Home سفرنامہ جہاں فتاویٰ عالم گیری لکھی گئی ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

جہاں فتاویٰ عالم گیری لکھی گئی ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

"یہ کون سی مسجد ہے؟” میں نے ایک بڑی سی سفید رنگ کی مسجد دیکھ کر اپنے رفیق مولانا اختر الاسلام ندوی سے سوال کیاـ
” یہ اورنگ آباد کی جامع مسجد ہےـ اس کی بڑی تاریخی حیثیت ہے _ اس کا کچھ حصہ ملک عنبر نے بنوایا تھا ، باقی حصے کی تعمیر بعد میں اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ہوئی تھی ـ” مولانا نے جواب دیاـ
” پھر تو اسے دیکھنا چاہیے _”
میری خواہش پر عزیزی اختر الاسلام صاحب نے گاڑی موڑ لی اور ہم لوگ مسجد کے احاطے میں جا پہنچےـ

اورنگ آباد ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر کا ایک قدیم اور مشہور شہر ہےـ اس کے نام سے لگتا ہے کہ اسے مغل حکم راں اورنگ زیب نے آباد کیا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے کافی پہلے بسایا گیا تھا _ 1610ء میں ملک عنبر نے اسے اپنا صدر مقام بنایا اور ’فتح نگر‘ اس کا نام رکھاـ بعد میں مغل دورِ حکومت میں اورنگ زیب کو دکن کی صوبے داری پر فائز کیا گیا تو انہوں نے 1652ء میں اس شہر کا نام ’اورنگ آباد‘ رکھاـ شہر کے چاروں طرف فصیل اور بڑے بڑے دروازے انھوں نے ہی بنوائے تھے ، جن کی باقیات آج بھی موجود ہیں _ یوں تو پرانے زمانہ کی بے شمار خوب صورت عمارتیں ، مسجدیں اور مقبرے شہر میں موجود ہیں ، لیکن ان میں جامع مسجد کو اہمیت حاصل ہے ۔ اس کا شمار بجاطور پر ہندوستان کی چند عظیم اور شان دار مساجد میں کیا جاسکتا ہےـ

مولانا اختر الاسلام نے مشورہ دیا کہ اس جامع مسجد میں اورنگ آباد کا مشہور اور قدیم مدرسہ کاشف العلوم چلتا ہے _ پہلے اس کے ذمے دار سے ملاقات کرلیں ، تاکہ وہ تفصیل سے مسجد کا معاینہ کروادیں ـ مجھے یاد آیا کہ ایک دہائی قبل میں اپنے سفرِ اورنگ آباد کے موقع پر اس مسجد اور مدرسہ کی زیارت کرچکا ہوں ـ معلوم ہوا کہ مدرسہ کے ذمے دار مولانا عبد الوحید حلیمی ندوی مدرسہ کی لائبریری میں ہیں ـ تھوڑی دیر میں ہم ان کے سامنے تھےـ

مولانا حلیمی لائبریری میں مصروف تھےـ ان کے ارد گرد 10 سے زائد علماء لائبریری کے ڈیجیٹلائزیشن کے کام میں لگے ہوئے تھےـ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ان میں زیادہ تر دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فارغ ہیں ـ مولانا نے تفصیل سے لائبریری کا تعارف کرایاـ چائے پلائی ، پھر ہماری خواہش پر خود اٹھ کر ہمارے ساتھ مسجد آئے اور تفصیل سے اس کا تعارف کرایاـ انھوں نے بتایا کہ مسجد کا زیادہ تر حصہ ملک عنبر کا تعمیر کردہ ہے ، صرف تھوڑا سا حصہ اورنگ زیب کا بنوایا ہوا ہےـ البتہ مسجد کے صحن میں کنارے کنارے بنے ہوئے 47 حجرے اورنگ زیب کے تعمیر کردہ ہیں ـ انھوں نے مسجد کے بارے میں ایک دل چسپ اور حیرت انگیز بات یہ بتائی کہ مسجد کے محراب سے امام کی بلند ہونے والی آواز مسجد کے آخری حصے تک صاف پہنچتی تھی ـ بعد میں مرمّت کے کام ہونے کے بعد یہ خصوصیت باقی نہیں رہی _ مولانا نے بتایا کہ صحنِ مسجد کے کمروں میں علما کی رہائش رہتی تھی ، جن میں سے بہت سے فتاویٰ عالم گیری کی تدوین سے منسلک تھے _ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر اورنگ زیب کا محل تھا ، جس سے متصل شاہی مسجد ہے ، جس میں بیٹھ کر وہ قرآن مجید کی کتابت کیا کرتے تھےـ مولانا نے بتایا کہ اورنگ زیب اس جامع مسجد میں بھی آیا کرتے تھے اور یہاں قیام پزیر علماء سے ملاقات کیا کرتے تھےـ

یہ مسجد بہت اچھی حالت میں ہے اور مدرسہ کاشف العلوم کے طلبہ و اساتذہ کے استعمال میں ہےـ مولانا حلیمی نے بتایا کہ مسجد کے صحن کے حجروں میں ہی مدرسہ کاشف العلوم کا آغاز ہوا تھا ، جو ترقی کرکے جامعہ بن گیا ہے اور مشرقی دروازے کے باہر دو بڑی عمارتوں میں ، اس کے درجات لگتے ہیں اور طلبہ کی اقامت گاہ بھی ہےـ

You may also like

Leave a Comment