Home تجزیہ جامعہ فائرنگ کی کرونولوجی سمجھیے-اشعر نجمی

جامعہ فائرنگ کی کرونولوجی سمجھیے-اشعر نجمی

by قندیل

 

سبھی جانتے ہیں کہ دہلی الیکشن قریب ہے اور چناوی پرچار کا بازار گرم ہے۔ یہ بھی سبھی کو علم ہے کہ ایک بار پھر کیجریوال کی جیت تقریباً طے ہے چونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں انھوں نے جو کام کیے ہیں، اس بنیاد پر وہ الیکشن میں اترے ہیں جس کی تائید دہلی کی عوام کررہی ہے۔ بی جے پی کے پاس چو نکہ اپنی رپورٹ کارڈ دکھانے جیسا کچھ نہیں ہے، بلکہ اس وقت پورا ملک اس کے خلاف سڑکوں پر اترا ہوا ہے، اس لیے امیت شاہ اور بی جے پی نے اپنا پرانا آزمودہ کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا یعنی انھوں نےوہی ہندو مسلمان، پاکستان، دیش بھکتی وغیرہ کا راگ الاپنا شروع کردیا جو بھکتوں پر تو اب بھی اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن عام جنتا اس سے بیزار ہوچکی ہے۔ لہٰذا جب یہ پتّہ بھی کام نہ آیا تو امیت شاہ نے اپنے پرچار کی سمت”شاہین باغ” کی طرح مقرر کردی تاکہ بھکتوں کو تھوڑا تازہ دم کیا جا سکے۔ جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب ہوتے گئے، امیت شاہ اور ان کے نیتاؤں کا شاہین باغ پر حملہ بڑھتا چلا گیا چونکہ اس وقت پورے ہندوستان میں جاری احتجاج کا یہ مرکزی استعارہ بن چکا ہے۔ پہلے تو امیت شاہ کے آئی ٹی سیل نے شاہین باغ میں بیٹھی عورتوں کو ‘بکاؤ’ کہا، پھر ان کے ایک نیتا نے کہا کہ پاکستان جانے کا راستہ شاہین باغ سے ہوتا ہوا جاتا ہے، پھر بی جے پی کے ایک اور لیڈر نے کہا کہ یہ الیکشن بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ کی طرح ہے، پھر خود امیت شاہ نے ووٹروں سے کہا کہ ایک طرف بھارت ماتا ہے تو دوسری طرف شاہین باغ ہے۔ گویا شاہین باغ یا دہلی بھارت کا حصہ نہیں اور جو سرکارکی مخالفت کرے وہ پاکستانی ہے۔ امیت شاہ کی زبان میں اتنی تیزی آگئی کہ انھوں نے اپنے عہدے کی عظمت کو ایک طرف لات مار کر ووٹروں سے یہ اپیل تک کردی کہ اس چناؤ میں ‘کمل ‘ (بی جے پی کا چناوی نشان) کے بٹن کو اتنے زور سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ یہاں سے جامعہ کی فائرنگ کی کرونولوجی کو سمجھیے۔

27 جنوری کو بی جے پی کے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے سر عام اپنے ووٹروں سے نعرہ لگوایا، "دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو”۔ اس وقت اس اسٹیج پر کئی بی جے پی کے وزیر موجود تھے جن میں مرکزی وزیر گری راج کشور بھی شامل تھے۔ سب خاموش رہے۔ پریس میں ہنگامہ مچا لیکن امیت شاہ، نریندر مودی اور پوری بی جے پی خاموش رہی۔ الیکشن کمیشن نے شکایت پر نوٹس لیا اور انوراگ ٹھاکر پر 96 گھنٹے کے لیے ان کے چناوی پرچار پر روک لگا دی۔ (اس کے بعد وہ اس طرح کے نعرے لگانے کے لیے آزاد ہوں گے۔) لیکن نہ تو دہلی پولیس نے انوراگ ٹھاکر کے خلاف کوئی کاروائی کی جب کہ Hate Speech پر آئی پی سی میں دفعات موجود ہیں اور نہ بی جے پی نے اپنے مرکزی وزیر کے خلاف کچھ بولا۔ ظاہر ہے خاموشی نیم حمایت ہی ہوتی ہے اور کبھی کبھی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بنتی ہے۔

لہٰذا اس حوصلہ افزائی نے اپنا کام کردکھایا۔ صرف دو روز پہلے ایک شخص پستول لے کر شاہین باغ میں گھس جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرپاتا، مقامی لوگوں نے اسے دھر دبوچا اور پولیس کے حوالے کردیا۔ اس واقعہ کے دو روز بعد جامعہ ملیہ پر جاری ایک پروٹیسٹ پر رام بھکت گوپال نامی شخص پستول سے حملہ آور ہوجاتا ہے، پولیس کھڑی دیکھتی رہتی ہے جب تک وہ اپنا ‘کام ‘ ختم نہیں کرلیتا۔ ویڈیو بہت صاف ہے وہ احتجاجیوں پر گولی داغ کر ہندوستان زندہ باد اور دہلی پولیس زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہوا دھیرے دھیرے پیچھے کھسکتا ہے ، اور اس کی سمت پولیس ہی کی طرف ہے جہاں وہ چپ چاپ کھڑی ہے۔ جب گوپال اور پولیس کے درمیان فاصلہ کم ہوجاتا ہے تو ایک افسر دو چار قدم بڑھ کر اس کی گردن میں اپنی بانہیں اس طرح حمائل کردیتا ہے جس طرح عموماً ایک عاشق اپنی معشوقہ کو بغلگیر کرتا ہے۔ میں نے ایسی دلبرانہ گرفتاری اس سے پہلے نہیں دیکھی۔ خیر پھر اس دہشت گرد کو پولیس کی وین میں بٹھا کر لے جایا جاتا ہے۔ جو طالب علم زخمی ہوا تھا، اسے اسپتال لے جانے کے لیے پولیس بیری کیڈ تک نہیں کھولتی، حتیٰ کہ اسے اپنے زخمی بازؤں کے ساتھ دوسر ے طلبا کی مدد سے بیری کیڈ پر چڑھ کر دوسری طرف جانا پڑتا ہے۔ اس حملے کے لیے جو تاریخ چنی گئی، کیا وہ محض اتفاق ہے یا وہ ناتھو رام گوڈسے کی تقلید میں کیا گیا۔ 30 جنوری کو ہی اس نے گاندھی جی کو گولی ماری تھی اور اسی تاریخ کو جامعہ میں گوڈسے کے ایک بھکت نے گولی چلا کر گوڈسے کو شردھانجلی دی۔ گاندھی نے گولی کھا کر زمین پر گرتے ہوئے ‘ہے رام’ کہا تھا جب کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا پر ‘جے شرمی رام’ کا نعرہ لگا کر رام بھکت گوپال نے گولی چلانے کا پنیہ کام کیا۔

یہ منظر نامہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔ ہم اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جے این یو اور خود جامعہ ملیہ میں یہ سب دیکھ چکے ہیں۔ امیت شاہ ٹوئٹ پر وہی رٹا رٹایا فقرہ دہراتے ہیں کہ انھوں نے دہلی پولیس کو حکم دے دیا ہے کہ اس متشددانہ کاروائی سے سختی سے نمٹا جائے اور مجرم کو بخشا نہ جائے۔شاید ان کی مراد یہ ہو کہ بالکل اسی طرح جس طرح جے این یو کے نقاب پوشوں کو آج تک بخشا نہیں گیا یا پھر اس سانحہ کے ‘پریرک’ انوراگ ٹھاکر کو بخشا نہیں گیا۔ واضح رہے کہ امیت شاہ اس دہلی پولیس کو حکم دے رہے ہیں جو اس وقت کچھ ہی فاصلے پر کھڑی ہاتھ باندھے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس پر ہنسا جائے یا تھوکا جائے، میں فیصلہ نہیں کرپا رہا ہوں؟ اس لیے اب پولیس کاروائی کے نام پر جو کرے گی، وہ بھی عیاں ہے، چلیے اس کی بھی کرونولوجی سمجھ لیتے ہیں:

(1) رام بھکت گوپال کو ذہنی مریض ڈکلیئر کردیا جائے گا۔

(2) بی جے پی پلہ جھاڑ لے گی کہ اس حادثے کا تعلق انوراگ ٹھاکر سے نہیں ہے۔

(3) پولیس کہے گی کہ اس پر جو الزام لگایا جارہا ہے وہ غلط ہے، حادثے کے وقت ہم کافی دور تھے۔

(4) پولیس گوپال کے ساتھ جامعہ کے زخمی طالب علم کے خلاف بھی مقدمہ ٹھوک دے گی کہ وہ گولی کے راستے میں آگیا تھا۔

(5) گودی میڈیا جامعہ ملیہ کے طلبا کو ‘ٹکڑے ٹکڑے گینگ’ میں شامل کرلے گی اوراس پر حملہ بول دے گی۔

(6) کچھ دنوں بعد یہ کیس بھی جامعہ، جے این یو اور علی گڑھ کی طرح ٹھنڈے بستے میں چلا جائے گا اور ایک نئی جگہ نئی کاروائی ہوگی۔

مجھے شک ہے کہ جامعہ میں ہونے والا یہ سانحہ دو روز پہلے شاہین باغ میں ہونے والا تھا جو ان کی بدقسمتی سے فلاپ ہوگیا ، لہٰذا اسی کے قریب جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں اس ادھورے کام کو انجام دیا گیا۔ خیر، دہلی کا الیکشن جیسے جیسے قریب تر ہوتا جائے گا، اس طرح کے حملوں میں تیزی آتی جائے گی۔ بہرحال انھیں دہلی کا الیکشن جیتنا ہے چونکہ بات صرف دہلی کی نہیں بلکہ ان کی مونچھ کا مسئلہ ہے۔ یہ جھاڑکھنڈ جیسی شکست نہیں ہوگی بلکہ دہلی میں ہارنے کا مطلب ہے پورے ملک میں شاہین باغوں سے ہارنا ہے جس سے ان کے بھکتوں کے حوصلے پست ہوں گے۔ لہٰذا اس وقت بی جے پی اور امیت شاہ کیجریوال سے نہیں، شاہین باغوں کی عورتوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس لیے میری شاہین باغ کی عورتوں اور بطور خاص ان کے والنٹیئرز سے گزارش ہے کہ وہ شاہین باغ میں ان عورتوں کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ سخت کردیں، کچھ ایسا بندوبست کیجیے کہ اس میں باہر سے شامل ہونے والے ہر شخص پر آپ چوبیس گھنٹے نظر رکھ سکیں، خواہ وہ کوئی عورت ہو یا داڑھی ٹوپی والا کوئی بندہ ہی کیوں نہ ہو۔ ممکن ہو تو کچھ CCTV لگا کر اس کے مانیٹر پر کچھ لوگوں کو معمور کردیں۔ اسی طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبا کو بھی مزید محتاط اور چوکنے رہنے کی ضرورت ہے۔

خیر، اب آئیے اس پرانے منظر نامے پر ایک نئے رنگ کے کچھ چھینٹے دیکھتے ہیں۔ پرانی کہاوت ہے کہ گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ اس منظر نامے میں گیڈر جامعہ ملیہ کی طرف بھاگا اور اس نے خود کشی کرلی۔ کیسے؟ میں بتاتا ہوں۔

اس سانحے کے بعد میں نے فوراً رام بھکت گوپال کے فیس بک پروفائل کو چیک کیا۔ظاہر ہے وہاں اس کے کارنامے پر بھکتوں کا مجمع لگا ہوا تھا، یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں۔ جو بات مجھے غیر متوقع لگی، وہ یہ تھی کہ بی جے پی اور CAA کے سپورٹربھی ایک اچھی خاصی تعداد میں اسے لعنت ملامت کررہے تھے۔ وہ صاف اور واضح انداز میں اس کی پروفائل میں کہہ رہے تھے کہ وہ بے شک شاہین باغ کے خلاف ہیں، سی اے اے کے سپورٹر بھی ہیں لیکن تم نے ہم سب کا سر جھکا دیا اور ہمارے کام کو بگاڑ دیا۔ ٹوئٹر میں بھی مجھے یہی نظارہ نظر آرہا تھا۔ گوبر بھکتوں کو چھوڑیے، وہ کبھی نہیں سدھریں گے لیکن جامعہ فائرنگ نے کئی بھکتوں اور ساتھ ہی بے جے پی ووٹروں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہی حال گودی میڈیا کا بھی ہے، ارنب گوسوامی کے ‘ریپبلک ‘ کو کنال کامرا پر چھوڑیے، اب تو ارنب گوسوامی جہاز پر چڑھنے سے پہلے مسافروں کی لسٹ بھی چیک کرے گا کہ اس میں کنال کامرا تو شامل نہیں ہے۔ ‘انڈیا ٹوڈے’ چینل کے راہل کنول نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں امیت شاہ کے بیان کا جواب دیتے ہوئے وہ تصویر لگائی جو اس پوسٹ میں شامل ہے۔ یہی وہی راہل کنول ہیں جنھوں نے اپنے چینل میں جے این یو پر نقاب پوشوں کے حملے کی نقاب کشائی کی تھی اور بھکتوں سے پیٹ بھر کے گالیاں سنی تھی۔ میں زیادہ خوش فہمی میں نہیں ہوں، لیکن اتنا تو ہے کہ جامعہ فائرنگ بی جے پی کو دہلی جیتنے کا موقع تو کیا اس کا راستہ مزید مسدود کردے گی چونکہ اس کا وار الٹا پڑ گیا۔ امیت شاہ اور بی جے پی آج اسی گڑھے میں نظر آ رہے ہیں جو انھوں نے شاہین باغ کی عورتوں، احتجاجیوں اور کیجریوال کے خلاف کھولا تھا۔ اب تو بس ان کے پاس اس ذلت آمیز شکست سے بچنے کا ایک ہی راستہ باقی ہے کہ وہ کسی طرح اس الیکشن کو ملتوی کرادیں تاکہ بچی کھچی عزت محفوظ رہ جائے اور ممکن ہے کہ وہ عنقریب یہ ‘جگاڑ’ لگا بھی دیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment