Home تجزیہ جمہوریت ، تنقید اور نکتہ چینی – شکیل رشید

جمہوریت ، تنقید اور نکتہ چینی – شکیل رشید

by قندیل

کیا آپ جانتے ہیں کہ ’ بی بی سی ‘ پر ہندوستان میں پابندی لگانے کی عرضی خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کیا کہا تھا ؟ پہلے یہ جان لیں کہ یہ عرضی ایک کٹّر ہندتوادی تنظیم ’ ہندو سینا ‘ نے دائر کی تھی ۔ ’ ہندو سینا ‘ سنگھ پریوار کا ہی ایک حصہ ہے ، بالکل اُسی طرح جیسے کہ بجرنگ دل اور وی ایچ پی وغیرہ ۔ اس کا کام ملک بھر میں مذہب کے نام پر نفرت پھیلانا اور تشدد کا بازار گرم کرنا ہے ۔ اس نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ’ بی بی سی ‘ نے ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کو توڑنے کی سازش کی ہے ، لہٰٗذا این آئی اے سے اس کی تحقیقات کرائی جائے نیز ملک میں اسے کام کاج کرنے سے روک دیا جائے ۔ عرضی میں یہ مطالبہ بھی تھا کہ چونکہ وزیراعظم نریندر مودی اور ہندوؤں کو ’ بی بی سی ‘ بدنام کر رہا ہے ، اس لیے اس پر پابندی لگے اور اس کی گجرات فسادات پر ڈاکیومینٹری بنانے نیز بھارت مخالف خبریں دینے والے صحافی کی تفتیش کی جائے ۔ سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ ’ ہمارا وقت ضائع نہ کریں ‘ عرضی رد کردی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ عرضی کیوں دائر کی گئی تھی ؟ وجہ سامنے ہے ڈاکیومینٹری نے مرکزی حکومت کو دہلا دیا ہے اس لیے ’ بی بی سی ‘ پر ہر طرف سے نشانہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ چونکہ گجرات کے 2002 کے فسادات ہمیشہ پی ایم مودی کے لیے ایک حساس موضوع رہے ہیں ، اس لیے جب بھی ان کا ذکر کیا جاتا ، اور مودی پر انگلی اٹھائی جاتی ہے ، تو ساری سرکاری اور غیر سرکاری مشنری پی ایم کے دفاع میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے ، اس لیے ’ بی بی سی ‘ کی سیریز پر پابندی لگائے جانے کے باوجود اس کےخلاف زبردست ردعمل دیکھنے کو نظر آ رہا ہے ۔ سیریز کو ’ پروپگنڈا ‘ قرار دیا گیا ہے ، اسے ’ معروضیت سے عاری ہے ‘ کہا گیا ہے ، سوال اٹھایا گیا ہے کہ ’ اب اتنے دنوں کے بعد اس سیریز کی ضرورت کیوں پیش آگئی ، اس کے پسِ پشت کیا ایجنڈا ہے ۔‘ اس سیریز کو ’ کالونیل مائنڈ سیٹ ‘ ( نوآبادیاتی ذہنیت )قرار دے دیا گیا ہے ۔ لیکن اس سیریز پر پابندی لگانے کی درخواست کا نتیجہ ٹھیک نکلا ہے کہ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے ۔ ’ بی بی سی ‘ کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر کے سروے کو بھی اسی ڈاکیومینٹری کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔ میں اس ڈاکیومینٹری پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہوں گا کیونکہ اس پر کافی بات ہو چکی ہے ۔ بات یہ کرنی ہے کہ بی جے پی کو ، اس کے لیڈروں کو اور اس کے حکمرانوں کو ’ تنقید ‘ قطعی گوارہ نہیں ہے ، وہ ذرا سی بھی ’ نکتہ چینی ‘ برداشت نہیں کر سکتے ۔ ’ تنقید ‘ اور ’ نکتہ چینی ‘ جمہوریت کے خاص آوزار ہیں ، یہ حکمرانوں کو جواب دہی کا پابند بناتے ہیں ، یہ حکمرانوں کو بہکنے سے روکتے ہیں اور جمہوریت کو آمریت میں بدلنے نہیں دیتے ۔ جس جمہوری نظام میں ’ تنقید ‘ اور ’ نکتہ چینی ‘ کو ناقابلِ برداشت مان لیا جائے سمجھ لیں کہ وہاں جمہوریت دَم توڑ رہی ہے ، اور جمہوریت کے نام پر آمریت نے قدم جما لیے ہیں ۔ اسی لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ’ تنقید ‘ اور ’ نکتہ چینی ‘ پر پابندی کے خلاف آواز بلند کی جاتی رہے ۔ بس خیال یہ رہے کہ ’ تنقید ‘ اور ’ نکتہ چینی ‘ کسی بھی حال میں ’ تنقیص ‘ اور ’ تذلیل ‘ میں نہ بدلے کہ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابلِ برداشت ہیں ۔ جمہوریت کی بقا ہی کے لیے اِس سرکار سےسوالات پوچھے جا رہے ہیں اور لوگ ’ بی بی سی ‘ ڈاکیومینٹری سے پابندی ہٹانے اور اڈانی پر لگے الزامات کی تفتیش کرنے کی مانگ لوگ کر رہے ہیں ۔ لیکن ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ نتیجہ مایوس کن ہے ، اور ہم سب مرکزی سرکار کی منشا کو بھی خوب سمجھ رہے ہیں ۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے !

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment