نئی دہلی: پروفیسر شارب ردولوی کی صورت میں ہم نے ایک بڑا عالم ہی نہیں بلکہ ایک بڑا انسان بھی کھودیا، ان کی شخصیت میں بڑی جاذبیت تھی۔ وہ حد درجہ منکسرمزاج تھے اور علمی وادبی حلقہ میں نہایت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی رحلت اردو ادب کے لیے ایک بڑا خسارہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر شارب ردولوی کے سانحۂ ارتحال پر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں صدرِ شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے کیا۔ اس موقع پر پروفیسر شہزاد انجم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی کی موت کو ادبی دنیا بالخصوص میرے خاندان نے ذاتی غم کے طور پر محسوس کیا۔ انھوں نے زندگی کے آخری لمحے تک اردو زبان و ادب سے اپنا رشتہ استوار رکھا۔ وہ نیک، شریف اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے پوری زندگی رواداری اور اصولوں کی پابندی کے ساتھ گزاری۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آج کے زمانے میں لکھنوی تہذیب ان پر رشک کرسکتی ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادبی دنیا میں ایسے لوگ کمیاب ہوتے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی جس قدر خوش لباس تھے اسی قدر خوش گفتار بھی تھے۔ مزاج کے خلاف بات پر رد عمل کرنا جیسے ان کی فطرت میں ہی شامل نہیں تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی نے اپنی بیٹی شعاع کے انتقال کے بعد لکھنؤ میں شعاع فاطمہ میموریل ٹرسٹ کے نام سے ایک اسکول قائم کیا جہاں بارہویں تک کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے، اس لیے ہمیں بھی دنیا میں کچھ ایسا کر کے جانا چاہیے جس سے بعد کی نسل کو فائدہ پہنچتا رہے۔ اس موقعے پر پروفیسر ندیم احمد نے شدید غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی کی موت علمی و ادبی دنیا کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔ وہ طالب علموں کی بھلائی اور بہتری کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔ استاد کی حیثیت سے نہایت مشفق اور عزیزوں کا خاص خیال رکھنے والے تھے۔ ان کی علمی و ادبی کتابیں نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ جلسے میں پروفیسر خالد جاوید نے شارب ردولوی کی رحلت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ادب کے بڑے بڑے ستون یکے بعد دیگرے گرتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ عالم نے ان کی علمی ، ادبی اور شخصی خوبیوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغرفت کی۔ جلسے کا اختتام پروفیسر سرورالہدیٰ کی تعزیتی قرار داد پر ہوا۔ اس جلسے میں پروفیسر عمران احمد عندلیب ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ اور ڈاکٹر خوشتر زریں ملک موجود تھے۔