یہ ایک مسلمہ اور آفاقی حقیقت ہے کہ وقت ایک بیش بہا نعمت ہے اور کسی دانا نے وقت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے کیا پتے کی بات کہی ہے جسے آج بھی لوگ دہراتے ہیں ’گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں‘ ۔ اسی طرح یہ مثل مشہور ہے کہ ’ قدرِ نعمت بعد زوال‘ یعنی اچھی چیز کی قدر اس چیز سے محروم ہونے کے بعد ہوتی ہے ۔ مگر افسوس کہ آج سوشل میڈیا کی یلغار نے نئی نسل خصوصاً نوجوانوں کی زندگی میں ایک اتھل پتھل سی برپا کردی ہے ۔ ان کا بیشتر وقت اس مشغلہ میں برباد ہورہا ہے ۔ آج میں اسی موضوع پر اپنے تجربات اور علم کی روشنی میں گفتگو کرنا چاہ رہا ہوں۔
علم النفس اس بارے میں تفصیل سے بحث کرتا ہے۔ بلاشبہ وقت اللہ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے۔ جس کی قدر کے بغیر کوئی بھی انسان کامیاب نہیں ہوسکتا ۔وقت کو عموماً برف سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ جس طرح برف پگھلتا ہوا نظر نہیں آتا اسی طرح وقت بھی انسان کے ہاتھوں سے غیر محسوس طریقے سے پھسلتا رہتا ہے، چنانچہ کامیاب انسان وہ کہلاتا ہے جو قبل از وقت منصوبہ بندی کرتا ہے۔ وقت کو اپنے قابومیں رکھنے کی پیہم سعی کرتا ہے ۔ اس کے بر عکس وقت کی ناقدری کرنے والے ہاتھ میں ندامت کے سوا کچھ نہیں آتا ۔وقت دراصل ایک ایسے تیز دو دھار ی تلوار کے مانند ہے ، اگر اس کا صحیح استعمال کرے تو انسان فاتح اعظم بن سکتا ہے بصورت دیگر ناکامی و نامرادی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
اصطلاحی زبان میں وقت کے جو لمحات ہیں وہ زندگی کی اکائی (Unit of Life)ہیں۔وقت کی تیز پرواز کو لاطینی زبان میں Tempus fugit کہا جاتا ہے ۔یہ کیفیت کاہلی لاپرواہی سے وقت کو ضائع کرنے کی صورت میں پیدا ہوتی ہے کیونکہ وقت ایک ایسا بے مروت قزاق ہے جو آپ کی قیمتی زندگی کی قزاقی کرتا ہے، مگر آپ کو اس کو احساس بھی نہیں ہوتا ۔ یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ،وہ دریائی موجوں کی طرح آگے کی سمت میں رواں دواں رہتا ہے۔ نہ ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ محسوس کرسکتے ہیں۔
اگر وقت کی ہم صحیح قدر نہیں کرتے ہیں تو وہ Illusion یعنی نظرکا دھوکہ ہے۔قابل اور وقت شناس انسان وہ ہوتا ہے جو زمانہ حال کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتا ہے اور مستقبل کے بارے میں کم سوچتا ہے ۔اِسے اپنے قابو میں کرلیتا ہے جسے لاطینی زبان میں carpe diemکہا جاتا ہے۔جب انسان وقت پر قابو پاتا ہے تو ،وہ VitaNouva یعنی نئی زندگی دائمی یا پھر حقیقی زندگی پالیتا ہے،یہی کامیاب زندگی کہلاتی ہے۔
انسان کی غفلت ، سستی ، کاہلی لا پرواہی اور صحیح ڈھنگ کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وقت انسان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ نکل جانے والا یہ وقت دوبارہ اُسے نصیب نہیں ہوتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے اور تاریخ بھی اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا میں انھی لوگوں نے کامیابی حاصل کی ہے، جنہوں نے وقت کے مزاج کو سمجھا اور اُس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کرحکمت عملی تیار کی اور اُس پر عمل کیا۔ وقت کے قدر شناس افراد نے ہی تاریخ رقم کی ہے جسے دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے۔
اس مضمون کے اصل مخاطب نوجوان ہیں جو کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ۔ وہ ترقی کے خواب دیکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے اپنی نظروں کے سامنے مقررہ وقت کا شیڈول ، ویژن بورڈ (Vision Board)بنالیں ایسے کاموں کی فہرست بنالیں کہ اُنھیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے، کرنے والے کاموں کو ایک زمرے (اے) میں شامل کرلیں ،نہ کرنے والے کاموں کو ایک الگ زمرے(بی) میں شامل کرلیں اور ایسے کام جنہیں ہرگز نہیں کرناہے اُن کا بھی ایک زمرہ بنالیں جیسے (سی ) میں شامل کرلیں۔اگر اِن کاموں کو وقت کے مطابق سنجیدگی سے انجام دیتے ہیں تو یقیناکامیابی ایسے نواجوانوں کے ہی قدم چومے گی۔
مزید برآں وہ ایسی کامیاب ہستیوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں جنہوں نے وقت کی قدر وقیمت کی اور اس کی بدولت ،وہ ترقی کی منازل طے کرتے گئے ، کیونکہ کامیاب انسانوں کی زندگیوں سے بہت کچھ سبق سیکھنے کو ملتا ہے۔کامیاب انسانوں کی زندگی نوجوانوں کے مستقبل کی تعمیر میں مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے۔
دین اسلام نے وقت کی اہمیت و افادیت کو بہت موثر انداز میں اجاگر کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ دو نعمتیں ایسی ہیںجن کے بارے میں اکثر لوگ غفلت میں رہتے ہیں؛ صحت اور فرصت (وقت)۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس طرح تندرستی ہزار نعمت ہے اُسی طرح وقت بھی ایک بڑی دولت ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے وقت کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔قرآن کی ایک سورت کا نام العصر (یعنی زمانہ یا وقت ) ہے۔عربی زبان میں عصر کے معنی وقت کے بھی لئے جاتے ہیں۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھاکر وقت کی اہمیت بیان کی ہے۔
نوجوانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ اُن کے پاس لامحدود وقت نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی ایک محدود وقت کا دوسرا نام ہے۔ہمیں اس محدود وقت میں ہی اُس کی قدر کرتے ہوئے کام انجام دینا ہے جس سے ہمیں کامیابی حاصل ہو۔ انسان کا دماغ اورکائنات کا نظام ایک دوسرے سے منسلک ہیں، کیونکہ رات کی نینددن کی نیند سے بہتر ہے۔ وقت کو صحیح سوچ فکر میں گزاریں گے تو یہ آپ کے لئے ذہنی طاقت کا سبب بنے گا۔وقت کو دوستانہ وخوشگوارماحول میں گزاریں گے تو یہ آپ کو خوشیوں کی راہیں فراہم کرے گا ۔ مناسب وقت پر سچی محنت وکام انجام دوںگے تو انمول کامیابی سے ہمکنار ہو گے ۔وقت عبادت میں گزاریں گے تو یہ قرب خدا کا ذریعہ بنے گا ۔
قدرت کے نظام کے مطابق انسان بچے سے جوان اور جوان سے ضعیف ہوتا ہے۔بچپن کے کام جوانی میں انجام نہیں دیئے جا سکتے ۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اُسے نفسیاتی مریض قرار دیا جاتا ہے۔
ایک انسان ابوالوقت ( یعنی وقت کا بادشاہ) ہوتا ہے اوردوسرا ابن الوقت ( موقع پرست ) ہوتا ہے۔ابوالوقت انسان وہ ہوتا ہے جو زمانے اور وقت کے مزاج کو سمجھ کر اُس پر قابوپالیتا ہے، اُسکے مطابق اپنے اُمور انجام دیتے ہوئے کامیابی کی منزل کو پالیتا ہے۔ اپنی تدبیروں سے اپنی قسمت کو بدل دیتا ہے۔خود بھی فائدہ پاتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی فائدے کے سامان مہیا کرتا ہے۔اس کے بر عکس ابن الوقت وہ انسان ہے جو وقت کی قدر نہیں کرتا ہے بلکہ لاپروہی سستی اور کاہلی کامظاہرہ کرتا ہے۔ایسے افراد کی زندگی ناکامی اور گمنامی کی نذر ہوتی ہے،لہذا با صلاحیت شخصیت بننے کی کوشش کر نا چاہیے ۔ انسان وقت کی قدر کرکے اچھے کام انجام دیتا ہے ،خدمت خلق کرتا ہے توبا صلاحیت شخصیت بن کر اُبھرتا ہے۔
اجتماعی اور انفرادی دونوں صورتوں میں انسان کے لئے حقیقی سرمایہ وقت ہی ہوتا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ ، انٹر نیٹ کا استعمال ، کمپیوٹر کا استعمال، سیل فون کا استعمال موجودہ دور میں ہماری مشغولیات کا جز ہیں ۔ ایسی کتابوں کا مطالعہ نہ کریں جن سے وقت ضائع ہوتا ہے اور ذہن پر اُن کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ کا استعمال ضرورت کے مطابق ہی کریںاور ضرورت کیلئے ہی کریں،کیونکہ فخش بینی اور انٹر نیٹ کا بیجااستعمال سے انسانی زندگی کا قیمتی وقت تو ضائع ہوہی جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ ذہن میںمنفی سوچ وفکر گھر کرنے لگتی ہے جس سے انسان کا اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔سیل فون بھی ایسا ہی ہے ،اگر اس کا استعمال صحیح ڈھنگ سے کرتے ہیں تو وقت برباد نہیں ہوگا بلکہ وقت قابو میں رہے گا ،لیکن اس کے برخلاف اگر سیل فون کا استعمال صرف تفنن طبع کے لئے کرتے ہیںتو یہ تضیع اوقات میں شمار ہوگا ۔ہاں یہ چیزیں بے حدمفید ضرورہیں،بس شرط یہ ہے کہ انھیں صحیح اور حد کے اندر ہی استعمال کریں۔
قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں میں بھی وقت کی قدرو اہمیت دکھائی دیتی ہے ۔ صبح کے سورج کی کیفیت کچھ اور ہے تو دوپہر کے سورج کی تاب کچھ اور ہے ، غروب ہوتے سورج کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔دیر تک سونے والے صبح کی روشنی کے وٹامن ڈی سے محروم ہوجاتے ہیں۔وقت کے حساب سے چاند کی بھی اپنی منزلیں مقررہیں۔اس مضمون کا نچوڑ یہی ہے کہ ’’جس نے وقت کی قدر کی وہ راز زندگی پا گیا۔‘‘
(مضمون نگارمشہور ماہر نفسیات اور ایک امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ۔ ہند نژاد امریکی مسلمانوں کی موقر تنظیم امریکن مسلم فیڈریشن آف انڈین اوریجن (افمی ) کے سابق صدر اور شہرہ آفاق باکسر محمد علی کلے کے مشیر رہے ہیں ۔)