Home نقدوتبصرہ جانکی پرساد شرما اور لسانی تکثیریت- حقانی القاسمی

جانکی پرساد شرما اور لسانی تکثیریت- حقانی القاسمی

by قندیل

یہ بین علومیت کا عہد ہے اور اب مستقبل صرف کثیر لسانیت کا ہے کہ اسی سے علمی فکری اور لسانی ادراک و آگہی کے نئے در وا ہوتے ہیں اور متنوع ثقافتی سماجی سیاسی بیانیوں سے آشنائی کی صورتیں نکلتی ہیں جبکہ یک لسانی نظام میں محصور ذہنوں کا دائرہ معرفت و اظہار نہایت محدود ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر جانکی پرساد شرما ان ودّوانوں اور دانشوروں میں ہیں جنہیں مختلف زبانوں اور ادبیات کی تاریخ اور روایت سے مکمل آگہی ہے اور کئی زبانوں پر یکساں عبور بھی حاصل ہے۔ وہ حاوی، حاشیائی اور علاقائی اظہاری وسائل سے بھی مکمل واقف ہیں اور موقع کی مناسبت سے ان الگ الگ اظہاری وسائل کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ وہ ہندی اور ہندوی (اردو کی ابتدائی شکل) دونوں زبانوں کے عالم و فاضل ہیں اور دونوں حلیف /حریف زبانوں کے درمیان رابطے کا پل بھی، وہ ہندی اور اردو کی مصنوعی تقسیم اور لسانی تنازعہ کو مہمل اور عبث سمجھتے ہیں کہ ان کے خیال میں دونوں زبانوں میں فاصلوں سے زیادہ قربتیں مماثلتیں اور مشابہتیں ہیں کہ دونوں ہند آریائی زبانیں ہیں اور دونوں کی گرامر اور ویاکرن میں بہت زیادہ یکسانیت ہے دونوں کا رسم الخط الگ سہی مگر روح ایک ہے، دونوں زبانوں میں ہندوستانیت کی دھڑکن ہے۔
بین لسانی مطالعات نے ان پر یہ حقیقت منکشف کردی ہے کہ زبان کا مذہب نہیں، سماج ہوتا ہے۔ سماجی تعامل اور تفاعل سے ہی زبانیں جنم لیتی ہیں۔زبان پر مذہب کی بنیاد ہوتی تو بہت سے مذاہب کا نام ونشان مٹ چکا ہوتا۔زبان کا عقیدے سے نہیں، اظہار سے رشتہ ہوتا ہے۔جانکی جی کو علم ہے کہ ہندی اردو تنازعہ صرف لسانی تنگ نظری کی دین ہے تعصبات اور تحفظات نے لسانی تفریق پیدا کی ہے اور دیواریں کھڑی کی ہیں جبکہ دونوں میں معاندت اور مخاصمت سے زیادہ موانست اور مقاربت کا رشتہ ہے، اسی لیے اردو کے مشہور شاعر اظہر عنایتی نے اپنی نظم ’ہندی‘ میں یہ کہا ہے کہ :
یہ حقیقی بہن ہے اردو کی
یوں بھی اظہر مہان ہے ہندی
ہندی صرف ہندوؤں اور اردو صرف مسلمانوں سے منسوب ہوتی تو اردو میں پریم چند، رتن ناتھ سرشار، پنڈت دیا شنکر نسیم نہ ہوتے اور مسلمان شعرا بھاکا اور سنسکرت میں نہ شعر لکھتے اور نہ دوہے کہتے ۔
مسعود سعد سلمان، عبدالرحیم خان خاناں، رسکھان، شیخ عبدالقدوس گنگوہی الکھ داس، سیدنظام الدین بلگرامی، سید غلام نبی رسلین ،سید برکت اللہ پیمی، سید مبارک علی مبارک ،مولانا سید محمد جونپوری، ملک محمد جائسی، شیخ غلام مصطفی مرادابادی، عبد الرحمن رحمن، سید رحمت اللہ رحمت، شیخ علی متقی، شیخ فرید الدین گنج شکر، محمد افضل جھنجھانوی وغیرہ بھاکا میں شعر نہ کہتے اور نہ ہندی اور سنسکرت سے کوئی سروکار ہوتا ۔ یہ دونوں زبانیں ہماری ساجھی وراثت ہیں اور جانکی پرساد شرما اس وراثت کے امین ہیں۔ ان کے تخلیقی اور اظہاری وجود میں اردو کی لطافت و نزاکت ہے تو ہندی کی سرلتا اور کوملتا بھی۔اردو کی شیرینی اور ہندی کی مدھرتا سے ان کے لسانی وجود کی تشکیل ہوئی ہے۔ انہیں ہندی سے جتنا پریم ہے اتنا ہی اردو سے بھی عشق ہے۔ انھوں نے بھوپال یونی ورسٹی سے ایم اے پی، ایچ ڈی کی ڈگریاں لی ہیں تو جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کا کورس کیا ہے۔ اسی ذو لسانی آگہی نے ان کے اندر کشادگی قلب و نظر پیدا کی ہے۔ انہوں نے ہندی داں طبقہ کو اردو کے تخلیقی اور فکری سرمایہ سے روشناس کرنے کے لئے ابوالکلام آزاد، شبلی، رتن ناتھ سرشار، مومن، ناسخ، ملاوجہی، کرشن چندر، آتش، فانی بدایونی ، مہرشی شیو برت لال برمن، سعادت حسن منٹو، علی سردار جعفری کے مضامین کے علاوہ بلونت سنگھ کی منتخب کہانیاں، قمر رئیس کی کتاب پریم چند فکر وفن— مسدس حالی، ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر، خلیق انجم کی حسرت موہانی، سجاد ظہیر کی روشنائی، فراق گورکھپوری کی ’روح کائنات‘ اور ’رمز کائنات‘، شہر یار کا شعری مجموعہ ’کہیں کچھ کم ہے‘، کیفی اعظمی کا شعری مجموعہ، ندافاضلی کی خودنوشت ’دیواروں کے باہر‘، قاضی عبد الستار کے دو ناول ’داراشکوہ‘ اور ’غالب‘ کو ہندی کا پیرہن عطا کیا تو اردو داں حلقہ کو کالا جل والے شانی سے متعارف کرایا۔
شانی سے جانکی پرساد شرما کی ذہنی نسبت اور جذباتی قربت تھی اسی لئے انہوں نے شانی کے بکھرے ہوئے اوراق کو نہ صرف جمع و ترتیب کے پروسیس سے گزارا بلکہ ان پر ’شانی آدمی اور ادیب‘ کے عنوان سے کتاب لکھی اور ساہتیہ اکادمی کے ہندوستانی ادب کے معمار کے تحت ہندی اردو دونوں زبانوں میں مونو گراف لکھ کر شانی کی شفقتوں اور محبتوں کا قرض ادا کیا جبکہ آج کے صارفی اور مادی عہد میں زیادہ تر لوگ اپنی ماں اور ماٹی کا بھی قرض نہیں چکا پاتے۔ شرما جی نے اس مونو گراف میں جہان شانی کی خوب سیر کرائی ہے جس میں ان کے ذہن کی درونی اور بیرونی دونوں دنیائیں آباد ہیں۔ انہوں نے شانی کے شخصی کوائف اور تخلیقی آثار سے دونوں متعارض فریقوں کو روشناس کرانے کی عمدہ سعی کی ہے ۔
شانی جگدلپور موجودہ چھتیس گڑھ میں 16مئی 1933کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک جاگیردار گھرانے سے تھا مگر وقت اور حالات نے ساری جاہ و حشمت اور شان و شوکت چھین لی بالآخر تلاش معاش میں دربدر کی خاک چھاننی پڑی ملازمت کی راہ میں مذہب بھی آڑے آیا اور مسلم شناخت کی وجہ سے کرب و اذیت سے بھی گزرنا پڑا مگر ان آلام و آزار نے بھی ان کے اندر کٹر اندھی مذہبیت کو راہ نہ دی ۔
شانی کی کتھا یاترا لالہ جگدلپوری کے ایک غیر معروف رسالے سے شروع ہوئی اور پھر ہندی کے معتبر اور مقتدر رسائل میں کہانیوں کی اشاعت سے نوبھارت ٹائمز، سمکالین بھارتیہ ساہتیہ کی ادارت تک پہنچی۔ وہ صرف ایک کتھاکار نہیں تھے بلکہ صحافی بھی تھے اور انہوں نے ادبی صحافت میں نئے تجربوں کے ساتھ معتپریت کے نشانات بھی ثبت کیے۔ ان کی زندگی میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگتے گئے مگر ان کے دل میں صرف فرقہ وارانہ اتحاد یک جہتی اور حاشیائی طبقات کا درد ہی زندہ رہا۔ ان کے لیے مشترکہ تہذیبی وراثت کا تحفظ ہی سب سے اہم مسئلہ تھا ۔
جانکی جی نے شانی کی زندگی کے تمام احوال و حوادث اور زندگی کے نشیب و فراز کو بہت سلیقے سے بیان کیا ہے اور ان کے تخلیقی جہان کی سیاحت کرتے ہوئے ان کے پورے تخلیقی سفر کی روداد لکھی ہے۔ان کے اولین افسانوی مجموعہ ’ببول کی چھاؤں‘ اور آخری مجموعہ ’جہاں پناہ گل‘ کے افسانوں کے امتیازات و خصایص پر روشنی ڈالی ہے خاص طور پر ان افسانوں کی نشاندہی مع تجزیہ کی ہے جو مسلم اقلیت کے خوف و اندیشے اور مسلم جیون کے ثقافتی پہلووں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ آدی واسیوں کے مسائل اور سماجی رشتوں پر مبنی کہانیوں پر بھی تفصیل سے لکھا ہے۔رحیم چاچا، جلی ہوئی رسی، جگہ دو رحمت کے فرشتے آئیں گے، بھیتر باہر، ایک کمرے کا دکھ، یدھ، جنازہ، برادری، حاشیہ، دوزخی وغیرہ پر بہت عمدہ گفتگو کی ہے اور ان کہانیوں کے بطون میں شانی کی ذات ذہن اور ضمیر کو تلاش کیا ہے ۔
شانی کے شاہکار ناول کالا جل کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے انہوں نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کی حاشیائی زندگی کو مرکزی حیثیت عطا کرنے والا یہ پہلا ناول ہے یہ ایک مہابیانیہ ہے ۔
اس ناول کے علاوہ سانپ اور سیڑھی، ندی اور سیپیاں پر بھی بصیرت افروز تنقیدی گفتگو کی ہے اور ان کے موضوعات کردار اور بیانیہ پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے ۔
غیر افسانوی نثر کے ضمن میں شال دنوں کا دویپ ،ایک شہر میں سپنے بکتے ہیں پر مبسوط بات کی ہے ۔ نینا کبھی نہ دیٹھ، جو نوببھارت ٹائمز میں ان کے شائع کالموں کا انتخاب ہے، وہ ان کی روشنی طبع کا آئینہ دار ہے۔ ان میں شانی کاقلم فرقہ واریت، نظریاتی انتہا پسندی کے خلاف شمشیر برہنہ بن جاتا ہے، اس میں مہابھارت کا مسلمان، آکاش میں آنکھیں، ودھوا کھڑی نہائے، ایک سمادھی صلیب پر، ملیچھ کتھا ان کے چشم کشا اور بصیرت افزا مضامین ہیں جن سے عصری سیاسی اور سماجی منظرنامہ سے آگہی کی صورت بھی نکلتی ہے ۔
جانکی جی نے شانی کے متنوع تخلیقی سفر کی داستان نہایت سلیس اور خوبصورت پیرایہ میں لکھی ہے اس پورے تخلیقی اور ذہنی سفر میں، شانی کی ایک خاص بات یہ رہی وہ گلشیر خاں بن کر نہیں بلکہ شانی بن کر ہی رہے جبکہ آج کے عہد میں ساری جنگ جداگانہ شناخت اور مذہبی تشخص کو لے کر ہی ہے۔
جانکی پرساد شرما جمہوری افکار و اقدار کے حامل ہیں، اس لیے انھوں نے ہندی زبان و ادبیات سے مکمل وابستگی کے باوجود اردو زبان کے وکیل دفاع کی حیثیت سے بہت وقیع کارنامہ انجام دیا۔ اس تعلق سے ان کی کتاب ’رام ولاس شرما اور اردو‘ نہایت وقیع اور بصیرت افروز ہے۔ انھوں نے معروضی اور منطقی انداز میں اردو کے تعلق سے رائج غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے ازالے کی قابل تحسین کوشش کی ہے اور اردو مخالف احیاء پسند قوتوں کو دندان شکن جواب دیا ہے۔ زبان کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تقسیم اور سوچ کو مسترد کیا ہے۔ آج کی اس زہریلی فضا میں جانکی جی جیسی تعمیری اور مثبت صحت مند سوچ رکھنے والے بہت کم ہیں اس لیے ہمیں روشن خیال اور کشادہ ذہن رکھنے والوں کا دل سے احترام کرنا چاہیے اور ان کے روشن لفظوں کو ہر ذہن میں نقش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، یہی سب سے بہتر خراج تحسین ہوگا۔

You may also like