Home تراجم جامعہ کے طلبہ کے ساتھ پولیس کی زیادتی-چند گمبھیرسوالات

جامعہ کے طلبہ کے ساتھ پولیس کی زیادتی-چند گمبھیرسوالات

by قندیل

تحریر:اپوروانند(پروفیسردہلی یونیورسٹی،دہلی)
ترجمہ:نایاب حسن
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس نے جوکیا،اسے کیاکہاجائے؟کیاپولیس لااینڈآرڈربحال کرنے کا اپنا فرض نبھارہی تھی؟جب پولیس اہل کار لائبریری میں زبردستی گھس رہے تھے،کھڑکیاں توڑ رہے تھے، آنسوگیس اور مرچ کے گولے داغ رہے تھے،اندر گھس کر طلباوطالبات پر حملہ کررہے تھے،توکیاوہ لااینڈآرڈربحال کررہے تھے؟جامعہ کی وائس چانسلر نے بیان دیاہے کہ ان کی اجازت کے بغیر پولیس یونیورسٹی کیمپس میں گھسی اور وہاں موجودطلباپر حملہ کیا،وائس چانسلر سے پہلے چیف پراکٹر نے بھی بیان دیا کہ پولیس بغیر اجازت لیے احاطے میں گھس گئی،اس کا کیاجواب ہے پولیس کے پاس؟پولیس کابیان ہے کہ پہلے پتھر بازی ہوئی اور بسوں میں آگ لگائی گئی،اس کے بعد اس کے پاس طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا،جنھوں نے یہ کیاتھا،انھیں پکڑنے کے لیے انھیں جامعہ میں گھسنا پڑا۔ اگر پولیس اہل کاروں کے بیان کوہی مان لیں،توصاف ہے کہ تشددطلبانے نہیں کیاتھا،دن کے ساڑھے تین بجے احتجاج پرامن تھا،اس کے بعد کچھ غیر سماجی عناصر نے تشدد شروع کیا اور ایک بس میں آگ لگادی گئی۔اس بیان سے ظاہر ہے کہ پولیس طلباکو تشدد کے لیے ذمے دار نہیں مانتی ہے،پھر اس نے انتقامی جذبات کیساتھ جامعہ کیمپس پر حملہ کیوں کیا؟کیوں لائبریری اور ہاسٹل پر حملہ کیا؟کیوں پولیس طلباکویونیورسٹی احاطے سے نکال کر مجرموں کی طرح ہاتھ اوپرکرواتے اور پریڈکراتے ہوئے باہر لے گئی؟کیاان کے پاس ہتھیار تھے؟ان کی بے عزتی کرنے کا حق پولیس کوکس نے دیا؟جواحتجاج رات تک پرامن تھا،اس میں تشدد کیسے ہوا؟بس میں آگ کس نے لگائی؟یہ سب جانچ کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتا ہے؛لیکن جس کے لیے کسی جانچ کی ضرورت نہیں،وہ صاف ہے اور وہ ہے پولیس کی زیادتی۔پولیس جوکچھ کررہی تھی،وہ کوئی نظم وقانون کی بحالی نہیں تھی؛بلکہ احتجاج کی جرأت کرنے والے طلباکو سبق سکھانے کا عمل تھا،پولیس انھیں سزا دے رہی تھی،جواس کاکام نہیں ہے۔
نیوزویب سائٹ”دی وائر“نے اسپتال میں داخل جس طالب علم سے بات کی،اس نے بتایاکہ وہ اور کچھ دوسرے طلبا لائبریری میں پڑھ رہے تھے اور انھوں نے اندر سے دروازہ بھی بند کرلیاتھاکہ جلوس میں شامل کوئی شخص باہر سے اندر نہ آئے،تبھی پولیس نے دروازہ توڑدیا اور ان سب کو پیٹنا شروع کردیا،پیٹتے ہوئے انھیں باہر کھدیڑا گیا۔طالب علم نے بتایاکہ پولیس گالیاں دے رہی تھی،یہ خاص کر مسلمانوں کی تذلیل کرنے والی گالیاں تھیں،اس طالب علم کو پولیس نے سیڑھیوں سے نیچے ڈھکیل دیا،اس کا پاؤں ٹوٹ گیااور وہ چل نہیں پارہاتھا؛لیکن پولیس نے یہ زحمت نہیں کی کہ اسے اٹھاکر اسپتال لے جائے؛بلکہ اس سے بھاگنے کوکہا اور پیٹتی رہی،اسے اٹھاکر اسپتال لے جانے کاکام باقی طلبانے کیا،جنھوں نے اس کی چیخ سنی تھی۔ابھی وہ طالب علم ٹوٹے پاؤں کے ساتھ اسپتال میں ہے۔اس سے ایک بہت ہی بھولااور شاید ضروری سوال ایک صحافی نے کیا کہ پولیس نے ایسا کیوں کیا؟اس کا جواب پولیس کو سننا چاہیے اور اپنے بارے میں سوچنا چاہیے،اس نے کہاکہ اس کے علاوہ کیاوجہ ہوسکتی ہے کہ پولیس نے یہ سوچ لیاہے کہ مسلمان کو پیٹو!گالی دینے کو پولیس اہل کار اپنی تہذیب کا حصہ مان سکتے ہیں،شاید اس کے بغیر انھیں سامنے والے پر ظلم کرنے کی انرجی نہیں ملتی ہے،کیابغیر گالی دیے کسی کوماراجاسکتاہے؟آخر ہندوستانی پولیس اسے معمولی بات کیوں سمجھتی ہے؟
پولیس کے پاس اپنے بچاؤ کے لیے ایک وجہ ہے کہ بس میں آگ لگنے کی وجہ سے اسے سختی کرنی پڑی،اگراسے مان بھی لیں،توپولیس نے جوکیا،وہ سختی نہیں،ظلم تھا۔جس وقت یہ خبر آرہی تھی،اسی وقت یہ بھی معلوم ہواکہ پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطے میں گھس کر بھی طلباپر حملہ کیاہے۔بتایاگیاکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کوبلایاتھا۔جب پولیس کے اس تشددکو روکنے کی کوشش کی جارہی تھی،تولوگوں نے کہاکہ دہلی میں پولیس نے جوکیا،اس کے ساتھ ساتھ علی گڑھ میں بھی پولیس کارروائی ہوئی،اس کی ہدایت بہت اوپر سے تھی،توپولیس کی موقع کے مطابق خود فیصلے کی طاقت کاکیاہوگا؟
عام طورپر بھارت کی پولیس خود کو سسٹم کی غلام اورتابع مانتی ہے،عوام کووہ اپنا مخالف مانتی ہے اورجوکمزور ہے،کسی بھی طرح جس کی حیثیت کم ہے اسے کچلنا وہ اپنا فرض مانتی ہے۔بھارت میں دلت اور مسلمان سب سے کم سماجی حیثیت کے مانے جاتے ہیں؛اس لیے ان پر پولیس کی طاقت کا قہر جلدی اور آسانی سے گرتا ہے،اس وقت پولیس کے مظالم میں ایک قسم کی چستی و تیزی بھی دکھائی پڑتی ہے۔پولیس عوام کے احتجاج کو غیر ضروری اور ناجائز بھی مانتی ہے۔بھارت کے طلبانے دیکھاکہ ہانگ کانگ میں طلبااور عام شہریوں کا احتجاج کتنا لمباچلا،وہاں بھی پولیس نے کارروائی کی؛لیکن اس میں اور بھارت کی پولیس کے رویے میں خاص فرق دیکھاجاسکتا ہے۔
ابھی شہریت کے قانو ن میں تبدیلی کو لے کر جو بھی احتجاج ہورہاہے،کہاجاسکتاہے کہ وہ شمال مشرق(بہ شمول آسام)کوچھوڑدیں توزیادہ تر مسلمانوں کا احتجاج ہے،ان کے ساتھ وہ لوگ شامل ہیں،جنھیں مذہبی غیر جانب دار کہہ کر متہم کیاجاتارہاہے،عام ہندو،مسلمانوں کی تکلیف اورناراضگی کو سمجھ نہیں پارہا،اس کو کیسے سمجھایاجائے؟یہ کام کون کرے؟اگر پورا ہندی میڈیا سرکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا پرچارک ہوجائے،تو عوام کو صحیح خبریں اور معلومات کیسے ملیں؟انگریزی میڈیا میں پھر بھی اس قانون کی مذمت ہورہی ہے؛لیکن ہندی میڈیانے اس کی حمایت میں پرچار کوہی اپنا دھرم مان لیاہے،وہ خود کو ہندوتووادی میڈیا ہی مان کر چل رہاہے۔ایسی حالت میں ہندوعوام کوکون بتائے کہ مسلمان بھارت میں اپنی برابری کے حق کے لیے لڑرہے ہیں اور ان کا یہ حق توہے ہی،فریضہ بھی ہے۔جواپنی برابری کے حق کے لیے نہیں لڑتا، وہ انسان کیسے ہوسکتاہے؟

You may also like

Leave a Comment