ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز
وویک اگنی ہوتری کا نام تو آپ سب نے سُنا ہی ہوگا ؛ وہی ’ دی کشمیر فائلز ‘ والے ، جو بات بات پر نفرت کے وائرس تھوکتے اور نفرت پھیلاتے ہیں ! ان کا ایک تازہ بیان سامنے آیا ہے ، ’’ شاہ رُخ خان کٹّر مسلم ہیں ، سلام سلام سلام کرتے ہیں ، کبھی نمستے نہیں کرتے ۔‘‘ حالانکہ وویک اگنی ہوتری کے جھوٹ کے ثبوت میں سوشل میڈیا پر شاہ رُخ خان کی کئی ایسی ویڈیو اَپ لوڈ کر دی گئی ہیں جن میں وہ نمسکار کرتے ہوئے سُنے اور دیکھے جا سکتے ہیں ۔ لیکن وویک اگنی ہوتری جیسے جھوٹوں کے لیے اس طرح کے ثبوت کوئی معنیٰ نہیں رکھتے ، اُن کا کام جھوٹ بولنا ہے ، لہذا وہ جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بولتے رہیں گے ۔ بات شاہ رُخ خان کی ہونی ہے ، لیکن اس سے پہلے ایک اداکار کا ذکر مزید ضروری ہے ؛ نانا پاٹیکر کا ۔ نانا پاٹیکر سینئر اداکار ہیں ، اور غضب کے اداکار ہیں ، انہیں فرقہ پرست بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انہوں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے جسے فرقہ پرستی پر محمول کیا جا سکے ۔ ویسے نانا پاٹیکر اِن دنوں وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کی خوب تعریف کر رہے ہیں ، جیسے کہ وویک اگنی ہوتری کرتے ہیں ۔ ویسے اگنی ہوتری بھی پہلے فرقہ پرست نہیں تھے ، وہ تو فرقہ پرستی کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے ! لیکن فلمی دنیا میں کون کب بدل جائے ، راہ الگ کر لے ، کہنا مشکل ہے ۔ تو نانا پاٹیکر کا ذِکر ہے جن کا حال ہی میں شاہ رُخ خان کی فلم ’ جوان ‘ پر ردعمل آیا ہے کہ ،’’ ان دنوں ایک فلم بہت ہی ہِٹ ہوئی ہے ، میں اسے دیکھنے گیا ، میں وہ فلم پوری دیکھ نہیں پا رہا تھا ، لیکن وہ فلم بہت چل رہی ہے ۔ چونکہ یہ چل گئی ہے ، اس لیے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایسی ہی فلمیں ہم بنائیں گے اور فم بینوں کو دیکھنے پر مجبور کریں گے ۔‘‘ شاہ رُخ خان اور اُن کی فلم ’ جوان ‘ کے خلاف نانا پاٹیکر اور وویک اگنی ہوتری کے مذکورہ بیانات کا ایک سبب تو بہت ہی واضح ہے ؛ دونوں کو ہی فلم ’ جوان ‘ کا ہِٹ ہونا کَھل رہا ہے ۔ دوسرا سبب وویک اگنی ہوتری کی دوسری پروپیگنڈا فلم ’ دی ویکسین وار ‘ ہے ، جس کی نمائش عنقریب ہے ، اس فلم میں نانا پاٹیکر بھی اداکاری کر رہے ہیں ، گویا قارورہ سے قارورہ مل گیا ہے ، اور کوشش ہے کہ شاہ رُخ خان پر نشانہ سادھ کر کوئی ایسا تنازعہ پیدا کیا جا سکے کہ ، اُن کی فلم ’ دی ویکسین وار ‘ بھی ’ دی کشمیر فائلز ‘ جیسی ہِٹ ہو جائے ۔ ویسے کمال آر خان نے ، جنہوں نے ’ دیش دروہی ‘ میں ہیرو کا کردار ادا کیا تھا ، اپنے یو ٹیوب تبصرے میں اگنی ہوتری کی نئی فلم کے ’ سُپر فلاپ ‘ ہونے کی پیشن گوئی کر دی ہے ۔ شاہ رُخ خان کے خلاف جو بیانات اِن دنوں آ رہے ہیں ، اگر اُن کا سبب تلاش کیا جائے تو فلم ’ جوان ‘ پر نظر جاکر ٹھہر جاتی ہے ، جو عالمی مارکیٹ میں چھ سو کروڑ روپیے سے زائد کا ریکارڈ بزنس کر چکی ہے ! اس کا مطلب یہ ہے کہ ’ پٹھان ‘ فلم کے بعد یہ شاہ رُخ خان کی سالِ رواں میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی دوسری ایسی فلم بن گئی ہے جس نے کروڑوں روپیے کمائے ہیں ، یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے ۔ اب تک ایک ہی سال کے دوران کسی بھی اداکار کی دو فلمیں اتنے بڑے پیمانے پر کبھی بھی ہِٹ نہیں ہوئی تھیں !
آخر فلم ’ جوان ‘ میں ایسا کیا ہے کہ لوگ اسے دیکھنے کے لیے ٹوٹ پڑے ہیں ؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے ؛ میڈیا نے جِن مسائل کو گذشتہ نو برسوں سے نظرانداز کر رکھا ہے ، اُن مسائل کو ’ جوان ‘ نے صرف تین گھنٹے میں اس طرح سے پردۂ سیمیں پر پیش کر دیا ہے کہ ، فلم دیکھنے والے محسوس کرتے ہیں ، جیسے اُن کی بات کی جا رہی ہے ، جیسے اُن کے مسائل اٹھائے جا رہے ہیں ، اور جیسے فلم میں جو کچھ بھی دکھایا جا رہا ہے ، وہ سب ان پر بیت رہی ہے ۔ یہ فلم لوگوں کو خود سے جوڑتی ہے ، اسی لیے لوگ اس فلم کو پسند کر رہے ہیں ۔ فلم کے موضوعات پر ایک نظر ڈال لیں ؛ نفرت ، خون چوسنے والا سرمایہ دارانہ نظام ، کرپشن ، الیکشن ، ای وی ایم ، آکسیجن کی قلّت ، کسانوں کی خودکشی ۔ کیا یہ مسائل ہمیں ، ہم تمام بھارتیوں کو گھیرے ہوئے نہیں تھے ، اور کیا اب بھی ہم سب اِن مسائل سے گھرے ہوئے نہیں ہیں ؟ یقیناً یہ مسائل جونک کی طرح ہندوستان سے چمٹ گئے ہیں ، اور چمٹے ہوئے ہیں ، باوجود اس کے کہ عوام ان سے نجات چاہتی ہے ۔
فلم ’ جوان ‘ کی نمائش کے بعد بحث چھڑ گئی ہے کہ شاہ رُخ خان کی یہ فلم بی جے پی مخالف فلم ہے ۔ اس بحث اور اس سوچ کے پسِ پشت دو بی جے پی مخالف سیاسی پارٹیوں عام آدمی پارٹی ( آپ ) اور کانگریس کا پروپیگندا بھی ہے ؛ ’ آپ ‘ کے سربراہ اروند کیجری وال ، جو دہلی کے وزیراعلیٰ بھی ہیں ، ایک وائرل ویڈیو میں لوگوں سے فلم ’ جوان ‘ دیکھنے کی اپیل کرتے ہوئے دیکھے اور سُنے جا سکتے ہیں ، وہ اس فلم کو ’ اچھی فلم ‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ، فلم میں شاہ رُخ خان نے اُن کے ، مطلب کیجری وال کے ، ڈائیلاگ بولے ہیں ۔ ڈائیلاگ کیا ہے ؛ ’’ ڈر ، پیسہ ، ذات – پات ، دھرم ، فرقہ کے لیے ووٹ دینے کے بجائے جو آپ سے ووٹ مانگنے آئے ، آپ اُس سے سوال پوچھیں ، پوچھو اس سے کہ آپ میرے لیے اگلے پانچ سال میں کیا کرو گے ؟ اگر پریوار میں کوئی بیمار ہو جائے تو اُس کے علاج کے لیے کیا کرو گے ؟ مجھے نوکری دلانے کے لیے کیا کرو گے ؟ دیش کو آگے بڑھانے کے لیے کیا کرو گے ؟‘‘ کانگریس بھی ’ آپ ‘ سے پیچھے نہیں ہے ، اُس نے بھی ’ جوان ‘ میں اٹھائے گئے مسائل کو بی جے پی سے جوڑ کر اِس فلم کے ’ پیغام ‘ کو کانگریس کا پیغام قرار دینے کی کوشش کی ہے ، اور یہی کام ’ سماج وادی پارٹی ‘ کے سربراہ اکھلیش سنگھ یادو نے بھی کیا ہے ۔ لیکن کیا ’ جوان ‘ کو بی جے پی مخالف فلم کہا جا سکتا ہے ؟ یہ سچ ہے کہ جن مسائل کو فلم میں اٹھایا گیا ہے ، وہ بی جے پی کے اس دور کے انتہائی تکلیف دہ مسائل ہیں ، لیکن یہ مسائل کانگریس کے دورِ حکومت میں بھی تھے ، بلکہ من موہن سنگھ کی حکومت اس فلم میں اٹھائے گئے سب سے اہم مسٔلے کرپشن کے سبب ہی گری تھی ۔ لوگوں کو خوب یاد ہوگا کہ کیجری وال انّا ہزارے کے ساتھ ساتھ کانگریس پر لگے کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر اس کے خلاف تحریک میں پیش پیش تھے ۔ اسی لیے وزیراعظم من موہن سنگھ کے دور کے مبینہ کرپشن ( جسے عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا ہے ) کو بنیاد بنا کر بی جے پی نے بھی فلم ’ جوان ‘ میں اٹھائے گئے مسائل کا ٹھیکرا کانگریس کے سر پھوڑ دیا ہے ۔ اور شاہ رُخ خان کا شکریہ ادا کیا ہے کہ ، انہوں نے ’ کانگریس کے کرپشن کو موضوع بنایا ۔‘ بی جے پی کے قومی ترجمان گورو بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ فلم کا ڈائیلاگ ’’ ہم جوان ہیں ، اپنی جان ہزار بار داؤ پر لگا سکتے ہیں ، لیکن صرف دیش کے لیے ، تمہارے جیسے دیش بیچنے والوں کے لیے ہرگز نہیں ،‘‘ گاندھی پریوار پر صادق آتا ہے ، حالانکہ گاندھی پریوار پر لگے الزامات ہنوز ثابت نہیں ہو سکے ہیں ۔ سچ یہی ہے کہ اس فلم کا بنیادی مسٗلہ ’ کرپشن ‘ ہے ، بلکہ ’ کرپشن ‘ ہی فلم کا ’ ویلن ‘ ہے ، کوئی بھگوا دھاری نہیں ۔ فلم میں سیاست دانوں اور صنعت کاروں کے گٹھ جوڑ سے پنپنے والے جرائم پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اور اس کے نتیجے میں کسانوں کی خودکشیوں ، اسپتالوں میں آکسیجن کی قلّت سے بچوں کی اموات ، اسلحوں کی اسمگلنگ اور ناکارہ اسلحوں کے سبب جوانوں کی شہادت پر بات کی گئی ہے ۔ یہ سب ہر دور میں ہوتا رہا ہے ، کانگریس کے دور میں بھی ، اور اب بی جے پی کے دور میں بھی ، اس لیے یہ فلم ایک ’ سیاسی فلم ‘ تو ہے ، لیکن یہ کہنا شاید درست نہیں ہے کہ یہ کسی مخصوص سیاسی پارٹی کے خلاف ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ’ بھکت ‘ اس فلم پر چیں بجبیں ہیں ! شاید اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ، یہ فلم مودی کے دورِ حکومت میں نمائش کے لیے پیش ہوئی ہے ، اور چونکہ مودی کے دورِ حکومت میں کسانوں کا احتجاج ہوا ہے جس میں سات سو سے زائد کسان مرے ہیں ، پلوامہ کا دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے ، جس میں بڑی تعداد میں ہمارے جوان مارے گئے ہیں ، کووڈ کے دور میں آکسیجن کی قلّت سے جو اموات ہوئیں وہ تو ہوئی ہی ہیں ، گورکھ پور کے اسپتال کا دلدوز واقعہ بھی پیش آیا ہے جس میں آکسیجن کی قلّت سے بڑی تعداد میں بچے جان سے گئے ہیں ، اور مودی کے اِس دور میں دھرم اور ذات – پات کی سیاست کچھ زیادہ ہی عروج پر ہے ، اس لیے اس فلم کے مسائل آج کی مودی حکومت کے ساتھ آسانی کے ساتھ جوڑے جا سکتے ہیں ، اور جوڑے بھی جا رہے ہیں ۔ فلم کی کہانی ، جو باپ اور بیٹے کے درمیان گھومتی ہے ، اس طرح سے پیش کی گئی ہے کہ کئی صنعت کاروں کے نام ذہن میں در آتے ہیں ، گوتم اڈانی ، انیل امبانی اور مکیش امبانی ، گورکھ پور سانحہ کے مظلوم ڈاکٹر کفیل خان کا چہرہ نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے ، پلوامہ کے شہید فوجیوں کے تابوت نگاہوں کے سامنے آ جاتے ہیں ، اور جاٹ و گرجر کسانوں کی جدوجہد کا منظر نظروں میں گھومنے لگتا ہے ؛ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہ فلم آج کے حالات سے زیادہ قریب ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا ۔ لیکن اس بار ’ بھکت ‘ اور سنگھی کارکنان ، سنت و مہنت اور بھاجپائی چیں بجبیں ہونے کے باوجود اس فلم کے خلاف کسی طرح کا احتجاج و مظاہرہ کرنے سے بچے ر ہے ہیں ، شاید انہیں یہ لگ رہا تھا کہ وہ مظاہرہ کریں گے تو ’ پٹھان ‘ ہی کی طرح ’ جوان ‘ بھی ہِٹ ہو جائے گی ! لیکن ’ جوان ‘ بغیر مظاہرے کے ہِٹ ہوگئی ! اس طرح یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا کہ ’ پٹھان ‘ کی کامیابی میں بھگوا بریگیڈ کے ’ بائیکاٹ گینگ ‘ کا ہاتھ ہے ۔ بظاہر تو ’ پٹھان ‘ کا طوفان فلم کی ہیروین دیپیکا پدوکون کی ’ بھگوا بکنی ‘ پر تھا ، اور دو طرح کے اعتراض کیے جا رہے تھے ، ایک تو یہ کہ ’ بھگوا بکنی ‘ کا پہننا ہندوؤں کے دھارمک جذبات کی توہین ہے ، دوسرا یہ کہ ’ بھگوا ‘ کو ’ بے شرم رنگ ‘ کہہ کر ہندوؤں کی مزید توہین کی گئی ہے ۔ اس لیے مطالبہ تھا کہ ’ پٹھان ‘ فلم کی نمائش ہونے نہ دی جائے ، اس پر پابندی لگائی جائے ۔ لیکن بباطن یہ طوفان فلم کے ہیرو شاہ رُخ خان کے خلاف تھا ۔ اور شاہ رُخ کے خلاف طوفان کا مطلب اس ملک کے دو طبقات پر نشانہ تھا ، ایک اقلیت پر ، اور دوسرا اس ملک کے لبرل اور سیکولر ڈھانچے میں یقین رکھنے والوں پر ، جنہیں اس ملک کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ ، اور مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا ’ ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘ کہتے ہیں ۔ نروتم مشرا تو اس حد تک چلے گیے تھے کہ انہوں نے دیپیکا پدوکون کو بھی ’ ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘ میں شامل کر دیا تھا ۔ لیکن شاہ رُخ خان کی فلم ’ پٹھان ‘ نے بھی بھگوائیوں کی بولتی بند کی تھی ، اور اب ’ جوان ‘ بھی اُن کی بولتی بند کیے ہوئے ہے ۔ لوگ اس فلم کو پسند کر رہے ہیں ، اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ فلم میں اٹھائے گئے مسائل کو اپنے مسائل سمجھ رہے ہیں ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ فلم ’ جوان ‘ نے ایک میڈیا کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کیا ہے ، اور کرپشن اور دھرم و ذات – پات کی نفرت کے خلاف عوام کو ایک راہ دکھائی ہے کہ ’’ دھرم ، ذات – پات ، ڈر ، پیسہ اور فرقے کی بنیاد پر ووٹ نہیں دینا چاہیے ۔‘‘ بہت ممکن ہے کہ ۲۰۲۴ء کے الیکشن میں عوام اس راہ پر چلیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)