Home خاص کالم جامعہ کا یوم تاسیس اور محمد علی جوہر -محمد علم اللہ

جامعہ کا یوم تاسیس اور محمد علی جوہر -محمد علم اللہ

by قندیل

سنا ہے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ابھی بھی اپنی صد سالہ جشن منا رہی ہے۔ اس سیریز کے تحت یونیورسٹی میں متعدد پروگراموں کا انعقاد ہو رہا ہے۔ مجھے پوچھنا تھا کیا اس کے بانی محمد علی جوہر پر بھی کچھ ہو رہا ہے۔ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ محمد علی جوہر ایسی شخصیت ہی تھے کہ غیر کیا اسے تو اپنے بھی بھلا بیٹھے۔ بہرحال، جامعہ کے یوم تاسیس کے موقع پر میں اپنی تحریر محمد علی جوہر کی نذر کرتا ہوں۔

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں، جن کا نقش آپ کے ذہن پر کندہ ہوجاتا ہے اور پھر وہ مٹائے نہیں مٹتا۔ اُنھی میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں پہلی مرتبہ کب اور کیا سنا؟ لیکن ان کے بارے میں اتنا زیادہ سنا اور پڑھا کہ ان کی شخصیت کا ایک ہیولا سا میرے ذہن میں بن گیا۔ شیروانی، مخملی دوپلی ٹوپی اور گاندھی نما گول شیشے والی عینک زیب تن کیے ہوئے، ایک با رُعب شخصیت، جو انتہائی مختصر مدت میں بہت سے کام انجام دے کر، اس دُنیا سے رُخصت ہوگئے۔

جب میں‌ عقل و شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے، کچھ بڑا ہوا اور مولانا کے بارے میں مزید جاننے اور پڑھنے کا موقع ملا، تو ان کا اسیر ہو کے رہ گیا؛ ملت کے اس عاشق کے بے لوث عشق اور دیوانے پن نے مجھے اپنا مرید بنالیا۔ ان سے اس محبت اور شیفتگی کا نتیجہ تھا، کہ مولانا کے بارے میں جو کچھ بھی ملا پڑھ ڈالا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں عربی کے ابتدائی درجات میں تھا، تبھی ’ہمدرد‘ (مولانا محمد علی جوہر ) اور ’زمیندار‘ (مولانا ظفر علی خان) کی فائلیں چاٹ ڈالیں۔

میں اسے اپنی خوش قسمتی سے تعبیر کرتا ہوں کہ مجھے مولانا علی جوہر کے معہد یعنی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں علمی پیاس بجھانے کا موقع ملا۔ یہاں ان کے بارے میں جاننے اور پڑھنے کا خوب مواقع ہاتھ آئے۔ حالیہ دنوں میں مولانا محمدعلی جوہر بہت یاد آئے؛ جوہر کے یاد آنے کی کئی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ کہ محمد علی جوہر آکسفورڈ کے پروردہ تھے، اور ان کو پڑھنے کے بعد ہمیشہ میرے یہ دل میں رہا کہ میں بھی آکسفورڈ سے پڑھوں گا۔ حالانکہ میں آکسفورڈ میں داخلہ نہیں لے سکا، مگر اللہ کا شکر ہے کہ مجھے برطانیہ کی بہترین دانش گاہوں میں سے ایک ، سوانسی یونیورسٹی سے فیضیاب ہونے کا موقع مل گیا۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جامعہ کی بنیاد کا سال، 1920، وہی سال ہے جب سوانسی یونیورسٹی قائم ہوئی، اور یہ یونیورسٹی بھی اس وقت اپنی صدی تقریبات کے سلسلے میں مختلف پروگرام منعقد کر رہی ہے۔

ہمارے دوست افروز عالم ساحل نے اپنے ایک مضمون میں جامعہ کے قیام اور محمد علی جوہر کی تاریخ کا ایک مختصر خاکہ کچھ یوں پیش کیا ہے:

یہ بات سال 1919 کی ہے۔ انگریزوں نے ترکی پر جارحیت کا مظاہرہ شروع کردیا تھا۔ ترکی کے خلاف یہ کارروائیاں مسلمانان ہند (تب موجودہ پاکستان بھی ہندوستان ہی تھا) کو پریشان کرکے رکھ دیا۔ لوگوں کے دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ ہر فرد یہ سوچنے لگا کہ ترکوں کے خلاف برطانیہ نے نہایت نا انصافی کی ہے۔ نتیجے میں یہاں احتجاجی جلسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لکھنؤ کی ’آل انڈیا مسلم کانفرنس‘ میں ’خلافت کمیٹی‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ ادھر محمد علی جوہر نے وائسرائے ہند مسٹر چیمسفورڈ کو 24 اپریل 1919 کو ایک طویل خط لکھ کر آگاہ کیا کہ خلافت کے معاملے میں دست درازی نہ کی جائے اور مقبوضہ علاقے ترکوں کو واپس کر دیے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی یہاں ’تحریک خلافت‘ کا دور شروع ہوا۔

علی برادران (مولانا محمد علی اور شوکت علی) گاندھی جی کے ساتھ ملک کے دورے پر نکل پڑے۔ وہ لوگوں سے برطانوی حکومت کے ساتھ عدم تعاون کی اپیل کر رہے تھے۔ ستمبر 1920 میں کلکتہ کانگریس کے خصوصی اجلاس میں گاندھی جی نے یہ تحریک پیش کی کہ ترکی کے زیادتی کی مخالفت اور ملک کی آزادی کے لیے سرکاری تعلیم کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ اپنی مہم کے تحت علی برادران، سوامی ستیہ دیو اور گاندھی جی 11 اکتوبر علی گڑھ پہنچے۔ 12 اکتوبر کو علی گڑھ کے یونین ہال میں ان کی تقریریں ہوئیں اور ’’مسلم نیشنل یونیورسٹی‘‘ کھولے جانے کا خواب پروان چڑھا۔

29 اکتوبر 1920 کو علی گڑھ مسجد میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کی تقریر کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاح کا اعلان کیا گیا۔ اور اسی وقت شیخ الہند کے ہاتھوں رسم تاسیس ادا ہوئی۔ آج اسی یونیورسٹی کو دنیا ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ کے نام سے جانتی ہے اور یہی جامعہ آج اپنی عمر 104 سال مکمل کر چکا ہے۔

محمد علی جوہر کی یاد رکھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی خبروں میں یروشلم اور القدس توجہ کا مرکز ہے؛ یہی یروشلم اور القدس ہے جہاں مولانا دفن ہیں، اور پچھلے ایک سال سے، یہ زمین خاک و خون میں لپٹی ہے۔

مولانا عبدالماجد دریابادی اپنی کتاب "محمد علی: کچھ صفحات ایک ذاتی ڈائری سے” میں اس مرد مجاہد کے آخری وقت کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”آخری سفر دیکھنے میں لندن کا سفر تھا، گول میز کانفرنس کے لیے؛ اور حقیقت میں سفر آخرت۔ بد بینوں نے کہا کہ اب اس خاک ستر کے ڈھیر میں ہے کیا؟ لیکن جب بولنے کھڑے ہوئے تو انگریز اور ہندی سب پکار اٹھے کہ یہ گوشت پوست کا بنا ہوا آدمی ہے، یا ایک متحرک کوہ آتش فشاں! فاش و برملا کہا (جیسے مستقبل کو دیکھ ہی رہے تھے) کہ ’آزادی لینے آیا ہوں، یا تو آزادی لے کر جاوں گا یا اپنی جان اسی سرزمین پر دے کر‘۔ جنوری 1931ء کی چوتھی تاریخ اور شعبان 1350 ہجری کی پندرہویں شب میں، عین اس وقت جب روئے زمین کے مسلمان اپنے پروردگار سے رزق کی، صحت کی، اقبال کی، زندگی کی، مغفرت کی نعمتیں مانگ رہے تھے، مشیت الٰہی نے یہ نعمت عظمیٰ دنیائے اسلام سے واپس لے لی- (ص-592)“۔

ہندوستانی محمد علی جوہر کو تحریک خلافت کے ایک عظیم قائد کے طور پر جانتے ہیں، گرچہ ہم خلافت کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے، جس کا صدمہ مولانا محمدعلی جوہر سمیت پورے ہندوستانیوں کو رہا۔ مگر بچانے کی ایک کوشش کا سہرا محمد علی جوہر کو ضرور جاتا ہے۔ جس کا اعتراف ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی کیا ، یہی وجہ ہے کہ 2017 میں جب اردوان ہندوستان آئے تو انھوں نے اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ اس موقع پر محمد علی جوہر کے جامعہ نے اس مناسبت سے یکم مئی 2017ء کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو اعزازی ڈگری سے نوازا۔ جہاں طیب اردوان نے جامعہ، خلافت تحریک اور آزادی کا ذکر کرتے ہوئے، مولانا محمد علی جوہر کو یاد کیا۔

امروز؛ فی الواقع ’احسان فراموشی‘ کا دور ہے؛ لہٰذا آج کی نسل اپنے محسنوں کو فراموش کرتی جا رہی ہے؛ تو ہم نہ اس سے حیران ہیں نہ پریشان۔ اصول پسند احباب کہتے ہیں، کہ ’ضرورت اس بات کی تھی کہ ہم اسلاف کے کارناموں کو یاد کرتے اور انھیں اپنا قومی اثاثہ تصور کرتے ہوئے ان کی خدمات کے اعتراف کویقینی سمجھتے‘۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’قوم پرستی‘ کا جذبہ، جب ’بیمار‘ اور ’تنگ نظر‘ ہوجاتا ہے، تو ملک کا سربراہ بھی دیار غیرمیں، ایک مجاہد آزادی کو بھول جاتا ہے ۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کی دعوت پر 4 تا 6 جولائی 2017ء، وہاں کا دورہ کیا تھا، لیکن انھیں اس بات کی توفیق نہیں ہوئی، کہ وہ وہاں ہوتے ہوئے، ہندوستان کے اس عظیم اور جلیل القدر مجاہد آزادی کے مقبرے پر بھی عقیدت کے چند پھول نچھاور کر آتے۔

بد قسمتی سے ہم مسلمانان ہند بھی اس موقع پر، نا تو کوئی کمپین چلاسکے اور نا ہی وزارت خارجہ یا ہندوستانی سفارت کاروں کو اس بات کی توفیق ہوئی، کہ وہ مولانا محمد علی جوہر کو موقع کی مناسبت سے یاد کرلیتے۔ وزیر اعظم خود نہ سہی، کسی وزیر یا ایلچی کے ذریعے گل پوشی کی رسم ادا کروائی ہوتی تو یہ بات یقیناً ایک سو بیس کروڑ ہندوستانیوں کے دلوں کوخوش کرنے کا باعث بن جاتی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جب اقتدار کا نشہ سر چڑھ جاتا ہے اور عصبیت و خود غرضی کسی کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے، تو پھردیش بھکتی اور راشٹر واد بھی مخصوص نظریہ اور جامہ پہن لیتا ہے،اور جس قوم کا سربراہ ہی ’غریب الوطن مجاہد‘ کو فراموش کردے، اُس قوم سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے محسن کو یاد رکھے گی!

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like