Home ستاروں کےدرمیاں جدید تعلیم کے معمار : مولانا ابوالکلام آزاد-  ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

جدید تعلیم کے معمار : مولانا ابوالکلام آزاد-  ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 

by قندیل
 مولانا آزاد کے یوم ولادت کو یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ وہ ملک کے عظیم معماروں میں سے ایک ہیں ۔ صحافی، مجاہد آزادی، سیاست دان، مصلح قوم ہونے کے ساتھ وہ ماہر تعلیم تھے ۔ انہوں نے معاشرے کی اصلاح اور تہذیبی قدروں کو فروغ دینے میں نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ  آزاد ملک کو جدید تعلیم و تکنیک سے بھی متعارف کرایا ۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ ملک گھریلو صنعت کو فروغ دے کر مضبوط اور ترقی یافتہ بن سکتا ہے ۔ گاؤں کو خود کفیل بنانا اس کی بنیاد ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ گھر کے آس پاس ہی لوگوں کو کام مل جائے گا تو وہ بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی نہیں کریں گے ۔ اس سے ایک طرف معیشت بہتر ہوگی اور دوسری طرف شہر آبادی کے بوجھ تلے دبنے سے محفوظ رہیں گے ۔
دوسری طرف جواہر لعل نہرو اور ان کے رفقاء تھے جو بھارت کو جدید صنعت کاری اور اقتصادی سرگرمی کا مرکز بنانا چاہتے تھے، تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کھڑا ہو سکے ۔ اس کے لئے آزادی کے فوراً بعد 1948 میں صنعت کاری کی پالیسی نافذ کی گئی ۔ اس کے نتیجے میں بڑی فیکٹریوں اور کارخانوں کا ملک میں جال پھیل گیا ۔ خود حکومت نے کئی پی ایس یو بنائے ۔ مولانا آزاد نے ان دونوں نظریات کو ملایا اور ایسی تعلیمی پالیسی وضع کی، جس میں قدیم تعلیم و تہذیب شامل ہو ۔ گاؤں کی مٹی کی خوشبو، ثقافت اور تہذیب کا شاندار امتزاج ہو ۔ مولانا آزاد نے ملک میں جو تعلیمی نظام متعارف کرایا وہ بڑی صنعتوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ گھریلو صنعت یا خاندانی ہنر کو فروغ دینے والا تھا ۔ آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن، ریاستی تعلیمی بورڈ، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا قیام، تعلیمی اداروں کی درجہ بندی، اساتذہ کی تربیت، آئی ٹی آئی، ووکیشنل تعلیم کا تصور جس میں زرعت کی تعلیم بھی شامل ہے مولانا آزاد کا مرہونِ منت ہے ۔
 ابوالکلام آزاد کہتے ہیں "ہم اپنی مادی دولت اور سامان کو جغرافیائی حدود میں قید کر سکتے ہیں، لیکن علم اور ثقافت کی دولت پر پابندی نہیں لگا سکتے یہ انسان کی میراث ہے”۔ مولانا کے ذہن میں یہ بات واضح تھی کہ تعلیم صرف ایک کاروبار یا معاشی مسئلہ نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک تعلیم تربیت کا مقصد انسانی شخصیت میں نکھار پیدا کرنا ہے ۔ اس کے اندر سوجھ بوجھ پیدا کرنا ہے ۔ سائنٹفک سوچ اور کشادہ دلی کو فروغ دینا ہے تاکہ اشتراک باہم کے ذریعہ مثالی سماج کی تعمیر اور ملک کی ترقی میں سب شامل ہوں ۔ مولانا کی تعلیمی فکر میں نہرو اور گاندھی جی کے تصورات کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے ۔
 ملک کی آزاد کے بعد جب مولانا آزاد کو وزیر تعلیم بنایا گیا اس وقت مہاتما گاندھی حیات تھے اور جواہر لال نہرو وزیر اعظم ۔ مہاتما گاندھی کا اپنا تعلیمی نقطہ نظر تھا ۔ وہ ملک کو مشینوں کے حوالے کرنے پر راضی نہیں تھے اور نہ ہی اسے مشینوں کی حکمرانی کی طرف لے جانا چاہتے تھے ۔ وہ گاؤں کی ترقی اور بڑی صنعتوں کے مقابلے میں گھریلو صنعت کی حوصلہ افزائی کے حق میں تھے ۔ نہرو بڑی صنعتوں کے قیام کے حق میں تھے ۔ ایسے میں سوال یہ تھا کہ اہل وطن کو کس قسم کی تعلیم دی جائے؟ مولانا نے درمیانی راستہ نکالا انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہمارے طلباء کو ایسی تعلیم ملنی چاہئے کہ وہ بڑی صنعتیں چلا سکیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی ایجادات کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں ۔
اس منصوبے کو حقیقت بنانے کے لیے مولانا آزاد نے معروف سائنسدان شانتی سوروپ بھٹناگر کی قیادت میں سائنس کا ایک اعلیٰ تحقیقی ادارہ قائم کیا ۔ جوہری ترقی کا ایک الگ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا گیا ۔ اس کے علاوہ سائنس، زراعت، طب وغیرہ میں تحقیق و تحقیق کے اعلیٰ ادارے قائم ہوئے ۔ ان کا مقصد زراعت اور صنعت دونوں کی حوصلہ افزائی کرنا تھا ۔ انہوں نے آزاد ملک میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی اور توسیع پر بھی خصوصی توجہ دی ۔ انہوں نے 1948 میں یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن قائم کیا اور ڈاکٹر رادھا کرشنن کو اس کا چیئرمین بنایا ۔ سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن 1952 میں ثانوی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ۔
وہ جانتے تھے کہ جب تک سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر خصوصی توجہ نہیں دی جائے گی تب تک ملک نہ خود کفیل بن سکتا ہے اور نہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ اسی سوچ کے تحت بقول ابرار احمد 1951 میں کھڑگپور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں آیا ۔ مولانا آزاد نے 18 اگست 1951 کو اس کی بنیاد رکھتے ہوئے کہا تھا کہ میرا پہلا کام فنی تربیت پر توجہ دینا ہے تاکہ ہم اس سائنس ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہو سکیں ۔ ملک کے بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں، میں اس دن کا منتظر ہوں جب بیرون ملک سے طلبہ سائنس ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے بھارت آئیں۔‘‘ انھوں نے سماجی علوم اور فنون لطیفہ پر بھی خصوصی توجہ دی ۔ انہوں نے تاریخی تحقیق اور سوشل سائنس ریسرچ کونسلز قائم کیں ۔ ایک اہم ادارہ  انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز قائم کیا ۔ جس نے بعد میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے قیام کی راہ ہموار کی ۔ انہوں نے ملک کی زبانوں کے فروغ اور ترقی کے لئے بھی منصوبہ بند طریقہ سے کام کیا ۔ ہر بچہ کو ابتدائی تعلیم اس کی اپنی مادری زبان میں مل سکے اس کا انتظام کیا ۔ مولانا کے قائم کردہ خطوط کی بنیاد پر ہی بعد میں سہ لسانی فارمولا بنایا گیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ ابتدائی تعلیم سب کو لازمی طور پر ملے اور تعلیم تک رسائی کو آسان بنانے کی ذمہ داری حکومت کی ہو ۔ آر ٹی ای (رائٹ ٹو ایجوکیشن) ایکٹ اسی کی عملی شکل ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا آزاد کا نظریہ تعلیم آج بھی کتنا کارآمد ہے ۔

 

You may also like

Leave a Comment