Home نقدوتبصرہ جوشؔ ملیح آبادی کافکریاتی اورلفظیاتی نظام۔حقانی القاسمی

جوشؔ ملیح آبادی کافکریاتی اورلفظیاتی نظام۔حقانی القاسمی

by قندیل

جوشؔ ملیح آبادی کے لفظی اور شعری پیراڈائم نیز رموز و علائم منفرد اورمختلف ہیں۔ انکار، انحراف، احتجاج اور انقلاب ان کی فکری اساس میں شامل ہیں اور اِنھیں سے جوشؔ کی شعری بوطیقا کی تشکیل ہوئی ہے۔ جوشؔ کے اندر بےپناہ وضعیاتی اور تکوینی قوت ہے، اس لیے انھوں نے رسوماتِ کہنہ اور روایات پارینہ کو مسمار و منہدم کرکے اپنے افکار و اقدار وضع کیے ہیں، ان کی خلوت گہِ فکر میں اُن تصورات اور احساسات کو باریابی نہیں مل پائی جو ان کے ترکیبی عناصر سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔
جوشؔ ملیح آبادی کی تخلیقی سرشت اور فکری ساخت کا شجرہ ان کے آبا و اجداد سے بھی نہیں ملتا کہ موروثی روایات اور اقدار سے بغاوت بھی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ ان کی تخلیقی اور فکری شخصیت روایت کے انہدام اور درایت پر ایقان سے عبارت ہے۔ ان کابنیادی مقصد قصرِ اساطیرِکُہن کوڈھانا تھا، خود کہتے ہیں:
سر پہ برساتی رہی گَھن، آلِ اقوال و فسوں
پھربھی ہم، قصرِ اساطیرِ کُہَن ڈھاتے رہے
ٹھوس منطِق کے دلائل سے، بلا خوف و خطر
اَبلہوں کے کھوکھلے دعوؤں کو جھُٹلاتےرہے
انھوں نے مسلّمات، مفروضات، مزعومات، ظواہر و رسمیات اور ہر اس تصور سے بغاوت کی ہے جس پر روایت یا موروثیت کی مہر لگی ہوئی ہے۔
بنیادی طور پر جوشؔ تعقل پسند اور ’نان کنفرمسٹ‘ تھے۔ اسی لیے وہ تعقل اور تفکّر کی راہ سے حقائق کی منزل کی جستجو کرتے رہے۔ان کا ذہن تجسّس پسند تھا وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے وجود کائنات سے متعلق سوالات پر مدام غور و فکر کرتے تھے۔انھوں نے اشیا کی ماہیئت اور حقائق کی معرفت کے باب میں براہیمی نظر کااستعمال کیا اور اسی حقیقت پسندانہ ادراک کی وجہ سے موروثی مذہب و معاشرت کے باب میں ان کا زاویۂ نظر اوروں سے بالکل الگ تھا۔
جوشؔ ملیح آبادی نے اپنے تخیلات اور تصورات کی ایک الگ دنیا بسائی ہوئی تھی، ان کی وضع کردہ اس دنیا کے اسرار و رموز الگ ہیں۔ ان کی جولان گاہِ فکر میں فرسودہ، پامال اور مطروقہ خیال کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ان کا انتخابی ذہن صرف اسی فکر اور احساس کو قبول کرتا تھا، جسے وہ صیقل کر کے نُدرت و جدّت کا نمونہ اور تمثال حقیقت بنا سکیں۔ ادراک حقیقت کی راہ میں جوشؔ ملیح آبادی نے استفہامیہ اندازمیں بہت سے وہ سوالات اٹھائے ہیں ،جوانھیں خدا بیزار، مُلحد و زندیق بنانے کے لیے کافی تھے:
ظلم پر ہے — کہ — عدل پر مَبنی
عرصۂ حشر، کا حساب، کتاب؟

کیا — وہ موجود بھی ہے؟ جس کا نام
گونجتا ہے، بہ مِنبر و مِحراب

یا — کتاب، آسماں کی، ناقص ہے
یا — قِوام، آدمی ہی کا ہے خراب
کیا — وہ —سَچ مُچ ہے —قادرِ مطلق؟
کُھل سکا — خَیر کا نہ جس سے باب
جوشؔ کے ذہن میں ہمیشہ اسی طرح کے سوالات اٹھتے رہے کہ دراصل جوشؔ رازِ کائنات کو جاننے کے خواہش مندتھے اور یہ بھی جانناان کے لیے ضروری تھا کہ خالقِ کائنات کے وجود کے باوجود نظامِ کائنات درہم برہم کیوں ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ان کے کلام میں ذاتِ خدا کی نفی ہے بلکہ اس میں خالقِ کائنات اورقادرِ موفور سے شوخیانہ سوال و شکایت ہے اور ان سوالات کا سلسلہ فلسفۂ جبر و قدر سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اس نوع کے سوالات اور بھی خلاق ذہنوں میں جنم لیتے رہے ہیں۔جوشؔ کہتے ہیں:
مجھ پر، اے کِردگارِ ذوالقدرت
نہ لگا، اِختیار کی تُہمت

صرف اِک تو ہے، قادرِ مَوفور
اور، کُل کائنات ہے، مقدور
میں، اَگر ہوں قبیح و نا مَعقول
مُرتد و ملحد و ظُلوم و جُہول

تو پھر، اِس میں، قصور ہے کس کا
بول، ہاں اے حکیم بے ہمتا
نقش کوئی اگر ہے زِشت و عَقیر
دَستِ نقّاش کی ہے وہ تَقصیر
میں، تَشکُک پہ ہوں اَگر مامور
یہ تو، میرے قوام کا ہے قصور

جُھک سکوں گا نہ یوں —- بِلا بُرہان
میں، تَفکُّر کو دے چکا ہوں زَبان
اسی طرح کے اشعار اور خیالات کی وجہ سے جوشؔ پر کفر و الحاد کے فتوے لگائے گئے ، جبکہ جوشؔ نے اُس خداکاانکارنہیں کیا جو قادرِ مطلق ہے بلکہ جوشؔ اس خدا کے انکاری رہے جو انسانی ذہن نے تراشا ہوا ہے۔ اکبر حمیدی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
’’میں نے کہا جوشؔ صاحب آپ خدا کونہیں مانتے وہ پُر جوش لہجے میں بولے میں خدا کومانتا ہوں مگر تمہارے اس خدا کو نہیں مانتا جو جوشؔ سےبھی چھوٹا ہے ، جو قیامت کے روز فرشتوں سے کہے گا کہ مارو جوش کو پچاس جوتے، یہ مجھے نہیں مانتاتھا۔‘‘
دراصل جوشؔ کا گناہ صرف اتنا تھا کہ وہ حقائق رسیدہ تھے ۔انسانی ذات کے حوالے سے معرفتِ رب کی منزل تک پہنچنا چاہتے تھے،مگر انھیں ربوبیت کا صحیح ادراک نہ ہوسکا اس لیے وہ تشکیک وتشکّک کا شکار رہے۔ تیقن کی منزل اُنھیں مل نہ سکی اور جب حالتِ رندی میں رب کی تلاش کی تو ان کا لہجہ الوہی ہوگیا ۔ وہاں خدا کے لہجے میں جوشؔ بولتے نظر آتے ہیں اور یہی الوہی لہجہ مذہب پرست طبقے کو ناگوار گزرتا ہے۔ اور جوشؔ دائرۂ کفر میں داخل کردیے جاتے ہیں۔ جوشؔ نے بھی کہاتھا :
دھومیں ہیں میرے کُفر کی شہرِ مجازمیں
صرف اس گناہ پر کہ حقائق رسیدہ ہوں
جوشؔ کےذہن نے وہم کے تراشے ہوئے خدا کو تسلیم نہیں کیا وہ خدا کے صحیح تصور کو مسخ اورمجروح ہونےسےبچانے کے لیے ملحد وزندیق بھی بن گئے۔ ان کا سوال نظامِ ربوبیت پر تھا، توحید ربوبیت کے شاید ہی وہ منکر رہےہوں جیسا کہ ان کے کچھ اشعار سے متبادر ہوتا ہے۔ جوش کی اصل جنگ اوہام اور ابلہیت سے تھی جو مذہب کے نام پر انسانی ذہن میں راسخ ہوگئےتھے۔ تبھی توجوشؔ نے کفر کے فتوے لگانے والوں کو طنز و تعریض کا یوں نشانہ بنایا ہے:
مَزا یہ ہے — جو، خود، ایمان میں راسخ نہیں ہوتے
وہ ناداں، عاقلوں پر، کُفر کے فَتوے لگاتے ہیں

جنہیں، فرشِ زمیں کی مَعرِفت، حاصل نہیں ہوتی
ہمیں —’’عرشِ بریں‘‘ کی داستانیں، وہ سناتے ہیں
اسی طرح وہ کہتےہیں:
پائے اہلِ فہم میں، زَنجیرِ کُفر
دستِ اہلِ وِہم میں، حَبلِ مَتیں

عاقلوں کو — زحمتِ نارِ جَحِیم
اَبلہوں کو — دولتِ خُلدِ بَریں
جوشؔ نے تعقل بریدہ موروثی ایمان کو گمرہی قرار دیا ہے۔ جوشؔ نے کہیں ایک جگہ لکھاہےکہ ان کے عناصر ترکیبی میں یہ صلاحیت ہی نہیں رکھی گئی تھی کہ وہ ’چوگوشیا ٹوپی پہن کر مولوی ابو الحسنات گنگوہی بن جائیں‘۔ جوش کاجو تصورِ خدا تھا وہ عام مذہب پسندوں کے تصوّر الٰہ سے الگ تھا۔ وہ اوہام کے تراشیدہ خدا کے منکر تھے ، اسی لیے انھوں نے کہا ہے:
اوہام نے جس بُت کو بنایا ہے خدا
الحاد ہے صرف اس خدا کا منکر
دراصل جوشؔ نے معاشرہ میں مذہبیت کا جو ناقص شعور اور شعار دیکھاتھا اس کی وجہ سےانھیں اس تصورِ خدا سے وحشت ہوتی تھی جس میں صرف قہاری اور جباری تھی۔ جوشؔ کے نزدیک خداکاتصور رحیم و کریم کا تھا۔ ان کو خدا سے وحشت نہیں تھی، صرف معاشرتی تصوّر الٰہ سے انھیں نفور تھا،ورنہ جوشؔ کے ذہن میں خدا کا ایک اعلیٰ تصور تھا ۔ جوشؔ ہی کاشعرہے:
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
سماعی روایات پر نہیں، بصری ادراکات پر ان کا یقین تھا، اس لیے مذہبی معاشرت میں انھوں نے جو کچھ دیکھا ، محسوس کیا اسے شعری قالب میں ڈھال دیا۔ ’’آنکھن دیکھی‘‘ نے ان کے ذہن میں بہت سےمنفی کرداروں کو جنم دیا۔ان کی شاعری کے منفی کرداروں میں واعظ، شیخ اور زاہدبہت اہم ہیں۔ جوشؔ یہ جانتےتھے کہ مذہبی نرگسیت اور ادّعائیت سے جوہرِ انسانیت کا زیاں ہوتا ہے،اسی لیے وہ اندھی مذہبیت اورظاہری مذہب پرستی کے سخت خلاف تھے۔ انھیں مصنوعی مذہب کے بیشتر کرداروں سے نفرت تھی، اسی لیے مولویوں کو شبیہ قبّہ اور تصویرِ منبر کہتے اوران پر طنز و تعریض کرتے ہوئے ’عمامہ برسر ومسواک درجیب‘ کا فقرہ کستے، ’شکم پُر رعب‘ اور ’کوتاہ گردن‘ کہتے۔
جوشؔ نے جس مذہبی معاشرے کو اپنی آنکھوں سےدیکھا تھا، وہاں مذہب اپنی حقیقی ماہیت اور معنویت کھوچکاتھا ۔ آج کے عہد نے جوشؔ کے تصورِ مذہب پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے کہ مذہب ایک ایسے جنون اور نشے میں تبدیل ہوگیا ہے، جہاں انسانیت کا قتل بھی گناہ اور جرم نہیں بلکہ کارِ ثواب بن چکا ہے، انسانیت کُش اور اشتعال انگیز نعروں کا رشتہ مذہب سے جُڑ چکا ہے اور یہ نعرے قتل انسانیت کا مذہبی لائسنس بن چکے ہیں۔ جوشؔ ملیح آبادی دنیاپرست علما اور فتوے فروخت کرنے والے فقہا کی روِش سے نالاں تھے، اسی لیے انھوں نے تقطیبی اور تفریقی مذہب پسندی کی شدت سے مخالفت کی ورنہ جس تصورمیں انھیں وحدتِ انساں کی روشنی نظر آئی اُسے انھوں نے بطیب خاطر قبول کیا۔ ان کا منشور معاشرے میں آزادی ،امن و مساوات ہے، انھیں یہ محسوس ہوا کہ مذہب انسانی معاشرےکومختلف خانوں،زمروں اور شناختوں میں تقسیم کررہا ہے، اس لیے انھوں نے وحدتِ انسانی کےتصور کو موضوع بنایا اور یہ کہا :
اللہ افتراق کا دروازہ بند کر
اٹھ اور لوائے وحدت انساں بلند کر
انھوں نے اپنی شاعری میں آدمیت اور انسانیت کاد رس دیا، اسی لیے وہ شیخ و برہمن میں منقسم دنیا میں اخوت کی بات کرتے رہے۔ انھیں کا شعر ہے:
غرق ہوجائے گی شیخ و برہمن کی برہمی
جوئے امواج اخوت کو رواں ہونے تو دو
اور اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا تھا :
نہ ہندو نہ گبرو مسلماں بنو
اگر آدمی ہو تو انساں بنو

نہ انساں بنو گے تو گل جائوگے
خود اپنے جہنّم میں جل جائوگے
وہ ایک نظم میں کہتے ہیں:
تنگ ہے، دین و زبان و قوم پر حَصرِ خلوص
کُل جہاں کو، زیرِ دامانِ اُخوّت کیجیے

زبان و دین و وطن کے مہیب مَقتَل میں
اَب آئو، وحدتِ نَوعِ بَشر کی بات کریں

طلسمِ ’’نقل‘‘ کے، صَوتی حصار کو ڈھاکر
فضائے عقل میں عزمِ سفر کی بات کریں

قرأتِ قرآں سے فرصت ہو ، تو اَز راہِ کرم
مُصحفِ نفسِ بَشَر کی بھی تِلاوت کیجیے

فَرش پر تعمیر کرنا ہے اگر ایوانِ فکر
عرش سے اِنکار فرمانے کی جرأت کیجیے
وہ انسانیت کےباب میں تمام تر تعصبات کے خلاف تھے۔ انھیں تو تعصبات گل و خار ، توہمات بہار و خزاں سےبھی وحشت تھی۔ وہ تضادات کی تطبیق و تلفیق کے قائل تھے ۔

گل ہی تنہا، دَر خُورِ الطافِ بےپایاں نہیں
خار پر بھی بارشِ لطف و عِنایت کیجیے
نوش ہائے سر خوشی ہی پر نہ تنہا جھومیے
نِیش ہائے غم سے بھی، اَخذِ مَسرَّت کیجیے
وہ ہر چیزمیں ایک وحدت تلاش کرتے تھے، اسی لیے کہتےہیں:
توڑ اے نادان، زَنجیرِ طِلسم
کب تک آخر، یہ فَریبِ اِسم و جِسم
جملہ موجودات ہیں، اے مردِ خَام
ہمجد و ہمدودمان و ہمقِوام

کعبہ و دَیر و کَلیسا و کَنِشت
ہمنِہاد و ہَمزاج و ہَمسرِشت
ان کا بنیادی مقصد رنگِ جہاں کو بدلنا تھا کہ انھیں ہر اس رَنگ سےنفرت تھی جس میں آزادی، امن اور انسانیت نہ ہو۔ان کے فکر و فلسفہ میں مرکزیت انسان کی عظمت کو حاصل تھی۔ اسی لیے وہ عظمتِ انسان کےتصوّر کو اپنی شاعری کا مرکزبناتےرہے۔ وہ چاہتے تھے کہ انسانی ذہن انساں آگاہ ہوجائے اور انسانی نگاہ وحدتِ انفس و آفاق کو سمجھ سکے۔ اسی لیے انھوں نے انفس و آفاق کی تحقیق میں جستجو کے چراغ روشن کیے اور یہی چراغ ہے جس سے اُن پر کائنات کےاسرار و رموز منکشف ہوئے ۔ انھیں غم یہ تھا کہ درایتوں کے قصور منہدم ہورہے ہیں اور روایتوں کے مکاں تعمیر ہورہے ہیں:
اَب — اَساطیریوں کے جَنگل میں
ہر شَجر پر ہیں — مُفتیوں کے مَچان
کَل — جہاں تھے — دِرَایتوں کے قُصور
اَب — وہاں ہیں — رِوَایتوں کے مکان
¡
جوشؔ کے خیال ان کے خواب سے عبارت ہوا کرتے تھے یا ان کے خواب ان کے خیال کی تشکیل کرتے تھے۔ جوشؔ کی خوبی یہ بھی تھی کہ اپنے خیال کے درو دیوار مردہ ، مرحوم یا منہدم لفظوں کی اینٹوں سے تیار نہیں کرتے تھےبلکہ اپنے خواب و خیال سے ہم آہنگ الفاظ کا ہی انتخاب کرتے تھے۔ جوشؔ ملیح آبادی کے پاس لفظوں کا قلزم ذخّار اور استعارات اور تشبیہات کا خزانۂ عامرہ تھا۔ جوشؔ مترادفات کا بکثرت استعمال کرتےتھے۔ اسی لیے بعض ناقدین انھیں ڈکشن نہیں ڈکشنری کا شاعرقرار دیتےہیں ، جبکہ جوشؔ ملیح آبادی ملٹی ڈکشنل اور کثیر الاسالیب شاعر تھے۔ انھوں نے جو تراکیب اور لفظیات اپنی شاعری میں استعمال کی ہیں ، وہ بیش قیمت ہیں اور وہ تمام تراکیب ان کے ذہنی اور فکری نظام سے مربوط ہیں اور ان میں بہت سی معنویتیں مضمر ہیں۔ یہ محض لسانی کرتب بازی یا کھیل نہیں بلکہ ان تراکیب میں جوشؔ کی وضع کردہ ذہنی اورفکری تلمیحات بھی ہیں۔ توالیِ اضافات سے انھوں نے جوصوتی خوش آہنگی پیدا کی ہے وہ بہت کم شاعروں کے یہاں ملتی ہے۔ انھوں نے بہت سے علاقائی ،اجنبی اورنامانوس قسم کی لفظیات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ جوشؔ کی ہر ترکیب میں معانی کا ایک جہان آباد ہے۔ در قصرِ عفافِ ملکوت ، آتشِ قہرِ کشتگانِ رسوم،معجزۂ عشوہ طراز، برہمیٔ گیسوئے خم دار، رنگِ شفقِ گوشۂ کُہسار، گنبدِ قلّتِ حاجات، دولتِ خاطرِ شاداں،خوانِ اقطابِ محبت، بُتانِ زرِ گوہر،دیارِ دغل و مَکر اس طرح کی بہت سی ترکیبیں اپنے اندر ایک معنیاتی جہان رکھتی ہیں۔ اسی طرح انھوں نے خوش رنگ لفظوں کےساتھ ساتھ نہایت نامانوس اور اجنبی الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ جھنکولیاں، ٹھٹھولیاں، ڈبولیاں، کٹھولیاں، گھنا گھن، غَنَن غَنا غَن،گھَنَنْ گھَنَاں جیسے لفظوں میں بھی غنائیت بھردی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو جوشؔ کا لفظیاتی اور اسلوبیاتی نظام بھی دوسروں سے الگ ہے۔ شہنشاہِ الفاظ جوشؔ ملیح آبادی خودبھی کہاکرتےتھے:
لیلائے سُخن کو آنکھ بھر کر دیکھو
قاموس و لغات سے گزر کر دیکھو
الفاظ کے سر پر نہیں اُڑتے معنی
الفاظ کے سینے میں اُتر کر دیکھو
جوشؔ الفاظ کے سینے میں اُتر کر معانی اورمفاہیم کی ایک نئی دنیاآباد کرتے ہیں،وہ پرقوّت اور پُر شکوہ لفظوں سے اپنے افکارکی عمارت تعمیر کرتے ہیں تاکہ الفاظ اور افکار دونوں توانا اورتابندہ رہ سکیں۔ جوشؔ کےیہاں تشبیہات و استعارات کی کثرت بھی ہے، لسانی متوازیت کی عمدہ مثالیں بھی ۔جوش لفظوں سےمصوّری کا بھی کام لیتے ہیں، ان کے الفاظ کے ارتعاش سے سرمستی اور سرشاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ان کے لفظوں میں صوتی نغمگی اور موسیقیت کےساتھ مصوّری بھی ہے۔ تشبیہات اور استعارات کا کتنا خوبصورت استعمال ہے۔ملاحظہ فرمائیے:
یُوں جَوانِی کی، عارِضوں پَہ جھَمَک
جَیسے، کَوندے کی، پھُول بَن میں لَپَک

رُخ پَہ، یوٗں، مَوجِ رَنْگ، سِلسِلَہ وار
جَیسے، پَنگھَٹ پَہ، صُبْح کے آثار
چِہرہ یوٗں تازَہ عُمر سے رَوشَن
جَیسے، کاشی میں پھوٗٹتی ہے کِرن

یوں صباحت، کی رُخ پہ ہے تنویر
جَیسے، بالائی کی پَرَت، سرِ شِیر
جھْکتی نَظروں کا یوٗں ڈھلکتا روٗپ
جَیسے، دِیوار سے، اُتَرتی دھوٗپ
جمالیاتی پیکر تراشی میں توجوشؔ کا جواب ہی نہیں۔ گل رخ، سمن اندام، بنتِ ماہِ تمام،ماہِ سمن پوش کے افسوں بلب، گل بکف،میکدہ بردوش کا جب ذکر کرتے ہیں تو ایک نئی جمالیاتی بوطیقا وجود میں آتی ہے۔
جوشؔ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے تضادات کے آئینہ میں حقائق کی جستجو کی ہے ، وہ اندھیرے سے روشنی، شر سے خیر اور نفرت سے محبت کا ادراک کرتےہیں۔ دو متضاد اشیا کو عقل و خرد کی میزان پر تولتے اورپرکھتے ہیں۔ اس کےبعد جس شے کی حقیقت وماہیت سامنے آتی ہے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ ان کے لیے حقائق کی تفہیم کا طریقۂ کار تقابلی اورموازناتی ہے اور اسی رویے کی وجہ سے ان کے یہاں بہت سی حقیقتوں سےانحراف اور انکار کاعنصر زیادہ ہے۔ جوشؔ صرف تضادات کی تکنیک استعمال نہیں کرتے،بلکہ اجتماعِ نقیضین اور تضادات کے تطابق کی بھی کوشش کرتے ہیں، ان کے یہاں صبحِ کاذِب کے بغیر صبحِ صادِق کا بیان مکمّل نہیں ہوتا۔ حتّٰی کہ دو متضاد کرداری خصوصیات کی حامل معشوقائوں کے باب میں بھی اسی تضاداتی تطابق کی تکنیک سے کام لیتے ہیں:
ایک میں حِلم، ایک میں چَھل بل
ایک گمبھیر، دوسری چنچل

ایک میں، شاعری کا سوز و گُداز
ایک میں، راگنی کا عَشوہ و ناز

اِس کے مکھڑے پہ ہے جمالِ شعور
اُس کے چہرے پہ شوخیوں کا وُفور
ایک، آمادہ شعر و حکمت پر
ایک جولاں، رہِ شرارت پر
اپنی پہلی کا در نہ چھوڑوں گا
دوسری کا بھی، دل نہ توڑوں گا
دوسری پر، جہان واروٗںگا
اور پہلی پہ، جان واروٗں گا

اُس کو رکھوں گا قلبِ سُوزاں میں
اور اِسے حَجلۂ رگِ جاں میں
فطرت سے جوشؔ کا رشتہ بہت مضبوط تھا، اس لیے انھوں نے فطرت کی بہت خوبصورت منظر نگاری کی ہے اور یہی فطرت ان کی فکر و تخیل کو مہمیز بھی کرتی ہے۔ ان کی بہت ساری نظمیں فطری مناظر کے تعلق سے ہیں۔ حسن و جمال کی مرقّع کشی بھی اسی فطرت سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔
جوشؔ نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ۔غزلیں ،مراثی،قطعات،رباعیات ہر صنف میں ان کا انداز جدا گانہ تھا۔ نظم سے ان کا رشتہ زیادہ مضبوط رہا کہ ان کی طبیعت نظم سے میل کھاتی تھی۔ تنگنائے غزل سے ان کو وحشت ہوتی تھی، اس لیے انھیں نظموں کی وسعت درکارتھی۔ بہت کم نظم کے شاعروں کو جوشؔ جیسا اوج نصیب ہوا ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی شاعرِ انقلاب بھی تھے اور یہی ان کاشناختی نشان بھی ٹھہرا،مگر ِ رومان سے بھی ان کا گہرا رشتہ تھا کہ بنیادی طور پر ان کی طبیعت پر رومانیت کاغلبہ تھا۔ اس لیے ان کے انقلاب میں بھی رومانیت کی پرچھائیں نظر آتی ہے ۔
جوشؔ ایک بلند پایہ قادر الکلام شاعر تھے،جنھوں نے مختلف ادبیات کاگہرا مطالعہ کیاتھا اور ان ادبیات کے رویّے اوررجحانات نے بھی ان کی فکر پر گہرے اثرات مرتب کیے،مگر یہاں بھی ان کارویہ خذ ما صفاودع ما کدر کارہا۔
جوشؔ اپنی وضع کے شاعر تھے ،ان کاہر انداز نرالا تھا،ان کا ایمان بھی الگ تھا اور عبادت بھی الگ تھی۔ جوشؔ خود ہی کہتے ہیں:
اے شیخ —کہاں تک یہ، تشنیع و دل آزاری
میری تو عبادت ہے، لب نوشی و مے خواری
فیضانِ مَشیّت سے، حاصل ہے مجھے — اب تک
بانہوں کی گُہر ریزی، بوسوں کی شَکَر باری

حسنِ کافر کے شبستاں کا طوافِ صبح و شام
اہلِ ایماں کی عبادت ہے، ارےجلدی کرو
جوشؔ کا انسانیت اور امن پر یقین تھا اور اپنی شاعری میں وہ اسی انسانیت اورامن کی تبلیغ کرتے رہے۔ انھیں کے شعر ہیں:
جنگ، اُدھر، بارود کی بو کو، ہوا دیتی رہی
اَمن کا ہم، اِس طرف لوبان سُلگاتے رہے
جوشؔ، اِنساں جادۂ نفرت ہی پر چلتا رہا
اور، ہم، اپنے آدمی ہونے پہ، شرماتے رہے
جنگ ذہن میں ہو یا زمین پر جوشؔ دونوں جنگوں کے ہمیشہ خلاف رہے۔ ان کے قدم ہمیشہ محبت کی راہ پر چلتے رہے۔ اس لیے ان کی شاعری میں محبت کی شمعیں فروزاں ہیں۔
جوشؔ کےبہت سےمجموعۂ کلام (نقش و نگار،حرف و حکایت، رامش و رنگ، سموم و صبا، فکر و نشاط،شعلہ و شبنم ) وغیرہ شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے تعلق سے اکیڈمک حلقوں میں گفتگو بھی ہوتی رہی ہے،مگرنقدِجوش کا المیہ یہ رہا کہ من حیث المجموع کلام جوش کا تنقیدی محاکمہ نہیں کیا گیا۔ تنقید میں بھی ایک طے شدہ ذہنیت کام کرتی رہی، جس کی وجہ سے جوشؔ ایک موضوعی حصارمیں قید کردیے گئے اور ان کے تمام تر موضوعی مطاف کا احاطہ نہیں کیا سکا۔ جوشؔ کے تعلق سے تنقید کا جوطریقۂ کار رہاہے وہ زیادہ کارگر نہیں ہے۔ جوش کامطالعہ لسانی، اسلوبیاتی، مابعد الطبیعاتی اور نفسیاتی نقطۂ نظر سے کیا جاتا تو کلامِ جوش کی بہت سی اور طرفیں کھلتیں۔جوش کی قرأت کے طریقِ کار اور یک رُخے تنقیدی قافیے کو بدلے بغیر ان کی معنویت سامنے نہیں آسکتی۔ دراصل جوش ایک تہہ دار شاعر ہیں اور ان کی ایک الگ میٹافزکس بھی ہے۔ان کے تخلیقی منطقے کے تمام اطراف و اکناف پر گہری نظر ڈالےبغیرمکمل جوشؔ سے روبرو نہیں ہوسکتے۔
جوشؔ کےآخری مجموعۂ کلام ’’محمل و جرس ‘‘ میں بھی جوشؔ کاوہی ذہنی و جذباتی تسلسل ہے اور اس میں بھی ان کی وسیع تر فکری کائنات آباد ہے۔ یہ ان ساعتوں کی شاعری ہے جب جوشؔ حیات و کائنات کے بہت سے تجربات و مشاہدات ، زندگی کے مدّو جزر اورنشیب و فراز سے گزر چکےتھے، پھر بھی ان کاباغیانہ اضطراب انھیں بے چین کیے ہوئےتھااور ذہن ماضی کے مرکزے سےمنحرف نہیں ہوا تھا۔ آخری عمر کے کلام ’’محمل و جرس‘‘ کو ان کے افکارِ ماضی کی توسیع اور تجدید کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے احتجاج و بغاوت کے تسلسل کو زندگی کی آخری ساعتوں تک قائم رکھا۔ اس لیے بلا لیت و لعل یہ کہاجاسکتا ہے کہ اپنے فکری اور شعری تناظرات میں جوشؔ ملیح آبادی نظریاتی مزاحمت و مقاومت اور فکری صلابت و شہامت کی ایک جلی علامت ہیں۔

You may also like