اشعرنجمی
جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں سرکار، گودی میڈیا اور پولیس بار بار کہہ رہی ہے کہ کیمپس میں ‘باہر’ کے لوگ تھے جنھوں نے تشدد کی پہل کی۔ ممکن ہے کہ اس جھوٹ پر ہم سب آج سے دس برس قبل یقین کرلیتے لیکن پل پل ہر پہلو کی رپورٹ دینے والے سینکڑوں ویڈیوز اس لنگڑاتے اور ہکلاتے جھوٹ پر تھپڑوں کی برسات کررہے ہیں۔ اب سوال ہے:
(1) پولیس نے جن ہزاروں لڑکوں کو اپنی حراست میں لیا تھا، ان میں ‘باہر’ کے کتنے لوگ تھے اور کون کون تھے؟
(2) اگر کیمپس کے اندر سے ‘باہر والے’تشدد کررہے تھے، تو یقیناً پولیس نے کیمپس میں گھس کر ان پر ہی جوابی کاروائی کی ہوگی، جب کہ پورے ہندوستان نے طلبا کو پولیس کی لاٹھی سے بری طرح پٹتے دیکھا اور آنسو گیس کا بھی وہی شکار ہوئے۔ کیوں؟
(3) کیا جامعہ کی لائبریری میں ‘باہر والے’ اپنے کالج بیگ کے ساتھ کتاب کاپی کھولے بیٹھے تھے جنھیں پولیس نے بے دردی سے گھسیٹ گھسیٹ کر مارا اور کیا ‘واش روم’ میں باہر والی لڑکیاں جمع تھیں جس میں گھس کر پولیس نے ان سے بدتمیزی کی؟
(4)پولیس کا دعویٰ ہے کہ جامعہ کے بچوں نے بس جلائے اور پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا۔ لیکن افسوس اب تک اس کا ایک بھی ثبوت پولیس پیش نہ کرسکی۔ جب کہ اس کے برخلاف ایک ویڈیو میں پولیس ان بچوں کی موٹر سائیکلوں کو توڑتی نظر آ رہی ہے، کیا ان کی موٹر سائیکلیں پبلک پراپرٹی تھیں؟ اس کے علاوہ جب دہلی حکومت کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے بتایا کہ خود پولیس ان بسوں کو آگ لگا کر اس کا الزام طلبا کے سر مڑھ رہی ہے تو پولیس نے بغیر اس کا معقول جواب دیے، صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ یہ افواہ اور جھوٹ ہے، اس الزام کی رد میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا اور نہ طلبا کے بس جلائے جانے کی کوئی ویڈیو پیش کی۔
(6) کیا پولیس کو جامعہ یا علی گڑھ کیمپس میں کوئی ہتھیار ملا جس سے وہ پولیس پر حملہ آور تھے؟
(5) ملک بھر کی 2500 یونیورسٹیاں اور کالج جامعہ اور علی گڑھ کے طلبا پر ہونے والے پولیسیانہ تشدد کے خلاف سڑکوں پر ہیں، جس کی فہرست انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان بھر کے یہ لاکھوں طلبا ‘باہر والے’ ہیں؟
(6) کیا آپ کو پتہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تقریباً50 فیصد غیر مسلم طلبا زیر تعلیم ہیں؟ آپ کی یاد دہانی کے لیے عرض کردوں کہ اگرچہ اب جامعہ میں اسٹوڈنٹس یونین نہیں ہے لیکن جب تھی تو 6 بار اس یونین کے صدر غیر مسلم طلبا منتخب ہوئے۔
(7) آپ کہتے ہیں کہ طلبا کا کام پڑھنا ہے نہ کہ مظاہرے کرنا۔ چلیے تسلیم، پھر تو تمام سیاسی پارٹیوں کو اپنی ‘اسٹوڈنٹس وِنگ’ بند کردینے چاہئیں۔ پھر تو نریندر مودی کو یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب ہی نہیں کرنا چاہیے۔ پھر تو جے پرکاش کی طلبا تحریک بھی غیر قانونی ٹھہری۔ آپ سے یہ کس نے کہا کہ سرکار پر صرف کوئی سیاسی پارٹی ہی آواز اٹھا سکتی ہے، طلبا نہیں؟ کیا اب آپ اس پر بھی پارلیامنٹ میں کوئی نیا بِل لانے والے ہیں؟
(8) اور آخری سوال یہ کہ کیا برسر اقتدار حکومت سے سوال کرنا یا اس کی کسی پالیسی کی مخالفت کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ طلبا کو عادی مجرموں کی طرح ہاتھ کھڑے کرکے باہر لایا جائے؟ان میں کتنے باہر والے تھے؟
جواب تو آپ کو دینا ہوگا، سوال کرنا ہمارا آئینی حق ہے جس کا آپ کی لاٹھی اور آنسو گیس کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔