(فیچر ایڈیٹر، روزنامہ اردو ٹائمز ، ممبئی )
غزہ میں صہیونی فرعونیت کو ایک سال مکمل ہوگئے۔ایک سال میں غزہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔ ایک بسے بسائے شہر کے اسپتال، اسکول، رہائش گاہوں کو صہیونی مقتدرہ نے تباہ کردیا۔ خواتین ، بچوں ، بوڑھوں سمیت تقریباً ۴۰؍ہزار عام شہریوں کو قتل کردیاگیا۔ یہ سب آج کے جدید دور میں ہورہاہے جن کی تصاویر ساری دنیا دیکھ رہی ہے ۔بنی نوع انسان نے ہمیشہ ہی جنگوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کو غیر انسانی قرار دیا ہے۔ اسپتالوں ، اسکولوں اور شہری آبادی پر جنگ میں بھی بمباری کرنا عالمی جنگی قوانین کے خلاف ہے ، لیکن صہیونی مقتدرہ نے ان عالمی قوانین کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہوا ہے ۔
تازہ صورتحال یہ ہے کہ صہیونی مقتدرہ کی فرعونیت نے مشرق وسطیٰ میں تباہی مچارکھی ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کی کوششیں جاری تھیں لیکن جنگ بندی ہونا تو دور ، الٹا جنگ شدید ہوگئی اوراس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جارہاہے۔غزہ میں نسل کشی کے ساتھ ساتھ اب اسرائیل نے لیبیا پر بھی شدید حملے شروع کردیے جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ جیسی شخصیت شہید بھی ہوگئی۔ اس سے ایک مہینہ قبل ہی حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو بھی صہیونی مقتدرہ نے ایران میں اس وقت اپنے میزائیل کا نشانہ بنادیا جب اسماعیل ہنیہ ایران کے دورے پر آئے تھے۔
ان سب حملوں کے جواب میں حزب اللہ کی جانب سے بھی اسرائیل پر حملے تیزہوگئے اور ایران نے بھی اسرائیل پر تقریباً ۲۰۰؍میزائیلوں سے حملہ کردیا ۔ اُدھر بھی حوثی بھی اسرائیل پر حملے کررہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ان حالات کو دیکھ کر بہت سے ماہرین یہ پیشگوئی کررہےہیں کہ یہ جنگ تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہوجائے گی ،لیکن مجھے تیسری جنگ عظیم کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جنگ عظیم دو بہت بڑی طاقتوں (جن کی طاقت تقریباً مساوی ہوتی ہے ) کے درمیان لڑی جاتی ہے جبکہ موجودہ منظر نامہ میں دونوں طرف کی طاقتیں کسی بھی طور پر مساوی نہیں ہیں۔ صہیونی مقتدرہ میں امریکہ ، برطانیہ سمیت پورا یوروپ ہے جس کی فوجی طاقت کے سامنے ایران، لیبیا، شام ، یمن، حوثی ، حزب اللہ ان سب کی مجموعی عسکری طاقت بہت چھوٹی ہے ۔ اتنی چھوٹی! کہ یہ جنگ امریکہ و یوروپ کے وجود پر کوئی خاص اثر بھی نہیں رکھتی۔
اسے اسی بات سے سمجھ سکتےہیں کہ جس دن ایران نے اسرائیل پر ۲۰۰؍میزائیلوں سے حملہ کیاتھا اس دن امریکہ اوریوروپ کے شیئر بازار حسب معمول ہی کام کررہے تھے ان میں کسی طرح کی کوئی گراوٹ نہیں آئی تھی ۔ اس کے دوسرے دن بھی شیئر باز ار معمول پر ہی تھے ۔یعنی ان حملوں کویا مشرق وسطیٰ کے اِن حالات کو ’بزنس ورلڈ‘ کسی بڑے واقعہ کے طور پر نہیں دیکھ رہی ہے جبکہ یہ وہ دنیا ہے جو ذرا ذرا سی بات پر بڑے رد عمل کا اظہار کرتی ہے ۔
یہ بھی خام خیالی ہی ہے کہ روس اور چائنا اس جنگ میں کود جائیں گے۔ روس اور چین کا اس جنگ میں تھوڑا بہت کردار تو ہوسکتا ہے لیکن وہ اس کردار کو چھوٹا ہی رکھنے پر اکتفا کریں گے اور نیٹو سےکسی بھی طرح کے فوجی ٹکراؤ سے گریز کی ہی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔تھو ڑے بہت ہتھیار سپلائی کرنے یا ایران کے گروپ کی دیگر ذرائع سے مدد کرنے تک تو معاملہ بدستور جاری رہے گا لیکن یہ سوچنا کہ جیسے اسرائیل کی حمایت میں امریکہ کے بحری بیڑے خلیج میں کھڑےہیں اور بحران کے وقت متحرک ہوجائیں گے یا جیسے یمن پر امریکہ اور برطانیہ کے طیاروں نے بمباری کردی ، ایران کی مدد کے لیے روس اور چین بھی ایسی ہی سرگرمی دکھائیں گے، تو ایسا کچھ نہیں ہوگا۔روس اور چین یقیناً ایران اور مسلمانوں کےتئیں ہمدردی رکھتےہیں لیکن اس کے لیے وہ خود جنگ کاحصہ نہیں بنیں گے۔ روس کا مقصد فی الحال اپنا دفاع کرنا ہے اور خود پر پڑنے والی کسی آفت کی صورت میں ہی جنگ کا راستہ اپنا نا ہے جیسا کہ اس نے یوکرین میں کیا۔تقریباً یہی حال چین کا بھی ہے ۔ درپردہ تھوڑی بہت مدد تو ہوسکتی ہے لیکن امریکہ ، برطانیہ اور یوروپی ممالک کی طرح کھل کر چائنا اور روس جنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کے مقابلے میں یوکرین کا محاذ تیسری عالمی جنگ بننے کی زیادہ استطاعت رکھتا ہے کیونکہ وہاں جنگ کا ایک فریق روس ہے مگر وہاں یوروپی ممالک جنگ کو توسیع دینا نہیں چاہتےہیں کیونکہ ان کی پچھلی نسلوں نےپہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی کو دیکھا ہے۔ یوروپی ممالک اپنی زمین پر تیسری جنگ عظیم نہیں چاہتےہیں شاید اسی لیے وہ مشرق وسطیٰ کو میدان جنگ کے طور پر سلگائے رکھنا چاہتےہیں لیکن ان کے مد مقابل روس اور چین کو اس میدانِ جنگ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ و جدل اور خونریزی نہ ہی اس سے زیادہ بڑھے گی اور نہ ہی کم ہوگی۔ اس جنگ کی بھٹی کو امریکہ ایک حد تک ہی سلگائے رکھنا چاہتا ہے ۔نہ اُس سے زیادہ ، نہ اُس سے کم۔ ایران کو صہیونی مقتدرہ ختم کرنا نہیں چاہتا۔ اگر اس کا مقصد ایران کو ختم کرنا ہی ہوتا تو یہ کام بہت پہلے ہوچکا ہوتا کیونکہ امریکہ اور یوروپ کی فوجی طاقت کے مقابلے میں ایران کی فوجی طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ عراق او رایران تقریباً برابر کی فوجی طاقت تھے۔ نیٹو نے عراق کو ختم کردیا تو وہ ایران کو بھی ختم کرہی سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ایران نے خود بھی صہیونی مقتدرہ کے خلاف باقاعدہ کسی روایتی جنگ سے ہمیشہ پرہیز ہی کیا ہے۔ ایران بھی اس میدان جنگ کی بھٹی کو ایک حد تک گرم رکھنا چاہتا ہے ۔ اس سے زیادہ نہیں اور اس سے کم بھی نہیں۔اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران نے ’بدلہ لینے کا عہد ‘‘ کیاتھا۔ اس وقت ہی ہم نے مضمون میں لکھا تھا کہ یہ بدلہ ایران اور اسرائیل کے درمیان چند میزائیلوں کے تبادلے سے زیادہ نہیں ہوگا اور بالکل ویسا ہی ہوا۔ اُس مضمون کا ایک پیراگراف من و عن ملاحظہ فرمائیں۔
’’ایران کے صدر نے ایک بار پھر سے ’خطرناک نتائج‘ کی دھمکیاں دے دی ہیں اور ایران میں سرخ پرچم بھی لہرادیا گیا ہے جو جنگ کی علامت ظاہر کرتا ہے لیکن یہ ساری رسومات اس سے پہلے بھی کئی بار ادا کی جاچکی ہیں تاہم ان سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس بارایک قدم آگے بڑھ کر ایران کے صدر نے ’براہ راست اسرائیل پر حملے‘ کا حکم بھی دے دیا ہے، تواُدھر امریکہ نے بھی اسرائیل کی حفاظت کے لیے اپنے بحری بیڑے اورفضائیہ کو ایران کے کسی بھی ممکنہ حملے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت دے دی ہے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں عارضی طو رپر منسوخ بھی کردی ہیں۔ یعنی پوری دنیا میں یہ تاثر ہے کہ بس اب ’آر پار‘ کی جنگ ہونے کو ہے ، لیکن میرے خیال سے اس نام نہاد جنگ میں چند میزائیلوں یا ڈرون کی آمدورفت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا‘‘۔
بالکل ایسا ہی ہوا۔ ایران نے تقریباً ۲۰۰؍میزائیل سے اسرائیل پر حملہ کردیا ہے اور اسرائیل پر اتنے بڑے حملہ کے بعد بھی امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے کسی طرح کے غصہ کا یا ’’بدلہ لیں گے‘ ‘ جیسا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے ، بلکہ خاموشی ہے ۔ اسرائیل کے لیے امریکہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا ہے اور اسرائیل کو پہنچنے والی معمولی سی بھی گزند پر تڑپ اٹھتا ہے لیکن اسی اسرائیل پر ایران کے ۲۰۰؍میزائیل کے حملوں کے بعد بھی امریکہ خاموش ہی ہے ۔ اگر اسرائیل کی طرف سے ایران پر کوئی جوابی کاروائی ہوگی بھی ،تو وہ علامتی نوعیت کی ہی ہوگی اس سے زیادہ کا کوئی امکان نہیں ہے ، کیونکہ ایران دراصل امریکہ کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں کبھی بھی اس خطہ میں عرب ممالک یا افغانستان، پاکستان یا عراق میں کسی بھی طرح کا کوئی خفیہ اقدام کرانا ہوتو اس کے لیے ایران سے زیادہ موزوں اور مفید کوئی دوسرا ملک نہیں ہوسکتا ہے ۔ ایران نے ماضی میں کئی بار اپنی اس افادیت کو ثابت بھی کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف بلند بانگ دعوؤں ، دھمکیوں اور اعلانات کے باوجود بھی اسرائیل اور ایران کے درمیان باقاعدہ کوئی روایتی جنگ نہیں ہوئی جبکہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ۲؍بار بڑی روایتی جنگیں ہوچکی ہیں۔اس تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم تو دور کوئی عام سی روایتی جنگ بھی نہیں ہوگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)