کل بروز اتوار ملک میں 12 ربیع الاول ہے. برِصغیر میں یہ تاریخ "بارہ وفات” سے مشہور رہی ہے اور امت کے جمہور علماء کی تحقیق کے مطابق 12 ربیع الاول کو وفاتِ رسول ہے، مگر اب کچھ لوگ 12 ربیع الاول کو بارہ وفات کی بجائے بارہ ولادت یعنی یومِ ولادتِ رسول سے مشہور کرنے کی کوشش کررہے ہیں. وہ 12 ربیع الاول کو عید میلاد النبی قرار دیتے ہیں، جشن مناتے اور جلوس نکالتے ہیں. افسوس کہ اپنے کچھ علماء بھی ایک دو شہروں میں ایسا جلوس نکالتے ہیں اور قیادت کرتے ہیں. جشنِ میلاد النبی کے بدعت ہونے پر مِصر اور شاید ترکی میں کچھ لوگوں کے سوا پورا عالمِ اسلام متفق ہے. علماءِ دیوبند بھی اسے بدعت کہتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کل ایک دو شہروں میں ہمارے علما کی قیادت میں میلاد النبی کے جشن میں بڑے جلوس نکالے جائیں گے. وہ مخلوط آبادی میں ایسے جلوس کے مصالح وفوائد بتاکر اس کو جواز فراہم کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ ایک بڑا فائدہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ایسے بڑے جلوس اور جشن سے غیروں پر رعب پڑتا ہے اور اسلام کی شوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے. حالانکہ صحیح بات یہ ہے اسلام کی شوکت کا مظاہرہ اسلام پر عمل کرنے میں ہے، نہ کہ کسی بدعت اور غیر اسلامی طریقے میں. نیز، ہر بدعت کے جواز کے لیے موجدینِ بدعت ایسی ہی کوئی نہ کوئی مصلحت وفائدہ ضرور بتا ڈالتے ہیں جو بظاہر بڑا معقول بھی نظر آتا ہے مگر اس کی وجہ سے وہ بدعت جائز نہیں ہوجاتی ہے بلکہ بدعت ہی رہتی ہے. تمام بدعات بظاہر پرکشش، جاذب، نیک نیتی پر مبنی نظر آتی ہیں. ان میں عوام کے لیے بڑی رعنائی، چمک دمک اور کارِ ثواب نظر آتا ہے مگر اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ بدعات اسلام سے متصادم اور کارِ گناہ ہوتی ہیں. جلوس عید میلاد النبی کو نکالنے والے ہمارے لوگ جو یہ منطق اور مصلحت بتاتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ منطق ومصلحت ملک کے صرف ایک دو شہروں کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ تمام شہروں میں یہ مصلحت پائی جاتی ہے جس کا لازمی تقاضا تو یہ ہوا کہ جلوس عید میلاد النبی ملک کے تمام شہروں میں نکالا جانا چاہیے اور یہ پورے ملک کے لیے مفیدِ اسلام ومسلمانان چیز ہے۔ دراصل اگر لاکھوں کی بھیڑ کسی کی قیادت میں اور اس کے پیچھے پیچھے چلے تو ایسے جلوس اور عمل سے آدمی کو اتنی محبت ہوجاتی ہے کہ اسے بدعت اور کارِ گناہ کہنا اس کے لئے بہت مشکل ہوجاتا ہے، نفس جواز سمجھانے کے لئے طرح طرح کے حیلے اور تاویلیں تراشتا ہے مگر ظاہر ہے کہ ایسے پھسپھسے حیلوں اور مصالح کی وجہ سے بدعت جائز اور کارِ ثواب نہیں بن سکتی ہے. شرکت کرنے کی وجہ سے شرکاء کو ایسے جلوسوں کو بدعت اور ناجائز کہنے کی ہمت نہیں ہوپاتی ہے۔ جلوس جتنا بڑا ہوتا جائے گا اسے ناجائز کہنا اتنا ہی دشوار اور نفس پر شاق ہوتا چلا جائے گا۔ ایسے جلوسِ میلاد النبی کی بدعت کی تبلیغ اور فروغ دینے والے حضرات کو خلوت میں ٹھنڈے دل سے اپنے عمل پر غور کرنا چاہیے، نظرِ ثانی کرنی چاہیے، انہیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ جس کام کو وہ اچھا سمجھ کر کررہے ہیں اور سخت محنت کررہے ہیں وہ درحقیقت گمراہی ہے اور عند اللہ ناپسندیدہ عمل ہے الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا۔ لاکھوں مسلمانوں کی بھیڑ والے ایسے جلوسوں میں سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں کی فرض نمازیں بھی قضا ہوجاتی ہوں گی. کیا اس کا گناہ ان جلوسوں کو نکالنے والوں کی گردن پر نہیں پڑے گا؟ دیگر منکرات جو ہوں گے ان کا گناہ عائد نہیں ہوگا؟
جو حضرات ایسے جلوسوں کی قیادت اور ان میں شرکت کرتے ہیں ظاہر ہے کہ بوجہ شرکت شاید ان کے لیے اسے غلط کہنا اور اس سے اجتناب کرنا مشکل ہوگا لہذا دیگر علما کو چاہیے کہ وہ ایسے جشنِ بدعت منانے والوں اور جلوسِ بدعت نکالنے والوں سے گفتگو کریں اور ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ ان کے اس عمل سے بدعت کو فروغ حاصل ہوگا اور پورے ملک کے مسلم عوام میں غلط پیغام جائے گا بالخصوص موجودہ وقت میں کیونکہ جلوسوں کی ویڈیو گرافی اور اسے فوراً پوری دنیا میں بھیجنا اب بہت آسان ہوگیا ہے۔
حکمِ شرعی کے لیے دو الگ الگ پیمانے نہیں ہیں کہ اگر بدعت ہماری طرف سے انجام دیا جائے تو اسے مصالح وفوائد سے لبالب قرار دے کر جائز کہدیا جائے اور فروغ دیا جائے مگر وہی بدعت دوسرے کریں تو اسے ناجائز اور بدعت کہہ دیا جائے۔ اگر ہم خود عید میلاد النبی کے بڑے بڑے اور لاکھوں عوام پر مشتمل جلوس نکالیں گے تو آخر ہم کس منھ سے جشنِ عید میلاد النبی کو بدعت اور ناجائز کہیں گے اور کیسے اسے بدعت وگمراہی ہونے کا فتوی دیں گے؟
امید کہ احباب اس پر غور کریں گے، امت کی فکر کریں گے اور ایسے جلوسِ بدعت کو نکالنے والے اپنے منتظمین سے بات کریں گے۔