں اور قرآن کی چند آیات ، چند احادیث کے علاوہ ﴿ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ پڑھتے ہوۓ دعا پر اپنی بات پوری کرتے ہیں ۔ اور اس عربی زبان کے مختصر خطبہ سے پہلے امت کی رہنمائی کرنے والی باتیں اپنی تقریر میں کر لیتے ہیں ۔

دراصل مساجد کی توسیع اور تزئین کے لئے متولیان مساجد اور مقتدیوں کے پاس استطاعت ہوتی ہے مگر اہل امام اور باصلاحیت خطیب کی تقرری کے لئے کوئی بجٹ نہیں ہوتا ہے !

انٹرنیٹ سے استفادہ :
یہ زمانہ آن لائن کا ہے۔ ہر ہاتھ میں نیٹ کی سہولیات کے ساتھ اسمارٹ فون ہے ۔‌اس لئے اضعف الایمان یہ ہو کہ اسلام کے فریم ورک میں مقتدیوں کی شخصیت سازی اور سماج کے سلگتے ہوئے مسائل ؛ منشیات ، جنسی ہراسانی ، لوٹ مار غصب ، قرض کی نادہندگی، کم ناپ تول اور قطع رحمی وغیرہ پر جو وعیدیں ہیں اور حسن اخلاق ، صلہ رحمی کرنے ، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے ، بھوکوں کو ڈھونڈ کر کھانا کھلانے ، محتاجوں کی خبرگیری کرنے، قرض اور ادھار دینے والے اور خیرخواہی کرنے والے کے لیے جو بشارتیں ہیں ان پر مبنی تقاریر لکھ ائمہ کرام کے موبائل نمبر پر واٹس ایپ کے ذریعے گروپ بنا کر بھیجا جائے ۔‌
کیا کوئی دینی ملی تنظیم اس کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہے ؟