آج ممتاز شاعرجون ایلیا کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 8 نومبر 2002 کوکراچی میں وفات پائی۔ان کی پیدائش اترپردیش کے مردم خیز خطہ امروہہ میں ہوئی تھی۔ تقسیم کی ہوائیں انھیں سرحد پار ضرور لے گئی تھیں، مگر انھیں اپنی مٹی سے بچھڑنے کا غم تاعمر ستاتا رہا۔کوئی 36 سال اُدھر کا واقعہ ہے۔ دہلی میں عالمی اردو کانفرنس کے ایک مشاعرے میں پہلی بار جب جون ایلیا کو دیکھا تو میں انہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔ ان کی وضع قطع، لباس، چال ڈھال دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اپنی مٹی سے بچھڑا ہوا کوئی ایسا شخص ہو جسے تلاش وجستجو نے مجنونانہ کیفیات سے دوچار کردیا ہے۔ان کی بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر کبھی کبھی اس بچے کا خیال آتا تھا جو اپنی ضد کے سامنے سب کو مجبور وبے بس کردے۔
جون ایلیا جب شعر پڑھتے تو ان پر حال طاری ہوتا تھااور ان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ سامعین بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوں۔ وہ داد جیسی بے معنی چیز کے تو طلب گار نہیں تھے لیکن سامعین کی توجہ پوری کی پوری چاہتے تھے۔
اگر ہم اپنے عہد کے شعری منظرنامہ پر نظرڈالیں تو محسوس ہوگا کہ جون ایلیا نے سلطنت شعروشاعری میں اپنا جو سکہ چلایا وہ کسی دوسرے شاعر کا مقدر نہیں ہوسکا۔ رومانی شاعری میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ وہ مشکل ترین بحروں میں جس خوبصورتی سے شعر کہتے تھے وہ ان کا ہی خاصہ تھا۔
جون ایلیا، اپنی شاعرانہ عظمت کے سبب تو علمی حلقوں میں مقبولیت کی معراج کو پہنچے ہی اس کے ساتھ ہی انہیں نثر پر جو ملکہ حاصل تھا وہ بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا ۔ وہ زبان وبیان پر جتنی گرفت رکھتے تھے اس کی مثال اس عہد کے شاعرو ں میں بہت کم ملتی ہے۔ اپنی زندگی میں اتنی بے ترتیبی، لاابالی پن، بے چینی اور انتشار کے باوجود ان کے دماغ میں علم وفضل کا دریا موجزن تھا۔
جون ایلیا کے اولین مجموعہ ”شاید“ میں ان کے منتخب کلام کے علاوہ چالیس صفحات پر مشتمل جودیباچہ ”نیازمندانہ“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے وہ ان کی ایک مختصر آپ بیتی ہے‘ جسے 200 صفحات سے گھٹا کر 40صفحات میں مختصر کیاگیا ہے۔اس میں انہوں نے زبان وبیان کے لحاظ سے جو موتی پروئے ہیں اسے پڑھتے ہی رہنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی واردات قلب کا اندازہ اس دیباچہ سے بخوبی ہوتا ہے جس کے ابتدائی جملے کچھ اس طرح ہیں۔
”یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رائیگاں گیا۔ مجھے رائیگاں جانا بھی چاہئے تھا۔ جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے بڑی دولت ہیں تو وہ رائیگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا۔“ (شاید صفحہ 11)
جون ایلیا 14دسمبر 1930 کو امروہہ کے ایک باوقار شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام جان اصغر تھا ۔ انہوں نے حضرت علی کے دوغلاموں جون اور ایلیا کے نام پر اپنا تخلص رکھا تھا۔ امروہہ جون ایلیا کا وطن بھی تھا اور ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی۔ باد حوادث نے انہیں سرحد پار پہنچا دیا تھا جہاں وہ وطن کی محبت میں ڈھیروں آنسو بہاتے تھے۔ وہ جب کبھی یہاں آتے تو امروہہ کی سرزمین پر قدم نہیں پیشانی ٹکاتے تھے۔ یہ وطن سے ان کی محبت کی حد تھی۔ لوگوں نے بارہا انہیں امروہہ میں اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرکے چیختے چلاتے دیکھا۔ کبھی کسی درخت کو لپٹ کر رورہے ہیں کہ میں بچپن میں اس کے نیچے گھنٹوں کھیلا کرتا تھا۔ کبھی بچپن کے کسی دوست سے یوں بغل گیر ہیں کہ اسے چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ انہوں نے امروہہ کو چھوڑ کر خود کو بدبخت سمجھا۔ بقول خود:
”میں دوآبہ گنگ وجمن کے حالت خیز، رمزیت آمیز اور دل انگیز شہر امروہہ میں پیدا ہوا۔ امروہہ میں نہ جانے کب سے ایک کہاوت مشہور چلی آرہی ہے کہ امروہہ شہر تخت ہے، گزراں یاں کی سخت ہے، جو چھوڑے وہ کم بخت ہے…… مجھے نہیں معلوم کہ شمالی ہند کے پہلے مثنوی نگار سید اسماعیل امروہوی، شیخ غلام ہمدانی مصحفی، نسیم امروہوی، رئیس امروہوی، سید محمد تقی، سید صادقین احمد، محمد علی صدیقی اور اقبال مہدی نے امروہہ کو چھوڑ کر اپنے آپ کو کم بخت محسوس کیا تھا یا نہیں مگر میں نے……بہرحال“
(”شاید“ صفحہ 14)
جون ایلیا کی پیدائش امروہہ کے جس خاندان میں ہوئی تھی وہاں شعر وشاعری اور علم وآگہی کے دریا بہتے تھے۔ یہ اپنے آپ میں انوکھی مثال ہے کہ ان کے گھر میں پیدا ہونے والا ہر شخص شاعر تھا۔ اس طرح وہ خاندانی شاعر تو تھے ہی‘ جس ماحول میں ان کی پرورش اور پرداخت ہوئی وہاں تنگ نظری کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ شعر وادب کا سلسلہ ان کے یہاں کئی پشتوں سے چلا آرہا ہے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا چار بھائی تھے اور چاروں کے چاروں شاعر تھے۔ ان کے دادا سید نصیر حسن نصیر بھی شاعر تھے اور پردادا سید امیر حسن امیر اردو اور فارسی دونوں میں شعر کہتے تھے۔ بقول جون ایلیا سید امیر حسن کے داداسید سلطان احمد، میر تقی میرؔ کے ارشد تلامذہ سید عبدالرسول نثاراکبرآبادی کے شاگرد تھے۔ خودجون ایلیا کو بھی میر سے عشق تھا۔ جون ایلیا کے قریبی دوست انیق احمد نے ان کی کیفیات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
”جون ایلیا اذیت پسند، اذیت رساں اور بے چین روح کا نام تھا۔ جون ایلیا کو تاریخ، عمرانیات،مذاہب عالم، فلسفہ، شاعری اور بے شمار علوم کا شغف نہیں، ان پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعری کرنا نہیں،شاعری میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ سرتا پاشاعر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص ان سے ہمیشہ علمی اور ادبی موضوعات پر گفتگو کرے۔ وہ اس عہد سے گلہ مند تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان سے ان کی خواہش معلوم کی جاتی تو وہ اس عہد میں پیدا ہونا ہی پسند نہ کرتے۔“
جون ایلیا کو شاعری کے ساتھ فلسفہ پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اشتراکیت کے ہمنوا ہوئے۔ جون ایلیا نے اپنی زندگی میں جس قدر نشیب وفراز کا مقابلہ کیا اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا تمام ہوگیا ہوتا مگر یہ علم کا فیضان ہی تھا کہ اس نے انہیں کبھی ٹوٹنے اور بکھرنے نہیں دیاوگرنہ وہ عمر کے ایک حصہ میں جن کیفیات سے دوچار رہے ہیں اس میں خود کو سنبھالنا اور یکجا رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ بے مثال شاعری کرنے کے باوجودتقریباً 30سال تک اپنے شعری مجموعے کی اشاعت سے فرار اختیار کئے رہے، حالانکہ اس کاسبب بھی تھا اور وہ بھی بڑاعجیب۔ ان کے کئی عزیزوں، دوستوں اور چاہنے والوں نے ان کے مجموعہ کلام کی اشاعت کے لئے انتھک کوششیں کیں لیکن جون نے کسی کو قابو نہیں دیا اور یہ کوششیں بے نتیجہ رہیں۔ انہوں نے ”شاید“ کے دیباچہ میں اس روئیداد کو کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے۔
”آپ سوچتے ہوں گے کہ میں نے اپنا کلام نہ چھپوانے میں آخر اتنا مبالغہ کیوں کیا۔ اس کی وجہ میرا ایک احساس جرم اور روحانی اذیت ہے ……میں جس اذیت ناک حالت میں مجموعہ مرتب کرنے پرمامور ہوا تھا اس حالت میں شاید ہی کسی شاعر نے اپنا مجموعہ مرتب کیا ہو۔ میں اس حالت سے کہیں زیادہ اذیت ناک حال میں تھا اور ہوں، جس میں دسویں صدی عیسوی کے عظیم المرتبت ادیب اور مفکر ابو حیان توحیدی نے اپنے حالات سے تنگ آکر اور اس عہد کے ”باذوق امراء“ کی خوشنودی حاصل کرنے کی ناگوار مشقت سے بیزار ہوکر اپنی ناکام زندگی کے آخری لمحوں میں اپنی تصنیفات کے مسودے جلوادیئے تھے۔“
جون ایلیا نے اپنی عمر کے تقریباً دس برس نہایت اذیت ناک نفسیاتی الجھنوں میں گزارے جس سے ان کے دل ودماغ پر گہرا اثر پڑا اور وہ اس عرصہ میں دنیا ومافیہا سے بے خبر ہوگئے تھے۔ انہوں نے اس کیفیت کوجس انداز میں بیان کیا ہے اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”1986 کا ذکر ہے، میری حالت گزشتہ دس برس سے سخت ابتر تھی۔ میں ایک نیم تاریک کمرے کے اندر ایک گوشے میں سہما بیٹھا رہتا تھا۔ مجھے روشنی سے، آوازوں سے اور لوگوں سے ڈرلگتا تھا۔ ایک دن میرا عزیز بھائی سلیم جعفری مجھ سے ملنے آیا۔ وہ چند روز پہلے دبئی سے کراچی آیا تھا۔ اس نے مجھ سے کہاکہ جون بھائی، میں آپ کو فرار اور گریز کی زندگی نہیں گزارنے دوں گا۔ آپ نے مجھے لڑکپن سے انقلاب کے، عوام کی فتح مندی اور لاطبقاتی سماج کے خواب دکھائے ہیں۔ میں نے کہا۔ ”تجھے معلوم ہے کہ میں سالہا سال سے کس عذاب میں مبتلا ہوں؟ میرا دماغ، دماغ نہیں، بھوبل ہے آنکھیں ہیں کہ زخموں کی طرح تپکتی ہیں۔ اگر پڑھنے یا لکھنے کے لئے کاغذ پر چند ثانیوں کو بھی نظر جماتا ہوں تو ایسی حالت گزرتی ہے جیسے مجھے آشوب چشم کی شکایت ہو اور ماہ تموز میں جہنم کے اندر جہنم پڑھنا پڑھ رہا ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ میں اب بھی اپنے خوابوں کو نہیں ہارا ہوں۔ میری آنکھیں دہکتی ہیں مگر میرے خوابوں کے خنک چشمے کی لہریں اب بھی میرے پلکوں کو چھوتی ہیں۔“ (“شاید صفحہ 13)
جون ایلیا نے اپنے قیمتی اشعار کے مجموعے کو چھپوانے میں 30سال کا طویل عرصہ کیوں لگایااور وہ بھی ایک ایسے زمانے میں جب برائے نام شعراء نے اپنے درجنوں مجموعے چھپوا کر انعام واکرام کی بارش ہی نہیں کروائی بلکہ وہ ان مجموعوں کی ضخامت کو دیکھ کر شاعر قرار دے دیئے گئے۔ جون ایلیا نے اس کا جو سبب بیان کیا ہے وہ بھی کچھ کم کربناک نہیں ہے۔ وہ لکھتےہیں:
”موسم سرما کی ایک سہ پہر تھی۔ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ بابا مجھے شمالی کمرے میں لے گئے۔ نہ جانے کیوں وہ بہت اداس تھے۔ میں بھی اداس ہوگیا۔ وہ مغربی کھڑکی کے برابر کھڑے ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو۔ میں نے پوچھا۔ ”بتائیے بابا! کیاوعدہ؟“
انہوں نے کہا ”یہ کہ تم بڑے ہوکر میری کتابیں ضرور چھپواؤگے۔“
میں نے کہا۔ ”بابا میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں جب بڑا ہوجاؤں گا تو آپ کی کتابیں ضرور ضرور چھپواؤں گا۔“
مگر میں بابا سے کیا ہو ایہ وعدہ پور انہیں کرسکا۔ میں بڑا نہیں ہوسکا اور میرے بابا کی تقریباً تمام تصنیفات ضائع ہوگئیں۔ بس چند متفرق مسودے رہ گئے ہی۔ یہی میراوہ احساس جرم ہے جس کے سبب میں اپنے کلام کی اشاعت سے گریزاں ہی نہیں متنفر رہا ہوں۔“
جون ایلیا کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں ہر وقت علم کی گفتگو ہوتی تھی۔ علم ہیئت سے انہیں اور ان کے والد کو گہر اشغف تھا۔ بقول خود ان کے گھر میں عطارد، مریخ، زہرہ اور مشتری وغیرہ کا اتنا ذکر ہوتا تھا جیسے یہ سیارے ان کے افراد خانہ میں شامل ہوں۔ ان کے والد سید شفیق حسن ایلیا علم ہیئت کے ماہر تھے۔ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے جون ایلیا نے لکھا ہے کہ:
”جب میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح سے شام تک شاعری، تاریخ، مذاہب عالم، علم ہیئت (Astronomy) اور فلسفہ کا دفتر کھلا دیکھا اور بحث ومباحثہ کا ہنگامہ گرم پایا۔ اس تمام سرگرمی کا مرکز ہمارے بابا علامہ سید شفیق حسن ایلیا تھا۔ وہ کئی علوم کے جامع تھے اور کئی زبانیں جانتے تھے یعنی عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی اور سنسکرت۔ وہ صبح سے شام تک لکھتے رہتے تھے اور تقریباً اسی یقین کے ساتھ کہ ان کا لکھا ہوا چھپے گا نہیں۔“
جون ایلیا کی زندگی کا سفر 8نومبر 2002 کو کراچی میں تمام ضرور ہوگیا‘ لیکن انہوں نے جوعلمی و ادبی سرمایہ بطور میراث چھوڑا ہے‘وہ ان کو دنیا ئے شعر وسخن میں تادیرزندہ رکھے گا۔ ان کی قلندرانہ ادائیں چاہنے والوں کو ہمیشہ ستاتی رہیں گی۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے ہی اس شعر کی تعبیر بن کر دنیا سے رخصت ہوئے ؎
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم