پیدل گھر واپس ہونے والے مزدور راہل کو نہیں ،مودی کو ہی ووٹ دیں گے
ندیم اختر
ترجمہ:نایاب حسن
ایک صحافی دوست نے بتایا کہ اس نے سیکڑوں کیلومیٹر کی مسافت طے کرکے وطن واپس لوٹنے والے کچھ مزدوروں سے بات کی۔ وہ سب اونچی برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے صحافی دوست نے جاننا چاہا کہ اس قدر بھوک اور پیاس سے دوچار ہونے کے بعد وزیر اعظم مودی کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ کیا مودی جی اور ان کی حکومت ان کی حالت کی ذمے دار ہے؟
بھوکے اور درد سے نڈھال مزدوروں نے کہا: اب مودی جی کیا کریں گے؟ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ کورونا وائرس مودی جی تھوڑی لے کر آئے ہیں۔ یہ تو جماعتیوں نے پھیلایا ہے ، جس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ ہمیں مودی جی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ مودی جی جادوگر ہیں۔ ان کا ووٹ بینک برقرار ہے۔ نوٹ بندی ہوئی ، جی ایس ٹی نافذ ہوا ، پورے ملک سے آئے کسانوں پر دہلی بارڈر پر لاٹھی چارج ہوا ، معیشت گر گئی ، صنعت کار پیسے لے کر ملک سے فرار ہوگئے لیکن مودی جی سے لوگوں کی محبت و حمایت برقرار رہی اور سال 2019 میں عوام نے انھیں بھاری اکثریت دے کر مرکز کرسیِ اقتدار پر دوبارہ انھیں بٹھایا۔ اگرچہ کورونا پرایکشن لینے میں تاخیر ہوئی ہے اور یہ تھوک میں ملک میں داخل ہوچکا ہے ؛ لیکن عوام نے حکومت سے کبھی بھی اپنی ناراضی کا اظہار نہیں کیا؛بلکہ کورونا کے اس نازک دور میں بھی تھالی بجاکر اور موم بتیاں جلا کر عوام نے مودی جی کو مبارکباد دی اور انھیں اپنا بھر پور تعاون پیش کیا۔
مودی جی کے مخالفین کو جلن ہوسکتی ہے ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بھُک مری کے دہانے پر پہنچنے والے زیادہ ترمزدوروں کو ابھی بھی مودی جی پر اٹوٹ اعتماد ہے۔ خاص طور پر 12مئی کو جب مودی جی نے ان کی قربانی اور بلیدان کو یاد کرتے ہوئے 20 لاکھ کروڑ کے پیکیج کا اعلان کیا اور اگلے دن دو دو وزرا نے ٹی وی پر آکر اس کی تفصیل سے توضیح کی تو مزدوربھائی ‘‘بمبم’’ ہوگئے۔ وہ جانتے ہیں کہ جلد ہی مودی جی ان کو یہ رقم بھیجنے والے ہیں اور آج رات سے کل صبح تک واٹس ایپ کے ذریعے یہ پیغام بھی ان تک پہنچ جائے گا کہ مودی جی نے سب کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے دیے ہیں اور جب وہ پیسہ ان کو نہیں مل پائے گا ، تب وہ جان لیں گے کہ سرکاری بابوؤں اور افسروں نے بدعنوانی کی ہے اور ان کا پیسہ کھاگئے ہیں، ورنہ حکومت نے تو پیسہ بھیجا تھا۔ یہ پیغام بھی ان کو واٹس ایپ کے ذریعے پہنچایا جائے گا۔
یہی حال ملک کے کسانوں ، چھوٹے تاجروں ، درمیانے تاجروں اور سروس کلاس کا بھی ہے۔ آپ کسی سے بھی ، کسی بھی جگہ بات کر سکتے ہیں ، اگر وہ بائیں بازو کا یا انٹرنیٹ پر ادھر ادھر حکومت مخالف چیزیں پڑھنے والا بگڑیل یا بد مزاج شخص نہیں ہوگا اور صرف ٹِک ٹاک ، یوٹیوب اور واٹس ایپ یونیورسٹی کے ذریعے خود کو دنیا سے منسلک رکھتا ہو گا ، تووہ بتائے گا کہ مرکزی حکومت نے پچھلے کچھ سالوں میں ملک کے لئے کیا کیا کام کیا ہے۔ پچھلی حکومتوں کے کارناموں (اگر کچھ ہوں) کو بھی مودی سرکار کے کھاتے میں ڈال دے گا ۔
لہذا وہ لوگ جو مزدوروں ، کسانوں ، عام آدمی اور اس طرح کے فلانے ڈھکانے کے درد اور تکلیف کا ٹینشن لے کر اپنا بلڈ پریشر بڑھا رہے ہیں ، وہ ٹھنڈ رکھیں۔ دیش میں سب چنگا سی! ۔ جیسا کہ میں نے کہاکہ مودی جی ایک جادوگر ہیں۔ انھیں ہر جگہ سے زمینی رپورٹس ملتی رہتی ہیں۔ ایسا سسٹم بنایا گیا ہے۔ دہلی فسادات کے دوران اور پھر تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا سعد کیس میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اچانک زمین پرنہیں اترگئے تھے۔ اس سے قبل کشمیر میں بھی وہ عام لوگوں کے ساتھ دِکھے تھے۔ بقرعید میں قربانی کے جانوروں کا مول بھاؤ بھی کیا تھا۔
اس لیے مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک نہیں ہے کہ ملک کے عوام اب بھی نریندر مودی کے ساتھ ہیں اور آیندہ بھی رہیں گے۔ میں نے خود عام اور خاص لوگوں سے جب بھی بات کی ، سب نے کہا کہ مودی جی اچھا کام کررہے ہیں اور ووٹ تو انہی کو دیں گے۔ یہ زمینی رپورٹ ہے۔ صحافی برادران چاہیں تو خود جاکر سروے کرلیں ۔ کئی جگہوں اور مختلف سطحوں پر ٹٹولنے کے بعد میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ایک دم مفلوک الحال غریب آدمی، جس کے گھر میں کھانے کو دو دانے نہ ہوں ، اس سے لے کر بڑے بڑے بڑے پیٹوں سیٹھ تک ؛سب مودی جی سے متاثر ہیں اور ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں۔ واٹس ایپ یونیورسٹی نے جس تیزی سے معاشرے اور سماج کا نظریہ بدلا ہے،اس پر ابھی کام ہی نہیں ہوا ہے ،کوئی ڈھنگ کی ریسرچ ہی نہیں ہوئی ہے۔
لہذا حکومت بھی مطمئن ہے۔ اسے معلوم ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں۔ تھوڑی بہت تکلیف اور اونچ نیچ تو چلتی رہتی ہے۔ یہ تو ہر گھر میں ہوتا ہے لیکن گھر کے سربراہ سے کوئی ناراضی نہیں ہوتی۔ ایک چیز اور ہے۔ آپ اپروچ کا فرق ملاحظہ کریں، راہل گاندھی اور کانگریس حزب اختلاف میں رہتے ہوئے بھی اگلا وزیر اعظم بننے بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس کے لیے کر کیارہے ہیں؟ راہل گاندھی ماہرِ معاشیات ابھیجیت بنرجی اور رگھورام راجن کا انگریزی میں انٹرویو لے رہے ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھ میں آیا؟ پھر وہی اٹلکچوئل کلاس ۔ مطلب یہ ہے کہ بات غریبوں کے سر کے اوپرسے گزر جائے اور کھاتا پیتا ،شکم سیر طبقہ اسے دیکھ کر کپل شرما شو کی طرف چل دے ۔ پھریہ کہ راہل گاندھی کی بات کس نے سنی ؟
دوسری طرف محترم نریندر مودی کا اپروچ دیکھیے۔ ٹی وی پر آکر براہِ راست مزدوروں اور غریبوں کو ہندی میں تسلی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی قربانی اور بلیدان ملک پر احسان ہے۔ انہی کے بل پر ملک کورونا کے خلاف جنگ جیتے گا۔ آپ یقین مانیے ، 14سو کیلو میٹرکا سفر پیدل طے کرنے والا مزدور جب ہانپتے ہوئے رات میں کسی ڈھابے پر اپنا موبائل چارج کرکے مودی جی کا یہ پیغام واٹس ایپ پر سنتا ہے نا تو اس کے مَن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ دیکھو! دیش کا پی ایم کم سے کم ہمیں یاد تو کررہا ہے،ہماری جدوجہد کو بلیدان تو کہہ رہا ہے۔ ایک ہمارا مالک تھا ،پیسہ بھی نہیں دیا اور بھگا بھی دیا۔ پھر وہ چین کی نیند سوتا ہے۔
دوسری مثال 13مئی کی ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن جب بیس لاک کروڑ کی ضرب تقسیم سمجھانے آئیں تو وہ انگریزی میں بول رہی تھیں؛کیوں کہ ان کی ہندی اتنی اچھی نہیں ہے۔ اس کے بعد وزیرمملکت برائے امور خزانہ اور‘‘گولی مارو سالوں کو’’ کے نایَک انوراگ ٹھاکر جی،نرملا جی کی باتوں کا ہندی میں ترجمہ کرکے دیش کو سنارہے تھے؛تاکہ بات دیش کے ایک ایک آدمی تک پہنچے۔
تو دیکھاآپ نے!یہ ہے اپروچ کا فرق۔ راہل گاندھی انگریزی داں بن کر ماہرینِ معاشیات سے بات کررہے ہیں اور ہمارے مودی جی خالص دیسی انداز میں دیش کی جنتا سے روبرو ہیں۔ اب سمجھیے کہ ووٹ جنتا دے گی یا ماہرینِ معاشیات ؟ایک اور بات،کانگریس میں پتا نہیں کون لوگ حکمتِ عملی بناتے ہیں کہ اوپری عہدوں پر ایسے لوگوں کو بٹھادیتے ہیں جن کا ہاتھ ہندی میں بہت ہی تنگ ہوتا ہے۔ سونیا گاندھی کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اٹلی سے آئی ہیں،پھر بھی انھوں نے ٹھیک ٹھاک ہندی بولنا سیکھ لی؛لیکن کھیل دیکھیے، منموہن سنگھ جی سے لے کر پچھلی بار والے ملکارجن کھڑگے اور اِس بار والے ادھیر رنجن چودھری سب کے سب ہندی کے انوکھے اسکالر ہیں۔اتنے کہ ہندی ٹھیک سے بول ہی نہیں پاتے۔راہل اور پرینکا ہندی اچھا بولتے ہیں ،مگر وہاں بھی دقت ہے۔ یہ کھیل طرزِ خطاب کا ہے۔ بہت باریک بات آپ کو بتارہا ہوں،بس یہی سوچتا ہوں کہ کانگریس میں کیسے پالیسی ساز ہیں،جنھوں نے آج تک ان چیزوں پر غور نہیں کیا۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں۔
مثال کے طورپر مودی جی جب عوام سے خطاب کرتے ہیں تو وہ اپنے مشہور انداز میں کہتے ہیں ‘‘بھائیواور بہنو!’’یا کبھی کہتے ہیں‘‘مِترو!’’۔ اب راہل گاندھی کا اندازِ خطاب دیکھیے،وہ جب بھی عوام کے درمیان خطاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں‘‘بھیا!’’۔
یعنی مودی جی عوام کو عزت دے کر محتاط اور خوش کن انداز میں ان سے جڑ رہے ہیں اور راہل جی کہہ رہے ہیں ‘‘بھیا’’۔ اگر آپ ممبئی چلے جائیں تو وہاں یہ لفظ گالی کے مترادف ہے۔ دہلی میں بھی کوئی عورت اگر آٹو والے یا ریہڑی پٹری والے سے بات کرے گی تو کہے گی ‘‘بھیا’’۔ مطلب اپنے سے نیچے کلاس کا آدمی،چھوٹا آدمی۔آپ بہار چلے جائیے،وہاں کسی کو رکشا لینا ہوگا تو وہ پکارے گا‘‘اے رکشا!’’۔ وہ کبھی رکشاوالے کو ‘‘بھیا’’کہہ کر نہیں بلائے گا۔
تو کچھ سمجھے آپ؟یہ جو خطابت کا آرٹ ہے نا،وہ بہت معنی رکھتا ہے اور مخاطب پر اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ جنتا کی نبض پکڑیے،اس سے جڑیے۔ موسمی مینڈک بن کر چناؤ کے میدان میں اتریں گے تو جنتا بھگا دے گی۔ واٹس ایپ کی فوج کے ذریعے روزانہ جنتا سے بات چیت کیجیے۔ ہوائی جہاز اڑاکر اور تھالی بجواکر عوام کو ملک کی تعمیر میں حصے دار بنائیے۔ جنتا کو بزی رکھیے۔
مجھے تو آج بھی یاد ہے جب راہل گاندھی نے اس دیش کے غریبوں کا مذاق اڑاکر بھرے جلسے میں اپنے ہی پی ایم منموہن سنگھ سے کہا تھا کہ:وزیراعظم صاحب!گیس سلنڈر کے دام گھٹا دیجیے،پھر ان کی سرکار نے دام گھٹا دیے تھے۔ کیا راہل گاندھی کی پی ایم منموہن سنگھ سے بات چیت نہیں ہوتی تھی؟کیا نجی گفتگو میں وہ پی ایم کو یہ مشورہ نہیں دے سکتے تھے؟عوامی مجمع میں یہ کہہ کر انھوں نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ غریب عوام کے بڑے خیر خواہ ہیں؟یقین مانیے،اس کا بہت منفی پیغام گیا تھا،اس وقت میں نے کچھ لوگوں سے بات کی تھی،وہ راہل گاندھی سے ناراض تھے کہ سب مل کر نوٹنکی کر رہے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ کانگریس میں چاپلوسوں کی جماعت اس قدر حاوی کیوں ہے کہ زمینی حقائق اوپر تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ مگر بی جے پی میں ایسا نہیں ہے۔ مودی جی زمین سے جڑے آدمی ہیں،سوزمین کی بات ان تک پہنچ جاتی ہے۔ان کے معتمد لوگ ان کے لیے یہ کام کرتے ہیں۔ یہ ان کا ذاتی نیٹ ورک ہے۔اس کے لیے وہ کسی پر منحصر نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے عوام میں ان کا جادو قائم ہے۔ دانش ور طبقہ اور‘‘خان مارکیٹ گینگ’’ ہی ان پر اعتراض کرتا رہے،چاہے یہ طبقہ سوشل میڈیا سے لے کر یوٹیوب تک ان کا پیچھا کرتا رہے،مگر عوام کی نبض مودی جی کے ہاتھ میں ہے۔ انھیں صرف عوام کی پروا ہے اورعوام تک اپنا پیغام کیسے پہنچانا ہے،اس آرٹ میں وہ ماہر ہیں۔
راہل گاندھی اور کانگریسیوں کو ان سے سیکھنا چاہیے۔اس دیش کی سیاست اور اسے برتنے کا فن 2014کے بعد سے بدل چکا ہے۔ وقت کی چاپ کو پہچانیےاور آپ فکر مت کرنا۔ پیدل گھر لوٹنے والے یہ سارے مزدور کل الیکشن کے دن مودی جی کوہی ووٹ دیں گے،سوفیصد،آپ کہیں تو شرط لگالوں۔ یہ ‘‘خان مارکیٹ گینگ’’مزدوروں کی فکر میں خواہ مخواہ گھلتا جارہا ہے۔ بے چارے،پہلے عوام سے مکالمے کا فن سیکھو بھائی،سیکھو!
(مضمون نگار آئی آئی ایم سی نئی دہلی سے جرنلزم اور ماس کمیونکیشن کا کورس کرنے کے بعد ملک کے ممتاز صحافتی اداروں نوبھارت ٹائمس،دینک جاگرن،دینک ہندوستان،زی نیوز،نیوز24اور آکاشوانی میں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے ایڈیٹر تک کے عہدے پر پہنچے،اس کے بعد خود کو درس و تدریس سے وابستہ کرلیا۔ آجکل دہلی کے ایک ادارے میں صحافت کے طلبہ کو پڑھارہے ہیں،ساتھ ہی بھارت میں فیک نیوز کے چلن اور ان کے اثرات پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں ۔ ان کا یہ مضمون ان کی پرسنل ویب سائٹ www.nadimkibaat.com پرہندی زبان میں شائع ہوا ہے۔)