Home مباحثہ جمعیت کا اجلاس ، ہندو انتہا پسندی کے خلاف کوئی قرارداد منظور کیوں نہیں کی؟ – عبدالباری مسعود 

جمعیت کا اجلاس ، ہندو انتہا پسندی کے خلاف کوئی قرارداد منظور کیوں نہیں کی؟ – عبدالباری مسعود 

by قندیل

یہ المیہ ہے کہ ویدک دھرم اور یہاں بسنے والے گروہوں واقوام اور سماجیات کے بارے میں ناقدانہ تجزیہ کرنے کی طرف ہمارے محققین اور اسکالرس نے بہت کم توجہ دی اور سب کو ایک ریوڑ کی طرح ایک لاٹھی سے ہانکا۔ بعض محقق صاحبان سے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ سناتن دھرم کی اصطلاح کا کب سے استعمال کرنا شروع ہوا۔ وہ یہ نہیں بتاسکے۔جبکہ یہاں کے اقوام کے لیے ہندو کی اصطلاح بقول سابق مرکزی وزیر و اسکالر ویرپا مؤلی ، جب برصغیر میں مسلم دور اقتدار شروع ہوا تو مالگزاری صیغہ میں یہاں آباد اقوام کے لیے کس مذہبی خانہ میں ڈالا جانے کا مسلہ درپیش ہواتو دربار کے عماءدین کے مشورہ سے یہ طے ہوا کہ ہند کی نسبت سے غیر مسلم اقوام کو ہندو لکھا جائے ۔

مولانا ارشد مدنی صاحب کی تقریر آر ایس ایس کےبیانہ”سب کے پوروج ہندو” تھے اس کی کاٹ کے اعتبار سے تو مؤثر ہے ۔ لیکن دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے مناسب نہیں ہے ۔ ویسے بھی دیوبندی بیشتر فارغین میں دعوت اسلامی کا تصور کمزور پایا جاتا ہے ۔ خود جمعیت کی سرگرمیوں کا محور و مرکز پیغام ربانی کو اللہ کے ان بندوں تک جن تک یہ نہیں پہنچا ہے کبھی نہیں رہا ہے۔

مولانا ارشد مدنی صاحب کا یہ اصرار کہ اللہ اور اوم ایک ہے اس سے ایک فتنہ کا دروازہ کھلنے کا قوی اندیشہ ہے ۔نیز منو کے حوالے سے بیان بھی دلت اقوام کو مسلمانوں سے متنفر کر سکتاہے۔

ایک آر ایس ایس نواز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا مدنی نے دین کو عقیدہ سے تعبیر کیا ہے وہ بھی موضوع بحث بن سکتا ہے ۔

آدم علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بے بنیاد بات بیان کرکے۔

آپ نے اپنے مضمون میں متعدد نکات کو اجاگر کیا ہے ۔

جمعیت اجلاس کے دوران جو قراردادیں منظور کی گئیں وہ بھی آپ کے مضمون کی تائید کرتی ہیں۔خصوصا دہشت گردی کے متعلق قرارداد ۔ یہ دونوں جمعیت ہی ہیں کہ جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف ملک میں جگہ جگہ جلسے کرکے اس خیال و مفروضہ یا perception کو تقویت پہنچائی کہ ملک میں جو بم دھماکہ کے واقعات ہو رہے تھے اس میں مسلمان ملوث ہیں۔ اور اس مفروضہ کا یہ نقصان ہوا کہ سینکڑوں مسلم نو جوان محض دہشت گردی کے شبہ میں جیلوں میں بند کر دیے گئے ۔

جبکہ بامبے ہائی کورٹ کے سابق جسٹس وکھے پاٹل کا یہ ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے جس میں وہ یہ مبینہ طور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سب دھماکے آر ایس ایس کے لوگوں نے کراءے۔ حال ہی میں آر ایس ایس کے ایک سابق کارکن نے ناندیڑ کی ایک عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے ان تمام دھماکوں کی دوبارہ جانچ مطالبہ کیا ۔اور اس نے آر ایس ایس کے بعض لیڈروں کا نام بھی لیا۔

اگر جمعیت ایک قراردادہندو نوجوانوں کو انتہاپسند یا radical ise بنانے ،اسلحہ چلانے کی تربیت دینے اور آتشی اسلحہ کی کھلے عام نمائشی کے خلاف بھی پاس کرتی تو بات سمجھ میں آتی ۔

اسی طرح جمعیت کو افغانستان اور فلسطین میں کیا ہورہا ہے اس کی بڑی فکر ہے اور یہ اچھی بات ہے لیکن اگر وہ کشمیر کے احوال پر بھی کوئی قراداد منظور کرتی۔ کیا کشمیر ہمارے ملک کا حصہ نہیں ہے؟ جس کی خاطر جمعیت کے قائد جنیوا میں جاکر موجودہ حکومت کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہے تھے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment