Home تجزیہ جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر

by قندیل

 

اشعر نجمی

گزشتہ دنوں وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب پارلیمنٹ میں کہا کہ NPR کے لیے شہریوں کو کاغذ نہیں دکھانے ہوں گے تو سادہ لوحوں کی اس طرح بانچھیں کھل گئیں جیسے سرکار اپنے موقف سے کئی انچ پیچھے ہٹ گئی ہو۔ حتیٰ کہ بیشتر اخباروں تک نے اسے اس طرح ہیڈلائن بنایا جیسے امیت شاہ نے کوئی نئی بات کی ہے۔ ارے بھائی! امیت شاہ تو شروع ہی سے کہہ رہے ہیں کہ NPR میں آپ کو کاغذ نہیں دکھانے ہوں گے، اس سے پہلے پرکاش جاویڈکر نے بھی پارلیمنٹ میں یہی کہا تھا کہ NPR میں آپ کو کوئی کاغذ نہیں دکھانا ہوگا، حتیٰ کہ آپ جن سوالوں کا جواب نہ دینا چاہیں، نہ دیں۔ آدھار کارڈ، پین کارڈ، ووٹر کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ کا نمبر نہیں دینا چاہتے ہیں تو نہ دیں۔ یہی بات وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں روز اول سے موجود ہے تو پھر اس پر خوشی سے اتنا اچھلنے کی کیا ضرورت ہے؟ کچھ خوش فہم حضرات تو ایسے بے قابو ہو رہے ہیں کہ انھیں لگ رہا ہے کہ ان کے احتجاج سے سرکار نے اپنے قدم پیچھے کرلیے ہیں اور وہ اس پر بغلیں بجا رہے ہیں۔

 

امیت شاہ نے دوسری بات یہ کہی کہ NPR میں دی گئی کسی معلومات پر ‘D’ یعنی Doubtful کا ریمارک نہیں لگایا جائے گا۔ لیکن ایسا صرف امیت شاہ کہہ رہے ہیں، نوٹیفیکیشن نہیں۔ وزارت داخلہ کی سائٹ پر جا کر چیک کریں، وہاں NPR والے خانے میں یہ آپشن موجود ہے کہ NPR میں دی گئی معلومات پر "مشتبہ شہریوں” کو نشان زد کیا جائے گا اور اسی بنیاد پر NRC کیا جائے گا۔ امیت شاہ کا بیان قانون نہیں ہے، قانون اب تک وہی ہے جو وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اگر واقعی امیت شاہ اپنے قول کے سچے ہیں تو پھر انھیں چاہیے کہ اسے قانونی شکل دیں اور وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر بھی اسے یقینی بنائیں جہاں ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہوں پر بار بار مینشن کیا گیا ہے کہ NPRہی NRC کا زینہ ہے۔ قول و فعل میں تضاد مٹانے کے لیے امیت شاہ کو فوری طور پر یہ قدم اٹھانا چاہیے ورنہ سب جانتے ہیں کہ وہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کتنی روانی سے جھوٹ بولتے چلے آئے ہیں اور اپنے ہی بولے ہوئے ایک جھوٹ کو رد کرتا ہوا دوسرا جھوٹ بولنے میں بھی وہ پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے

رام لیلا میدان میں نریندر مودی نے بڑا زور دے کر کہا تھا کہ ملک میں کوئی ڈٹینشن سنٹر ہی نہیں ہے جب کہ پارلیمنٹ میں ان ہی کے وزرا کہہ رہے ہیں کہ نہ صرف ڈٹینشن سنٹر ہے بلکہ وہاں 29 لوگوں کی موت بھی ہوچکی ہے۔ دوسری طرف امیت شاہ جب پارلیمنٹ میں CAB کو متعارف کراتے ہیں تو بڑے طنطنے سے کہتے ہیں کہ "اور اس کے بعد NRC آئے گا۔” لیکن جب ملک گیر پیمانے پر احتجاج شروع ہوا تو کہنے لگے فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ خیر، جھوٹ کی یہ داستان کافی طویل ہے لیکن ہمارا موضوع اس وقت کچھ اور ہے۔ فی الحال تو امیت شاہ سے صرف یہ گزارش کی جا سکتی ہے کہ اپنے اس "آخری جھوٹ” کو قانونی شکل دیں اور اپنے صاحب کردار ہونے کا ثبوت دیں۔اپنے قول کو سپریم کورٹ میں حلف نامہ کی شکل میں داخل کریں اور پارلیمنٹ میں تحریری شکل میں پیش کریں اور اس کے لیے نوٹیفکیشن جاری کریں۔ دوسری اہم بات یہ پوچھنی تھی کہ اگر آپ شہریوں کو یہ سہولت دے رہے ہیں کہ وہ جن معلومات کو شیئر نہیں کرسکتا یا شیئر نہیں کرنا چاہتا تو نہ کرے، تو پھر چھ اضافی سوالوں کی کسرت کیوں، جن میں والدین کی تاریخ اور جائے پیدائش بھی شامل ہے؟ جب آپ کے لیے ان اضافی سوالوں کی اہمیت نہیں تو پھر انھیں اپنے فارمیٹ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے؟ تیسری سب سے اہم بات یہ کہ جب آپ ان اضافی سوالوں کے جوابات کو شہریوں کی صوابدید پر ہی چھوڑ رہے ہیں اور اس پر ‘D’ کا بھی اطلاق نہیں کررہے تو پھر NPR کا جواز باقی ہی کہاں رہتا ہے؟ مردم شماری سے کام کیوں نہیں چلا لیتے؟

 

دراصل میرے تمام سوالوں کے جواب صرف NPR اور Census کی تعریف اور اس کے حدود میں ہی مضمر ہے جسے امیت شاہ چھپا رہے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان جو بنیادی فرق ہے، وہ یہ ہے کہ Census یعنی مردم شماری میں شہریوں کے دیے گئے معلومات کو راز میں رکھا جاتا ہے، سرکار یا کسی سرکاری ادارے کو ان معلومات کو افشا کرنے یا ان معلومات کی بنیاد پر کوئی دوسری سرکاری کاروائی کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے، جب کہ NPR میں اس کے برعکس سرکار شہریوں کی نجی معلومات کبھی بھی اور کہیں بھی شیئر کرسکتی ہے اور اس پر اسے کاروائی کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ تو اے میرے سادہ لوحو! اے میرے پیارے خوش فہمو! ایک بار جب سرکار کے پاس NPR کے ذریعے ڈیٹا پہنچ گیا، خواہ آپ اس میں شامل کسی مخصوص سوال کا جواب دیں یا نہ دیں، اس کا استعمال سرکار کبھی بھی NRC کے لیے کرسکتی ہے۔ مثلاً آپ نے افسر کو اپنے والدین کی تاریخ اور جائے پیدائش نہیں بتائی تو ظاہر ہے آپ کے سامنے نہیں بلکہ اس فارم کے verification کے دوران دی گئی ادھوری معلومات کے سبب افسر آپ کے فارم پر ‘D’ لگائے گا تو بھلا اسے کون روک پائے گا؟ پھر NRC، خواہ وہ کبھی بھی ہو، اس وقت آپ کے گھر ایک سرکاری لیٹر پہنچے گا کہ چلیے صاحب فرشتہ اجل آپ کا منتظر ہے، قطار میں کھڑے ہوجائیے۔ چنانچہ امیت شاہ کا بیان صرف بیان رہ جائے گا اور چونکہ وہ بیان قانونی شکل میں موجود نہ ہوگا تو آپ اسے چیلنج بھی نہیں کر پائیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ اب کیا کرنا ہے، سوچ لیجیے، سرکار کے پیچھے ہٹنے پر اپنی پیٹھ تھپتھپانی ہے یا اپنے موقف پر قائم رہنا ہے؟

You may also like

Leave a Comment