ڈاکٹر وارث مظہری اس وقت بر صغیر کے ممتازاسلامی اسکالرز میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ متعدد یونیورسٹیوں میں اسلامیات کی تدریس کا فریضہ انجام دینے کے بعدوہ اب دہلی کی جامعہ ہمدرد کے شعبۂ اسلامیات سے منسلک ہیں ۔ وہ عرصۂ دراز سے دارالعلوم دیوبند کی تنظیم طلبۂ قدیم کے سہ ماہی مجلہ ”ترجمان دارالعلوم“ کے ایڈیٹر ہیں اور ایک روایت پرست گروہ سے وابستہ ہونے کے باوجود روشن خیالی اور وسعت ظرفی کے قائل ہیں علم کلام کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب بدلتے ہوئے حالات میں نئی نسلوں کو کسی عقیدے پر ایمان لانے کے لیے سمعا و طاعة کافی نہیں ہوتا ، بلکہ وہ عقلی طور پر اپنے عقائد پر مطمئن بھی ہونا چاہتی ہیں ۔ مسلمانوں میں یہ ضرورت عباسی دور سے شروع ہوئی جب یونانی فلسفے کا عربی میں ترجمہ ہوا اور نئے سوالات کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ اس وقت ہونے والے افراط و تفریط سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا اور بالآخر معتزلی فکر کے سامنے روایت پسند فکر کو غلبہ حاصل ہوا ۔ یورپ کی نشات ثانیہ اورمسلم علاقوں پر سامراجی قبضے سے نئے مسائل پیدا ہوئے اور مغربی افکار وجدید تعلیم سے نئی نسلوں میں پھر سوالات اٹھنے لگے۔ اس کا جواب عالم اسلام میں الگ الگ طریقے سے دیا گیا ۔ یہ کتاب برصغیر میں دیے گئے جواب اور نئے علم کلام کی تشکیل کے بارے میں ہے ۔
مصنف کی تحقیق کے مطابق”جدید علم کلام “ کی اصطلاح سب سے پہلے سرسید احمد خاں (م : ۱۸۹۸ء) نے استعمال کی ، البتہ علامہ شبلی نعمانی (م: ۱۹۱۴ء) کو بظاہر یہ اولیت حاصل ہے کہ انہوں نے اس جدید موضوع پر پہلی کتاب (الکلام) تصنیف کی جس کو برّصغیر کے علاوہ عالم اسلام میں مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے ترجمے فارسی اور عربی میں ہوئے ۔ لیکن مصنف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بر صغیر میں جدید علم کلام کی ابتداء شاہ ولی اللہ دہلوی (م:۱۷۶۲ء) نے کی ہے ۔ انہوں نے اپنی مختلف کتابوں میں احکام شریعت کوبرہان کے پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی اور ان کےابناء و احفاد (شاہ عبدالرحیم ، شاہ رفیع الدین) نیز شاہ اسماعیل شہید (م: ۱۸۳۱ء) جیسےعلماء نے اپنی تصنیفات میں عقلی طور پر اسلامی عقائد کوثابت کرنے کی کوشش کی ، اگر چہ انہو ں نے کوئی مستقل کتاب اس ضمن میں تصنیف نہیں کی ۔ شا ہ ولی اللہ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کو اس طرح کی ایک اہم کوشش سمجھا جاسکتا ہے ۔ مصنف کے خیال میں سر سید کی فکر کوولی اللہی کڑی کا حصہ سمجھنا چاہیے ۔
مصنف نے اشارہ کیا ہے کہ روایتی اور مدارس سے جڑے ہوئے علماء نے روایتی فکر کے اندر رہ کر کچھ کوشش کی ہے لیکن وہ بہت مفید نہیں ہے اور روایتی دائرے سے باہر نہیں نکل سکی ہے، بلکہ بعض روایتی علماء،مثلاً مولانا احسن گیلانی، سر ے سے اس قسم کی کوشش کے فائدے کے منکر ہیں جبکہ مولانا سعید احمد اکبرآبادی کہتے ہیں ان مدارس میں علم کلام کے تحت جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان کو سرے سے خارج کردینا چاہیے ۔
بہر حال جدید علم کلام کی تشکیل کے لیے جوکوششیں ہوئی ہیں،وہ اقبال کے اس خیال کے تحت ہوئی ہیں کہ اگر اسلامی فکر کو عقلی اسلوب میں پیش نہیں کیا گیا تو نئی نسل کا اعتقاد اسلام پر متزلزل ہو جائے گا ۔
مصنف کے خیال میں جدید علم کلام کی تشکیل میں جو کوششیں مسلمانوں نے کی ہیں ان میں جدید مغربی سائنسی فکر سے اکثر سطحوں پر ”بلا شرط“ سمجھوتہ پایا جاتا ہے ۔ اسلامی فکر کی تقییم کے لیے یہ لوگ مغرب کے وہی عقلی سانچے اور سائنسی پیمانے استعمال کرتے ہیں جس کوعیسائیت کی قلب ماہیت میں پہلے استعمال کیا جاچکا ہے ۔ مصنف نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسلامی فکر کے ابتدائی تشکیلی مرحلے میں بھی کم و بیش یہی صورت حال پیش آئی تھی ۔
مدارس سے اٹھنے والی نئی نسل کلامی سوالات اور چیلنجوں سے واقف نہیں ہے ۔ اس مسئلے کے حل کے لیے مصنف نے تجویز پیش کی ہے کہ جدید علم کلام کے اہم سوالات اور مباحث وموضوعات کے پر مشتمل ایک تفصیلی کتاب تحریر کی جائے ۔
علامہ شبلی جدید کلامی لٹریچر کے بانی ہیں لیکن ایک طرف تو شیخ محمد اکرام ان کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ شبلی دور جدید میں اعتزالی فکر کے حامی و نقیب تھے، تودوسری طرف علامہ سید سلیمان ندوی کی کاوش ان کو اشعری و ماتریدی فکر کا پابند قرار دینے کی ہے۔ اسی طرح اقبال کے ”خطبات اقبال“ کے بارے میں دونوں طرح کی آراء ہیں کہ وہ عقلیت پسندی کے حریف ہیں یا وہ مغربی عقل پسندی کے مجرم ہیں ۔
بالعموم اس کتاب میں شاہ ولی اللہ کے کلامی نظریات، سر سید و شبلی کا کلامی فکر، اقبال اور جدید علم کلام اور مابعد اقبال کا کلامی منظرنامہ کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین اورمولانا وحیدالدین خاں کی کوششیں شامل ہیں اور آخر میں موضوع سے متعلق دیگر اہم مساعی پر نظر ڈالی گئی ہے جن میں مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا احمد رضا خاں، شیخ انوار احمد فاروقی ، مولانا حمید الدین فراہی ، مولانا ابوالاعلی مودودی ، مولانا عبدالباری ندوی اور مولانا شہاب الدین ندوی کی کاوشیں شامل ہیں۔
بحیثیت مجموعی اردو میں آج کل شائع ہونے والی کتابوں کے انبار میں خال خال ہی کوئی عمدہ اور تحقیقی کتاب نظر آتی ہے ۔ اس استثناء میں یہ کتاب بھی شامل ہے-
( ناشر:البلاغ پبلی کیشنز، نئی دہلی ، ۲۰۲۴ء صفحات ۲۵۶ ، قیمت ۳۸۰ روپے ۔ ای میل : [email protected]۔ موبائل: 9971477664- یہ کتاب ناشر سے رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔)