Home تجزیہ جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے -معصوم مرادآبادی

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے -معصوم مرادآبادی

by قندیل

ہندوپاک کی سیاسی قیادت کے بیانوں پر اعتبار کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بس اب چھڑنے ہی والی ہے۔دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے اپنے ہتھیاروں کو تیز کرنا شروع کردیا ہے، لیکن جنگ کے تباہ کن اثرات کے پیش نظر دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تیسری ایسی طاقت ضرور ہے جو جنگ روکنے کی کوشش کررہی ہے۔یہی وجہ کہ پہلگام حملے کو پورا عشرہ گزرجانے کے باوجود ابھی تک دونوں ملکوں کی مسلح افواج ایک دوسرے سے دست وگریباں نہیں ہوئی ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ جنگ شروع کرنا جتنا آسان ہوتا ہے، اسے ختم کرنا اتنا ہی مشکل۔ یوں بھی جنگ کسی مسئلہ کا حل اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ یہ خود ایک مسئلہ ہے۔ ساحر لدھیانوی نے بہت پہلے کہا تھا۔

خون اپنا ہو یا پرایا ہو، نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں، امن عالم کا خون ہے آخر

اس لیے اے شریف انسانو! جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں، شمع جلتی رہے تو بہترہے

وزیراعظم نریندر مودی نے پہلگام حملے کا انتقام لینے کے لیے فوج کو کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ گزشتہ منگل کو اپنی رہائش گاہ پر ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد انہوں نے کہا کہ”ملک کی فوج دہشت گردی سے نمٹنے اور پہلگام حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔ مسلح افواج کو اپنا ہدف، وقت اور طریقہ کار خود طے کرنا ہے۔“

اس اعلان کے ساتھ اب یہ طے ہوگیا ہے کہ ہندوستان کی مسلح افواج پاکستان کے خلاف موثر کارروائی کریں گی۔ پہلگام حملے کے بعدپورے ملک میں غم و غصے کی شدید لہرہے اور سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے۔ خود پاکستان کے وزیردفاع خواجہ محمدآصف نے ہندوستان کی جانب سے فوجی کارروائی کویقینی قراردیا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت ہند نے پہلگام میں 26 بے گناہ سیاحوں کی ہلاکت کے لیے پاکستان اور دہشت گردوں کی حمایت کی اس کی پالیسی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کا کہنا ہے کہ اس حملے کی سازش پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے تیار کی تھی اور وہی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔

پاکستان کے وزیردفاع خواجہ محمدآصف نے اپنی جانب سے کی گئی تیاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ”ہم نے اپنی مزیدفوجیں سرحد پر بھیجی ہیں، کیونکہ کچھ نہ کچھ ہونا یقینی ہے۔“ ایک پاکستانی وزیر نے تمام حدیں پارکرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی ہے،جو انتہائی غیرذمہ دارانہ بیان ہے۔ ظاہر ہے دونوں ہی حریف ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں، لیکن کسی بھی طرف سے ان کے استعمال کی بات کرنا مکمل تباہی کو دعوت دینا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی اپنی انتہاؤں پر ہے۔ دونوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف ایسے غیر معمولی اقدامات کئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں کئے گئے۔ دونوں ملکوں کے عوام کو جوڑنے والی اٹاری اور واگہ کی سرحدیں بند کردی گئی ہیں۔اس دوران سب سے زیادہ جذباتی اور تکلیف دہ مناظر وہ تھے جب بچوں کو اپنی ماؤں اور شوہروں کواپنی بیویوں سے جدا کیا گیا۔ غم والم کے ایسے مناظر سرحد پر کبھی نہیں دیکھے گئے۔ ہاں کئی بچوں کے ساتھ پاکستان سے فرار ہوکر ایک ہندونوجوان سے عشقیہ شادی رچانے والی ’سیما بھابھی‘اس سے مستثنیٰ ہے جسے حکومت کی ’شرن‘ حاصل رہے گی۔

یہ تمام باتیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ہندپاک سرحد پر جنگ کے مہیب بادل منڈلارہے ہیں اوریہ کسی بھی وقت برس سکتے ہیں۔ مگر یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اندرونی طورپر جنگ کے لیے تیار ہیں۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ظاہرہے جنگ کے میدان میں جانے سے پہلے کسی بھی ملک کو اپنی داخلی صورتحال پر توجہ دینی ہوتی ہے اور یہ باور کرانا ہوتاہے کہ ہم پوری طرح متحد ہیں، لیکن پہلگام حملوں کے لیے عام کشمیریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کو موردالزام قرار دے کر ان پر جو حملے کئے جارہے ہیں وہ انتہائی شرمناک اور تشویش ناک ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ پہلگام میں بے گناہ سیاحوں پر دہشت گردانہ کارروائی کی جتنی مذمت کشمیری عوام اور ہندوستانی مسلمانوں نے کی ہے، اتنی شاید ہی کسی اور نے کی ہو، لیکن اس کے باوجود جابجا کشمیری طلباء اور تاجروں پر ہونے والے حملوں اور عام مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پہلگام حملے کے لیے وہی قصوروار ہیں۔ وادی کشمیر میں اس وقت سیاحوں کی ہلاکت پر غم وغصے کا جو ماحول ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ وادی کے تمام لوگ دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں، کیونکہ ان حملوں کا سب سے منفی اثر یہاں کی سیاحت پرپڑا ہے جو کشمیریوں کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اتنا ہی نہیں پہلگام حملے کے بعدعام کشمیریوں نے سیاحوں کو جو مدد فراہم کی، وہ مہمان نوازی کی بہترین مثال ہے۔ یہاں تک کہ ایک کشمیری نوجوان نے دہشت گردوں کے ہاتھوں سے رائفل چھیننے کی کوشش میں اپنی جان بھی گنوائی۔ اس کے باوجود ان حملوں کے لیے کشمیریوں کو موردالزام ٹھہرانا کسی بھی طوردرست نہیں ہے۔

کشمیریوں کو اصل درد وہاں کی اسمبلی میں اس وقت چھلکا، جب وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے انتہائی جذباتی تقریر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوکر کہا کہ’’پہلگام دہشت گردانہ حملے میں 26جانوں کے زیاں کا درد کوئی اور اسمبلی یا پارلیمنٹ جموں وکشمیر اسمبلی سے بہتر نہیں سمجھ سکتی۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ”میرے پاس معافی مانگنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ اب میں کس منہ سے جموں وکشمیر کے لیے مکمل ریاست کا درجہ مانگوں گا؟“ پہلگام میں ہلاک ہونے والے سیاحوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اسمبلی میں جو قرارداد پاس کی گئی اس میں کہا گیا ہے کہ ” جموں وکشمیر کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ترقی کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے مذموم عزائم کو پوری طرح ناکام بنانے کے لیے اپنے غیر متزلزل عزائم کا اعادہ کرتی ہے۔“

جموں وکشمیر اسمبلی نے دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب ہی نہیں دیا بلکہ جس طرح سیاست کو پس پشت ڈال کر پورا ایوان متحد نظر آیا، اس سے دہشت گردوں کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ اتحاد،یکجہتی، خودمختاری اور سیکورٹی جیسے مسائل پر پورا ملک متحد ہے۔ لیکن جب ہم اس معاملے میں مرکزی قیادت کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ وہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔ جب وزیراعظم نریندر مودی پہلگام سانحہ پر بلائی گئی آل پارٹی میٹنگ چھوڑ کر بہار میں انتخابی ریلی کو خطاب کرنے پہنچتے ہیں اور اسٹیج پر بی جے پی کا انتخابی نشان سجاکر انگریزی میں دنیا کو پیغام دیتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کے بیان میں دردوالم سے زیادہ سیاست کارفرما ہے اور وہ اس کے ذریعہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو پوراکرنا چاہتے ہیں۔شایدیہی وجہ ہے کہ انھوں نے ابھی تک ملک کے عوام کو فرقہ واراریت سے اوپر اٹھ کر دہشت گردی سے لڑنے کی ترغیب نہیں دی ہے۔نہ ہی انھوں نے ملک کے عوام کو اس نازک گھڑی میں اتحاد اور یکجہتی کا کوئی پیغام دیا ہے۔کیا ان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں پہلگام کا انتقام مسلمانوں سے لینے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ سب سے پہلے ایک دہشت گرد نے آگرہ میں ایک مسلم نوجوان کی جان لے کر باقاعدہ ویڈیو پیغام جاری کیا کہ وہ 26 کا انتقام2600 سے لے گا۔ اس کے بعد بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی بال مکند نے جے پور کی جامع مسجد پرچڑھائی کی۔بعدازاں انبالہ میں مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور اترپردیش کے شاملی میں سرفراز نام کے ایک نوجوان کو کلہاڑی سے شدید زخمی کیا گیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان پے درپے واقعات پر ایکشن لینے کی بجائے پولیس انھیں دوسرا رخ دیتی ہوئی نظر آئی۔اس کے برعکس پہلگام حملے میں اپنے شوہر لیفٹیننٹ ونے نروال کی بیوہ ہمانشی نے کہا ہے کہ ”ان دہشت گردوں کو سزا ملنی چاہئے جنھوں نے بے گناہوں کی جانیں لی ہیں، لیکن مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز بیان نہیں دئیے جائیں۔“

اس سلسلہ میں کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے درست ہی کہا ہے کہ’’پاکستان اس حملے سے جو کچھ چاہتا تھا اسے سنگھ پریوار کی تنظیمیں پایہ تکمیل کو پہنچارہی ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیریوں کی روزی روٹی پر حملہ ہو، ملک میں ہندومسلم بھائی چارے پر حملہ ہو۔ اسی لیے مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا جارہا ہے۔“ ملک کے داخلی ماحول کو جس طرح خراب کیا جارہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم فی الحال جنگ کے لائق نہیں ہیں کیونکہ جنگ اسی وقت جیتی جاسکتی ہے جب ہم اندرونی طورپر متحد ہوں۔ داخلی اتحاد جنگ جیتنے کی پہلی شرط ہے، جو اس وقت ملک میں نظر نہیں آرہا ہے۔کاش ہم متحد ہوکر ہر قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کرسکیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like