Home قومی خبریں ارداکادمی دہلی کے زیر اہتمام چار روزہ جشن اردو کا شاندار آغاز

ارداکادمی دہلی کے زیر اہتمام چار روزہ جشن اردو کا شاندار آغاز

by قندیل

دہلی: ارداکادمی ، دہلی نے وزارت فن ، ثقافت و السنہ ،حکومت دہلی کے زیر اہتما م چار روزہ عظیم الشان جشن اردو کا انعقاد سندر نرسری میں کیا ۔ ہمایوں مقبرہ بستی حضرت نظام الدین کے قریب تاریخی مقام عظیم باغ جسے اب سندر نرسری کے نام سے جانا جاتا ہے کے ایمپی تھیٹر میں اس جشن کے تحت پروگرام پیش کیے جارہے ہیں ۔ یہ چار رزوہ جشن دوپہر بارہ بجے سے شروع ہوکر شام آٹھ بجے تک لگاتار جاری رہتا ہے ۔ جس میں عالمی شہرت یافتہ فنکاروں کے ذریعہ کل بائیس پروگرام پیش کیے جائیں گے ۔
پہلے دن کا پہلا پروگرام قصہ گوئی کا تھا جسے دہلی کے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا ۔ اس پیشکش کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انہوں نے پرانی دلی کی گلیوں کی کہانیاں ، بچوں کی زبان ،کرخنداری زبان اور دلی کی تکبندیوں کوپیش کیا ۔ اس میں مرکزی فنکار ارشاد عالم خوبی اور ان کے ساتھ دو بچیاں عمرین اور ایشا بھارگوتھیں ۔ اس کے بعد کا پروگرام سو زساز کا تھا جس میں فنکارہ انوپما شریواستو نے جدید وقدیم غزلوں کو پیش کیا ۔ فیض احمد فیض کے کلام ’بہار آئی تو جیسے …‘‘ کے ساتھ اپنے پروگرام کا آغاز کیا ۔ اس کے بعد انہوں نے ’گلوں میں رنگ بھرے ‘ ، ’ بہار آئی ہے غنچہ لبوں کی بات کریں‘ ، نواز دیوبندی کی غزل ’ترے آنے کی جب خبر پہنچی‘ ، جگر کی غزل’ تغافل ، تجاہل ، تکلف تبسم ‘، صوفی تبسم کی غزل ’وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ ‘اور پھر ’رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے ‘ جیسے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ۔
اس کے بعد داستان گوئی کی محفل سجی جس میں بطور داستان گو ساحل آغا اور بطور گلوکارہ ڈاکٹر نیتا پانڈے نیگی اپنی فنکاری کا مظاہر ہ کررہے تھے ۔ اس میں ان کے ساتھ دو سازندے بھی تھے ۔ یہ اگر چہ داستان گوئی کی محفل تھی لیکن اصل میں تصوف کی پیش کش تھی جس میں نیتا پانڈے فارسی ، ہندوی ، اودھی اور اردو کے صوفیانہ اشعار پیش کرتیں اور ساحل آغا تصوف کے دائرے میں اس کی تشریح پیش کردیتے ۔
تیسرا پروگرام محترمہ اندرا نایک کا تھا انہوں نے اپنی سحر انگیز ترنم کے ساتھ جو سماں قائم کیا اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگ بے خودی کی کیفیت میں نظر آئے ۔ بسنت کے گیت کے ساتھ انہوں نے اپنے پروگرا م آغاز کیا ، اس کے علاوہ کلاسک کلام بخوبی پیش کیا ۔جدیدشاعری میں انہوں نے مجاز کی نظم ’ اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں اور شاذتمکنت کی مشہور غزل ’ موج ساحل سے ملو ماہ کامل سے ملو ‘ کو پیش کیا ۔ اس آخری پیش کش سے پہلے انہوں نے دمادمدم مست قلندر پیش کیا تھا جس پرانھو ں نے کہا کے اس کے بعد کچھ پیش کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اسی راگ میں انہوں نے شاذ تمکنت کی غزل کو پیش کرکے سبھی کو حیرت میں ڈال دیا ۔
اس کے بعد لوگ جوق درجوق وارثی برادرس کی محفل قوالی کے لیے تشر یف لا نے لگے ۔ سورج کی لالی غائب ہوچکی تھی چاند اپنے شباب کے ساتھ سندر نرسری کے سبز زار میں اپنی چاندنی بکھیر رہا تھا اور وارثی برادرس کی بھرپور آواز میں قوالی ماحول کو دوبالا کررہی تھی ، یہ آخری پروگرام رات آٹھ بجے تک جاری رہا ہے ۔ جس میں شہر دہلی کے ہر طبقہ اور سماج حتی کہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والوں نے حصہ لیا اور ارد و زبان و ثقافت سے مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔
تمام فن کاروں کا اردو اکادمی دہلی کے سکریٹری جناب محمد احسن عابد نے گلدستہ اور مومینٹو پیش کرکے استقبال کیا ۔ تمام پروگراموں کی نظامت جناب اطہر سعید اور ریشماں فاروقی نے کی ۔

You may also like