علامہ اقبال اپنے بلند شعری آہنگ اور افکار عالیہ کی وجہ سے اردو کے عظیم شاعر تصور کئے جاتے ہیں۔اقبال نے شاعری کی صورت میں اپنے افکار ونظریات اور جذبات ومحسوسات کا جو قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے، اس کی قدروقیمت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ عام طورپر ہم اقبال کی شاعری اور اس کے بلند آہنگ کوسمجھنے کے لیے ان تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں، جو اردو میں لکھی گئی ہیں، لیکن ان تحریروں تک رسائی عام نہیں ہے جو مغربی دانشوروں نے اقبال کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف میں لکھی ہیں۔ اس وقت میرے ہاتھوں میں ایسی ہی ایک کتاب ہے جو علامہ اقبال کی شخصیت اورفن پر دانشوران فرنگ کی تحریروں سے روبرو کراتی ہے۔کتاب کا نام ہے ’جلوہ دانش فرنگ‘ اور اس کی صورت گری کی ہے پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لائق وفائق استاد ہیں۔ وہ مولانا عبدالماجد دریابادی کے نواسے ہیں اور اپنے ناناہی کی طرح علم وادب کے رسیا ہیں۔پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کا تعلق علی گڑھ مسلم کے انگریزی شعبہ سے ہے اور وہ مرکزبرائے علوم قرآن کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے برطانوی شاعر لارڈبائرن پر ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیسسٹرسے بھی پی ایچ ڈی کی دوڈگریاں حاصل کی ہیں۔ انگریزی ادب پر ان کی متعدد تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ان کو لیسسٹر یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں وزیٹنگ پروفیسر اور کامن ویلتھ فیلو ہونے کے اعزازات بھی حاصل ہیں۔
عام طورپر جن اساتذہ کا میدان انگریزی زبان وادب ہوتا ہے ان کا اردو زبان وتہذیب سے رشتہ واجبی سا ہوتا ہے، لیکن پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کی خوبی یہ ہے کہ وہ جتنی دسترس انگریزی زبان وادب پر رکھتے ہیں، اتنا ہی کمال انھیں اردو زبان اور اس کی تہذیب پر بھی حاصل ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت اس کتاب میں موجود مغربی مفکرین اور دانشوروں کے مضامین کے اردوتراجم ہیں جنھیں پڑھ کر کہیں شائبہ تک نہیں ہوتا کہ یہ کسی دوسری زبان سے ترجمہ کئے گئے ہیں۔ یہی ترجمہ کااصل حسن بھی ہے کہ وہ قاری کو ترجمہ نہ لگے بلکہ پڑھتے وقت اصل کا احساس ہو۔بقول پروفیسر شمیم حنفی:
”جلوہ دانش فرنگ کے مضامین کا ترجمہ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے غیر معمولی احتیاط اور بصیرت کے ساتھ کیا ہے۔وہ انگریزی اور اردو،دونوں زبانوں کے بیچ اور ان دونوں زبانوں کے مزاج کی آگہی رکھتے ہیں۔ ان کے تراجم بہت رواں دواں، غیر مبہم اور شفاف ہیں۔ اسی لیے مجھے جلوہ دانش فرنگ کے مضامین بہت پسند آئے۔“(فلیپ نمبر2)
’جلوہ دانش فرنگ‘ علامہ اقبال کے فکر وفن پر انگریزی میں لکھے گئے بعض سرکردہ اہل قلم کے وقیع مقالات کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہے۔مقالہ نگاروں میں معروف برطانوی فضلاء ای ایم فوسٹر، آر کے نکلسن،ہربرٹ ریڈ، ڈیوڈ میتھوزکے علاوہ ممتاز ماہر اسلامیات و ادب جرمن خاتون این میری شیمل شامل ہیں۔ اس کتاب کا ایک خاص حصہ مغربی زبانوں میں نقد اقبال کی جامع کتابیات ہے جس پر صاحب کتاب نے بڑی عرق ریزی سے کام کیا ہے۔علاوہ ازیں اس کتاب میں ممتاز ماہر اقبالیات پروفیسر اسلوب احمد انصاری کے ایک انگریزی مقالہ کے ترجمہ کے ساتھ خود اقبال کے دونادر مقالوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔
اس کتاب کی اشاعت یوں تو سنہ 2010 میں عمل میں آئی تھی اور اس کا دوسرا ایڈیشن 2018 میں شائع ہوا، لیکن اس کا نیا ایڈیشن جون 2024میں منظرعام پرآیا ہے۔اس ایڈیشن میں جونئے مقالات پہلی بار شائع کئے گئے ہیں،ان میں این میری شمئل کے دومقالات ”اقبال کے مذہبی تصورات“اور ”فکر اقبال کے مغربی مآخذ“کے علاوہ ڈیوڈ میتھوزکا ایک مقالہ ”کلام اقبال کی آفاقیت“، شمس الرحمن فاروقی کا مقالہ ”اقبال اور ملٹن کے کلام میں شیطان کی تصویرکشی“شامل ہیں۔ ان کے علاوہ خود پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کے تین مضامین’(1)”مطالعہ اقبال کے نئے گوشے“،(2)”کلام اقبال“(3)مغربی اہل قلم کی اقبال شناسی:ایک محاکمہ“ شامل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان نئے مضامین میں بھی قدر مشترک مغربی فضلاء کی تفہیم اقبال ہے۔پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کی اس کتاب کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے:
”عبدالرحیم قدوائی نے اپنی قابل قدر کتاب ’جلوہ دانش فرنگ‘میں اقبال پر اہل مغرب کے کئی مضامین کو اردو میں منتقل کرکے ہمارے استفادے اور علمی بصیرت میں اضافے کا سامان مہیا کیا ہے۔ عبدالرحیم قدوائی کی اس خدمت کو نہ بھلایا جائے گاکہ اردو ادب کی بھی خدمت ہے اور اقبال کی بھی۔“ مجموعی طورپر اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بڑی کارآمد ہے۔کتاب کے آخر میں اقبال کے فن پر مغربی اہل قلم کے تنقیدی مضامین کی فہرست دی گئی ہے، جو35 صفحات پر محیط ہے۔328 صفحات کی کتاب کی قیمت600روپے ہے۔رابطہ نمبر9810780563