نئی دہلی:’’جس طرح جشنِ جمہوریت کو ہم قومی وراثت کے طور پر مناتے ہیں، اسی طرح مشاعرہ بھی ہمارا قومی، ثقافتی، سماجی اور تہذیبی ورثہ ہے۔ یہ ہماری گنگا جمنی تہذیب کا ایک اہم شناختی نشان ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مشاعرہ ایک ایسا اہم تہذیبی ادارہ ہے جہاں ہم گفت و شنید اور نشست و برخاست کے آداب سیکھتے ہیں۔ زندگی کے غیر معمولی تجربات، جو مختلف پہلوؤں سے جڑے ہوتے ہیں، ہمارے شعرا ان ہی مشاعروں میں پیش کرتے ہیں‘‘۔اِن خیالات کا اظہار اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام جامع مسجد کے سامنے واقع اردو پارک میں منعقدہ مشاعرۂ جشن جمہوریت کے موقع استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے اکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول صاحب نے کیا۔ انھوں نے ملک کے مختلف خطوں سے آئے تمام شعرا اورپنڈال موجود سامعین کا استقبال کیا۔اس موقع پر انھوں نے گنگا جمنی تہذیب کا حوالہ دیتے ہوئے ملک میں منعقد ہونے والے مشاعروں کی نہ صرف اہمیت پر زور دیا بلکہ ان مشاعروں میں انسانی زندگی کے غیر معمولی اور گوناگوں تجربات پر بھی روشنی ڈالی۔
ناظم مشاعرہ معروف رائے بریلوی نے بھی مشاعرہ کی قومی و تہذیبی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ’’مشاعرہ ہماری تہذیب کا ایسا جشن ہے جس کے لیے ہمیں اپنی ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے‘‘۔
مشاعرہ کی صدارت معروف شاعر اظہر عنایتی نے کی اور نظامت کی ذمہ داری نوجوان شاعر معروف رائے بریلوی نے انجام دی۔ وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول، سکریٹری اکادمی محمد احسن عابد، صدر مشاعرہ اظہر عنایتی اور اکادمی کی گورننگ کونسل کے ممبران کے ہاتھوں شمع روشن کرکے باضابطہ مشاعرے کا آغاز ہوا۔ مشاعرہ جشن جمہوریت میں ڈاکٹرنواز دیوبندی، منیر ہمدم، ڈاکٹر طارق قمر، ڈاکٹر معید رشیدی،پروفیسر رحمٰن مصور، شکیل جمالی، اعجاز انصاری، مجیب شہزر، مصداق اعظمی، شمیم کوثر، خورشید حیدر اور عمر فرحت نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
مشاعرہ میں پیش کیے گئے منتخب اشعار قارئین کے لیے پیش ہے:
ہم نے روشن چراغ کر تو دیا
اب ہواؤں کی ذمہ داری ہے
ہم اندھیرے میں ہیں مگر دیکھو
دور تک روشنی ہماری ہے
(اظہر عنایتی)
بے خیالی میں بھی خیال اس کا
میرا کیا ہے، یہ ہے کمال اس کا
(ڈاکٹر نواز دیوبندی)
جب سے دیکھا ہے اس نے زمیں کی طرف
آسماں کی طرف دیکھتا کون ہے
(منیر ہمدم)
یقین مانو کہ اردو جو بول سکتا ہے
وہ پتھروں کا جگر بھی ٹٹول سکتا ہے
(معروف رائے بریلوی)
سلسلہ افواہ کا کیسے تھمے اس شہر میں
آپ کے ہمراز کے ہمراز کے ہم راز ہیں
(مصداق اعظمی)
جب لوگ مرے قتل کی تحقیق کریں گے
ممکن ہے کہ قاتل مرے اپنے نکل آئیں
(اعجاز انصاری)
میرے لیے نہیں تھی حواشی میں بھی جگہ
پھر یوں ہوا میںان کے حوالے میں آگیا
(پروفیسررحمٰن مصور)
تمہارے زخم ہیں مرہم تمہی تلاش کرو
کسی کو زخم دکھانے سے فائدہ کیا ہے
(مجیب شہزر)
اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو
اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے
(ڈاکٹر معید رشیدی)
سنا ہے رشتۂ جاں وہ عزیز رکھتا ہے
یہ بات ہے تو چلو سلسلہ نکالا جائے
(ڈاکٹر عمیر منظر)
تجھے اس کی کوئی خبر نہیں یہ مر ے سکون کی بات ہے
مری زندگی کا سوال ہے تیرے ایک فون کی بات ہے
(ممتاز نسیم)
نہ تیری گلی میں آنا نہ تیری گلی میں جانا
کیوں بنا رہی ہے دنیا نیا روز اک فسانہ
(شمیم کوثر)
ہجر میں تیرے بھٹکتا رہا صحرا صحرا
اس سفر میں کہیں آرام کیا ہوتو بتا
(خورشید حیدر)
آخر میں صدر مشاعرہ اظہر عنایتی کے منتخب اشعار کے ساتھ یہ مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ مشاعرہ کے اختتام پر ناظم مشاعرہ معروف رائے بریلوی نے اس کامیاب اور پروقار مشاعرہ کے لیے سامعین اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ سال منعقد ہونے والے جشن جمہوریت کے مشاعرہ میں دوبارہ ملنے کے ارادہ کے ساتھ اس بزم کے اختتام کا اعلان کیا۔