اپنے بارے میں لکھنا میرے لیے ہمیشہ پہاڑ جیسا رہا ہے۔ مجھے اس سے نر گسیت اور بڑ بولے پن کی بو آتی ہے ۔ایسے بھی ہمارے معاشرے میں اسے اپنے منہ میاں مٹھو بننا کہتے ہیں۔ شریفوں کی محفل میں بھی اسے اچھا نہیں گردانا جاتا لیکن میں اپنے ان دوستوں کا کیا کروں جن کی محبتیں میرے قلم کو رواں کر دیتی ہیں اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر پاتا ۔ میں نے اپنے کالموں کے اس مجموعہ کو اشاعت سے پہلے اپنے دوست اور جامعہ کے دنوں میں میرے قریبی رہے محمد علم اللہ، جو ان دنوں جامعہ میں ہی میڈیا مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، کو بغرض مشاورت دیا تو انھوں نے گذارش کی کہ میں ان یادوں کو بھی رقم کروں جو جامعہ کے شب و روز سے جڑی ہیں اور جہاں کے علمی و ادبی ماحول نے میرے قلم کو جلا بخشی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جامعہ اور دلی کی صحافت کی وادی میں گذارے ہوئے لمحات کو چند کالموں یا صفحات میں نہیں سمیٹا جا سکتا ، پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں اس لئے کہ یہ ایک دوست کی فرمائش ٹھہری۔ ایسے بھی محمد علم اللہ سے کون ناراضگی مول لے سکتا ہے۔ جانے کب شورش کاشمیری کی طرح ان کا قلم بھڑک اٹھے اور وہ کوثر نیازی سمجھ کر میرے بخیے ادھیڑ دیں۔ ان کے بار بار اصرار پر مجھے یہ تحریر لکھنی پڑ رہی ہے ۔
اجنبی کیمپس:
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بطور طالب علم میں نے پانچ برس گزارے۔ پہلے ماس میڈیا میں آنرس کیا اور پھر ماس کمورنی کیشن میں ماسٹرز۔ لکھنے پڑھنے کی عادت کو اس عرصے میں خوب جلا ملی۔ شفیق اساتذہ اور باصلاحیت ساتھیوں کے ساتھ گزرا وہ دور میرا سرمایہ ہے۔ نیا نیا جامعہ میں داخل ہوا تو ایک جھجک تھی۔ قصبہ کے انٹر کالج سے نکل کر سیدھا یونیورسٹی کیمپس آیا تھا، اس لئے سب کچھ خواب سا لگتا تھا۔ یہاں سے وہاں تک پھیلا ہوا کیمپس اور اس میں پڑھنے والے ہزاروں نوجوانوں کی چہل پہل میرے لئے اجنبی دنیا تھی۔ شعبہ کے اساتذہ میں پروفیسر رحمان مصور صاحب بھی شامل تھے۔ جامعہ کے اجنبی ماحول میں وہ پہلی شخصیت تھی جس نے میرے اجنبیت کے احساس کو کم کیا۔ مصور صاحب نے جب ہماری کلاسیں لینا شروع کیں تو کریٹیو رائٹنگ (تخلیقی ادب) کے نئے دریچے کھلے۔ انہوں نے ایسے اسائنمنٹ دیئے جن میں واقعہ نگاری کے مختلف رنگوں سے آگاہی، مشاہدات کے بعد تحلیل و تجزیہ کا عمل اور الگ الگ میڈیم کے لئے لکھنے کا باریک فرق سمجھنے جیسے پہلو شامل ہوتے تھے۔ کچھ تو مصور صاحب کی شفقت اور کچھ میری جسارت کہئے کہ میں لیکچر کے علاوہ بھی ان کے چیمبر میں پہنچ جاتا۔ اس طرح ان کی علمی گفتگو سے زیادہ فیض اٹھانے کی راہ نکل آئی۔
کیمپس لائف کے بالکل شروع میں جو لوگ دوست بنے ان میں محمد علم اللہ بھی تھے۔ وہ مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ سے فضیلت کرنے کے بعد شعبۂ تاریخ میں گریجویشن میں داخل ہوئے تھے۔ میری طرح کیمپس ان کے لئے بھی اجنبی تھا، اس لئے جلد ہی میری ان سے گاڑھی چھننے لگی۔ یونیورسٹی لائف کا میرا مشاہدہ ہے کہ جب کوئی طالب علم اجنبی کیمپس میں پہلی بار داخل ہوتا ہے تو وہ بلا ضرورت بھی لائبریری میں پڑا رہتا ہے۔ وہاں آنے والے اخبارات، رسالے اور کتابیں اجنبیت کا احساس مٹاتی ہیں۔ علم اللہ اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ہم دونوں اجنبی ماحول سے مانوس ہونے کی تگ و دو میں لائبریری میں زیادہ رہا کرتے تھے۔ وہیں پر ایک صبح میری علم اللہ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک دبلا پتلا نوجوان کسی اخبار کے لئے مراسلہ تحریر کر رہا ہے۔ عنوان تھا ‘جامعہ پر الحاد کا سایہ’۔ میں نے انہیں مخاطب کرنے کے لئے سلام کیا اور بات چیت شروع ہوئی۔ تعارف کے بعد کھلا کہ یہ مراسلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن کے خلاف ہے۔ اب یہ تو یاد نہیں کہ اس میں کیا شکایت درج تھی لیکن وہاں سے ہماری دوستی شروع ہو گئی۔
یہ زمانہ وہ تھا جس میں جامعہ میں علمی سرگرمیاں شباب پر تھیں۔ پروفیسر مشیر الحسن کی قیادت میں یونیورسٹی جدید رنگ روپ لے رہی تھی۔ پروفیسر مشیر الحسن نے تعلیمی میلے کو بڑھاوا دیا تاکہ طلبہ کی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ اظہار ہو سکے۔ یہ تین روزہ جشن یوم تاسیس کی مناسبت سے ہوتا تھا جس میں تعلیمی تقریبات، کتابوں کی نمائش، مشاعرے، بیت بازی، مباحثے غرض ہر طرح کے پروگرام ہوا کرتے تھے۔ کئی شعبوں کے طلبہ اس مناسبت سے ایک خبر نامہ بھی ترتیب دیا کرتے تھے۔ مشیر صاحب ایک ایک اسٹال پر خود جاکر طلبہ سے ملا کرتے تھے۔ ہر ایک شعبہ میں لیکچرس، سمپوزیئم، سمینار اور کانفرنسیں تواتر سے ہوا کرتی تھیں اور بڑی بڑی شخصیات آئے دن کیمپس میں مہمان ہوا کرتیں۔ اسی زمانے میں امرتیہ سین، دلائی لاما، کلدیپ نیر ، ارون دھتی رائے، سید حامد، اصغر علی انجینئر اور حامد انصاری جیسی عبقری شخصیتوں کو سننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔
دو لکھاری:
علم اللہ اور مجھے دونوں کو ہی لکھنے کا شوق تھا اس لئے ہم کلاسوں سے فارغ ہوتے ہی لائبریری میں آ بیٹھتے اور گھنٹوں گفتگو کرتے۔ ہم اخبارات میں چھپنے والے مضامین پر تبادلۂ خیال کرتے، بین الاقوامی جریدوں کے مواد پر بات کرتے، لکھنے کے لئے موضوعات طے کرتے اور یہ بھی بات کیا کرتے کہ کیمپس میں کہاں کون سا سمینار یا مذاکرہ ہو رہا ہے؟۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی بار تو لائبریری میں سب سے پہلے پہنچنے کا ہم دونوں میں جیسے مقابلہ ہوتاتھا۔ ہم لائبریری پہنچتے ہی سب سے پہلے اخباروں پر قبضہ جماتے ۔ یہاں سے فارغ ہوتے تو کینٹین چلے جاتے یا پھر اپنی اپنی کلاسوں کا رخ کرتے۔
پڑھائی کے دوران ہی ہم دونوں نے دو اخبارات میں شوقیہ رپورٹنگ بھی شروع کر دی۔ دراصل کیمپس میں ہونے والی تقریبات میں تو ہم جاتے ہی تھے، بس اسی کی روداد لکھ کر اپنے اپنے اخبار کو بھجوا دیا کرتے تھے ، جسے وہ بائی لائن چھاپ دیتے تھے۔ اپنے اپنے شعبوں میں ہماری کچھ اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی کہ ہم ایکسٹینشن لیکچر جیسے معمول کے پروگرام کو بھی بنا سنوار کر کئی اخباروں میں رپورٹ کرا دیا کرتے تھے۔ کبھی کسی پروفیسر یا ذمہ دار کی کوئی بات بھلی نہ لگی تو انھیں ہمارے قلم کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑ جاتا۔ کیسی کیسی شرارتیں ہم کیا کرتے تھے ، اب ان ایام کو سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے ۔
یاد آتا ہے کہ ایک دفعہ شعبۂ اردو کی طرف سے انصاری آڈیٹوریم میں تقریری مقابلہ ہوا۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی شعبہ کے صدر ہوا کرتے تھے۔ آخر میں انہوں نے صدارتی تقریر میں کہا کہ کچھ شرکا نے تقریر شروع کرنے سے پہلے سلام کیا جوکہ سیکولرزم اور ڈبیٹ کی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ میں اور علم اللہ مجمع میں بیٹھے تھے۔ پروگرام ختم ہوتے ہی ہم نے اس بیان کو خبر بناکر اپنے اپنے اخباروں کو بھیج دیا۔ اس خبر کی سرخی تھی ‘سلام کرنا سیکولر اقدار کے خلاف’۔ اس خبر میں بگھار لگانے کی غرض سے ہم یہ وضاحت کرنا نہیں بھولے تھے کہ پروفیسر شمس الحق عثمانی دارالعلوم دیوبند سے سند یافتہ ہیں۔آج وہ بات سوچ کر ہنسی بھی آتی ہے اور حیرانی بھی ہوتی ہے کہ اس بات کو ہم نے خبر کیوں بنایا تھا؟ اب احساس ہوتا ہے کہ جس بات کو ہم نے اس وقت خبر سمجھا تھا اس میں کچھ بھی بتانے والا نہیں تھا۔
جامعہ میں تہذیب نامی اسٹوڈینٹ میگزین نکلا کرتی تھی جس میں طلبہ کی نگارشات شامل ہوتیں۔ یہ میگزین تین زبانوں میں ہوتی تھی۔ میں نے اس میگزین کے لئے ایک ہندی کہانی اور ایک بار ایک مضمون لکھا تھا۔ ہمارے شعبہ میں پروفیسر عبدل بسم اللہ اور پروفیسر اصغر وجاہت جیسی بین الاقوامی سطح کی شخصادت تھیں اس لئے علم و تخلیقیت کا چرچہ زوروں پر تھا۔
ایک بزرگ دو رویے:
گریجویشن کے زمانے میں ہماری فیکلٹی کے ڈین معروف مؤرخ پروفیسر عریز الدین حسین ہمدانی ہوا کرتے تھے۔ بظاہر بڑے چھریرے بدن کے ہلکے پھلکے انسان لیکن تاریخ و ثقافت پر بڑی بھاری دسترس تھی۔ تصوف ان کا محبوب موضوع تھا۔ 2010 کے جولائی میں لاہور میں شیخ علی ہجویری کے مزار ‘داتا دربار’ پر خودکش حملہ ہوا جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔ عزیز الدین صاحب پر اس واقعے سے جو گھاؤ لگا اس کا انہوں نے بڑا منفرد مرہم تلاش کیا۔ انہوں نے جامعہ کی طرف سے شیخ علی ہجویری کی حیات و خدمات پر بین الاقوامی سمینار کرایا۔ دنیا بھر سے مقالہ نگار آئے اور داتا صاحب کی زندگی اور خدمات پر بات ہوئی۔عزیز الدین صاحب نے مجھ سے ایک بار کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی سمینار ہماری طرف سے یہ پیغام تھا کہ اگر اس عظیم بزرگ کے بارے میں سرحد کے اس طرف ایسا وحشیانہ رویہ ظاہر کیا گیا ہے تو بھارت اس بزرگ کی حیات و خدمات کے بارے میں دنیا کو بتائے گا۔
نوکر کا انتقام:
ماضی کے نگار خانے کی بات چل ہی پڑی ہے تو یاد آیا کہ غالب کے مجسمہ سے ذرا آگے ایک سینٹرل کینٹین ہوا کرتی تھی جہاں دن بھر طلبہ کا جمگھٹ رہتا تھا۔ کینٹین والے نے مزید کمائی کے لئے کینٹین کے باہری حصے میں ٹین کے سائبان تلے بھٹی لگوا دی اور امرتسری نان بیچنا شروع کر دیئے۔ ایک تو دہکتا ہوا تندور اس پر دوپہر کے سورج سے تپتے ٹین کے سائبان کی گرمی کی وجہ سے وہاں تعینات ملازم کی حالت تباہ ہو جاتی تھی۔
امرتسری نان خریدنے کے لئے اندر جاکر مالک سے کوپن لینا ہوتا تھا جسے دیکھ کر باہر تندور پر کھڑا ملازم نان تیار کرکے دیا کرتا تھا۔ وہ ملازم چند ہی دنوں میں نوکری چھوڑ گیا۔ اب کینٹین والے نے اندرونی حصے میں کام کرنے والے ایک لڑکے کو اس تندور پر لگا دیا۔ ظاہر ہے وہ بے چارہ انکار نہیں کر سکتا تھا لیکن اپنے مالک پر سخت غصہ ضرور تھا۔ اس کے دل کی آگ دوپہر کے سورج کی تپش اور بھٹی سے مزید بھڑک اٹھتی تھی۔ آخرکار اس نے اپنے مالک سے انتقام کی راہ نکال ہی لی۔ اب وہ یہ کرتا کہ ایک نان کی پرچی پر دو نان دینے لگا تاکہ مالک کا بھٹا بیٹھ جائے۔ ایک بار میں نے اسے پرچی دی تو اس نے مجھ سے پوچھا کتنے نان دے دوں؟۔ میں اس سوال پر حیران ہوا لیکن پھر پتہ چلا کہ اصل واقعہ کیا ہے۔
صحافتی محفلیں:
طالب علم ہونے کے وجہ سے اس وقت ہمارے وسائل محدود تھے اس لئے رپورٹ بھیجنے کے لئے انٹرنیٹ کیفے جانا پڑتا تھا کبھی کبھار لائبریری کے انٹرنیٹ سیکشن سے بھی خبریں روانہ کی جاتی تھیں۔ میں ‘ہندوستان ایکسپریس’ نامی اخبار میں رپورٹنگ کرتا تھا جبکہ علم اللہ کی خبریں ‘صحافت’ میں چھپا کرتی تھیں۔ ہندوستان ایکسپریس کے ایڈیٹر احمد جاوید صاحب ہوا کرتے تھے جو بعد میں روزنامہ انقلاب کے مدیر بن کر پٹنہ چلے گئے۔ احمد جاوید دلی کی اردو صحافت میں باصلاحیت مدیروں میں سے تھے۔ مقامی سے لے کر عالمی معاملات تک پر ان کی غیر معمولی دسترس تھی۔ اس پر ان کا انداز تحریر غضب تھا۔ اتوار کے اتوار ‘فکر فردا’ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ شاید ہی ان کا کوئی کالم ایسا رہا ہو جسے پڑھ کر دل خوش نہ ہو ا ہو۔ اب وہ اسی نام سے انقلاب میں ہر اتوار کو کالم لکھتے ہیں۔
میرے مضامین کو احمد جاوید صاحب بڑے اہتمام سے شائع کرتے۔ چونکہ میں ان کے اخبار کے لئے خبریں بھی بھیجتا تھا اس لئے ان سے مزید قربت رہی۔ احمد جاوید صاحب کے ساتھ بیٹھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں اور علم اللہ اکثر شام کو ان کے دفتر جایا کرتے تھے جہاں ان سے کافی گفتگو رہتی۔ دیر شام تک ہماری وہاں محفل جمتی اور ہم اس وقت اپنے اپنے گھروں کو واپس جاتے جب اخبار کے دفتر میں کام کا دباؤ بہت بڑھ جاتا اور ہم دیکھتے کہ ان کے ماتحتین ہدایات لینے کے لئے بار بار آ رہے ہیں۔ واپسی میں بھی ہم باتیں کرتے جاتے ،جن میں صحافت سے سیاست تک نہ جانے کتنے موضوعات زیر بحث آتے ۔
ہندوستان ایکسپریس سے کئی دلچسپ شخصیات وابستہ تھیں جن میں شاہد الاسلام صاحب بھی شامل تھے۔ دیکھنے میں سیدھا سادہ سا نوجوان، بظاہر سب سے بے پرواہ سا لیکن آپریٹر کو اس روانی سے کالم املا کرا رہا ہوتا تھا کہ حیرانی ہوتی۔ ان کے کالم کا نام بجا طور پر ‘برجستہ’ تھا۔
اخبار کے معاون مدیران میں ایک صاحب سعید اختر اعظمی بھی تھے۔ بڑی باغ و بہار شخصیت، لیکن خبروں کی ایڈیٹنگ کرتے وقت ایسا معلوم ہوتا جیسے عروض کے پیمانے پر لفظوں کی کاٹ چھانٹ کر رہے ہوں۔ کبھی کبھی تو دل کرتا کہ ان کی دراز میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ کہیں کمال احمد صدیقی کی ‘آہنگ اور عروض’ تو نہیں دھری؟
اس وقت دلی کے اردو اخباروں میں اپنی خبر اور اپنا مواد شائع کیا جائے اس پر بڑا زور ہوتا تھا۔ آج کی طرح کاپی پیسٹ یا ہندی انگریزی کا چربہ نہیں چلتا تھا۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے دلی کی اردو صحافت کو آخری سانس لیتے ہوئے دیکھنے والی آنکھیں ہمارا ہی مقدر بنی ہیں۔
ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر:
اخبار کی دنیا سے باہر پہلا قدم ریڈیو میں رکھا اور طالب علمی کے دوران ہی ریڈیو تہران کے لئے جز وقتی رپورٹنگ شروع کر دی، بعد میں ایران کے سحر ٹی وی چینل سے وابستگی ہوئی۔ گریجویشن پورا ہوا تو جامعہ کے ہی انور جمال قدوائی ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر میں اعلی تعلیم کے لئے داخل ہو گیا۔ یہ ریسرچ سینٹر اپنے ماحول اور وسائل کے اعتبار سے بین الاقوامی معیار کا ادارہ ہے۔ اس ادارہ سے مجھے جتنا کچھ سیکھنے کو ملا اس کے اظہار کے لئے صفحے کے صفحے درکار ہوں گے۔ یہ سینٹر فلم سازی اور ٹی وی پروڈکشن کی تربیت کے ممتاز ترین اداروں میں شامل ہے۔ بھارت میں پرائیویٹ ٹی وی نیوز چینل کے شعبہ میں آنے والی پہلی کھیپ ہی جامعہ کے اس مرکز کی تیار کردہ ہے۔ فلمی دنیا کے صف اول کے کئی ہدایت کار بھی یہیں سے نکلے۔ ان میں کبیر خان، کرن راؤ، حبیب فیصل اور نشٹھا جین شامل ہیں۔ میرے دور طالب علمی میں ان میں سے کچھ فارغین ایم سی آر سی آئے بھی اور ان سے تعلیم کے بعد کی منزل کو جاننے کا موقع بھی ملا۔
ایم سی آر سی میں پروفیسر جی آر سید ریڈیو کے شعبہ کے سربراہ تھے۔ چونکہ وہ خود معروف فکشن نگار ہیں جنہیں اردو دنیا غیاث الرحمان کے نام سے جانتی ہے ،اس لئے انہوں نے ریڈیو اسکرپٹنگ پر خصوصی توجہ دلائی، ریڈیو جامعہ میں مستقل پروگرام کرنے کی تحریک دی اور میری تحریروں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔ سید صاحب ان شفیق اساتذہ میں شامل ہیں جنہوں نے میری تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی مجھ پر وہی نظر عنایت رکھی۔
جامعہ کمیونٹی ریڈیو:
ریڈیو کی بات نکلی تو یاد آیا کہ جامعہ کمیونٹی ریڈیو ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر کے احاطے سے نشر ہوتا تھا۔ پروفیسر جی آر سید صاحب ہی اس کے سربراہ تھے۔ پروڈیوسر ڈاکٹر شکیل اختر صاحب اور ان کے دو معاونین ہمایوں حسان آروزو اور عبد الخالق صاحبان بڑی دلجمعی سے ریڈیو کی معیاری نشریات یقینی بناتے تھے۔ ریڈیو کی نشریات صبح دس بجے شروع ہوتیں جو شام پانچ بجے تک چلا کرتی تھیں۔ دوپہر دو بجے ایک گھنٹہ بزم غزل پروگرام کا ہوتا تھا جس میں علمی و ادبی میدان میں ہو رہی پیش رفت کی جانکاریاں اور یونیورسٹی کی سرگرمیاں وغیرہ زیر بحث رہتیں۔ زمانہ طالب علمی میں اکثر اس پروگرام کی میزبانی میں ہی کیا کرتا تھا۔ شریک میزبان کے طور پر علم اللہ یا کوئی اور ساتھی بھی موجود رہا کرتے تھے۔
ریڈیو جامعہ کو سننے والے باذوق سامعین براہ راست ٹیلی فون کرکے نشریات کا حصہ بنا کرتے تھے۔ ہماری نشریات کو کیسی کیسی شخصیات سنتی تھیں اس کا احساس دو مواقع پر ہوا۔ ایک بار میں نے بیکل اتساہی کے دوہوں پر گفتگو کی۔ اتساہی صاحب اس وقت بقید حیات تھے اور جامعہ کے پڑوس میں بسے اپنے بیٹے کے یہاں مقیم تھے۔ اتفاق دیکھیئے کہ وہ گفتگو انہوں نے سنی۔ ان کی تحریک پر پروگرام کے دوران ہی ان کے صاحبزادے نے ہمیں فون کیا اور پسندیدگی ظاہر کی۔
ایک بار کسی پروگرام کے دوران علم اللہ نے مجھے باتوں ہی باتوں میں کہا ‘آپ تو اردو کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں’۔ اتفاق سے وہ پروگرام پروفیسر صغری مہدی مرحومہ سن رہی تھیں۔ انہیں وہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے یونیورسٹی کے ایک اعلی اہکار کو فون کرکے شکوہ کیا کہ دیکھو یہ دو لڑکے کیا کہ رہے ہیں؟ اگر یہ انسائیکلو پیڈیا ہیں تو ہم کیا ہیں؟۔ اس اہلکار نے ہنس کر بات ٹال دی اور بعد میں ہمیں خبر دی کہ بھائی ذرا سنبھل کر بولا کرو لوگ لفظ پکڑ لیتے ہیں۔
بہتا دریا:
ایم سی آر سی سے مجھے حاصل ہونے والا ایک اور سرمایہ پروفیسر متین احمد صاحب ہیں۔ خالص تکنیکی مضمون ساؤنڈ کے استاد تھے لیکن صلاحیتیں ایسی ہمہ جہت کہ جس موضوع پر بولنا شروع کریں تو ایسا معلوم ہو جیسے دریا بہ رہا ہے۔ کلاس میں آکر پوچھتے ‘بتاؤ ہم کیا پڑھ رہے تھے؟’۔ ہم لوگ جو ٹاپک بتا دیتے اس پر ایسا عالمانہ لیکچر دیتے جیسے پہلے سے موضوع کا پتہ ہو اور گھنٹوں تیاری کرکے آئے ہوں۔ ان کا مضمون ساؤنڈ خالص فزکس سے متعلق تھا اور بہت سے طلبہ ایسے تھے جن کا سائنس بیک گراؤنڈ نہیں تھا لیکن ایسے عام فہم انداز میں پڑھاتے کہ سب کی سمجھ میں آ جاتا۔ ایک بار ایک لڑکی بولی بھی تھی کہ یہ بڑے پیار سے فزکس پڑھاتے ہیں۔
پروفیسر متین احمد صاحب نیشنل فلم ایوارڈ یافتہ ہونے کے باوجود منکسر المزاج شخصیت رکھتے تھے۔ طلبہ کو ان کی طرف سے یہ رعایت حاصل تھی کہ انہیں کہیں بھی روک کر کوئی بھی سوال کر سکتے تھے، بھلے ہی وہ سوال ان کے مضمون سے متعلق نہ ہو۔ پروفیسر متین احمد صاحب کی شخصیت کتنی ہمہ جہت ہے ، اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ انہوں نے فزکس میں اعلی تعلیم پائی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا سے فلم سازی میں اختصاص کیا۔ بہترین ساؤنڈ ڈیزائنگ کے لئے صدر جمہوریہ کے ہاتھوں ایوارڈ پایا۔ اسکرپٹنگ، ڈائریکشن اور ساؤنڈ تینوں پر یکساں دسترس کے ساتھ لیکچر دیتے اور تاریخ سے متعلق کوئی بھی اہم کتاب بازار میں آتے ہی ان کے مطالعے کی میز پر ضرور آ جاتی۔ انہوں نے مجھے بطور طالب علم اور اس کے بعد بھی ہمیشہ بہتر کرنے کی تحریک دی۔ وہ حوصلہ افزائی کرکے نئی نسل کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دینے والوں میں سے ہیں۔
دھیرے دھیرے بول:
جامعہ کے اساتذہ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بہت سی باتوں کو ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ پروفیسر والی انانیت یا سبق سکھانے کا جذبہ میں نے کم ہی پایا۔ ایک بار میرے فون میں کچھ ایسی خرابی ہوئی کہ اس میں صرف اسپیکر موڈ پر بات ہو پاتی تھی۔ جب کوئی فون آتا تو میں پہلے فون ریسیو کرتا پھر اسپیکر آن کرکے ہی بات کر پاتا تھا۔ ایک بار میں اپنے ایک استاد کے ساتھ ہائیجنک کیفے پر کھڑا تھا کہ ایک کلاس فیلو کا فون آ گیا۔ میں نے حسب روایت اسپیکر آن کرکے بات شروع کی۔ اس نے پوچھا ‘کہاں ہو؟۔ میں نے جواب دیا فلاں سر کے ساتھ ہوں۔ میرے ساتھی کو کیا خبر تھی کہ میرا فون مریض ہے، اس نے پلٹ کر ان استاد کو دو تین سخت القاب سے نوازتے ہوئے مجھ سے کہا کہ تم ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہو کیا؟۔ جب تک میں جلدی سے فون کاٹ پایا، استاد محترم اپنے لئے دی گئی صلواتیں سن چکے تھے۔ میرا شرمندگی سے برا حال تھا لیکن وہ ہنسنے لگے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس لڑکے کے خلاف انھوں نے کبھی جوابی کارروائی بھی نہیں کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد پیشہ وارانہ زندگی باقاعدہ شروع ہوئی۔ سحر عالمی نیٹورک تو تھا ہی ایف ایم گیان وانی میں جز وقتی خدمات بھی شروع کر دیں۔ ریڈیو تہران کے لئے رپورٹنگ کا سلسلہ پہلے سے چلا ہی آ رہا تھا۔ماس کمیونی کیشن کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں پڑھاتا بھی رہا۔ اتنی ساری مصروفیات کے ہوتے ہوئے بھی لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد دوردرشن نیوز کے شعبۂ ادارت سے منسلک ہو گیا۔ وہاں کام کی نوعیت اور دورانیہ ایسا تھا کہ جز وقتی مشغولیات ختم ہو گئیں۔ اب حال یوں ہے کہ ٹیلی ویژن نیوز کی دنیا میں مشغول ہوں لیکن کوشش رہتی ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پر لکھنے کا سلسلہ جاری رہے۔ ارادہ کرکے اخبارات اور رسائل میں لکھنے کی فرصت بھی نکال لیتا ہوں۔
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)